’’داستان عجم‘‘ کلکتہ میں 1933ء میں منعقد جشن فردوسی کی یادگار ہے۔ ’’خیابان‘‘، لکھنؤ کے اداریہ کے الفاظ ہیں کہ:
’کلکتہ میں خان بہادر نواب زادہ ابو الفیض محمد عبد العلی کا دم بھی بہت غنیمت ہے۔ آپ کی و نیز ادیب الملک نواب نصیر حسین صاحب خیال کی مساعی سے ایک انجمن ’بزم فردوسی‘ کے نام سے قائم ہوئی ہے جو نومبر میں فردوسی کا جشن ہزار سالہ منائے گی۔‘ (سبد گل (اداریہ) 1934، 413)
خیال نے اس موقع پر اپنا خطبہ پیش کیا تھا جس کی اشاعت پہلی بار ’’ہند جدید‘‘، کلکتہ کے 1934ء کے شماروں اور پھر ’’خیابان‘‘ میں ہوئی تھی۔ خیال کی رحلت کے بعد مدرسہ شمس الہدی، پٹنہ کے استاد حافظ ظہیر احمد شمسی نے شاد بک ڈپو، پٹنہ سے اسے رشید احمد صدیقی کے پیش لفظ کے ساتھ 1935ء میں شائع کیا تھا۔ بہزاد فاطمی نے لکھا ہے کہ اسے ان کی تجویز پر ’’داستان عجم‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔ (یہ فسانہ زلف دراز کا، 36) اس کا مکمل عنوان ہے: ’’داستان عجم یعنی تبصرہ بر شاہنامۂ فردوسی‘‘۔ یہ کتاب برقی مشین پریس، بانکی پور، پٹنہ میں طبع ہوئی تھی۔ کتاب 154 صفحات کی ہے جس کے آخری تین صفحوں پر اشتہارات ہیں۔ پہلا اشتہار شاد بک ڈپو کے ذریعہ ’’مکتوبات خیال‘‘ کی اشاعت کے سلسلے میں خیال کے لکھے یا ان کے نام لکھے خطوط کی دستیابی کے لئے ہے۔ اس کے بعد شاد عظیم آبادی کی کتابوں، ’’فکر بلیغ‘‘، ’’ظہور رحمت‘‘ اور ’’مادر ہند‘‘ کا اشتہار ہے۔ کتاب کے پہلے صفحہ پر خیال کی تصویر ہے جس کے اوپر سیماب اکبر آبادی کا یہ قطعہ درج ہے:
خاموش ہے کیوں مرثیہ خوان اردو
تھا ختم ابھی کہاں بیان اردو
نیند آ گئی داستاں سنانے والے
اب کس سے سنیں گے داستان اردو
نچلے حصے میں ظہیر عظیم آبادی کا قطعہ ہے۔
تصویر خیال کھینچتی ہیں آنکھیں
صد نقش کمال کھینچتی ہیں آنکھیں
ظاہر ہے ادیب ملک کے خامہ سے
کیا بال کی کھال کھینچتی ہیں آنکھیں
کلکتہ میوزیم میں سنہ 1933ء کے نومبر میں جشن فردوسی کا انعقاد ہوا تھا۔ اس کی تفصیل باب ’’خیال کے خطبات‘‘ میں پیش کی جائے گی۔ جیسا کہ عرض کیا گیا، خیال کی یہ کتاب اسی جلسے میں پیش کیا جانے والا خطبہ ہے۔ انھوں نے جلسہ اور خطبہ کی اشاعت کا ذکر انجم مانپوری کو لکھے ایک مکتوب میں یوں کیا ہے: ’’گذشتہ نومبر میں شاہنامہ و فردوسی پر ہمارا تبصرہ کلکتہ کے میوزیم میں پڑھا گیا تھا۔ ’ہند جدید‘ نے شاہنامہ کا ہفتہ منایا اور اس مضمون کو ۸ دنوں تک مسلسل شائع کیا۔ ضرورت ہے کہ وہ تبصرہ بہ اقساط ’ندیم‘ میں بھی شائع کیا جائے۔ ‘‘ سید مجتبیٰ حسین کو لکھتے ہیں کہ ’’دماغوں سے سر اس وقت بھی خالی نہیں ہیں۔ آپ کلکتہ میں ہوتے تو تماشہ دیکھتے۔ بڑے بڑے علما و فضلا، پروفیسرز، ادبا اور جید طلبا کس عالم میں تھے۔ ہند جدید کی اشاعت دونی ہو گئی۔ شاہنامہ اور فردوسی کو دنیا بھول چکی تھی۔ اب اس کی یاد تازہ ہو گئی، اور کیا چاہیے؟‘‘
’’داستان عجم‘‘ کے حصے اس کتاب کی اشاعت سے قبل ماہنامہ ’’خیابان‘‘ میں بھی شائع ہو چکے تھے جس کے مدیران اعزازی سید شہنشاہ حسین رضوی اور محمد حسن خان احسن طباطبائی تھے۔ اس کے شمارہ بابت ماہ جون 1934ء کے اداریہ کے الفاظ ہیں:
’ادیب الملک نواب نصیر حسین صاحب خیال نے شاہنامہ پر جو نوٹ تحریر فرمایا تھا اور جو ’خیابان‘ کی مسلسل چار اشاعتوں میں شائع ہوا، اب چھوٹی کتاب کی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔ نواب خیال نے اس پر نظر ثانی فرمائی ہے اور جا بجا حواشی کا اضافہ بھی فرمایا ہے۔ یہ ایک ٹھوس محققانہ مضمون ہے اور اردو لٹریچر میں ایک گرانبہا اضافہ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ذوق سلیم رکھنے والے اس کو قدر کی نگاہوں سے دیکھیں گے۔ اور نواب خیال کی اس خدمت کو ان کی بے شمار علمی و ادبی خدمات میں ایک موقر جگہ دیں گے۔‘ (نظریے (اداریہ)، 262-63)
’’خیابان‘‘ میں شائع مضامین کی تفصیل درج ذیل ہے:
جلد ۳، نمبر ۱، ۲، بابت ماہ جنوری فروری 1934ء: ’شاہنامہ‘ آہورا مزدا۔
جلد ۳، نمبر ۳، بابت مارچ 1934ء: ’شاہنامہ اور اس کے اثرات‘۔
جلد ۳، نمبر ۴ و ۵ بابت اپریل مئی 1934ء: ’شاہنامہ پر بیرونی اثر‘۔ ذیلی عناوین: چین کا فسانہ، گیاہ حیات، ریشم کا کیڑا، کارنامۂ کرشاسپ، دیو سفید، شاہ کاؤس کا بینا ہونا، ہند کی کہانی، گل بکاؤلی، زمین مصر، حضرت یعقوب، حضرت یوسف، پیل سفید۔
جلد ۳، نمبر ۶ بابت جون 1934ء: ’شاہنامہ ہند میں‘۔
