(Last Updated On: )
جب شادی کا روزِ معین آ پہنچا، فیروز شاہ نے کارباریوں کو حکم کیا کہ ہر ایک مکان میں فرشِ پر تکلف بچھاویں اور قرینوں سے مسندیں زربفت اور بادلے کی لگاویں۔ عطر دان پان دان چوگھڑے چنگیریں بہتایت سے تیار رکھیں اور روشنی بھی جا بجا بڑے تجمل سے کریں اور اربابِ نشاط جہاں تلک کہ شہر میں ہیں، زرق برق کے لباس سے مجلس میں آکر حاضر رہیں۔ جتنے امیر و امرا اور امتیازی ہیں، موافق اپنے حوصلے اور مرتبے کے پوشاکیں بھاری بھاری پہن کر بزمِ طرب میں آویں اور جتنے رسالہ دار جمع دار دفعہ دار وغیرہ بلکہ سب سوار اور پیادے رنگیں پوش ہو کر سواری کے وقت جِلو میں حاضر ہوویں۔
غرض شام کے وقت موافق حکم کے بزم آراستہ ہوئی، تب شاہ زادۂ بے نظیر اور فیروز شاہ بھی پوشاکیں بدل جواہر سج سجا مسندوں پر مجلس میں آ بیٹھے اور ناچ ہونے لگا۔ آدھی رات تلک یہی سماں بندھا رہا۔ پھر نہا دھو خلعتِ شاہانہ پہنا اور جواہرات نہایت بیش قیمت بہتایت سے زیبِ بدن کیے۔ ہار بدّھی پھولوں کی گلے میں پہن، سہرا موتیوں کے سہرے سمیت سر پر باندھا، راؤ چاؤ سے اٹھ کر محل کے باہر آیا اور ایک گھوڑے پری پیکر پر (کہ جس کا زین جواہر نگار تھا) بہ تجملِ تمام سوار ہوا اور زنانی سواریاں بھی ہونے لگیں۔ پھر تو سواریوں کا غل پڑ گیا۔ سئیس گھوڑے دوڑ دوڑ لانے لگے اور مہاوت ہاتھیوں کو بٹھانے۔ کسی نے کہا: میری رتھ جلدی لانا، کسی نے کہا: میرا میانا منگانا۔ کوئی پالکی پر سوار ہوا اور پیادوں کی قطار اپنے آگے رکھ لی۔ کسی کو جو اس کثرت میں گاڑی چوپالہ میسر نہ ہوا، وہ مانگے تانگے کی سواری ہی پر بیٹھ لیا ۔ بھیڑ بھاڑ کے سبب مونڈھے چھلنے لگے اور ڈھالیں قبضے کھڑکنے۔ شور و غل سے ہاتھی بھاگنے لگے اور گھوڑے بھڑکنے۔ مرسلوں کے ملائم ملائم ٹکورے اور دھونسوں کی بلند صدائیں اپنا اپنا سماں دکھاتی تھیں۔ وہ سہانی سہانی شہنائیوں کی دھنیں لولیِ فلک کو ہوش سے لے جاتی تھیں۔ تمامی سے منڈھے ہوئے ہزاروں تختِ رواں اور جھمجھماتی پوشاکوں سے خوب صورت خوب صورت کنچنیاں ؎
وہ طبلوں کا بجنا وہ ان کی صدا
وہ گانا کہ اچھا بنا لاڈلا
نوشہ کے گھوڑے کا چلنا ٹھہر ٹھہر اور سنبھل سنبھل، دونوں طرف ہوتے ہوئے ایک انداز سے ہما کے مورچھل۔ زمرد یاقوت کی فانوسیں ادھر ادھر، نور کے جلوے جھمک رہے تھے جدھر تدھر۔ روشنی کے ٹھاٹھ دو رستہ ایسے تھے، جیسے چمن سونے کے پھولوں کے۔ ترپولیے روشنی کے جا بجا، ہجوم ان میں بازاریوں کا خوش نما ؎
ہوا دل جو روشن چراغاں سے
پڑھے شعر نوریؔ کے دیوان سے
اور سودے والے ہر ہر قسم کے سودے اپنے اپنی اپنی صدا سے بیچ رہے تھے۔ تماشائیوں کی کثرت ایسی تھی جیسی چراغوں پر پتنگوں کی۔ روشن چوکی والے گھوڑے کے آگے آگے اپنے طریقے سے بجاتے جاتے تھے اور اقسام اقسام کے باجے اپنے اپنے موقع اور اپنے اپنے چلن پر بج رہے تھے۔ براتیوں کے گرد و پیش پرے کے پرے آہستہ آہستہ جاتے تھے پرے پرے۔ روپے سونے کی جڑاؤ چھڑیاں لیے ہوئے نقیب اور چوب دار، اہتمام کرتے جاتے تھے پکار پکار۔ ان کے آگے خاص بردار ، مغرق غلافوں کی خاصیوں سمیت جاتے تھے قطار قطار۔ آرائش کے تختوں کے پھول رنگ برنگ، دکھلاتے تھے عجائب ہی رنگ ڈھنگ۔ آتش بازی کے دیو ایک طرف چھٹ رہے تھے اور ہاتھی آپس میں جُت رہے تھے ؎
وہ ابرک کی ٹٹی، وہ مینے کے جھاڑ
کہے تو کہ تنکے کے اوجھل پہاڑ
تخت کوسوں تلک دو رستہ برابر برابر، کسی پر کنول اور کسی پر شجر۔ شمع و چراغ سے ان میں یہ کیفیت ہوئی کہ نور باغ کے لالہ کی رنگت پھیکی پڑ گئی۔ ان کی قطار کی بہار ایسی تھی، جیسے طلسمات کے باغ کی ؎
