’’حوالدار کہاں گیا مینڈھا۔۔ تم سب کیا سور ہے تھے۔ ۔ یاد رکھو، اگر مینڈھے کا پتہ نہ چلا تو تم سب کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا ہو گا‘‘۔
داؤد خاں کی گرج دار آواز پورے ہال میں تاج کے گنبد میں گونجنے والی صدا کی طرح گونج گئی۔ آس پاس کھڑے کانسٹبل اور چپراسی سرحد کے محافظ کی طرح ساودھان کی حالت میں آ گئے۔ داؤد خاں کی عزّت کا معاملہ تھا۔ معلوم ہو رہا تھا کہ برسوں کا سویا ہوا ’’داؤد خاں آف سام نگر‘‘ ایک بار پھر اپنی ڈیوڑھی پر پہنچ گیا ہے۔ جس کی آواز سے درختوں پر سوئے ہوئے پرندے اس طرح پھڑ پھڑا کر پرواز کر جاتے تھے جیسے کسی شکاری نے فائر کر دیا ہو۔ خدمت گاروں کی رگوں میں دوڑتا ہوا لہو حرکت کرنا بند کر دیتا تھا۔ اتنا کہہ کر داؤد خاں پیر پٹختے ہوئے ہال سے باہر نکل گئے۔
زمینداری کے خاتمہ پر داؤد خاں کی عمر صرف پچیس سال ہی تھی۔ اس وقت انھوں نے اگر کوئی عقلمندی کا کام کیا تو وہ یہی تھا کہ سرکاری ملازمت اختیار کر کے اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ زمینداری ختم ہوتے وقت داؤد خاں کو ایسا لگا تھا جیسے ان کی کڑک دار آواز میں کچھ فرق آ گیا ہو، اس وقت ان کی تعلیم نے ان کا ساتھ دیا۔ اسی کے سہارے وہ پولیس کے محکمے میں پہنچ گئے۔ ترقی کی اتنی منزلیں طے کیں کہ تھانے دار کے عہدے کے لیے ان کو منتخب کر لیا گیا۔ تھانے دار ہو کر وہ ایک قصبہ شاہ گنج میں پہنچے، جہاں ان کی جھکتی ہوئی مونچھیں پھر اٹھنا شروع ہو گئی تھیں۔ تھانے دار داؤد خاں کی گرجدار آواز پورے علاقے میں گونجنے لگی۔ اونچا قد، چوڑا سینہ، سرخ پٹھانی چہرے پر راجپوتی کالی مونچھیں دیکھ کر بنئے بھی سودا غلط تول جاتے تھے۔ جس وقت داؤد خاں تھانے سے باہر نکلتے تو ذرا سی دیر میں پورے بازار میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل جاتی کہ داؤد خاں تھانے سے چل پڑے ہیں۔ راستہ صاف ہو جاتا، تمام بدمعاش اِدھر اُدھر منتشر ہو جاتے۔ اس کے باوجود نہ جانے کس میں اتنی ہمت پیدا ہو گئی کہ ان کے لاڈلے مینڈھے کو غائب کر دیا۔ شکاری کتّے کی طرح مینڈھا ان کے ساتھ تھانے جاتا اور ساتھ ہی واپس آتا۔ مینڈھا غائب ہونے کا تو انہیں اتنا غم نہیں ہوا لیکن یہ سوچ کر ان کا خون کھول گیا کہ کوئی ایسا شخص بھی موجود ہے جو داؤد خاں کو چیلنج کرے۔ پورے علاقے میں مینڈھے کی تلاش کے لیے کانسٹبل دوڑا دیئے گئے۔ ذراسا بھی کسی پر شبہہ ہوتا وہی تھانے میں دکھائی دیتا۔ بازار میں کسی نے کہہ دیا کہ آج صبح خاں صاحب کے پیچھے مینڈھا نہیں تھا بلکہ ایک جھلی والا ان کے پیچھے اُس کی گھنٹی بجاتا جا رہا تھا۔ پھر کیا تھا، شاہ گنج کے تمام جھلّی والوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح اکٹھّا کر لیا گیا۔ داؤد خاں کے سامنے بڑے بڑے مجرم اپنا جرم تسلیم کر لیتے تھے۔ داؤد خاں کی آنکھوں میں غصہ کی چنگاریاں دیکھ کر غریب جھلّی والے شاخ پر لگے ہوئے سوکھے پتّے کی طرح لرز گئے۔ کافی دیر کے بعد ایک بوڑھا ہاتھ جوڑتا ہوا آگے بڑھا:
’’حجور! (حضور) میں تھا لیکن کسم کھات ہوں میرا تنک سا بھی کسور (قصور) ناہیں۔ ایک آدمی نے ایک روپیہ دے کے کئی (کہا) تھی کہ میں تھانے تک گھنٹی بجاتا چلا جاؤں۔ حجور میں بے کسور ہوں۔‘‘
آن کی آن میں گھنٹی منگائی گئی۔ گھنٹی داؤد خاں کے مینڈھے کی ہی تھی۔ داؤد خاں چیخ پڑے۔
’’کون تھا وہ بدمعاش؟ جس نے ہمارے ساتھ یہ حرکت کی۔ پکڑ لاؤ تمام بدمعاشوں کو۔‘‘
علاقے کے تمام بدمعاش اکٹھّے کر لیے گئے لیکن کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ داؤد خاں نے جھنجھلا کر سب کو چھوڑنے کا حکم دے دیا اور مایوس تھکے ہوئے شکاری کی طرح کرسی میں دھنس گئے۔ اُن کی زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھا۔ شکست کا منہ دیکھنا ان کی عادت نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ انتقام لینے کے لیے بے چین تھے۔
’’حضور ایک چھوٹی سی عرضی ہے۔‘‘
داؤد خاں نے چہرا اٹھا کر دیکھا۔ شیرا پہلوان ان کے سامنے کھڑا تھا۔ بڑی دھیمی آواز میں کہا۔
’’کہو؟‘‘
’’حضور آج دوپہر کو آپ کھانا ہم غریبوں کے ساتھ کھالیں۔‘‘ لمبے چوڑے بدن کے شیرا پہلوان نے اپنی درخواست پیش کی۔
’’کیوں؟ کوئی خاص تقریب ہے؟‘‘
’’بس یوں ہی حضور کچھ خاص لوگوں کو دعوت پر بلایا ہے۔ وعدہ کر لیجئے حضور، محمد شاہ پہلوان کے اکھاڑے میں انتظام کیا گیا ہے۔‘‘
’’کوشش کریں گے ……‘‘
’’کوشش نہیں حضور آنا ہو گا۔‘‘
’’اچھا آئیں گے۔‘‘
’’شکریہ حضور‘‘ آداب کر کے شیرا پہلوان لبوں پر تبسّم بکھیرتا ہوا واپس چلا گیا۔ داؤد خاں نے ایک نظر جاتے ہوئے شیرا پہلوان کو دیکھا اور پھر اسی عالم خیال میں پہنچ گئے جہاں سے آ کر شیرا کی دعوت منظور کی تھی۔
دوپہر کو محمد شاہ کے اکھاڑے میں خاصے لوگ اکٹھّے تھے۔ تھانیدار داؤد خاں کا انتظار تھا۔ داؤد خاں کے آتے ہی دسترخوان لگا دیا گیا۔ بریانی اُتاری گئی۔ داؤد خاں کے ساتھ بہت سے لمبی مونچھوں والے پہلوان بھی ہاتھ دھو کر بیٹھ گئے۔ شیرا پہلوان نے اعلان کیا۔ ’’بسم اللہ کیجئے خاں صاحب‘‘ جیسے لوگ اسی کے منتظر تھے۔ اجازت ملتے ہی بریانی کی پلیٹیں اس طرح صاف کر دی گئیں جیسے طاقتور فوج حکم ملتے ہی دشمن کی فوج کا صفایا کر دیتی ہے۔
’’پہلوان بریانی پکانے والے کا جواب نہیں، ذرا پُٹھ کی بوٹی تو منگواؤ‘‘ داؤد خاں نے گلاس میں پانی لیتے ہوئے کہا۔
’’حضور آپ ہی کا ہے سب کچھ۔ ارے فجو پٹھ کی بوٹی لا خاں صاحب کے لیے۔‘‘
پشت پر کھڑے ہوئے شیرا پہلوان نے اپنی مونچھوں کو بل دیتے ہوئے فجو کو اشارہ کیا۔ فجو نے بوٹیوں کی ایک بھری ہوئی پلیٹ داؤد خاں کے سامنے رکھ دی۔
’’واہ، سبحان اللہ! کیا لذیذ گوشت ہے۔‘‘ داؤد خاں نے پلیٹ میں رکھی ہوئی بوٹیاں اٹھائیں۔
’’مہربانی ہے حضور آپ کی۔ شیرا پہلوان نے ایک بار پھر مونچھوں پر ہاتھ پھیرا۔ دعوت ختم ہوئی تو جاتے وقت داؤد خاں نے شیرا پہلوان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا!