کتاب ’’داستان عجم‘‘ کی ابتدا پروفیسر رشید احمد صدیقی کے تعارف سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد عباس شوشتری کا مقدمہ بہ زبان فارسی شامل کیا گیا ہے۔ شاد بک ڈپو کے مینیجر سید ظہیر احمد شمسی عظیم آبادی نے اس کے بعد احوال واقعی کے عنوان سے اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ یہ حصے اصل کتب کے علاوہ تیس صفحوں پر محیط ہیں۔
وسعت علم و خیال، کلاسیکی مشرقی ادب اور اس کے ثقافتی پہلوؤں کے انسلاکات اور انداز بیان کے معاملے میں خیال کی تمام تحریروں میں یہ کتاب بھی اہم ہے اور حیرت کی بات ہے کہ ان کے سلسلے میں جو کچھ بھی لکھا یا کہا گیا اس میں اس کتاب کا تذکرہ نہیں ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ ہم شعر و ادب اور اس کی تاریخ کے سلسلے میں کسی بھی ادیب کے خیالات سے متفق نہ ہوں لیکن یہ گنجائش تو رہتی ہے کہ ان خوبیوں کی نشاندہی کر دی جائے جو اس کا اختصاص ہے۔ خیال کے معاملے میں ایک صورت حال یہ بھی ہے کہ ان کی انشا، ان کے تبحر علمی، ان کے مقاصد اور ان کے خاص نقطۂ نظر کو الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سب ایک دوسرے سے ہم بست ہیں۔ ایک مرکزی تصور ہے جو مختلف نوعیتوں سے مختلف سانچوں میں ڈھلتا گیا ہے۔ یہ مرکزی تصور ہندستان کے خمیر سے، سنسکرت شعریات سے، مادر وطن کی فکری اور نظری روایتوں سے نمو پاتے ہوئے اپنے دامان خیال میں مکمل مشرقی ثقافت کو اپنا اسیر بنا لیتا ہے۔ اگر مشرقی شاعری اور خاص طور پہ اردو شاعری کو یہ پس منظر مہیا نہ ہوتا تو ہماری تحویل میں، مثال کے طور پہ، غالب کے اتنے رنگ نہ ہوتے۔ ستّر کے بعد کی دہائیوں میں اردو تنقید نے جن روشوں کو اپنایا ہے ان کے بعض ابتدائی اور نا پختہ نقوش ہمیں خیال کی تحریروں ملتے ہیں۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے اس کتاب کے تعارف میں کتاب کے سلسلے میں کچھ نہ لکھ کر محض خیال کی انشا پردازی کو اپنا موضوع بنایا ہے اور ’’داستان اردو‘‘ سے چند اقتباسات کو پیش کیا ہے جو اس میں ’آریوں کی آمد‘، ’مہابھارت‘، اور ’رام لیلا اور بھرت ملاپ‘ کے نام سے شامل ہیں۔ ایک اقتباس ’’داستان عجم‘‘سے بھی ہے جس میں خیال نے رستم و سہراب کا معرکہ ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔ مثالیں ان سے بہتر بھی موجود تھیں۔ صدیقی مرحوم نے لکھا ہے کہ انھیں ’’نواب مرحوم کی بعض ان تاویلات سے اتفاق نہیں ہے جو انھوں نے ’داستان اردو‘، ’داستان عجم‘ یا ’ہماری شاعری‘ میں پیش کی ہیں۔ نقد و جرح کا یہ محل نہیں ورنہ عرب و عجم، ایران و تاتار، فردوسی و انیس کے سلسلے میں بعض ایسے مباحث چھڑ گئے ہیں جہاں باوجود کوشش کے میں نواب خیال کے ساتھ ہم نورد نہ رہ سکا‘‘۔ (داستان عجم 1935، 10-11) اس کے باوجود اختتامی جملے قابل توجہ ہیں:
’(خیال) کی طبیعت مشرقی تھی، انداز مغربی۔ اردو پر جان دیتے تھے۔ اور اردو کی ہر بڑی تحریک سے اپنے کو وابستہ کرتے۔ اپنی خاندانی وجاہت اور امارت پر فخر کرتے تھے اور صحیح بھی ہے کی جس طرح اودھ میں انیس اور ان کے خاندان نے اردو کی پشتہا پشت خدمت کی، نواب مرحوم اور ان کے خاندان نے بھی مدت مدید تک بہار میں اردو کا علم بلند رکھا اور جس زمین کو انیس نے آسمان بنایا اس میں نواب مرحوم اور ان کے خاندان نے مہ و اختر چمکائے۔‘ (20-21)
خیال کی طبیعت مشرقی ہی نہیں، خالص ہندوستانی بھی تھی۔
’’داستان عجم‘‘ کی ابتدا باب ’آہورا مزدا‘ سے ہوتی ہے۔ اس میں عرب و عجم اور ایران و توران کی قدیم ثقافتوں کا ذکر کرتے ہوئے خیال دفعتاً اپنی اصل منشا کی طرف لوٹ آتے ہیں۔ غدر سے قبل کے ملکی حالات اور اس وقت کی ادب گردی کا ذکر کرتے ہوئے انیس کی مرثیہ نگاری موضوع بنتی ہے۔ پھر یکلخت عرب و ایران و توران سے اٹھ کر ملک عزیز کی مٹی کی خوشبوؤں میں سانسیں لینے لگتے ہیں۔
’جنگ کربلا میں روز عاشور (حضرت) علیؓ اکبر کی رخصت ہے۔ امام حسین ؑ کے سے باپ چشم پر آب ہیں۔ بیٹے کو لے کر خیمہ میں بہن (حضرت زینبؑ) کے پاس جاتے اور رخصت اکبر کا ذکر چھیڑتے ہیں۔ … امام کا مطلب سمجھ کر
بولی وہ عندلیب چمن پرور بتول
طرہ وہی ہے سر پہ مہیسر چڑھے جو پھول
اے فرزند رسول۔ ہاں اکبر کی جدائی کا غم ہو گا۔ مگر ان کے ایسے عزم پر سب نثار۔ سہہ لوں گی۔ آج کی یہ قربانی تو ہماری چادر عزت کا طرہ اور اس پھول سے مشابہ ہے جو مہیسر کے سر چڑھا ہو!
