انتخاب عالم کوبس کا ڈرائیور پہچان گیا وہ مسکرا کر بولا صاحب آپ تو بڑی جلدی آ گئے۔
تمہیں نے تو کہا تھا کہ سات بجے بس چھوٹ گئی تو اگلے دن سات بجے۔
جی ہاں کہا تو تھا لیکن یہ سب باتیں تو صرف کہنے کی ہوتی ہیں۔
اچھا تو بس کب جائے گی؟
یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتا ہاں آٹھ ساڑھے آٹھ بجے تک سارے مسافر آ جاتے ہیں اور پھر ہم چل پڑتے ہیں اب کسی کو چھوڑ کر جانا بھی تو اچھی بات نہیں۔ اس نے اپنے دانت نکال دیئے آپ ایسا کریں چائے وغیرہ پی کر آئیں اب آپ کا سامان محفوظ ہے اور نشست وہ بھی محفوظ سمجھیں کسی بھی سیٹ پر اپنا رو مال یہ اخبار وغیرہ رکھ دیں۔
انتخاب نے سوچا یہ اچھا ہے۔ اپنے ہاتھ کا اخبار اس نے دوسری قطار کی کھڑکی والی سیٹ پر رکھا اور چائے خانہ کی جانب چل دیا۔ اسے یقین تھا کہ ڈرائیور اسے لئے بغیر نہیں جائے گا۔ آدھے گھنٹہ کے بعد وہ ناشتے سے فارغ ہو کر واپس آیا تو بس کے آس پاس کئی مسافر ٹہل رہے تھے وہ اپنی نشست پر آ کر بیٹھ گیا اور اخبار پڑھنے لگا۔ بس اپنی جگہ سے چلنے کا نام نہیں لے رہی تھی اخبار کے صفحات ایک کے بعد ایک ختم ہوتے جا رہے تھے۔
اس نے اپنے بغل میں بیٹھے تلک دھاری مسافر سے پوچھا۔ یہ بس جائے گی یا نہیں؟
کیوں نہیں صاحب آپ کیسی باتیں کرتے ہیں ایشور کی کرپا سے بس ضرور جائے گی۔
لیکن کب جائے گی؟
کوئی نہیں جانتا ڈرائیور بھی نہیں۔ جب بھر جائے گی تو چل پڑے گی؟
لیکن یہ اس طرح بلاوجہ وقت کی بربادی؟
ارے صاحب ویسے بھی ہمیں جلدی جا کر کرنا کیا ہے؟ شام میں پہونچیں گے تو آرام ہی کریں گے؟
تو کیا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؟
کیا فرق پڑتا ہے صاحب ایک آدھ گھنٹہ کم سوئے تو کیا مر جائیں گے؟
انتخاب عالم بیزار ہو کر پھر اخبار میں گھس گیا کہ اچانک بس کا انجن غرًایا۔ بس کھچا کھچ بھر چکی تھی اور اب مزید گنجائش نہیں تھی۔ ڈرائیور نے دروازہ بند کرنے کا حکم دیا۔ تمام مسافر اپنے اپنے دل میں خالق و مالک سے دعا کر رہا ہے تھے کہ پروردگار عالم انہیں صحیح سلامت اپنی منزل تک پہونچا دے۔
شہر سے نکل کر بس پہاڑی راستے پر آسمان کی جانب اڑ رہی تھی اور انتخاب عالم اپنے ماضی کے دلدل میں دھنستا جا رہا تھا۔ کیسا بھیانک دلدل تھا۔ امتیازی نمبر سے طب کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بے روزگاری کا کرب کس قدر بھیانک تھا۔ اس کے پاس اپنا دوا خانہ کھولنے کے لئے رقم نہیں تھی اور اسپتالوں میں اس کے لئے ملازمت نہیں تھی۔
انتخاب درخواستیں دیتے دیتے تھک گیا تھا بلکہ اس نے فیصلہ کر لیا تھا اب وہ پردیس جائے گا جہاں کسی کو پتہ نہ ہو کہ وہ ڈاکٹر ہے اور وہاں جا کر جو بھی ملازمت ملے گی کر لے گا۔ کمپاؤنڈر بن جائے گا نرسنگ کرے گا۔ مزدوری کرے گا وہ سب کرے گا جو اپنے شہر میں نہیں کر سکتا اس لئے کہ یہاں لوگ اسے ڈاکٹر کی حیثیت سے جانتے تھے۔ اگر اس نے کوئی ہلکی ملازمت کر لی تو اس کے والدین کی توہین اور اذیت ہو گی۔ دوست و احباب اس کا مذاق اڑائیں گے۔
