معروف دانشور ، نقاد، محقق، افسانہ نگار ، ادیب ۔ آغا گل (کوئٹہ)
نہایت ہی ممنون ہوںکہ آپ کی جانب سے گراں قدر تحفہ حرف حرف کہانی موصول ہوا۔ آپ کی محبت ہے کہ ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔
آپ کے افسانوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے زندگی کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے۔ اس کا تیور اور بدلتے ہوئے رنگ و آہنگ اور مختلف سماجی طبقات کا برتائو، کردار اور زندگی کو آگے کیلئے چلنے کا عزم ان افسانوں میں کردار بولتے ہیں۔ اور خوب بولتے ہیں مچھلیاں بھی بولتی ہیں۔ کردار مکالموں کے ذریعہ اپنا تعارف کراتے ہیں۔ افسانہ نگار کو زحمت نہیں دیتے کہ وہ افسانے میں مداخلت کرے۔ مستی، جیب کترا علی محمد، اور بول میری مچھلی میں قدیم داستانوں کی طرح مچھلی گفتگو کرتی پائی ہے۔ بہشتی دروازے کا فضل خان جو من کے آئینہ کو صاف کر کے جیتے جی بہشت پالیتا ہے۔ دل کے آئینہ کو صاف رکھنے کی تلقین صوفیاء کے ہاں شاعری میں بھی ہے۔ مگر افسانوی انداز میں اظہار ایک الگ سی بہار دکھاتا ہے۔ التجا کا تعلق داستان ہے جو بہت مقبول رہی ۔
امین جالندھری نے ذہانت پر مبنی فیصلے بھی سنائے ، جن میں حکمت و دانش ہے۔ جیسے جنگلوں میں رہنے والے بزدل نہیںہوتے۔ (بوڑھے آدمی کا نوحہ)، روپ بہروب میں یہ پھر فیصلہ کن جملہ کہہ گزرے۔”جبار خان ہمارا عہد شیخی خوری کا عہد ہے ،جس میں انا پرستی نمایاں ہے”۔ امین جالندھری پر داستانوں کے گہرے اثرات ہیں، جو ان کے کرداروں میں بطور علامت نمودار ہوتے ہیں، بولتے ہیں، اسٹیج ڈرامہ کی طرح اپنا حق ادا کرتے ہیں۔ جیسے کہ افسانہ”گھوڑا” کچھUnicornنسل کا۔ یہ ایک علامتی افسانہ ہے جو سرکاری اعمال کے بخیئے ادھیڑ دیتا ہے۔
افسانے بیانیہ میں تاثراتی، محلاتوں اور داستانی کردار ہیں اگر دیکھا جائے تو اسکوپ صدیوں پہ پھیلا ہوا ہے۔ مسائل کی نشاندہی بھی کی گئی ہے مگر Satireکی بجائے اکثر مزاح نمایاں ہے ۔ مجموعی طور پر 27افسانے ہیں مگر ہر افسانہ اپنے موضوع کے لحاظ سے ایک الگ وحدت اور تاثر کا حامل ہے۔
پبلشر نے مکالمے اوپر نیچے لکھنے کی بجائے سبھی ایک ہی سطر پہ لکھنے کا چلن ڈالا۔ جس سے عبارت کا حسن مجروح ہوتا ہے اور تاثر نہیں بنتا۔ کتاب کے اگلے ایڈیشن میں اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ امین جالندھری نے زندگی کے عالم کردار لئے میں اسے سبا ٹرن فکشن بھی کہہ سکتا ہوں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