اب جب تک تم اپنی ملکی و مذہبی روایتوں کو نہ جانو اور اس ہندی ماتا کو نہ سمجھو جو اپنی عفت و عصمت کی بدولت دیوی بنیں اور پوجی گئیں، جن کی مورتی مہیسر کہلائی اور اس پر منت کے پھول چڑھنے اور مرادوں کے گیندے اترنے لگے، اس بیان کا کیا مطلب سمجھ سکتے اور کیوں کر اس سے اثر لے سکتے ہو!‘ (9)
اس کے بعد واضح انداز میں اپنا موقف بیان کرتے ہیں:
’اتنے بڑے قصہ سے ہمارے یہاں مہیسر کے پھول کا سا نازک محاورہ پیدا ہو گیا۔ ان دیوی پر جو پھول چڑھتا اور ان کے سر پر رہ جاتا وہ سب پر بالا (طرہ) شمار ہوتا۔ یہ ہمارا قدیم (ملکی و مذہبی) محاورہ عصمت مآب حضرت زینب ؑ کی زباں سے ادا کروا کے کس موقعہ پر یاد دلایا گیا۔ انیس کے اس مہیسر کو جانے بغیر افصح عرب کی نواسی کا کلام تم نہیں سمجھ سکتے، اور اس لئے اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے!‘ (10)
اس مثال کے بعد خیال یہ صراحت پیش کرتے ہیں کہ جس طرح کلام ہندی کے سمجھنے کے لئے اتنی نکتہ فہمی ضروری ہے اسی طرح فردوسی کے شاہنامہ کو اس کے جمشیدی جام، نوروزی صبح، ماہ و سال کی تقسیم، جام جہاں نما سی تقویم، دَہاک (معرب ضحاک) کے مار نما زخموں، زال و سیمرغ، رستم اور اس کے ہفت خواں، اس کے رخش (گھوڑے )، سہراب کے گلگوں (گھوڑا)اور ترکمانی کھیتوں کی اصالتوں کے علم کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ انھوں نے شاہنامہ میں شامل ایسے تمام عناصر کی بہت ہی دلفریب اور موثر تفصیلیں پیش کی ہیں۔ ان کی وجہ سے شاہنامہ کے اہم کردار اور واقعہ، اور اس کے پس پردہ موجود تاویلات کی وسیع دنیائیں زندہ و پائندہ ہو جاتی ہیں۔
’اس کتاب عجم کا اصل مقصد عجمیوں کی حرکت قلب کو تیز کرنا تھا۔ وہ مطلب تورانیوں اور ایرانیوں کی جنگوں کے بیان اور رستم کی غیر معمولی شجاعت اور وطن کی محبت اور اس کے دفاع میں اس کی طاقت و ہمت کے ذکر خیر سے پورا ہو گیا!‘ (76)
یہیں وہ عظیم ادب یا ادب عالیہ کی تخلیق کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’کتابیں کسی خاص غرض سے آتی ہیں اور اپنا کام کر جاتی ہیں۔ شاہنامہ کی بھی ایک غرض تھی۔ مردہ دل ایرانی اسے پڑھ پڑھ کر زندہ ہوئے اور اسے حفظ کر کے صدیوں کی غلامی سے آزاد ہونے اور عراقیوں کے پنجۂ ظلم سے نکلنے کی فکر کرنے لگے۔ اور اس میں وہ کامیاب ہوئے۔ (76)
’یونانی منطق و فلسفہ اور افلاطون و ارسطو کے نظریات نے جس طرح رومنوں اور عربوں کو ذہنی پستی کی جانب مائل کر دیا اسی طرح فارسیوں نے بھی اس ’شل کر دینے والے فلسفہ و منطق ‘ کا راگ الاپ کر ایران کو مدتوں کے لئے ٹھنڈا کر دیا۔ لیکن ان بد اعمالیوں کے بعد بھی شاہنامہ ایران میں اور طرح کچھ دنوں زندہ رہا۔ وہاں کے اہل حواس نے اس سے فائدہ اٹھایا اور اس کعبۂ ادب کے آگے سر جھکایا۔‘ (81)
سعدی، نظامی اور انوری کی شاہنامہ کے تئیں عقیدت کا بیان کرتے ہوئے وہ ان نشیب و فراز اور ذہنی قلاشیوں کی جانب اشارے کرتے ہیں جن کی وجہ سے ’ شاہنامہ‘ کی قدرو منزلت خود ایرانیوں کے یہاں کم ہوتی گئی۔
’فارسی ادب کا جوان پھر اپنی وردی میں نظر نہ آیا۔ صفویوں نے اس کا لباس اتارا، اور ان کے شاہ حسین نے تو اسے ننگا ہی کر دیا۔ اس وقت کے ادب نے فردوسی کے رستم دستاں کو سیستاں ہی میں نہیں، اصفہان میں بھی ہمیشہ کے لئے گاڑ دیا۔ آتش کدۂ ایران افغانیوں کے سے فُغانیوں کے ہاتھوں سے سرد ہو کر ماتم کدہ بن گیا۔ پھر ترکوں کی لکد کوب سے وہ اور اجاڑ ہوا، اور قاچار نے اسے لاچار کر دیا۔ صدیوں کے بعد اب ملک ملکیوں کے ہاتھ آیا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ پہلوی فارسی بن جائیں، شاہنامہ کھلے، رستم نکلے اور عجم تازہ دم ہو جائے۔‘ (83)
بنیادی طور پہ یہ کتاب خیال کے تاریخی شعور اور اس کے پس منظر میں ادب کی آفاقی قدروں کو خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتی ہے۔
’’داستان عجم‘‘ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں خیال نے مغربی محققین کے حوالے سے بعض کردار و واقعات کا موازنہ کلاسیکی مغربی ادب کے شاہکاروں سے کیا ہے۔ ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
’انگلستان کا شیکسپیر بھی ڈنمارک کی زمین پر یہی سین کھینچتا ہے۔ ہمارے یہاں خسرو کا باپ سیاوش قتل کیا جاتا ہے اور وہاں ہیملٹ کا باپ شاہِ ڈنمارک۔ شاہنامہ میں سیاوش کا قاتل اس کا خسر افراسیاب ہے، اور شیکسپیر کے یہاں شاہ ڈنمارک کا قاتل اس کا بھائی ہے۔ فردوسی خسرو کو دیوانہ بناتا اور اس کا معلم پیران ویسا کو بتاتا ہے، اور شیکسپیر ہیملٹ کو بری ارواح سے تعلیم دلوا کر پاگل بنا دیتا ہے۔ ہمارے یہاں خسرو کا مخاطب اس کا نانا افراسیاب ہے اور تمھارے یہاں ہیملٹ کا چچا، غاصب شاہ ڈنمارک۔‘ (48)
