اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حیدر آباد کے قیام کے بیس برسوں کے بعد جب ایک پراجیکٹ کے تحت میری تحریر کردہ ایک سو نظموں کا مجموعہ ’’دست برگ‘‘ چھپا تو اس پر ایک ذاتی خط میں ڈاکٹر کالیداس گپتا رضاؔ نے لکھا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ فارسی عروض کی قربانی دئے بغیر، اردو میں بلینک ورس کے لیے ’رن آن لاینز‘ کی یہ سہولیت، وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت تھی، جسے آپ نے پورا کیا ہے۔ آنے والا مورخ جب اس کا لیکھا جوکھا کرے گا تو اردو کی آزاد نظم پر آپ کے اس احسان کو سراہا جائے گا۔‘‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کتاب کے ’’اختتامیہ ‘‘ میں بھی یہ رائے ظاہر کی کہ اگر اس چلن پر اردو کی آزاد نظم چل سکی تو یہ قدم مستحن قرار پائے گا۔‘‘ ڈاکٹر وزیر آغا نے پنے ایک مکتوب میں ایک نہایت دلچسپ انکشاف کیا۔ انہوں نے لکھا۔ ’’آپ کے کہنے پر میں نے ایک آدھ گھنٹہ اس بات پر صرف کیا کہ 1970 ء سے پہلے کی اپنی نظموں کو نکال کر آٹھویں یا نویں دہائی یا اس کے بعد میں لکھی گئی نظموں کے مد مقابل رکھ کر دیکھا تو واقعی یہ معلوم ہوا کہ میں نے بھی کوئی شعوری فیصلہ کیے بغیر (یعنی کلیتاً لا شعوری طور پر) اپنی نئی نظموں میں رن آن لاینز کا چلن اپنا لیا تھا، لیکن یہ بات مجھے آپ کے استفسار کے بعد معلوم ہوئی اب میں خود سے پوچھ رہا ہوں۔ ستیہ پال آنند صاحب کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے یا نہیں ؟‘‘ میرے دیگر نظم گو دوستوں میں احمد ندیمؔ قاسمی، (مرحوم) ضیاؔ جالندھری(مرحوم)، بلراج کوملؔ، نصیر احمد ناؔ صر، علی محمد فرشیؔ اور کئی دیگر احباب نے بھی اس رویے پر مجھ سے اتفاق کیا اور اپنی نظموں میں اس چلن پر صاد کیا۔
ماہنامہ ’’صریر‘‘ کراچی میں شامل ہوئے میرے ایک مضمون پر رد عمل کے طور پر ایک صاحب نے (نام بھول گیا ہوں، کیونکہ میں اپنی اس برس کی ڈائِری سے یہاں نقل کر رہا ہوں ) ماہنامہ ’’ صریر‘‘ کے ہی فروری 2004 کے شمارے میں ان نکتوں کی شیرازہ بندی ا ان الفاظ میں کی۔ ’’ان تفصیلات پر بحث کے لیے کچھ اہم نکات کو دہرا دینا مناسب ہے [۱] مروج عام بحور جو سالم ارکان پر مشتمل ہوں آزاد موشح (ان کا مطلب تھا ’’آزاد نظم‘‘ )کی تخلیق کے لیے موزوں ہیں یا ایسی مزاحف بحریں جن کے دو ارکان کے درمیان تین متحرک حروف مل کی ایکیونٹ بنا دیں، بھی جائز و موزوں ہیں۔ [۲] آزاد نظم کے مصرع کو سطر کہنا چاہیے [۳] آزاد نظم کا کوئی مصرع خود کفیل نہیں ہونا چاہیے۔ اور [۴] صوتی اعتبار سے ما قبل مصرع کا اگلے مصرع میں انضمام ضروری ہے۔‘‘
اس زمانے میں بھی اور آج بھی کئی بار خود سے یہ سوال پوچھنے کی جرات کرتا رہا ہوں کہ آج تک، یعنی اکیسویں صدی کی ایک دہائی گذرنے کے بعد بھی، اردو کا نظم گو شاعر غزل کی روایت کے اس مکروہ اثر سے کیوں آزاد نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی سطروں کی تراش خراش میں رن آن لاینز کے چلن کو روا رکھ سکے۔ اور نظم کی ’ سطر‘ کو سطر ہی سمجھے، ’ مصرع‘ نہیں۔ ان دو باتوں کو الگ الگ پلڑوں میں رکھ کر بھی تولنے کا اہلیت مجھ میں ہے۔
(الف) کیا مقفیٰ اور مسجع نظموں کی غنائیت اور نغمگی، حسن قافیہ کی سحر کاری اور بندش الفاظ نگینوں میں جڑی ہوئی شوکت و رعنائی اس صنف کو ’’آزاد نظم‘‘ یا ’’نظم معرا‘‘ سے ممتاز بناتی ہے ؟
(ب) کیا غزل کے روایتی ’’فارمیٹ‘‘ سے مستعار اردو شاعروں کی یہ عادت ثانیہ کہ وہ نظم کی ’سطر‘ کو بھی ’مصرع‘ سمجھتے ہیں اور ایسا کرنے سے وہ نظم کی آزادی، یعنی اس کے مضمون اور اس کے شعری اظہار کی لسّانی اور اسلوبیاتی تازہ کاری کی قربانی نہیں دیتے ؟ اور۔۔۔