اناروں کا دغنا، بھچنپوں کا شور
ستاروں کا چھٹنا، پٹاخوں کا زور
مہتاب کی جوت چاندنی سے بہتر، روشنی کے جھاڑ نور کے پہاڑوں کے برابر ؎
دھواں چھپ گیا نور میں نور ہو
سیاہی اڑی شب کی کافور ہو
زری پوش سردار ادھر ادھر بجلی کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے تھے اور اہلِ طرب اپنے جھمکڑے جدے ہی دکھلاتے تھے ؎
کہے تو کہ نزدیک اور دور سے
زمین و زماں بھر گیا نور سے
غرض جب برات دلہن کے گھر پہنچی تب پیشوا کے واسطے شہزادے امیر وزیر عمدہ بھاری بھاری پوشاک و لباس سے آئے اور دولھہ کو بہ اعزاز و اکرام جہاں مجلس شادی آراستہ تھی لا کر بٹھایا۔ از بس کہ بہ کثرت لخلخے جا بجا روشن تھے، وہاں کی ہوا نسیم بہشت کی رشک تھی۔ ہر ایک جاگہ بادلے کے خیمے بلند بلند کھڑے تھے۔ جگمگاتے فرش تمامی کے ان میں بچھے تھے۔ شمع دانوں میں مومِ کافوری کی بتیاں ایسی روشن تھیں کہ ان کی سفیدی سے سفیدۂ صبح گرد تھا اور روشنی کے آگے مہتاب خجالت سے زرد۔ وہ چمک تھی بلوریں جھاڑوں کے نور کی کہ ان کے آگے بے نور تھی روشنی طور کی۔ بسکہ انبوہ تھا تماشائیوں کا، باہم مل گئے تھے بیگانہ و آشنا اور دولھہ کی مسند کے دائیں بائیں مصاحب زری پوش برابر بیٹھے ایسے لگتے تھے جیسے چاند کے پاس تارے۔
القصہ مجلس کے تجمل کا بیان ہو نہیں سکتا کیوں کہ زبان قاصر ہے۔ غرض اربابِ نشاط میں سے ساز ملا کر ایک طائفہ مجرے کو اٹھا، جوں ہیں سارنگی کا لہرا چھڑنے لگا ووں ہیں اس میں سے ایک چھوکری شوخی سے نکلی اور اپنا ہنر جتانے لگی ؎
اٹھانا وہ ہاتھوں کا دے دے کے تال
وہ بونٹا سا قد اور وہ گھنگرو کی چال
کبھی تو پرملو ناچ کر ناز دکھاتی اور کبھی بجلی کی مانند لوٹ کر ہوا ہو جاتی۔ اِدھر یہ تو گت بھاؤ کا سبھاؤ دکھا رہی تھی، اُدھر نایکہ اوٹ میں اپنے تئیں بنا رہی تھی۔ کبھی تو دو گھونٹ حقے کی لیتی اور کبھی پان چبا کر ہاتھ کی آرسی دیکھتی۔ کبھو آستین کا چاک الٹ دیتی، کبھی مسکرا کر انگیا دیکھ لیتی۔ کبھو کنگھی سنوارتی، گاہے ابرو بناتی۔ کبھو در دامن کی چمک دکھا جاتی ؎
ادھر اور اُدھر رکھ کے کاندھے پہ ہاتھ
کبھو ناچنا اور گانا کبھی
چلے ناچتے آنا سنگت کے ساتھ
رِجھانا کبھی اور لٹانا کبھی
غرض ایک آن میں سیکڑوں ادائیں دکھاتی تھی اور اہل مجلس کے دلوں کو لبھاتی تھی ؎
وہ شادی کی مجلس، وہ گانے کا رنگ
وہ پھولوں کے گہنے، کناری کے ہار
وہ پیڑوں کے پتے پڑے ہر طرف
وہ جی کی خوشی اور وہ دل کی ترنگ
وہ بیٹھی ہوئی رنڈیوں کی قطار
غم دل جسے دیکھ ہو بر طرف
الغرض باہر کی مجلس کا تو یہ رنگ تھا اور محل میں ڈومنیوں کا ایسا ڈھنگ تھا۔ کبھی تو شادی مبارک کے کھڑے کھڑے ڈھول بجاتی تھیں، کبھی گہک گہک بدھاوے گاتی تھیں۔ اتنے میں رولا زنانی سواریوں کے اترنے کا ہوا اور ایک غٹ کا غٹ بیگمات کا پیشوا لینے گیا ؎
اترنے کی وھاں سمدھنوں کے پھبن
گلوں میں پنہانے وہ ہنس ہنس کے ہار
دکھاتیں وہ ہنس ہنس کے اپنا بناو
لگانا وہ گیندوں کا لے لے کے ہاتھ
کھلے پھول جیسے چمن در چمن
سٹا سٹ وہ پھولوں کی چھڑیوں کی مار
وہ آپس کی رسمیں، وہ آپس کے چاو
کھلے جانا گر گر کے چھڑیوں کے ساتھ
دم بدم ہنسی کے قہقہے، ہر آن نئے نئے چوچلے، تس پر ڈومنیوں کی تالیاں اور سہانی سہانی گالیاں ؎
غرض کیا کہوں تاب مجھ میں نہیں
چھکا ہوں نشے میں بہت ساقیا
کسی پر نہ ایسا ہو جو بار ہوں
نہ دیکھے گا عالم یہ کوئی کہیں
مجھے بدلے اب مے کے، شربت پلا
کہ پھر میں گلے کا ترے ہار ہوں