خیال نے اپنے تلازمۂ خیال کو مستند بنانے کے لئے عربی، فارسی اور انگریزی تصانیف کے حوالے پیش کیے ہیں۔ کیخسرو، لہر اسپ و گشتاسپ، رستم و سہراب، درفش کاویانی، تازی و فارسی، عرب و عجم، زردشت و مانی، ہندستان کی فارسی اور اردو شاعری پہ شاہنا مہ کے اثرات، شاہنامہ میں ہندی و چینی عناصر کی جستجو وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جن پر خیال نے بہت ہی لطیف پیرائے میں گفتگو کی ہے۔ ایک کامیاب انشا پرداز کی طرح ان کے یہاں موقع و محل کے لحاظ سے متنوع آہنگ بیان بھی موجود ہے۔ خیال کی رایوں سے اتفاق یا اختلاف کیے بغیر ان کے علم کی وسعت، باریک بینی، عمیق مشاہدوں اور حسن بیان کو مد نظر رکھا جائے تو یہ فیصلہ کرنا نا ممکن نہ ہو گا کہ ان کے اسلوب نگارش کے منفرد انداز و اطوار ہیں جن میں حسب موقع و محل اردو، فارسی، عربی الفاظ اور ان کے مختلف تلازمات کے ساتھ ہی ٹھیٹھ ہندی الفاظ و فقرے بر محل استعمال ہوئے ہیں۔ چند مثالیں دیکھیے:
’… تو شہزادہ بے اختیار جوشوں میں کھڑا ہو گیا۔ خیمہ سے اُپی تلوار لیے نکلا، گھوڑے پر بیٹھا، حملہ کا حکم دیا، فوج نکلی، بڑھی، دشمنوں پر جا پڑی۔‘ (33)
’کاوَہ نام کا ایک آہن گر تھا۔ اس نے اپنی جماعت تیار کی۔ علم بغاوت نکالا۔ اس کا پھُرہرا کاوہ کی بھاتی (وہ چمڑا جس سے لوہار آگ پھونکتے ہیں) کا تھا۔ علم کا نکلنا تھا کہ خلقت ٹوٹی اور اس کے ساتھ ہو گئی۔ کوہ البرز پر فریدوں اب جوان تھا۔ اس بغاوت کی خبر کسی طرح اسے بھی پہنچی۔ اپنے خاندان کے دشمن جمشید کے عدو اور اپنے باپ کے قاتل، غیر ملکی دَہاک سے بدلہ لینے نکلا۔ ہتھیار درست کیے۔ ایک گرز بنایا۔ اس پر اپنی پُرمایہ (وہ گائے جس کے دودھ سے پَلا تھا) کے سر کی نقل بنا کر بہ طور یادگار رکھی اور چلا۔ یہ گزر گاؤ سر تاریخی بنا۔ وہ نریمان کو عنایت ہوا۔ پھر سام و زال پاس رہا اور اخیر میں رستم کے ہاتھ میں آ کر بڑے بڑے معرکے سر کرتا رہا۔ فریدوں کاوہ سے ملا۔ عجمی ساتھ ہوئے۔ کاوہ اپنا علم لیے شہزادہ کے ہمراہ دَہاک پر چڑھا۔ وہ بھاگا۔ آخر پکڑا گیا۔ قید ہوا اور فریدوں شاہ ایران بنا۔ کاوہ کا وہ علم دُرفش کاویانی کے نام سے دنیا میں بلند نام ہوا۔ یہ دُرفش ایرانیوں کا قومی نشان تھا۔ وہ تورانیوں اور افراسیابیوں کے مقابلے میں بھی نکلتا اور اپنا اوج دکھاتا رہا۔‘ (53-54)
’شاہنامہ میں سیاوش کا حال دیدنی ہے۔ وہ آگ کی مصیبت سے چھوٹا تو سودابہ کے اور جالوں میں پھنسا۔ رانی کیکئی نے اجودھیا سے رام کو نکلوایا۔ انھیں بن باس ہوا۔ دکھن پہنچے۔ وہاں لڑے اور لڑائی جیتے۔ اور پھر گھر آ کر راج رجتے رہے! ایران میں سیاوش، سودابہ کے چرتر سے، افراسیاب کے مقابلہ پر توران بھیجا گیا۔ مصر میں بھی یہی ہوا۔ زلیخا نے (حضرت) یوسف ؑ کو آخر پھنسایا۔ قید ہوئے۔ رہے۔ کڑیاں جھیلے۔ چھوٹے تو افسر مصر اور زلیخا کے سرتاج بنے۔‘ (118-19)
ایسی عبارتیں ’’داستان عجم‘‘ ہی نہیں، ’’مغل اور اردو‘‘ اور ’’داستان اردو‘‘ کے ساتھ ہی مختلف مضامین میں بھی موجود ہیں۔ یہ کتاب خیال کے عمیق ثقافتی علم، ان کی نکتہ سنجی و زبان دانی اور ثقافتی فہم و بصیرت کی بہترین مثال ہے۔ اس سے قبل ’سخندان فارس‘ میں محمد حسین آزاد نے بھی ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی لیکن مصطلحاتِ شاہنامہ کو سمجھانے میں خیال نے نسبتاً دلچسپ انداز نگارش اختیار کیا ہے۔ پر وقار زبان میں ایران کی ثقافت کی تاریخ، فارس کے حالات اور فردوسی کی شاعری کے ثقافتی پہلوؤں پر یہ تبصرہ انشائیہ کا خوبصورت نمونہ بھی ہے۔ عرصہ قبل قدوس صہبائی نے خیال کے سلسلے میں کہا تھا کہ جن نقادوں اور اردو کے محققوں نے نواب نصیر حسین خیال پر کچھ لکھا ہے ان میں سے اب تک ان کی نظروں سے جو چار پانچ مضمون گزرے ہیں ان میں نواب موصوف کے اصل مقام اور طرز نگارش و اسلوب کسے متعلق مفصل بحث نہیں کی گئی ہے۔ لیکن ہر لکھنے والے نے یہ قدر مشترک تسلیم کی ہے کہ زبانوں کی تاریخ میں جب تک اردو زبان کا نام باقی رہے گا، نصیر حسین کا نام بھی ایک بے مثل ادیب کی طرح ہمیشہ زندہ رہے گا۔
’نواب ایک منفرد اور مخصوص طرز تحریر کے مالک تھے۔ اب تک مشکل ہی سے اس اسلوب اور طرز انشا پردازی میں لکھنے والا کوئی ادیب پیدا ہوا ہے۔ ان کی ایک خصوصیت یہ سمجھی گئی ہے کہ وہ اپنے مضمون کے لئے جو موضوع تلاش کرتے تھے اس کی نوعیت کے مطابق الفاظ استعمال کرنے پر انھیں بڑی قدرت حاصل تھی۔ …حسن ترتیب ان کے مضامین کی دوسری سب سے بڑی خصوصیت تھی۔ اس احساس توازن سے ان کی تحریروں کا حسن دوبالا ہو گیا ہے۔ الفاظ کی شوخی اور بانکپن کے باوجود عبارت میں بے انتہا سادگی اور روانی ایک پڑھنے والے کو پوری طرح محویت اور جذبیت کے عالم میں پہنچ جانے سے نہ روک سکتی تھی۔‘ (صہبائی، 39)