ان پریشانیوں سے بچنے کا واحد راستہ یہ تھا کہ اپنے جاننے والوں سے دور نکل جائے۔ تنہا ہو جائے۔ کسی ایسے مقام پر جا بسے جہاں نہ کوئی اس کے پیشے سے واقف ہو اور نہ اس کی پامالی پر رنجیدہ و شرمندہ ہو۔ انتخاب نے اپنے لئے اپنوں سے دوری منتخب کر لی تھی لیکن پھر امید کا ننھا سا دیا جلا اس نے پھر اپنا ارادہ بدلا اور ایک درخواست کر ڈالی جو اس کے اندھیرے گھر کی شمع بن گئی اور وہ مایوسی کے دلدل سے باہر نکل آیا۔ فی الحال اسی چراغ کی روشنی میں وہ زمین سے آسمان کی جانب رواں دواں تھا۔
بس ایک جھٹکے سے رکی تو انتخاب نے پوچھا بندربن؟
پڑوس کا مسافر بولا۔ ارے صاحب اتنی جلدی بندربن کہاں؟ ابھی تو آدھے سے زیادہ سفر باقی ہے۔ یہاں چائے پانی کے لئے بس آدھا گھنٹہ رکے گی۔
آدھا گھنٹہ؟ جی ہاں زیادہ بھی لگ سکتا ہے پرسکون مسافر نے بتلایا۔
انتخاب باہر نکل آیا تو دیکھا میلہ لگا ہوا ہے۔ ملک چین کا ہر سامان یہاں بک رہا ہے۔ ریڈیو سے لے کر ٹائگر بام تک کہ یہ دونوں ویسے بھی لازم و ملزوم ہیں لیکن بام کی فروخت ریڈیو سے کہیں زیادہ تھی اور یہ بات سمجھ میں آنے جیسی تھی۔ اس لیے ایک ریڈیو کی بے ہنگم موسیقی کئی لوگوں کے سر میں درد کا سبب بن سکتا تھا۔ بس اڈے کی ساری دوکانیں اس حقیقت پر گواہ تھیں۔ ہر دوکان کے باہر لگا بڑا سا اسپیکر مختلف راگ الاپ رہا تھا اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا گایا جا رہا ہے۔
ویسے سمجھنے سمجھانے کی نہ کسی کو ضرورت تھی اور نہ فرصت۔ بجانے والے گاہکوں کو بلانے کے لئے بجا رہے تھے۔ اور سننے والوں کی دلچسپی خرید و فروخت میں تھی۔ ہوا کی سردی محسوس ہو رہی تھی۔ چائے کا کلہڑ ہر ہاتھ میں تھا۔ چائے کی پیالیوں سے اٹھنے والی بھاپ اپنی گرمی کی تشہیر کر رہی تھی۔ یہ دھواں گرمیوں میں نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے تاکہ لوگ اسے دیکھ کر چائے پینے سے باز نہ رہیں۔ جاندار ہویا بے جان جہاں تجارت وہاں سیاست اور فریب اپنی جگہ بنا ہی لیتے ہیں۔
پہاڑی عورتیں پانی سے بھیگی سپاری بیچ رہی تھیں یہ سپاری چھلکے کے سا تھ تھی جب سپاری بک جاتی تب اسے چھل کر گاہک کو دیا جاتا۔ انتخاب نے شہر میں ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ویسے وہاں کسے فرصت تھی کہ اس اہتمام سے سپاری چھلوائے اور کھائے لیکن آج اس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی تھی کہ سپاری کو چھالیا کیوں کہتے ہیں؟
چائے کے علاوہ ٹائے گر بام بھی اکثر مسافروں کے ہاتھوں میں تھا۔ شاید اس لئے کہ اوپر پہاڑوں میں سردی زکام کا امکان زیادہ ہو لیکن ٹائے گر ہی کیوں؟ اس چینی شیر نے ساری دنیا کو اپنی برق رفتاری سے بلی بنا دیا تھا۔ ہر کوئی اس سے خوفزدہ تھا اور انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ جس سے ڈرتا ہے اسی سے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔
