٭٭ امریکہ عراق سے اپنی فوجوں کی واپسی کا ٹائم ٹیبل دے۔برطانوی وزیر خارجہ سے ملاقات کے بعداقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کوفی عنان کا بیان ۔ (اخباری خبر)
٭٭امریکہ کو جب تک عراق میں ویت نام جتنی مار نہیں پڑے گی تب تک اسے سمجھ نہیں آئیگی۔اس لئے ابھی اسے مار پڑنے دیں ۔بتدریج عالمی سطح پر امریکہ نہ صرف تنہا ہوتا جا رہا ہے بلکہ اپنی عالمی ساکھ بھی برباد کرتا جا رہا ہے۔طاقت کا گھمنڈ انسانوں کو ایسے ہی مقامات سے گزار کر عبرت کا نشان بنایا کرتا ہے۔فی الحال تو ایک ہی بات پکی ہے کہ کوفی عنان اگلے دورانیہ کے لئے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نہیں بن سکیں گے۔ اتنی اخلاقی جرات کی اتنی سزا تو ملنی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ امریکی عوام کو بتایا جائے کہ عراق میں امریکی فوج کب تک رہیگی(امریکی سینیٹر کا مطالبہ)
٭٭ امریکی سینیٹ میں امور خارجہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر جوزف بیڈن نے امریکی صدر بُش سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی عوام کو بتائیں کہ امریکی فوج کب تک عراق میں رہے گی۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر صدر بُش نے وقت کا واضح تعین نہ کیا تو وہ اگلے صدارتی الیکشن میں ناکام ہوں گے۔اس خبر سے امریکہ کے اندر بڑھتی ہوئی بے چینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن صدر بُش جو چاہے کرلیں اگلے الیکشن میں انہیں عوامی تائید تو کیا پچھلے الیکشن کی طرح کوئی عدالتی سپورٹ بھی صدر نہیں بنوا سکے گی۔خدا نے چاہا توتیل کے عالمی قزاقوں کو تیل کی قیمت عراقی عوام کے ساتھ امریکی فوجیوں کے لہو کی صورت میں ہی ادا کرتے رہنا ہو گی۔اور تیل پھر بھی ان کے لئے تاجرانہ منفعت کا موجب نہیں بن سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پاکستانی وزیر داخلہ فیصل صالح حیات کی برطانیہ میں آمد ۔۔ ائر پورٹ پر جامہ تلاشی اور پون گھنٹہ تک سامان کی چیکنگ کی گئی۔ (اخباری خبر)
٭٭ یہ بہت ہی افسوسناک خبر ہے ۔پاکستان کا وزیر داخلہ اگر ان ملکوں میں اتنا بے اعتبار سمجھا جا سکتا ہے تو پھر باقی قوم کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ برطانوی حکام کو فیصل صالح حیات کی غیر صالحانہ”پیٹریاٹ ازم“کا اچھی طرح علم ہو اور اسی لئے انہوں نے ان کو قابلِ اعتبار نہ سمجھا ہو ۔
ا س لئے اس وقت تک ان کی اور ان کے سامان کی تلاشی لی جاتی رہی جب تک حکام کی تسلی نہ ہو گئی۔اس واقعہ سے ہماری اور گوروں کی ایک دوسرے کے معاملہ میں ذہنیت کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے۔گوروں کے معاملہ میں ہمارا یہ حال ہے کہ اگر کوئی گورا چور رنگے ہاتھوں پکڑا جائے تو ہمارے خونخوار تھانوں کا کوئی بھی تھانے دار نہ صرف اس گورے چور کے لئے اپنی کرسی خالی کر دے گا بلکہ اس سے تفتیش بھی ایسے کرے گا جیسے اس کی منت سماجت کر رہا ہو۔حضور فیض گنجور! چوری کرتے ہوئے آپ کو زیادہ مشقت تو نہیں اٹھانا پڑی؟مالک مکان نے آپ کی شان میں کوئی بے ادبی تو نہیں کی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ عدالت میں داخل کی گئی اے۔ ایس۔ آئی کی تحریری رپورٹ کے مطابق بابری مسجد کے مقام پر مندر کے آثار ملے ہیں ۔ (اخباری خبر)