’’بھئی پہلوان ہمارے مینڈھے کا ابھی تک پتہ نہیں چلا۔‘‘
’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا صاحب، آپ کو کسی پر شک ہے جو یہ حرکت کر سکتا ہے؟‘‘
’’کچھ کہہ نہیں سکتا، کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔‘‘
’’کوشش کریں گے حضور شام کو آپ اسی جگہ تشریف لے آئیں، ہو سکتا ہے پتہ چل جائے۔ سب یار لوگ اکٹھّا ہوتے ہیں۔‘‘ شیرا پہلوان نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا۔ داؤد خاں کے چہرے پر حیرت کے تاثرات نمایاں ہوئے اور پھر وہ خیالات کی وادی میں ہچکولے کھاتے ہوئے گھر تک پہنچے۔
شام کو ٹھیک ساڑھے پانچ بجے داؤد خاں اپنی راجپوتی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے زمیندارانہ تمکنت کے ساتھ محمد شاہ کے اکھاڑے میں جا پہنچے۔ محمد شاہ کا اکھاڑا علاقے کے تمام پہلوانوں اور نامی بدمعاشوں کا اڈہ سا بن گیا تھا۔ شاہ گنج یا کہیں آس پاس کوئی ایسی ویسی بات ہو جاتی تو فیصلہ اسی اکھاڑے میں ہوتا۔ اس اکھاڑے کے پہلوانوں کو شکست دینا بہت مشکل کام تھا۔ جس وقت داؤد خاں اکھاڑے میں آئے تو وہاں اچھی خاصی رونق تھی۔ ایک طرف کچھ نوجوان کشتیاں لڑ رہے تھے۔ چبوترے پر پڑے ہوئے مونڈھوں اور چار پائیوں پر کسرتی بدن کے پہلوان بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ داؤد خاں کو دیکھ کر سب مؤدبانہ انداز میں کھڑے ہو گئے۔ داؤد خاں کی نگاہوں نے ایک لمحہ میں تمام لوگوں کا جائزہ لے کر شیرا پہلوان کو تلاش کیا، فجو بھانپ گیا۔
’’تشریف رکھیے، حضور، استاد ابھی آتے ہی ہوں گے۔‘‘
داؤد خاں بیٹھے ہی تھے کہ ہاتھی کی سی جسامت والا شیرا پہلوان تہمد اور کرتا پہنے وارد ہوا۔ ایک بار پھر کچھ بزرگوں کو چھوڑ کر سب جوان پٹھّے کھڑے ہو گئے، جیسے شیرا علاقہ کا دوسرا تھانیدار ہو۔ تھوڑی بہت رسمی گفتگو کے بعد داؤد خاں بہت جلد اصل مقصد کی طرف آ گئے۔ شیرا بھی غالباً اسی کے لیے تیار ہو کر آیا تھا۔ اس نے کہنا شروع کیا۔
’’حضور بات یہ ہے کہ آپ کا مینڈھا تھا بھرے بدن کا خوبصورت۔ معلوم ہوتا تھا کسی جی دار آدمی کا ہے، اور تھا بھی۔ ۔ اچھّے بھلے آدمی کی اُسے دیکھ کر نیت بگڑ جاتی تھی۔ ایک دن کچھ یار لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے۔ یار خاں صاحب کے مینڈھے کی بریانی پکے تو کیسی رہے گی…… مزہ آ جائے گا۔ باقی لوگوں نے ہاں میں ہاں ملائی۔ اب حضور ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ بلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ سب پٹھے جی دار تھے۔ ایک بولا۔ میں دھنّو لالا کی دکان سے ایک کٹّا چاولوں کا لاؤں گا۔ دوسرے نے کہا۔ اصلی گھی کا ٹن میرے ذمہ رہا۔ پکانے والوں کی کمی نہ تھی۔ ایک کے حصّے میں یہ کام رہا کہ مینڈھا لے کر آئے۔ یہی کام سب سے مشکل تھا کیونکہ شیر کے منہ سے شکار چھیننا تھا۔‘‘
