بابا جانی کے کہنے پر بھائ نے انٹرنیٹ کی ساری setting کمپیوٹر میں کر کے مریم کے حوالے کر دی
“مریم دیکھو اس میں تمھیں سب کچھ مل جائے گا۔ میک اپ کرنا پسند ہے تو میک اپ کرنے کے نت نئے طریقے ،
کھانے کی ترکیبیں اور ھاں شاعری بھی
بس ایک بات یاد رکھنا، کہ تم فیسبک نامی سائٹ پر نھیں جاؤ گی
کم از کم اس وقت تک جب تک میں اجازت نہ دے دوں”
بھائ نے اختتامی الفاظ کہے اور چلا گیا
مریم نے اول تو یہی ارادہ کیا کہ جن کاموں کی اجازت اسے نہیں دی گئ وہ نہیں کرے گی
مگر شائید شیطان کے بھکاوے میں آجانا ہی اس نے اپنے لئے چُنا تھا۔۔۔۔کچھ دن ادھر اُدھر مٹر گشتی کے بعد سوچا کیوں نہ ادھر بھی جایا جئے، جاھاں کا رُخ بھی اسے کرنے سے منع کیا گیا تھا۔۔
گھر والوں سے چھُپ کر facebook پر اکاؤنٹ بنا لیا تھا ۔
بابا اور بھائ کے آفس جانے کے بعد تھوڑی دیر استعمال کر لیا کرتی تھی
***** “””””””” ******* “””””””” ***
“مریم ذرا یہاں تو آؤ ، انٹرنیٹ کیا مل گیا لوگوں نے تو حال احوال پوچھنا ہی چھوڑ دیا”
مریم کو امی جان نے اپنے پاس بلایا اور ساتھ ہ شکوہ بھی کیا
امی یوں لگتا ہے جیسے گھڑی کے کانٹوں نے Race میں حِصہ لے رکھا ہو، جب سے انٹرنیٹ ملا ہے تب سے یہ کانٹے بس دوڑے ہی جا رہے ہیں
مریم نے سارا ملبہ گھڑی کے کانٹوں پر ڈالنا چاھا
“نہیں بیٹا سارا الزام گھڑی کے سُویئوں پر مت ڈالو ، کیا بھول گئ ہو ہماری نصیحتیں ؟
الزام لگانے والے پر خود الزام لگتے دیر نہیں لگتی
کسی ایک چیز کے سبب زندگی میں آنے والی دوسری چیزوں کو نظر انداز کرنے سے نقصان کے علاوہ جھولی میں کچھ نہیں آتا”
امی نے مریم کی بے وجہ کی مصروفیئت کو دیکھتے ہوئے اسے نصیحت کی
اوہو امی آپ ہر بات کو اتنا اہم سمجھنے لگتی ہیں جیسے قیامت آنے میں اسی ایک بات کا ھاتھ ہو ۔
ذرا تھم جایئں ، میں وقت کو بھی تھمنے کا کہتی یوں”
مریم کے لہجے میں ھمیشہ جھلکنے والی معصومیت آج غائب تھی ، بات مکمل کر کے وہ واپس کمرے میں چلی گئ
امی نے محسوس کر لیا تھا جو انہیں اب تک محسوس کر لینا چاہیے تھا۔۔۔پر وہم سمجھ کر اس بےجین احساس کو فلحال بھُلا دینا ہی بھتر جانا
***** “””””””” ****** “””””” *****
دن یونہی گزرتے گئے
مریم کا چھُپ چھُپ کر فیسبک استعمال کرنا ایک مھینے تک تو کسی کی نظر میں نہیں آیا
اگلے ہفتے مریم کی دسویں جماعت کا کارنامہ ہاتھ میں آنے والا تھا۔۔۔اور جو پریشانی ہر بار اسے رزلٹ کو لے کر ہوتی تھی اس بار بھی تھی
نمازوں کی پابند وہ شروع سے تھی ، فکر میں اب تھجد اور کبھی چاشت کی نمازیں بھی پڑھتی
“اللہ جی نتیجہ وہی رکھنا جسکی سب کو مجھ سے امید ہو”
اللہ اللہ کر کے نتیجے کی ٹوکری سر پر اٹھانے کا وقت بھی آ ہی گیا
مریم ابھی تک سوئ نہی؟ سو جاؤ تاکہ صبح سوجی ہوئ آنکھوں کی بجائے تازہ آنکھوں کے ساتھ رزلٹ دیکھ سکو
امی نے رات کے اس پہر مریم کو جاگتے دیکھا تو اسکی پریشانی دور کرنا چاہی
“امی ابھی دعا مانگ لینے دیں ، کچھ ضروری فرمایشیں ہیں جو مانگ لینا ضروری ہیں”
مریم نے پریشانی کم اور حیرانی چہرے پہ زیادہ رکھ کر جواب دیا۔۔۔