ٹھوس اور خالص علمی موضوعات پر دسترس کے ساتھ ہی انشا میں لطیف مزاح کا استعمال ان کی نثر کا بہترین وصف ہے۔ ’شاہنامہ‘ جیسی کتاب پر لکھنے کے دوران بھی ان کا یہ مخصوص انداز اپنی تمام تر جولانیوں کے ساتھ موجود رہا، اور جب اردو کے عہد طفلی سے اس کے شباب تک کے مراحل کا ذکر کرتے ہیں تو وہاں بھی یہ رنگ و آہنگ اپنی جلوہ سامانیاں بکھیرتا ہے۔ یہ درست ہے کہ خیال نہ تو محقق تھے اور نہ ہی نقاد لیکن شعر و ادب کے ثقافتی مطالعہ میں جتنی دوربینی اور گہرائی ان کے یہاں ملتی ہے اس کی مثالیں ان کے معاصرین میں کم ملتی ہیں۔ خیال کی تحریروں کا تقاضہ یہ ہے کہ ان میں موجود عظیم آبادیوں (یا بہاریوں) کے روزمرہ جس کے ٹکسالی بننے کے سلسلے میں پروفیسر صدیقی نے شبہات کا اظہار کیا تھا، ان کے محاوروں مثلوں، کنایوں، تلمیحوں، الفاظ کے محل استعمال، مترادفات کے نازک فرق، اظہار جذبات کے طریقوں، فصاحت کے رمزاور بلاغت کے نکات سے (3) بہرہ ور ہوا جائے اور ان کے جذبہ و خلوص کی صداقت کا اقرار کیا جائے۔ عبد الخالق نے خیال کو صاحب طرز ادیب تصور کرتے ہوئے ان کے یہاں محاکاتی اسلوب کی موجودگی کی نشاندہی کی ہے اور ان کی انشا پردازی کے جائزہ کے دوران یہ اظہار خیال کیا ہے کہ
’حقیقت یہ ہے کہ ایک بڑے اور کامیاب انشا پرداز کی انشا میں جو خصوصیات پائی جاتی ہیں، وہ تمام خصوصیات بدرجۂ احسن نواب صاحب کی انشا میں بھی موجود ہیں۔ یعنی، الفاظ کے تصرف میں سلیقہ مندی، جملوں اور عبارتوں کی ترکیب میں حسن ربط، تخیل کی شگفتگی و پرکاری، احساس کی لطافت جب ایک جگہ جمع ہو جاتی ہیں تو دلنشیں انشا کا ظہور ہوتا ہے۔ ان کی تحریر کی نمایاں خصوصیت شگفتہ بیانی ہے۔‘ (1984، 327)
پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ’’داستان عجم‘‘ میں خیال کا موازنہ محمد حسین آزاد سے کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خیال کے یہاں آزاد کے بمقابلہ وسعت زیادہ ہے۔ آزاد نے جو کہا، خیال نے اسی کو زیادہ گہرے رنگ اور زیادہ واضح انداز میں کہا ہے۔
’خیال کو میں بہار کا آزاد سمجھتا ہوں۔ خیال آزاد کے پیرو ہوں یا نہ ہوں لیکن وہ غیر شعوری طور پر اس وادی میں ضرور داخل ہو گئے ہیں جو آزاد کی دریافت کی ہوئی اور آزاد کی بسائی ہوئی تھی۔ خیال کو اس فضا میں عزت کی جگہ دی گئی۔ اور اس میں شک نہیں کہ خیال نے اس اعزاز کو نبھایا۔‘ (7)
ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ صدیقی صاحب نے آزاد کی زبان کو ٹکسالی اور زمان و مکان کی قید سے ماسوا تصور کیا اور خیال کے سلسلے میں عرض کیا تھا کہ خیال بہار کے تھے، بالقویٰ، بالطبع، باللسان اور بالانشا۔ وہ بہار کے مخصوص الفاظ، لب و لہجہ اور بول چال کو ٹکسالی میں لانا چاہتے تھے۔ ٹھیک طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ چیزیں ٹکسالی میں داخل ہو سکیں گی یا نہیں لیکن خیال نے ان کو اکثر و بیشتر جس خوبی و خلوص سے برتا یا نبھایا ہے اس سے تعجب بھی نہیں کہ کبھی ان کو ٹکسالی میں داخل ہونے دیا جائے۔ اسی کتاب میں ظہیر عظیم آبادی نے خیال کے یہاں نازک خیالی کی جلوہ سامانیوں کے ساتھ ہی معاملہ بندی کی خوبیوں کی جانب بھی اشارے کیے ہیں اور لکھا ہے کہ خیال ایک ہی وقت میں ابو الکلام آزاد کے طرز کے بھی مالک ہیں، اور محمد حسین آزاد کے انداز میں بھی ماہر ہیں۔ (3) اعجاز حسین کے یہاں بھی یہی صدائے بازگشت موجود ہے:
’نصیر حسین خیال جس پایہ کے نثر نویس تھے اس کا خیال کر کے اگر ان کو آزاد ثانی کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا۔ وہی دہلی کی ٹکسالی، نرم و شیریں زبان ہے، وہی روانی اور فصاحت ان کی بھی عبارت کی جان ہے۔ جس طرح آزاد روز مرہ اور عام فہم الفاظ سے تاثیر کا طلسم باندھتے تھے ویسی ہی ان کو بھی زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔‘ (مختصر تاریخ ادب اردو 1940، 214)
سالک لکھنوی اور عبد الخالق نے خیال پر مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا ابو الکلام آزاد، دونوں کے ہی اثرات کی نشاندہی کی ہے۔ اس ضمن میں سالک لکھنوی کا یہ بیان (1998، 175) توجہ طلب ہے کہ ’الہلال‘ کی اشاعت کے بعد اس کے آتشیں اداریوں نے بہت سے اصحاب قلم کو اپنا مقلد بنا لیا تھا، لیکن اسی روانی میں وہ یہ بھی فرماتے ہیں (176) کہ خیال مولانا محمد حسین آزاد کے طرز نگارش سے بھی متاثر نظر آتے ہیں۔