سب کچھ داؤد خاں خاموشی سے سنتے رہے۔ جیسے عدالت میں بیٹھا ہوا جج کٹہرے میں کھڑے مجرم کی روداد سن رہا ہو۔ بیان جاری تھا۔
’’تو حضور مینڈھا لانے والے آدمی نے یہ کیا کہ بھُنے ہوئے چنے لے کر اس وقت سڑک پر کھڑا ہو گیا جب آپ وہاں سے گزرتے ہیں۔ حضور آپ وہاں سے گزرے۔ مینڈھا پیچھے پیچھے تھا، اس آدمی نے بھُنے ہوئے چنے مینڈھے کی طرف بڑھائے۔ مینڈھا خوشبو سونگھتے ہی اس کے پیچھے ہولیا۔ اُس آدمی نے ایک کام یہ کیا کہ ایک جھلّی والے کو ایک روپیہ اور مینڈھے کی گھنٹی اتار کر دی اور کہا کہ اسے تھانے تک آپ کے پیچھے پیچھے بجاتا ہوا چلا جائے۔ جھلّی والا آپ کے پیچھے پیچھے چلا گیا۔ ادھر وہ آدمی مینڈھے کو اپنے ساتھ لے گیا۔
’’کون تھا وہ آدمی۔؟‘‘ خاموش بیٹھے ہوئے داؤد خاں نے دونوں ہاتھوں کو مونڈھے کے ہتھوں پر مارا۔
’’حضور آپ کے سامنے حاضر ہے۔‘‘ شیرا نے سر کو ذرا سا خم دیتے ہوئے بڑی عاجزی سے کہا۔
’’شیرا۔!۔!!۔!!‘‘ داؤد خاں دہاڑتے ہوئے ایک دم کھڑے ہو گئے۔ آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے بعض ان کی آواز سن کر سہم گئے۔
’’فجو! پُٹھ کی بوٹی لا خاں صاحب کے لیے۔‘‘ شیرا پہلوان بھول گیا تھا کہ وہ داؤد خاں آف سام نگر کے سامنے کھڑا ہے۔ جنھوں نے زمینداری کے زمانے میں شیرا جیسے کتنے ہی بدمعاشوں کو ٹھکانے لگوا دیا تھا۔ شیرا کا یہ جملہ سنتے ہی داؤد خاں آگ پر رکھے موم کی طرح پگھل گئے۔ انہیں اپنا وجود زمین میں دھنستا ہوا محسوس ہوا۔ ان کے کانوں میں اس ڈگی پیٹنے والے کی آواز گونجنے لگی جو اعلان کر رہا تھا کہ زمینداری ختم ہو گئی۔ شیرا پہلوان نے داؤد خاں کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات دیکھ کر کہا۔
’’حضور مینڈھے پر اسی وقت ہاتھ ڈالا گیا جب آپ نے دعوت منظور کر لی۔‘‘
’’شیرا تم نے اچھّا نہیں کیا۔‘‘ داؤد خاں نے شیرا پہلوان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور خاموشی سے نظریں جھکائے ہوئے باہر چلے گئے۔ پہلی بار لوگوں نے داؤد خاں کی مونچھوں کا تاؤ اترتا ہوا محسوس کیا۔ دوسرے دن ہر طرف یہ خبر پھیل گئی کہ داؤد خاں استعفیٰ دے کر کہیں چلے گئے ہیں۔
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...