(Last Updated On: )
پچھلی پہر رات تلک اسی طرح مجلس نشاط گرم رہی، بعد اس کے قاضی اور وکیل آن کر حاضر ہوئے۔ موافق دستورِ شاہانہ مہر باندھ کر نکاح پڑھا۔ پھر خلعت و انعام لائق رتبے کے ہر ایک نے طرفین سے پایا۔ مبارک سلامت کی دھوم ہوئی۔ پھر شربت پلانے لگے اور ہار پان بانٹنے۔ جب اس سے فراغت ہوئی، دولھہ کے محل میں بلانے کی صلاح ٹھہری ؎
چلا یوں وہ دولھہ دلہن کی طرف
مڑے جیسے بلبل چمن کی طرف
غرض ڈیوڑھی سے بزم شادی تلک پہنچتے پہنچتے شگون کے واسطے ٹوٹکے لاکھوں ہوئے۔ جب دولھہ اس مکان میں آیا جہاں دلہن تھی، کیا دیکھتا ہے کہ فرش نہایت پر تکلف بچھا ہے اور صحبت راگ ناچ کی مہیا ہے۔ امیر زادیاں وزیر زادیاں عہدہ زادیاں بھاری بھاری پوشاکیں پہنے ہوئے بناو سنگار کیے صف باندھے برابر بیٹھی ہیں۔ گویا ایک تختہ گلزار کا پھول رہا ہے۔ وہاں ایک جڑاؤ چھپرکھٹ بچھا ہوا ہے اور اس کے آگے دلدا پیش گیر جھمجھماتا ہوا موتیوں کی جھالر سے جڑاؤ استادوں پر کھڑا ہے اور ایک شہانی مسند لگی ہوئی ہے۔ اس پر دلہن لباسِ عروسی پہنے ہوئے سر تا پا جواہر میں غرق گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی ہے۔ منہ اس کا مہتاب سا جھلک رہا ہے اور بدن کی خوشبو سے سارا مکان مہک رہا ہے۔ یہ بھی خراماں خراماں اسی مسند پر دلہن کے پاس چاو سے بیٹھ گیا، گویا کہ زہرہ و مشتری کا زمین پر قِران ہوا۔ بارے جس طرح خواہش تھی اسی طرح ملاپ ہوا۔ مزا عیش و نشاط کا خوب گٹھا۔ اندوہ غم کا کھٹکا نہ رہا، جدائی کا دھیان یک لخت اٹھ گیا۔ دونوں کے بخت کھلے، بیریوں کے دروازے مُندے ؎
نہ تھا وصل اس طرح کا دھیان میں
خدا نے کیا آن کی آن میں
اتنے میں نجم النسا لجائی ہوئی آنچل دولھہ کے سر پر ڈال کر کھڑی ہوئی اور آرسی مصحف ناز و نیاز سے باہم دیکھنے لگے اور با یک دیگر محوِ جمال ہو گئے ؎
عجب قدرتِ حق نمایاں ہوئی
جسے آرسی دیکھ حیراں ہوئی
پھر دلہن کو بہ صد عشوہ و ناز جلوہ دینے لگیں اور رسمیں آپس میں چوچلوں سے ہونے لگیں۔ کوئی سِرونج دولھہ سے پسوانے لگی، کوئی شرارت سے گال کو صندل لگانے۔ کوئی شوخی سے دلہن کی جوتی کو سر سے چھوانے۔ بعد اس کے نو بات بنی کے بنے کو چُنی ہی بنی۔ غرض شرارتوں سے ڈھکا ڈھکا کر اس سے چُنواتیاں تھیں اور ہنس ہنس کر چھیڑتی جاتیاں تھیں۔ دولھہ از بس کہ اس کے ہر ایک عضو پر عاشق تھا، نبات جا بجا سے چننے لگا۔ آنکھوں کی ڈلی اٹھا کر کھائی اس مزے سے جیسے کوئی بادام شیریں نوش کرے۔ جب ہونٹھوں پر کی اٹھانے کی نوبت پہنچی تب لبوں سے لبیں یوں ملائیں گویا گل و غنچہ بہم ہو گئے۔ کمر اور کولے کی بھی ڈلی کے اٹھاتے وقت ہاں ہوں کچھ نہ کی ؎