٭٭آرکیالوجیکل سروے آف انڈیاکی جو ٹیم بابری مسجد کے مقام پر تحقیقی کھدائی کا کام کر رہی تھی۔اپنی اس کھدائی کے دوران اس کی جانب سے واضح طور پر اس قسم کے اشارے مل رہے تھے کہ بابری مسجد کے نیچے کوئی مندر نہیں مل رہا۔بلکہ ان دنوں میں یہ بڑی اہم اور بنیادی خبر بھی آئی تھی کہ مسجد کے نیچے بہت ساری ہڈیاں ملی ہیں ۔وہ ہڈیاں کھائے جانے والے جانوروں کی تھیں،تب بھی ان کا تعلق غیر ہندو سے بنتا ہے اور اگر وہ انسانی ہڈیاں تھیں تب بھی کریا کرم کا عقیدہ رکھنے والوں کی ہڈیاں نہیں تھیں۔لیکن اب تماشہ یہ ہوا ہے کہ کھدائی کے دوران مندر کے آثار نہ ملنے کا اظہار کرنے اور کھدائی کی میعاد میں بار بار توسیع لینے والی تحقیقی ٹیم نے حکومتی دباؤمیں ایسے شواہد اپنی رپورٹ میں لکھ دئیے ہیں جنہیں وہاں دکھانا خود ان کے لئے ممکن نہیں ہے۔مثلاً وہاں ایک ایسا ہال نما کمرہ بتایا گیا ہے جس کا سرے سے کوئی وجود نہیں ہے۔دوسری طرف کھدائی کے دوران ملنے والی ہڈیوں کا ذکر ہی نہیں ہو رہا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رپورٹ بھی برسر اقتدار سیاستدانوں کی سیاست کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے۔جہاں ایک دن پہلے سی بی آئی ایڈوانی جیسے لوگوں کو بابری مسجد کی شہادت میں ملوث بتا رہی ہو اور اگلے دن اس سے مکر جائے وہاں غیر جانبدار تحقیق و تفتیش کی کیا توقع کی جا سکتی ہے۔خدا بھارت کو ہر طرح کے فرقہ پرستوں سے بچائے جو سیکولر آئین اور مشترکہ تہذیبوں کا گہوارہ ہونے کے دعویدار انڈیا کی شناخت کو برباد کرنے پر تل گئے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ممبئی میں ہولناک بم دھماکے ۶۷ سے زائد انسان ہلاک۔سینکڑوں زخمی۔ تحقیقاتی ایجنسیوں نے تحقیق شروع کر دی۔ایل کے ایڈوانی کی جانب سے پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش اور شیخ رشید کا سخت ردعمل۔ تحقیق میں اسرائیل کی جانب سے پیشکش کا انوکھا ڈرامہ۔ (خبروں کا خلاصہ)
٭٭ ممبئی میں ہونے والے ہولناک بم دھماکوں سے جو انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں وہ المناک سانحہ ہے۔تاہم اس دوران ایل کے ایڈوانی نے کسی تحقیقاتی ایجنسی کی رپورٹ کا انتظار کئے بغیر فوری طور پر ایسے بیانات دینا شروع کردئیے جن کا مقصد پاکستان کو اس دھماکے میں ملوث کرنا تھا۔اس پر پاکستان کے وزیر اطلاعات نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئٹہ میں نمازیوں پر حملہ میں پچاس سے زیادہ جانیں گئی تھیں اس کے باوجود ہم نے فوری طور پر بھارت کو اس میں ملوث کرنے سے گریز کیا تھا اور تحقیقاتی رپورٹس کا انتظار کرنے کو ترجیح دی تھی۔