(ج) کیا مقفیٰ اور یکساں طوالت کی سطروں پر مشتمل پابند نظموں میں یا ان آزاد اور معرا نظموں میں جن میں ’سطر‘ مصرع کی صورت میں وارد ہوتی ہے، اور رن آن لاینز کا التزام اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ’سطر‘ کے بیچ میں ایک جملے کے مکمل ہونے سے حسن شاعری کو ضرب پہنچتی ہے، ان امیجزimages کی قربانی نہیں دینی پڑتی، جو رمز و ایمائیت کی جمالیات سے عبارت ہوتے ہیں اور علامت و استعارہ کے حسین جھالروں والے پردے کے پیچھے سے نیمے دروں نیمے بروں حالت میں پوشیدہ یا آشکارہ ہوتے ہیں۔
آخری بات فارسی عروض کے بارے میں ہے جو اردو کے گلے میں ایک مردہ قادوس Albatross کی شکل میں لٹک رہا ہے۔ ( استعارے کو سمجھنے کے لیے کالریج کی نظم Ancient Mariner دیکھنی پڑے گی)۔۔۔ مجھ جیسے کم فہم اردو دان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ صوتی محاکات کے حوالے سے یہ عروض اردو کی جملہ سازی کے لیے ناقص ترین ہے۔ کیونکہ عربی اور فارسی کی نسبت اردو کی جملہ سازی واحد و یگانہ ہے۔ غالب کے صرف ایک مصرعے کی تقطیع سے اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے
۔ ؎ سب کہاں ؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں۔۔۔ (فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن فاعلن۔ بحر رمل)
پہلے صوتی محاکات دیکھیں اور پھر تقطیع کا جوکھم اٹھائیں۔ ’’سب کہاں ‘‘ (انحرافی استہفامیہ ) یعنی ’’سب نہیں ‘‘۔ ’’سب کہاں ؟‘‘ (بشمولیت سوالیہ نشان )کے بعد اردو قواعد کی رو سے سکون، یعنی ساکن حرف کی علامت، جزم کا ہونا مسّلم ہے۔ اب تقطیع کرتے ہوئے مجھے بہت کوفت ہوئی۔ سب کہاں کچھ (فاعلاتن) یعنی (سب=فا ؍کہاں = علا؍کچھ = تن) اگرنثر میں لکھا گیا ہوتا تو یہ جملہ یوں ہوتا، سب کہاں ؟ کچھ۔۔۔ ’کچھ‘ ہندوی ہے اور صفت کے طور پر تعداد میں ’چند‘ کے معنی میں آتا ہے۔ ’’سب کہاں کچھ‘‘ کو ’فاعلاتن‘ کی ایک ہی بریکٹ میں اکٹھا کرنے سےا ایک پیہ م، لگاتار، دوڑ لگاتا ہوا جملہ، ’’سب کہاں کچھ؟‘‘ بن گیا، ’ اور ’ یعنی‘‘ سے ’’لا یعنی‘‘ ہو گیا۔ جملے کا باقی حصہ یہ ہے۔ ’’لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں ‘‘۔ اس جملے میں ’’لالہ و گل‘‘ کے بعد کا لفظ یعنی ’’میں ‘‘ گرائمر کی زبان میں، ہمیشہ (ظرف مکان ہو، یا ظرف زمان)، مفعول فیہ کے بعد آتا ہے۔ یعنی ’’میں ‘‘ کا تعلق مابعد کے لفظ سے نہیں، بلکہ ما قبل کے لفظ سے ہے۔ گویا ’’لالہ و گل میں ‘‘ ایک قابل فہم جزو ہے، نہ کہ ’’میں نمایاں ‘‘ جو کہ لا یعنی ہے۔ لیکن، اب پھر ایک بار تقطیع کریں۔ لالہ و گل (فاعلاتن) میں نمایاں (فاعلاتن) ہو گئیں (فاعلن)۔۔۔ گویا جس بدعت کا ڈر تھا، وہی ہوئی۔ عروض کے اعتبار سے ہم نے مفعول فیہ کے بعد آنے والے اور اس سے منسلک لفظ ’’میں ‘‘ کو اس سے اگلے لفظ کے گلے میں باندھ دیا۔ عروض کی ضرورت تو پوری ہو گئی لیکن جملے کا خون ناحق ہو گیا اور اس قتل عمد کی ذمہ داری ان سب پر ہے جنہوں نے ہندوی چھند اور پِنگل سے منہ موڑ کر فارسی عروض کو اپنایا۔
ایک سچا واقعہ یاد آتا ہے جو فیض احمد فیضؔ سے سنا، (اور شاید مرحوم فیضؔ نے کہیں لکھا بھی ہے ) کہ ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس میں جب فیضؔ ترکی کے شہرہ آفاق شاعر ناظم حکمت سے ملے تو باتوں باتوں میں (ترکی زبان پر فارسی کا اثر دیکھتے ہوئے )، بزعم خود فیضؔ نے کہا کہ اردو شاعری فارسی عروض کے مطابق لکھی جاتی ہے تو ناظم حکمت نے طنزیہ لہجے میں پوچھا، ’’تو کیا ہندوستان کی اتنی قدیم تہذیب اور لٹریچر میں شاعری کا اپنا کوئی عروض نہیں ہے جو آپ اردو والوں کو ایک بدیسی زبان کے عروض پر انحصار کرنا پڑا ہے ؟‘‘ یہ سوال سن کر فیضؔ کی جو حالت ہوئی ہو گی وہ مجھ پر عیاں ہے۔ وہ اردو عروض کی بڑائی کرتے ہوئے دو باتیں بھول گئے، ایک تو یہ کہ وسط مشرق اور خلیج کے ممالک کے بارے میں ترک لوگ بے حد منفی اثرات رکھتے ہیں، اور دوئم یہ کہ ایران اور عراق کے کلچر اور ثقافت سے ترک اشرافیہ اور عوام کو خدا واسطے کا بیر ہے۔