آج کی کامیابی میں صرف result نہیں کچھ اور بھی شامل تھا۔۔۔ جو اسکی آنکھوں میں صاف ظاہر تھا
“اللہ کرے تمھاری ضروری فرمایشوں میں تمھاری بہتری کے سوا کچھ نہ ہو”
امی نے سنجیدگی سے اسکے ارادوں کو خدا کے حوالے کیا اور اسکو دعاوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا
***** “”””””” ******* “””””” *******
اگلی صبح وہ ٹی وی کے آگے منتظر نظروں سے بیٹھی تھی
کہ کب اعلان ہو نتیجہ شائع کر دیا گیا ہے اور وہ بھاگ کے کمپیوٹر کے آگے بیٹھے اپنا result چیک کرے
آخر دوپہر ایک بجے کے قریب اعلان ہوا
“میٹرک کے امتحانات کے نتائج شائع کر دئے گئے ہیں
طلبہ و طالبات مندرجہ ذیل ویب سایٹس سے اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کا جائزہ لے سکتے ہیں”
***** “””””” ****** “”””””””” ******
کمپیوٹر کھولا تو اتفاق یوں ہوا ، ایک رات قبل جو دعاؤں کے جال میں پھنسی مریم نے فیسبک استعمال کی تھی وہ بند کرنا بھول گئ ، سکرین واضح ہوئ تو صاف شفاف سی facebook اپنی رونقوں سے خوب جھلک رہی تھی
ہڑ بڑا کر مریم نے اسے بند تو کر دیا مگر امی سمجھ چکی تھیں ریل کے پٹڑی سے اترنے میں زیادہ وقت نھیں درکار ہے۔۔۔
خیر خبرنامہ میں بتای ہوئ سائٹ پر اپنے نتیجے کی ٹوکری ڈھونڈی تو چیخ کر اپنی کرسی سے اٹھی
“کیا ہوا مریم ؟ مجھے ھولا رہی ہو تم، کیا آیا ہے رزلٹ؟
“امی میرا تو نام ہی نہیں ہی یہاں کہیں”
“ایسا ممکن نہیں ہے بیٹا ، تھوڑا اطمینان سے دیکھو”
مریم نم آنکھوں اور کانپتی انگلیوں کے ساتھ دوبارہ اپنا نام ڈھونڈنے لگی
امی میں دیکھ تو رہی ہوں لیکن یہاں کہیں نظر نہیں آرہا
“مریم ایسے کیسے؟”
“امی۔۔۔۔مل گیا ”
“میں پھر سے پہلے نمبر پر آئ ہوں”
مریم کی خوشی تھی کہ سمبھالے نہیں سنبھلتی تھی، پورے گھر میں خود بھی گھُومے جا رہی تھی اور ساتھ میں امی کو بھی گھُمائے جا رہی تھی
****”* “”””””””” ******* “”””””” ****
اب صرف رات کا انتظار تھا
کب بابا جانی اور بھائ گھر آیئں اور کب اسے اپنی کامیابی پر انعام ملے
****** “”””””””” ******** “”””” ***
چھت پر جانے والی سیڑھیاں گھر کی بالکنی سے شروع ہوتی تھیں ۔ مریم کی پسندیدہ جگہ تھی ، وہ اکثر وہاں بیٹھا کرتی تھی
آج اپنی ڈائری اور پین لے کر وہاں بیٹھی تھی
وہ ڈائری جس میں اپنی لکھی شاعری محفوظ کرتی تھی اور اپنی خاص دعاوں کو رقم کرتی تھی
“اے میرے پیارے اللہ جی! بہت پیار کرتے ہیں نا اپ مجھ سے، تبھی تو میری کوئ دعا رد نہیں کرتے
اوہو اللہ جی میں اپنی خوشی میں اپکو یہ تو بتانا ہی بھُول گئ کہ آج میں آپسے کیا مانگنے آئ ہوں ”
“آپ تو انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں نا ؟ تو پھر جان لیں میرے دل کی خواہش اور مجھے وہ عطا کر دیں”
اسنے اللہ سے کیا مانگا تھا یا وہ کیا مانگنے جا رہی تھی کاش اسے وقت رہتے پتا چل جاتا
“مریم کیا لکھ رہی ہو آج اس میں ؟”
امی نے اسے لکھتے دیکھا تو آکر پوچھنے لگیں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...