بھارت کو بھی ایسا ہی بالغ نظر موقف اختیار کرنا چاہئے۔ایڈوانی جی اگر اپنی انتہا پسند ساکھ کو برقرار رکھنے کے لئے ایسے بیانات دیتے ہیں تو اسے ان کی سیاسی مجبوری سمجھا جا سکتاہے ویسے الزام تراشی سے گریز کرکے دوستی کی کی طرف پیش رفت ہونی چاہئے۔ہاں اگر آپ کے اپنے تحقیقاتی ادارے پاکستان کے ملوث ہونے کی بات کریں تو پھر مسئلہ پر حقائق کی بنیاد پر غور کیا جا سکتا ہے۔اس سارے انسانی المیہ کے ساتھ مزید کھلواڑ یہ ہونے لگا ہے کہ اسرائیل نے بھارت کو پیش کش کر دی ہے کہ وہ ان بم دھماکوں میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے کے لئے تحقیق کرنے کو تیار ہے۔یہودی لابی کا اس دھماکے میں اس حد تک دلچسپی لینا بہت سے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔نائن الیون سے لے کر اب تک کے بہت سے تماشوں میں اسرائیلی اور یہودی کردار بہت معنی خیز رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ پاکستان اور انڈیا کے مابین فضائی رابطے بحال کرنے کے سلسلہ میں ہونے والی میٹنگ ناکام ہو گئی۔اگلی میٹنگ اب نومبر میں ہو گی۔ (اخباری رپورٹ)
٭٭ بھارت نے عین اس وقت پاکستان پر شدید سفارتی اور فوجی دباؤبڑھادیا تھا جب پاکستان کو امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان کی طرف پوری توجہ کرنا پڑی تھی۔تب انڈیا نے امریکی اشارے پر سہی ،پاکستان پر دباؤبڑھانے کے مختلف اقدامات کے ساتھ پاکستان سے سڑک ، ریل اور فضائی سارے رابطے از خود منقطع کر لئے تھے۔ اب جب پاکستان کے ساتھ انڈیا کو دوستی کیلئے باہر سے مجبور کیا جا رہا ہے تو انڈیا پھر سے رابطے بحال کرنے لگا ہے۔بس سروس بحال ہو چکی۔ٹرین سروس کی بحالی کو بھارت نے فضائی رابطوں کی بحالی کے ساتھ مشروط کیا تھا۔اب پاکستان نے فضائی سروس کی بحالی کو کسی ایسے فیصلے سے مشروط کردیا ہے کہ آئندہ کوئی ملک از خودان رابطوں کو ختم نہ کر سکے ۔ اصولی طور پر پاکستان کی بات درست ہے اور انڈیا کو اندازہ ہو چکا ہے کہ فضائی پابندیوں کا اسے بہت زیادہ مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انڈیا بے جا پابندیوں کے سلسلے میں اپنے سابقہ رویے کا جائزہ لے اور یہ طے کرے کہ آئیندہ کسی غیر ملکی کے ہاتھوں میں کھلونا نہیں بننا۔انڈیا اور پاکستان کااپنے معاملات آپس میں ہی طے کرنا بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ سب اپنا ذہن صاف کرلیں ایل ۔ایف۔ او آئین کا حصہ ہے۔صدر پرویز مشرف نے ایل۔ ایف۔ او ، پر بہت لچک دکھا دی۔اب اپوزیشن بھی لچک دکھائے۔
(وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید کا فرمان)