انتخاب نے نہ سپاری لی اور نہ بام لیا۔ اس لئے کہ پان سپاری کو وہ صحت عامہ کے لیے مضر سمجھتا تھا اور دوائی تو ڈاکٹروں کو مفت میں مل جاتی تھی۔ اسے یقین تھا ڈاکٹروں کے کوارٹر میں دیگر لوازمات کیساتھ ساتھ ریڈیو اور ٹیلی ویزن تو موجود ہی ہو گا۔ دوسرے مسافروں نے انتخاب کے رویہ کواس کی بخیلی یا مسکینی پر محمول جانا اور اپنے کاموں میں لگے رہے۔
بس آگے بڑھی کھیت کھلیان پیچھے چھوٹ گئے۔ مسافر پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان تھے۔ نہ جانے کیوں جہاں اونچے پہاڑ ہوتے ہیں وہیں گہری کھائیاں بھی ہوتی ہیں۔ جہاں پہاڑ نہیں ہوتے کھائی بھی نہیں ہوتی۔ سپاٹ میدانوں میں نہ نشیب ہوتا ہے اور نہ فراز ہوتا ہے۔
سرد ہواؤں کے سبب بس کی ساری کھڑکیاں بند تھیں مسافروں نے اپنے سویٹر پہن لئے تھے۔ کوٹ کے بٹن بند کر لئے گئے تھے۔ ٹوپیاں اور مفلر بھی سر اور کانوں سے لپٹ چکے تھے لیکن انتخاب کے سامنے بیٹھا نوجوان اس کے برعکس حرکتیں کر رہا تھا۔ اس نے پہلے ٹوپی اتاری پھر جیکٹ اور سویٹر لیکن وہ اس پر بھی نہیں رکا بلکہ اس نے کھڑے ہو کر کھڑکی کا پٹ کھول دیا۔
سرد ہوا کا تیز جھونکا جیسے ہی بس میں داخل ہوا لوگ چلائے پاگل ہو گیا ہے؟ دماغ خراب ہے کیا؟ ؟
اس نے پلٹ کر کہا کیا کرے گا گرمی لگتی ہے، اس کا چہرہ پسینے سے شرابور تھا۔ انتخاب عالم نے کئی سال علم طب کے حصول میں سرف کئے تھے اس کے باوجود اس نوجوان کی حالت کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
بغل میں بیٹھے پرسکون مسافر نے اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑ کی کو بند کرنے کے بعد نوجوان سے پوچھا۔ کیا سپاری کھا لی ہے؟
وہ بولا جی ہاں!!
مسافرنے کہا نہ جانے قدرت نے اس سپاری میں کون سی تیلی رکھ دی ہے جو جسم کے اندر جا کر آگ لگا دیتی ہے۔ ہم لوگ چونکہ عادی ہیں اس لئے اس کی ہلکی ہلکی تپش محسوس کرتے ہیں لیکن اس نے شاید پہلی مرتبہ استعمال کیا ہے۔ اس لئے اندر ہی اندر دہک رہا ہے۔ پریشان ہے بیچارہ۔ ایک سپاری سے جسم کے اندر آگ لگ سکتی ہے یہ بات انتخاب کے علم میں ایک خوشگوار اضافہ تھا اور یہ ایک ایسی حقیقت تھی جس کا مشاہدہ اس نے خود اپنی آنکھوں سے کیا تھا۔ انتخاب نے اپنے ہم سفر سے پوچھا یہ سپاری کہاں اگتی ہے؟
صاحب سپاری اگتی کب ہے؟ یہ زمین میں دفن ہوتی ہے اسے کھودنا پڑتا ہے۔
میرا مطلب ہے یہ یہیں ہوتی ہے۔ یا کہیں سے لایا جاتا ہے؟
ارے صاحب یہ سپاری ان پہاڑوں کے علاوہ کہیں بھی پائی نہیں جاتی۔
انتخاب نے کھڑ کی کے باہر پہاڑیوں کو دیکھا اپنے سروں پر برف کا تاج سجائے یہ اونچے پربت اور اپنے تن پر برف کی چادر سے اوڑھے یہ پردہ نشین شرمیلی پہاڑیاں۔ انتخاب نے پہاڑ تو بہت دیکھے تھے لیکن برفیلے پہاڑ دیکھنے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ سفید برف نے پہاڑوں کا رنگ بدل دیا تھا۔
اس نے اپنے آپ سے کہا ان سپاریوں میں اگر اس قدر گرمی ہے کہ انسان پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے اور یہ سپاری ان پہاڑوں کے بطن سے آتی ہیں تو یہ پہاڑوں کو گرمی کیوں نہیں عطا کرتی؟ ان پر پڑی برف کیوں نہیں پگھلاتی؟