اس سلسلے میں توجہ طلب حقیقت یہ ہے کہ محمد حسین آزاد کے بر خلاف خیال کے مخاطبین میں تعلیم یافتہ طبقہ کے ساتھ ہی عوام الناس کی وہ جماعت بھی تھی جسے انشا کی سحر طرازیوں میں مبتلا رکھنے اور اس کے حسن و دلآویزی میں مسحور کیے جانے کے پہلو بہ پہلو یہ امر بھی اہم تھا کہ اس کی رگوں میں زندگی کی رمق، حرکت و عمل کا جوش و جذبہ پروان چڑھایا جائے۔ خیال کی دیگر تحریروں یا خطبوں کی مانند یہاں بھی یہی صورتحال ملتی ہے۔ ’’داستان عجم‘‘ میں فارس پر ’شاہنامہ‘ سے مرتب ہونے والے اثرات اور پھر ان اثرات کے زائل ہو جانے کا ذکر کرتے ہوئے خیال غزل گوئی اور تصوف کی جانب ایرانیوں کے رجحان کو موضوع بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب تک فارس کے حکمراں اپنی شخصیت کے غرور میں مست ہو کر قوم کو نہ بھولے تب تک ’شاہنامہ‘ کے اثرات قائم تھے۔ تیرھویں اور چودھویں صدی عیسوی کے دوران وہاں جس ادب نے سر ابھارنا شروع کیا اس میں ’شاہنامہ‘ اور اس میں موجود روایتوں کی پاسداری کا فقدان تھا۔
’شعرا، جن کا اصل کام انسان کے قوائے عقلی و ذہنی کو قوی کرنے اور ابھارنے کا ہے، وہ پستی کی طرف مائل ہونے اور مرد ایران کو عورتوں کا جامہ پہنانے لگے۔ رستم کا رخش اب میدان میں نہ تھا بلکہ اس وقت کے شعرا کا گھوڑا گُلوں پر یوں نازکی سے چل رہا تھا کہ اس کی پتیاں میلی نہ ہونے پائیں۔ ایرانی ہفتخواں کے فتح ہونے کا زمانہ گزر چکا اور ملک و قوم سے کہا جا تھا کہ
آہستہ خرام بلکہ مخرام
زیر قدمت ہزار جان است‘ (داستان عجم، 80)
چونکہ اس تعلیم کی وجہ سے وہ قوم اس جد و جہد سے نا آشنا ہوتی گئی جس میں دوڑ ایک لازمی عنصر ہے، اس لئے اس کے بعد ہی وہاں ’غزلوں کا طوفان اٹھا‘ جس کے زور میں ’قوائے عقلی کا شہباز ہوا ہو گیا‘۔ مزید یہ کہ ان غزلوں کو اس تصوف نے بھی مارا جس میں مردانگی کے عوض نسائیت اور پست ہمتی کا زہر بھرا ہوا تھا۔ اردو میں اسی روایت کی پاسداری کی گئی۔ ہندستان کی فارسی و اردو شاعری میں ’شاہنامہ‘ کی بجائے فارس کے ان خیالات کی تقلید کی گئی جن سے قومیں تنزل کی طرف مائل ہونے لگتی ہیں اور جو زندوں کو مردہ کر دیتے ہیں۔ لیکن اس کے بر عکس مراثی میں وہ قوت موجود ہے جو زندگی کی رمق سے آشنا کرتی ہے، متحرک اور فعال بنائے رکھتی ہے، اخلاق و کردار کی درستگی کرتی ہے اور زبان کی نگہداشت بھی۔ مزید یہ کہ انیس کے مرثیوں میں ہندوستان کی روح بھی بستی ہے۔
داستان عجم لکھنے کا مقصد
سید مجتبیٰ حسین کو لکھے ایک مکتوب میں ’’داستان عجم‘‘ یا تبصرہ بر شاہنامہ کے لکھنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے خیال کہتے ہیں کہ زردشت پہ سید طاہر رضوی نے انگریزی میں ایک کتاب لکھی تھی اور ان سے یہ فرمائش کی تھی کہ وہ اس کتاب پر تبصرہ لکھ دیں۔ تبصرہ تو انھوں نے لکھ دیا۔ فردوسی تقریبات کا اعلان بھی ہو چکا تھا۔ اس تبصرہ کو لکھنے کے دوران ہی انھیں ’تبصرہ بر شاہنامہ‘ کی ضرورت بھی محسوس ہوئی۔
’پروفیسر طاہر سلمہ نے اشو (حضرت) زردشت پر ایک رسالہ انگریزی میں تدوین کیا ہے۔ وہ مجھ سے اس پر ریویو کے خواہاں ہوئے۔ میں نے کہا کہ قدیم تاریخ ایران کو جانے بغیر زردشت سمجھ میں نہیں آ سکتے اور اسی نا سمجھی سے ان کا سا پیامبر غلط فہمی کا شکار ہو گیا۔ اور علمائے متاخرین کی جہالت نے انھیں کچھ اور بتا دیا۔ اس لئے پہلے عجم قدیم کو سمجھنا چاہیے اور عجم قدیم شاہنامہ پہ نظر ڈالے بغیر سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ اس لحاظ سے مجھے شاہنامہ کو سلجھانا اور اس پر تبصرہ کرنا پڑا۔ یہ ہے شان نزول ھذ الکتاب!‘ (ارشاد 1981، 243)
مزید فرماتے ہیں کہ یہ مضمون اس طرح لکھا گیا جیسے کوئی اپنے دوست کو خط لکتا ہے۔ اسے قلم برداشتہ لکھا گیا تھا۔ اس تبصرہک و خیال کے انتقال کے بعد ’نگار‘ نے شائع کیا تھا۔ متذکرہ تبصرہ کے سلسلے میں وہ اپنے احباب کو مطلع فرماتے ہیں تو اس کے مطالعہ کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ اسی خط میں انھوں نے کتاب لکھنے کے اپنے منصوبہ کا ذکر یوں کیا ہے:
’آپ طاہر وغیرہ سے دریافت کر لیں کہ یہ مضمون اس طرح تحریر ہوا جیسے کوئی کسی دوست کو خط لکھتا ہے۔ طاہر پارٹی حیرت زدہ تھی، خیر۔ یہ قلم برداشتہ تحریر ہوا۔ اب اگر کتابی صورت میں شائع کیا جائے تو توجہ کے ساتھ اسے درست کر دوں۔ میں نے طاہر کی کتاب زردشت پر بھی بہ یک نشست ریویو لکھ کر ان کے حوالے کر دیا۔ وہ ایک دوسری قابل لحاظ چیز ہے۔ مذہب سے متنفر یا اسے غلط سمجھنے والے اس مضمون سے بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘ (243)