ذرا پاؤں پر کی اٹھاتے اَڑا
نہیں اور ہاں کا عجب غل پڑا
لیکن ظاہر ہی میں یہ تکرار تھی وگرنہ اس کی جان اس کے قدموں پر نثار تھی۔ اس وقت آپس میں عجب طرح کی رنگ رلیاں تھیں کہ جتنی باتیں تھیں مصری کی ڈلیاں تھیں۔ رسموں کی فراغت کے بعد صبح ہوئی اور سواری کی دھوم پڑی۔ دلہن ما باپ سے اور سارے گھر سے رخصت ہونے لگی اور مانند شبنم کے رونے۔ کبھی لاچار سب کا منہ دیکھتی تھی اور کبھی دل میں کہتی تھی: یہ واردات کیا ہے اور جہاں کیا پیکھنا ہے کہ اس کی بات کو قیام نہیں۔ کبھی وصلِ جاناں ہے اور کبھی دردِ ہجراں ؎
یہاں موت ہے اہلِ عرفان کو
کہ جانا ہے ایک دن یوں ہیں جان کو
وہ جو درد مندی سے آشنا ہیں، اٹھاتے ہیں شادی میں غم کا مزا۔ قصہ مختصر دان دہیز اور چھپر کھٹ دلدا پیش گیر سمیت نکلنے لگا اور اس کے نقد و جنس و ظروف کا بیان نہیں ہو سکتا کہ جس قدر تھا۔ نِدان دولھہ نے شاداں و خنداں دلہن کو گود میں اٹھا چونڈول میں بٹھایا اور کہاروں نے اللہ بسم اللہ کر اٹھایا۔ دونوں طرف چنور جھلنے لگے اور لعل گوہر نثار کرنے ؎
کھڑے تھے جو وھاں چشم کو تر کیے
انھوں نے بھی موتی نچھاور کیے
ادھر ادھر سے سہرے کو بے نظیر نے چیرا اور اپنا چاند سا مکھڑا دکھا گھوڑے پر یوں سوار ہوا کہ جیسے صبح کو آفتاب بلند ہووے۔ پھر شان و شوکت سے نوبت نشان ماہی مراتب آگے آگے اور پیچھے پیچھے چونڈول میں دلہن اور براتی ہمراہ لیے دولت خانے کو چلا۔ ساعتِ نیک میں داخل ہوا اور وہاں کی جو کچھ رسمیں تھیں بہ خوبی بجا لا کر عشرت کدے میں آرام فرمایا اور سہ پہر کو جو بیدار ہوا تو فیروز شاہ کے بیاہ کی تیاری کو حکم کیا اور آپ وزیر کے پاس گیا اور یہ کہا کہ میرا بھائی فیروز شاہ بڑے بادشاہ کا بیٹا ہے اور عالی مرتبہ۔ میں تجھ سے یہ التجا رکھتا ہوں کہ اس کو تو اپنی فرزندی میں لے اور اپنی بیٹی اس کے ساتھ بیاہ دے کہ بادشاہ وزیر میں قرابت ہونی مضائقہ نہیں۔ غرض اسے ہر طرح رضا مند کر لگتے ہاتھ چوتھی کے ساتھ اُسی تجمل اور تیاری اور اُتنی ہی فوج اور براتیوں کی بھیڑ بھاڑ سے فیروز شاہ کا نجم النسا کے ساتھ بیاہ کیا ؎
دقیقہ نہ چھوڑا کسی بات میں
برابر رکھی چہل دن رات میں