اس کے اندر سے آواز آئی یہ برف کی چادر ہی اس کوہ و دمن کا حسن ہے جو ساری دنیا کو اپنی جانب راغب کرتا ہے اگر یہ اپنی چادر پھینک کر عریاں ہو جائیں تو ان کی کشش کو کون محسوس کرے گا؟ کون آئے گا ان کے پاس؟
انتخاب کی سمجھ میں آ گیا کہ ان سپاریوں میں یہ تاثیر کہاں سے آئی؟ یہ پہاڑوں کی گرمی ہے جسے انہوں نے سپاری کی جڑ میں دبا دیا ہے تاکہ انسان اسے نکال کر استعمال کرے اور پہاڑ کی سردی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔
انتخاب کو ایسا لگنے لگا گویا یہ پہاڑ زندہ ہیں۔ اپنے آپ کو سرد ہواؤں سے محفوظ کرنے کے لئے انہوں نے برف کی ٹوپی پہن رکھی ہے۔ برف کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ ان کے پیر اپنی جگہ ساکت و جامد ہو گئے ہیں۔ وہ صدیوں سے اس بات کے منتظر ہیں کہ کب برف پگھلے اور کب وہ چل پڑیں، پہاڑ چل پڑیں گے اس خیال نے انتخاب کو خوفزدہ کر دیا وہ سوچنے لگا کیا ہو گا جب پہاڑ چل پڑیں گے تو ان لوگوں کا کیا ہو گا جو ان کے اوپر چل پھر رہے ہوں گے۔
اس کے دل نے جواب دیا اس وقت یہ چلنے پھرنے والے ساکت و جامد ہو جائیں گے۔ انتخاب عالم پہاڑوں میں کھویا ہوا تھا کہ ایک جھٹکے سے بس کا انجن بند ہو گیا عجیب انجن ہے کہ چلتا بھی جھٹکے سے ہے اور رکتا بھی اسی طرح ہے۔
بس کے رکتے ہی ایک کہرام مچ گیا۔ مسافر نیچے اترنے کے لئے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ ایسالگ رہا تھا جیسے کسی نے صور پھونک دیا ہے اور ہر کوئی اپنی قبر سے نکل کر ایک انجان منزل کی جانب لپک رہا ہے۔
ویسے اگربس کا رخ بدل دیا جائے تو اس کا آگے بڑھنا پیچھے جانے میں تبدیل ہو جاتا ہے بس منزل سے قریب ہونے کے بجائے دور جانے لگتی ہے۔ لیکن یہ نیاسفر بھی بے منزل نہیں ہوتا یہ دوری اپنے مسافر کو کسی اور منزل سے قریب لے جاتی ہے۔ مختلف مسافروں کی مختلف منزلیں اور اسی کے لحاظ سے مختلف فاصلے اور مختلف سمتیں۔ مختلف سواریاں اور مختلف راستے۔ یہ اختلافات صرف منزل کے مختلف ہونے کے سبب ہو جاتا ہے۔ منزل کے بدل جا نے سے باقی سب از خود بدل جاتا ہے۔
انتخاب بس سے اتر گیا اور سامان نکالتے ہوئے بس کی پشت پر لکھے جملے کو پڑھنے لگا ’’منزل کا یقین سفر کی مشقت اور تیاریوں سے زیادہ اہم ہے ‘‘ انتخاب کوایسا محسوس ہوا کہ کسی نے اس کے غور و فکر کا خلاصہ نہ جانے کب اور کیوں لکھ دیا؟ اس شخص کو کیسے پتہ چل گیا تھا کہ یہ ایک فقرہ آگے چل کر انتخاب کے ذہن کی گرہ کھول دے گا۔
بندربن کے ننھے سے بس اڈے پر ایک ہنگامہ برپا ہوا اور پھر تھم گیا گہمی گہمی ختم ہو گئی مسافر مختلف سواریوں پر اپنی اپنی رہائش گاہوں کی جانب روانہ ہو گئے۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور نے انتخاب سے پوچھا۔ فرمائیے جناب کہاں چلئے گا؟
انتخاب کو اس کی زبان پر حیرت ہوئی اس نے پوچھا۔ بنگالی ہو؟
وہ بولا نہیں صاحب ہم بہاری ہیں۔ بنگلہ دیش۔ پاکستان اور ہندوستان ہر جگہ بے مکان۔
اچھا تو شاعر بھی ہو خیر مجھے سرکاری دوا خانہ لے چلو۔
ٹیکسی ڈرائیور نے سوچا کہ شاید راستے میں اس مسافرکی طبیعت خراب ہو گئی وہ بولا وہاں تو نہ آدم نہ آدم زاد۔ وہ نہ جانے کب سے بند پڑا ہے۔