نبیرۂ سید غلام حسین خاں صاحب سیر المتاخرین سید طاہر رضوی (1906ء تا 1947ء) ولد سید محمد عسکری رضوی (حسین آباد) سے خیال کے گہرے مراسم تھے۔ وہ پریزیڈنسی کالج، کلکتہ میں 1921ء میں داخل ہوئے اور تعلیم سے فراغت کے بعد کچھ دنوں تک کلکتہ کے اسلامک کالج (کلکتہ مدرسہ)میں استاد بھی رہے۔ پروفیسر سید مظفر الدین ندوی نے اپنی کتاب A Comparative Study of Islam and Other religionsمیں انھیں اسلامک کالج کا رفیق کار کہا ہے۔ طاہر رضوی کی کتاب کا نام Parsis: a people of the Book: Being a Brief Survey of Zoroastrian Religion in the Light of Biblical & Quranic Teachingsہے۔ یہ کتاب کلکتہ سے 1928ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس میں انھوں نے انجیل اور قرآن کریم کے ساتھ ہی خلفائے راشدین کے حوالے سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ زردشتیوں کی کتاب زند اوستا آسمانی کتاب ہے اور اس لحاظ سے یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کی مانند زردشتی بھی اہل کتاب ہیں۔ نقی احمد ارشاد نے طاہر رضوی کی تین اور کتابوں کے نام لکھے ہیں: یکسانی ٔعقائد اسلامی و کیش زردشتی، یگانیت آیات قرآنی و گاتھا، اور ایران بہ اسلام۔ (کاروان رفتہ 1995، 57) کلکتہ میں جشن فردوسی کا انعقاد 1933ء میں ہوا تھا اور خیال اس کے منتظمین میں سے تھے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ طاہر رضوی کی کتاب کا تبصرہ لکھنے کے فوراً بعد ہی فردوسی پر خطبے کی تیاری کا آغاز بھی ہو گیا تھا جو ان کی رحلت کے بعد ’’داستان عجم‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ خیال نے مجتبیٰ حسین کو لکھا تھا کہ:
’آپ کو علم ہے کہ ہمارے کلام کا ہمیشہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ اس تبصرہ کا بھی کوئی مطلب ہے، اور وہ میں نے حاصل کر لیا۔ فردوسی ایک بہانہ تھا۔ اسے پیش کر کے میں بہت کچھ کہہ گیا۔ دماغوں سے سر اس وقت بھی خالی نہیں ہیں۔ آپ کلکتہ میں ہوتے تو تماشہ دیکھتے۔ بڑے بڑے علما و فضلا، پروفیسرز، ادبا اور جید طلبا کس عالم میں تھے۔ ہند جدید کی اشاعت دونی ہو گئی۔ شاہنامہ اور فردوسی کو دنیا بھول چکی تھی۔ اب اس کی یاد تازہ ہو گئی، اور کیا چاہیے؟‘ (ارشاد 1981، 242)
خیال نے کئی مکتوبات میں اس تبصرے اور خطبے کے ذکر کے دوران اس پہلو پہ اصرار کیا ہے کہ شاہنامہ کی توضیح و تشریح میں ان کے ذریعہ مجتہدانہ رنگ اختیار کیا گیا ہے۔ نقی احمد ارشاد نے لکھا ہے کہ خیال خود طاہر رضوی سے متاثر بھی تھے۔ علامہ جمیل مظہری نے بھی طاہر رضوی اور مولانا ابو الکلام آزاد کے ذکر کے دوران لکھا تھا کہ پارسیوں کو اہل کتاب ثابت کرنے کے سلسلے میں ان کے دلائل کے مولانا بھی معترف تھے۔ ’شاہنامہ‘ کے سلسلے میں خیال کے یہاں مختلف مباحث میں ایسے موضوعات بھی سمٹ آئے ہیں جن میں شیعہ حضرات کے درمیان موجود بعض مذہبی روایتوں پر مختلف زاویۂ نگاہ سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان کا تصور تھا کہ یہ کتاب تاریخ اسلام میں ایک انقلاب کی نقیب ثابت ہوئی۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بعض مذہبی (شیعہ) معتقدات کی انھوں نے جس طرح تعبیریں پیش کی ہیں وہ عقائد عام سے الگ ہیں۔ کہتے ہیں کہ’ آج تک سمجھا جاتا ہے کہ جنگ صفین میں امیر المومنینؓ کے لشکر پر پانی بند کرنے کے صرف امیر معاویہ گناہگار ہیں۔ میں نے لطیفہ لطیفہ میں ثابت کر دیا کہ ایسا گناہ عربوں کی خو ہے۔‘
خالی کلمہ پڑھ لینے اور مسلمان لقب پا جانے سے کسی فرد و قوم کی خو نہیں بدل سکتی۔ اور اہم تاریخی نکتوں کے ساتھ یہ بھی حل کر دیا گیا کہ عرب و عجم کی یہ جنگ سیاسی تھی نہ کہ مذہبی۔ دوسرے یہ کہ عجم ہزاروں سال سے خدا پرست و موحد اور زردشت کا پیرو تھا۔ ان سے اہل کتاب کا سا سلوک کرنا واجب تھا نہ کہ بت پرستوں یا ملحدوں کا سا۔‘ (ارشاد 1981، 242)
اسی خط میں اس پہلو پہ بھی غور کرنے کے لئے کہتے ہیں قرآن پاک کی تفاسیر میں موجود عام روش کے خلاف سورۃ والتین کے صحیح معنی اس لیے یوں پیش کر دیے گئے ہیں کہ لوگ دیکھیں ’کہ احمقوں اور بے علموں نے قرآن کے معنی بیان کرنے اور اس کی تفسیر ارشاد فرمانے میں کیسی جہالتوں سے کام لیا اور قوم کو گمراہ کیا ہے۔‘
دو معنی لفظوں کو جب یہ حضرات سمجھ نہیں سکتے تو کلام الٰہی کے سمجھانے کا کیا دعوی کر سکتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں ایسے مترجمین و مفسرین کے دام میں نہیں آتا۔ اس لئے کہ میں ان سے بہت زیادہ جانتا ہوں۔‘ (ارشاد 1981، 244)
کتاب کے اولین حصے میں ہی سورۃ والتین کی اولین پانچ آیتیں پیش کرنے کے بعد یہ لکھا ہے کہ:
’جب تک تین و زیتون کی تاریخ اور رحمت بھری شامی پہاڑیوں سینا کی برق ادا لن ترانیوں کو نہ سمجھو، دماغوں میں وہ تجلی کیونکر آئے گی کہ کوہ ابو قیس کے دامن میں بسے ہوئے ایک امین کے پرامن شہر کی بزرگی کو سمجھ سکو اور کعبۂ مقصود تک پہنچ سکو۔‘ (داستان عجم, 7)
خیال کہتے ہیں کہ تین اور زیتون پھلوں کے نام نہیں بلکہ شام میں ان ناموں کے پہاڑ ہیں جہاں بنی اسرائیل کے بیشتر نبیوں نے پناہ لی تھی۔ اس سورہ میں کوہ طور کی رعایت سے وہ مقدس پہاڑیاں یاد کی گئی ہیں۔ اس کے حوالے کے طور پہ انھوں نے عبرانی میں لکھی سلیمان ربی کی ’تفسیر توراۃ‘ کے فرانسیسی ترجمہ کا حوالہ دیا ہے۔ اسی طرح رسوم محرم کے آغاز کو وہ قدیم ایران کے سیاوشی میلہ سے جوڑ کر دیکھتے ہیں جس میں سودابہ (سیاوش کی سوتیلی ماں ) کی اس کے تئیں جنسی کشش، سیاوش کا انکار کرنا اور پھر سودابہ کا اس پر الزام لگانا یہاں تک کہ بے گناہی ثابت کرنے کے لئے شاہ کاؤس اسے الاؤ میں کودنے کے لئے کہنا، اور بعد ازاں افراسیاب کے ذریعہ قتل کر دیے جانے جیسے واقعات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