الغرض ان کے کام تمام خدا نے اپنے فضل و کرم سے پورے کیے اور مطلبِ دل خواہ بر آئے۔ ایسی دو شادیاں ہوئیں کہ چار گھر آباد ہوئے ؎
پھرے دن، تو اپنے وطن کو پھرے
وہ آشفتہ بلبل چمن کو پھرے
حاصل یہ ہے کہ سب مال و منال و جاہ و حشم لے کر ہر ایک نے اپنے اپنے شہر کا ارادہ کیا۔ نجم النسا اور فیروز شاہ اپنے تختِ رواں پر سوار ہو کر شاد و خرّم پرستان کو چلے اور بے نظیر و بدرِ منیر سے یہ اقرار کیا کہ گو ہم اپنے ملک کو جاتے ہیں اور تم اپنے شہر کو، لیکن اس کا کچھ غم و اندیشہ اپنے جی میں نہ لائیو کہ ہم تم سے اکثر ملا کریں گے ؎
تشفی وہ یہ دے کے اودھر چلے
یہ ایدھر لیے اپنا لشکر چلے
پھر بے نظیر مع بدرِ منیر چند روز کے عرصے میں قریب اپنے شہر کے پہنچا اور دریا کے کنارے خیمہ کیا۔
بعد اس کے ہرکاروں کو حکم پہنچا کہ بستیوں میں خبر کر دو کہ کوئی خوف و خطر نہ کرے کہ میں شہزادۂ بے نظیر ہوں غنیم نہیں۔ تم خاطر جمع رکھو۔ یہ سن کر جو لوگوں نے تفتیشِ حال کی اور جا کر دیکھا تو فی الواقع شہزادہ ہی ہے۔ خوشی و خرّمی ہر متنفس کو ہوئی اور جا بجا شہرہ ہوا کہ وہی شہزادہ (جو غائب ہوا تھا) اِس جاہ و حشم سے پھر آیا۔ رفتہ رفتہ یہ خبر بادشاہ اور ملکہ کو بھی پہنچی کہ شہزادہ خیر و عافیت سے قریب شہر کے آ پہنچا ہے۔ سنتے ہی اس خبر کے وے مارے خوشی کے آپ میں نہ رہے۔ از بس کہ یاس سے جو ان کا دل بھرا ہوا تھا اور آس ملنے کی نہ تھی، سچ نہ جانا۔ ہاتھ پاؤں تھرتھرانے لگے اور رو رو کر آپس میں کہنے لگے کہ ہمیں اس بات کا اعتبار نہیں، کیوں کہ ہمارے نصیب ایسے دشمن ہیں خواب میں بھی اسے نہ دکھائیں۔ ظاہر میں ملانا تو یک طرف۔ شاید یہ شخص ارادہ ملک و مال کا کر کے آیا ہے۔ ہم آپ ہی گرفتار اپنے حال میں ہیں، کسے دماغ ہے کہ اس سے لڑے۔ آخر تو کوئی نہیں ہے۔ وہی لیوے جو یہ جھگڑا کہیں مٹ جائے۔ تب سبھوں نے عرض کی کہ حضرت! اس طرح کا دھیان آپ نہ کیجیے، یہ بیٹا وہی آپ کا ہے جو گم ہوا تھا، غنیم نہیں۔
غرض رات تو اسی حرف و حکایات میں آخر ہوئی۔ جب صبح ہوئی اور مکرر یہی بات سنی تب بے اختیار روتا ہوا بادشاہ اس طرف کو چلا جدھر بیٹے کا خیمہ تھا۔ اور اُدھر سے وہ بادشاہ کے حضور میں آتا تھا کہ راہ میں یکایک دو چار ہوئے۔ باپ کو اس نے پہچانا۔ دیکھا کہ بے تابانہ چلا آتا ہے۔ گھوڑے پر سے اتر کر پیادہ ہوا اور قدموں پر گر کر کہنے لگا کہ ہزار شکر خدا نے آپ کے پھر قدم دکھائے۔ یہی آرزو تھی۔ جب آواز بادشاہ نے سنی، دریافت کیا کہ میرا بیٹا ہے۔ بے اختیار ایک آہ بھر قدموں پر سے اس کے سر کو اٹھا چھاتی سے لگایا اور گھڑی دو ایک تلک خوب لپٹائے رکھا ؎