٭٭ جنرل پرویز مشرف نے ایل ایف او، پر کیا لچک دکھائی ہے؟پہلے دن سے لے کر آج تک یہی جرنیلی حکم سنایا ہے کہ ایل ایف او آئین کا حصہ ہے۔اس جرنیلی حکمنامے میں کونسی لچک ہے؟شیخ رشید اس کی نشاندہی فرمادیں تو مہربانی ہو گی۔افسوس یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف ایسے خوشامدیوں میں گھر کر رہ گئے ہیں ۔ جنرل ضیاع الحق پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والا فوجی حکمران تھا لیکن اس نے بھی اپنے احکامات کو اسمبلی سے منظور کراکے انہیں آئین کا حصہ بنایا تھا۔جنرل پرویز مشرف کو بھی کم از کم ویسا انداز کر لینا چاہئے تھا۔وگرنہ وہ بے شک دس سال حکومت کرلیں یا بیس سال حکومت کر لیں ۔آئینی حوالے سے ان کا موجودہ کردار انہیں داغدار رکھے گا۔کاش وہ اپنے خوشامدیوں کے موجودہ حصار سے نکل آئیں ورنہ اس ملک کا اﷲ ہی حافظ ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ”وزیر اعظم شاستری کے جنازے میں پبلک کے ہجوم کو کنٹرول کرتے ہوئے جب ایک وزیر نے ایک جرنیل کو دیکھا تواسے بلا کر کہا:یہ آپ کا نہیں پولیس کا کام ہے۔ آپ یہاں سے چلے جائیں “
(عبدالقادر حسن کے کالم”غیر سیاسی باتیں “۔جنگ انٹرنیٹ ایڈیشن ۲۹اگست ۲۰۰۳ءسے اقتباس)
٭٭ کاش پاکستان میں بھی ایک دو ایسے وزیر ہوتے جو فوجی جرنیلوں کو بتا سکتے کہ حکومتی اور انتظامی امور آپ کے کام نہیں ہیں ۔اور ایسے وزیر خود واقعتا حکومتی کام خوش اسلوبی سے سرانجام دینے والے ہوتے۔
یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔سویلین ہو یا فوجی جو ایک بار اقتدار میں آگیا پھر اس کے ہاتھوں اس کے مخالفین میں سے شاید ہی کوئی بچ سکا ہو۔اور وہ خود پاکستان کا اصلی تے وڈا محافظ بن کر کرسیٔاقتدار سے چپک کر رہ گیا۔شاید اسی لئے ہمارے حکمران فوجی ہوں ،بیورو کریسی والے ہوںیا عوامی ہوں ،بیشتر حکمران بے عزت اور ذلیل ہو کر اقتدار سے الگ ہوئے۔ عزت کے ساتھ اقتدار چھوڑنا کسی کو پسند نہیں آیا۔ ہمارے پسندیدہ جنرل پرویز مشرف نے قوم کے ساتھ جو کرنا تھا،آئین کے ساتھ جو کرنا تھا وہ سب تو دیکھ لیا اور سمجھ بھی لیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ خود اپنے ساتھ کیا کرتے ہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ نجف میں خوفناک کار بم دھماکہ ممتاز شیعہ عالم آیت اﷲ باقرالحکیم سمیت شہید ہونے والوں کی تعداد ۱۲۵ہو گئی۔ (اخباری خبر)
٭٭ باقرالحکیم اس وقت عراق میں امریکہ کے لئے بظاہرمسئلہ نہیں بنے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے یہ دھماکہ خاص طور پر باقرالحکیم کو نشانہ بنانے کے لئے کرایا گیا ہے۔احمد شلابی سے بیان دلوایا گیا ہے کہ یہ دھماکہ صدام حسین کے ایما پر کرایا گیا ہے۔لیکن شواہد تو یہی بتاتے ہیں کہ یہ عراق پرجارح حملہ آورقوتوں کی سازش تھی ۔ مقصد شیعہ سنی اختلاف کو ابھارنا تھا۔یہ مقصد پورا نہیں ہو سکا۔ ایسی دہری سازشوں کے باوجود عراق میں امریکہ کے مسائل کم نہیں ہوں گے۔مزید بڑھیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ۲۰۱۴ءمیں زمین کے فنا ہوجانے کا خطرہ ۔(برطانوی ماہرین فلکیات کا انکشاف)