اس سیاوش کی ایمانداری، مردانگی اور پھر افراسیاب کے ہاتھ اس کے بے وجہ قتل کا وہاں مدتوں چرچا رہا۔ دس دنوں تک سالانہ ایک میلہ ہوتا جہاں سیاوش کا رجز پڑھا جاتا اور یوں عجم تازہ دم رکھا جاتا۔
ایران پر مسلمانوں کے قبضہ کے بہت بعد تک یہ سیاوشی میلا وہاں جاری رہا لیکن حسن صباح کے وقت اس کا بازار سرد پڑا اور حسینیوں اور فدائیوں کے زمانہ میں اس کے عوض ایران میں عشرۂ محرم قائم ہو گیا۔ (120)
اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے خیال متذکرہ خط میں لکھتے ہیں کہ
’آپ اس پر بھی نظر کریں کہ میں نے محرم کی ابتدا کیونکر بتا دی اور اس کی اسپرٹ کو کس طرح سلجھا دیا اور پھر عَلم کو دنیا کے آگے کن لفظوں میں کھڑا کر دیا۔ محرم اور علم کے طرفداروں سے ذرا پوچھیے کہ وہ ان کی تاریخ بھی جانتے اور اس کے مقصد سے بھی آگاہ ہیں؟ غرض یہ مضمون شاہنامہ پر محض تبصرہ نہیں بلکہ عرب و عجم پر تبصرہ ہے۔ خدا کرے اب بھی لوگ سمجھیں اور گمرہی سے بچیں۔‘ (ارشاد 1981، 244)
یہ تعبیر کی مختلف صورت تھی جو اکثریت کے لئے ناقابل قبول رہی ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ خیال کی زیادہ تر تحریروں میں یہ رنگ موجود ہے جس سے اتفاق یا اختلاف اپنی جگہ پہ، اس کی اختراعی صورتوں سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ نئی اور عموماً چونکانے والی باتیں کہا یا لکھا کرتے تھے تا کہ مخاطبین ان کے پورے کلام کو بغور سن کر یا پڑھ کران کے پیغام پہ غور بھی کر سکیں۔ مزید برآں، یہ پوری کتاب خیال کے اسلوب نثر کی بہت ہی عمدہ ترجمانی بھی کرتی ہے کیونکہ یہ ان کی عمر کے اخیر حصے کی تصنیف ہے۔ خیال کی نثر نگاری کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ تاریخ و ادب کے ادق پہلوؤں کو بھی دلچسپ اسلوب میں پیش کرنے پہ قادر ہے۔ ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
’ایشیا میں رسرچ یعنی کرید کا مادہ ہمیشہ کم رہا ہے۔ ہند بہ ایں علم و ہوش جب فن تاریخ سے بے خبر رہا تو ایسی تحقیقات جو حقیقتاً فلسفہ تاریخ ہیں، اس کی قدرت سے باہر تھیں، عربوں میں بیشک اس کا مادہ تھا، لیکن ان کے عروج اور دماغی صلاحیت کا زمانہ اپنے مذہب کی خدمت میں صرف ہو گیا۔ علم سینا (یعنی علوم و فنون متعلق بہ چیں )یا اور ایسے دوسرے علوم پر وہ کیا نظر کرتے، اس لئے اس علم سے وہ لا علم رہے اور شاہ نامہ پر نظر نہ کر سکے۔ رہے ایرانی، وہ اس کے اہل ہو سکتے تھے۔ شاہ نامہ ان کی قومی چیز تھی۔ اس کے معنی و مطلب کے سمجھنے اور سمجھانے میں دہ دریا بہا دیتے لیکن نقلیات میں وہ عربوں کے مرید و نقال بنے اور عقلیات میں ارسطو کے شاگرد ہو گئے۔ دماغ کی اس کروٹ نے جلدی انھیں سلا دیا۔ شاہ نامہ کا ازبر کر لینا اور اس سے ایک ہیجان و جوش میں آ جانا انھوں نے کافی جانا اور اپنی کتاب کے فلسفہ کو بھول گئے۔ ان کے مختلف مسلک و اعتقاد اور ان کی اقسام کی طرح ان کی شاعری بھی زیادہ تر ہیجانی یعنی ایموشنل تھی۔ اس لئے وہ شاہنامہ کی سی مسلسل و سنجیدہ تصنیف پر کیا نظر کرتے۔ اور اس لئے فارسی تذکرے عام طور پر شعر و شادی کی اس بحث میں پڑ گ ئے جو سطحی و لباسی تھی۔ اس کی روح و پیکر پر نہ نظر گئی اور نہ اس وقت جا سکتی تھی۔ موجودہ ہند اسی فارسی شاعری، فارسی تذکروں اور فارسی دماغوں کا جوہر آور مرید و مقلد ہے اور بس۔ اس لئے یہاں کے تذکروں میں ایسی چیزوں اور خصوصاً شاہنامہ کے فلسفہ کی تلاش بے سود ہے۔‘ (شاہنامہ پر بیرونی اثر 1934، 205-6)
1۔ طاہر رضوی نے اپنی کتاب کے دیباچہ میں پریزیڈنسی کالج کے پروفیسر شمس العلما خان بہادر ہدایت حسین (کتاب کا پیش لفظ بھی انھوں نے لکھا ہے )، مولانا سید محمد حیدر، کلکتہ یونیورسٹی کے آغا محمد کاظم شیرازی کے تئیں اظہار تشکر کے ساتھ ہی جمیل مظہری کاظمی کا بطور خاص ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کتاب کی تالیف کے دوران ان کی خاص عنایتیں شامل حال رہیں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ’نگار‘ نے شائع کیا تھا۔ نصیر حسین خیال نے اسی کتاب پہ تبصرہ لکھا تھا۔ اسے بھی ’نگار‘ نے ’اشو زردشت‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا۔ نقی احمد ارشاد نے لکھا ہے کہ خیال نے اکتوبر 1934ء میں کلکتہ سے (آخری) روانگی سے قبل اپنا ادبی سرمایہ پروفیسر رضوی کے حوالے کر دیا تھا۔
٭٭٭