یہ رویا، یہ رویا کہ غش کر چلا
کہے تو کہ آنسو کا لشکر چلا
ایک دم کے دم الگ ہوئے، پھر بے اختیاری سے آپس میں ایسے گلے لگے جیسے یوسف و یعقوب ملے اور گل گل شگفتہ اس طرح ہوئے جیسے گل کو دیکھ کر بلبل اور بلبل کو دیکھ کر گل۔ تب امیر و وزیر و سپاہ و رعیت سب شاد و خرّم نذریں لے لے کر حضور میں آئے، بادشاہ اور شہزادے کو گزرانیاں۔ مے عیش و نشاط کا پھر سب کو نشا چڑھا، نئے سر سے آباد پھر وہ کشور ہوا۔ بڑی دھوم سے اور بڑے تجمل سے بادشاہ شادیانے بجواتا ہوا شہزادے کو لیے شہر میں آیا اور اس باغ میں (جو ہجر کے داغِ غم سے پھول رہا تھا) داخل ہوا۔ پھر زنانی سواری بھی ساتھی اتروا ہاتھ پکڑے اُس گلِ نو شگفتہ کا وہ سروِ رواں دولت خانے میں آیا۔ اتنے میں اس کی نگاہ جو پڑی تو دیکھا کہ ماں نرگس وار با دیدۂ پر انتظار راہ میں کھڑی ہے ؎
بہی چشم سے آنسوؤں کی قطار
گرا ماں کے پاؤں پہ بے اختیار
وہ ماں بیٹے کے گلے سے لگ کر ایسا روئی کہ آنسوؤں کا دریا بہا، بلکہ اس کے رونے سے پتھر پانی ہو گئے۔ پھر بہو اور بیٹے کو چھاتی لگا سر سے پاؤں تلک بلائیں لے جان و دل سے نثار ہوئی۔ پانی دونوں پر سے وار کر پی گئی۔ داغ درد و غم کے جو دل و جگر پر تھے، وے مرہم وصل سے اچھے ہو گئے۔ غرض ماں باپ کو از بس کہ سہرا دیکھنے کی خواہش تھی، دوبارہ انھوں نے ان کا بیاہ کیا اور اپنے دل کا سارا ارمان نکالا ؎
وہ آنکھیں جو اندھی تھیں، روشن ہوئیں
سب آپس میں رہنے لگے مل ملا
زمینیں جو تھیں خشک، گلشن ہوئیں
پھر آئے چمن میں وہ گل کھل کھلا
خزاں اس باغ سے گئی اور گل رخوں کی پھر آبادی ہوئی ؎
محل میں عجائب ہوئے چہچہے
وہ مرجھائے گل، پھر ہوئے لہلہے
الحمد للہ بادشاہ سے بادشاہ زادہ ملا، شہر پر فضلِ پروردگار ہوا۔ پھر ویسی ہی چہلیں اور دھومیں مچ گئیں اور اس طرح کی خوشیاں اور شادیاں رچ گئیں۔ بلبلیں باغ میں بدستور چہچہے کرنے لگیں اور کلیاں سب کے دلوں کی کھل گئیں ؎
انھوں کے جہاں میں پھرے جیسے دن
ملیں سب کے بچھڑے الٰہی تمام
ہمارے تمھارے پھریں ویسے دن
بہ حقِ محمد علیہ السلام
جیسے کہ وے شاد ہوئے، ہم بھی شاد ہوں۔ جیسے کہ وے آباد ہوئے ہم بھی آباد ہوں۔
تمام شد