کیا؟ انتخاب عالم نے حیرت سے پوچھا
جی ہاں صاحب اور نہ جانے کب تک یونہی بند پڑا رہے۔ کئی سال قبل ایک ڈاکٹر صاحب ہوا کرتے تھے انہوں نے خود کشی کر لی اور ان کے ساتھ ہی دوا خانے نے بھی دم توڑ دیا۔ بعد میں ہم لوگوں نے ڈاکٹر کے ساتھ دوا خانے کو بھی بھلا دیا۔ ویسے اگر مناسب سمجھیں تو میں آپ کو وید جی کے پاس لے چلوں وہ آپ کے لئے نسخہ لکھ دیں گے ہم لوگ بھی چھوٹی موٹی بیماری کے لئے انہیں کے پاس جاتے ہیں۔ وہ جڑی بوٹی سے علاج کر دیتے ہیں۔ معاملہ جب سنگین ہو جاتا ہے تو مریض کو نیچے چٹاگانگ لے جاتے ہیں۔
اس بس میں آپ لوگ مریض کو لے کر جاتے ہیں؟
جی نہیں صاحب۔ انسانیت بھی کوئی چیز ہے۔ ہم ٹیکسی والے اس خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے۔
کیا مطلب مفت میں لے جاتے ہیں اور وہ واپس کیسے آتا ہے؟
ڈرائیور ہنس کر بولا اگر اچھا ہو جائے تو بس میں بیٹھ کر آ جاتا ہے۔
جی ہاں سمجھ گیا؟ انتخاب عالم بولا نازک حالت میں مریض نیچے پہونچنے سے پہلے ہی اوپر چلا جاتا ہو گا۔
نہیں صاحب وقت سے پہلے کوئی کہیں نہیں جاتا۔ آپ یہ بتائیں کہ کہاں جائیں گے؟
دیکھو میرا اس سرکاری دوا خانے میں ڈاکٹر کی حیثیت سے تقرر ہوا ہے اس لئے میں وہیں جاؤں گا۔
لیکن صاحب وہاں تو کوئی نہیں رہتا؟
انتخاب نے جھلّا کر کہا کیا بکتے ہو؟
ڈرائیور نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا دیکھئے صاحب وہاں ایک چوکیدار ہے جو اپنی کٹیا میں اپنی بٹیا کے ساتھ رہتا ہے کہئے تو اسی کے پاس لے چلوں؟
ٹھیک ہے وہیں چلو۔
ویسے اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں آپ کو سرکاری گیسٹ ہاؤس یعنی ڈاک بنگلہ بھی لے کر جا سکتا ہوں۔ رات وہاں آرام کر کے صبح دوا خانے آ جانا۔
اب کیا رات بھر یہی بحث کرتے رہو گے مجھے کہاں آرام کرنا ہے؟ یا کہیں چلو گے بھی؟
ڈرائیور نے سوچا رات تو ڈاکٹر صاحب یہاں کے خستہ حال ڈاک بنگلہ میں بھی نہیں گذارسکتے خیر ہمیں کیا؟ کرائے سے مطلب! وہ بولا دیکھئے صاحب دوا خانہ ذرا دور پہاڑی کے آخری سرے پر ہے۔ اس لئے کرایہ پچاس روپئے ہو گا۔
نیا آدمی سمجھ کر لوٹ رہے ہو۔ نیچے چٹاگانگ سے بندربن تک پچاس روپئے اور یہاں سے دوا خانہ تک بھی پچاس روپئے یہ کیا مذاق ہے؟
جناب مذاق تو آپ کر رہے ہیں۔ جس بس میں آپ آئے ہیں اس میں آپ کے علاوہ کتنے مسافر تھے اور مسافروں کی تعداد کو ہر ایک کے کرایہ سے ضرب کریں تو پتہ چلے کہ چٹا گانگ سے بندربن تک کرایہ کتنا ہے؟
لیکن میرے لیے تو ۰۰۰۰۰۰۰
آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ میری ٹیکسی میں بادشاہ کی طرح تنہا شاہانہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ چل رہے ہیں۔ بس میں آپ پرجا کی ساتھ بھیڑ بھاڑ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس فرق کی بھی تو قیمت ادا کرنی ہو گی۔
اس بیس پچیس سال پرانی ٹیکسی میں شاہانہ آن بان۔ انتخاب کو ہنسی آ گئی وہ بولا خیر ٹھیک ہے چلو۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...