٭٭ برطانوی ماہرین فلکیات نے انکشاف کیا ہے کہ خلا میں ایک ایسی چٹان دیکھی گئی ہے جو مارچ ۲۰۱۴ءتک زمین سے ٹکرا کر یہاں قیامت برپا کر سکتی ہے۔اس چٹان کو ”۲۰۰۳کیو کیو ۴۷“کا نام دیا گیا ہے۔اس کا وزن دو ارب ساٹھ کروڑ ٹن بتایا جا رہا ہے۔ایٹم بم کے مقابلہ میں اس کا تباہ کن اثر کئی لاکھ گنا زیادہ ہوگا۔اس چٹان کی رفتار زمین سے ٹکراتے وقت ۷۵ہزار میل فی گھنٹہ ہو گی۔ابھی تک یہ نہیں اندازہ کیا جا سکا کہ یہ زمین کے کس حصے سے ٹکرائے گی۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر واقعی ایسا کچھ ہوا تو یہ چٹان صرف امریکہ کے وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کی طاقت کے مراکز پر گرے گی۲۰۱۴ءتک امریکہ کو مہلت ہے کہ وہ عالمی سطح پر اپنی فرعونیت اور نمرودیت سے باز آجائے۔ویسے اس ساری خبر کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس چٹان کے زمین سے ٹکرانے کا چانس ایک فیصد نہیں بلکہ نو لاکھ میں سے ایک ہے
اس کا مطلب ہے امریکہ کو کچھ نہیں ہو گا اور امریکی حکمرانوں کی موجودہ حرکتیں جاری رہیں گی۔
٭٭ بعد کی خبروں کے مطابق مذکورہ چٹان نے زمین سے اپنا رُخ تبدیل کر لیا ہے۔ لیکن اس چٹان کا کیا اعتبار کب پھر اسی طرف رُخ کر لے۔ جو کچھ فلک دکھائے سو ناچار دیکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ایل ایف او آئین کا حصہ بن چکا ہے،آئین کا تحفظ اور اس کی پاسداری عدلیہ کی ذمہ داری ہے ۔ عدلیہ یہ ذمہ داری پوری کرتی رہے گی۔
(لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس افتخار حسین چوہدری)
٭٭ ایل۔ ایف۔ او کس بنیاد پر آئین کا حصہ بن چکا ہے؟چوہدری افتخار حسین صاحب نے اس آئینی نکتے کو بھی واضح کردیا ہوتا ۔افتخار حسین چوہدری صاحب کا بیان پڑھ کر یہ نہیں لگتا کہ موصوف ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں بلکہ ایسے لگتا ہے جیسے چوہدری شجاعت حسین کے قریبی عزیز ہیں ۔چوہدری افتخار حسین صاحب کو یاد ہوگا کہ ایک چیف جسٹس قاضی شریح بھی ہوتا تھا۔عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ جنرل پرویز مشرف نے سندھیوں کی تذلیل کا موقعہ غنیمت جانا ہے۔۔۔۔تعجب ہے کہ سندھیوں کو کس جانب دھکیلا جا رہا ہے۔اﷲ ملک کو قائم و دائم رکھے۔ایسی باتیں نہ جانے کیا رنگ دکھائیں گی۔ (پیپلز پارٹی کی رکن سندھ اسمبلی فرحین مغل کے خط سے اقتباس۔بحوالہ کالم ”حرفِ تمنا“مطبوعہ جنگ انٹرنیٹ ایڈیشن ۴ستمبر ۲۰۰۳ء)
٭٭ یہ خط سندھیوں کے دلی غم و غصہ کا عکاس ہے۔حقیقت یہ ہے مجموعی طور پر ہمارے اباب اقتدار نے سندھ اور سندھیوں کے ساتھ بہت ناجائز زیادتیاں کی ہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل فوجی ٹولے اور عدالت کے پنجابی ججوں کی ملی بھگت سے ہوا۔غیرپنجابی ججوں نے بھٹو کو بری کیا اور پنجابی ججوں نے جنرل ضیاع الحق کے حکم کے مطابق بھٹو کو سزائے موت سنائی۔ اس کے برعکس جب ایک پنجابی وزیر اعظم (نواز شریف)کی بات آئی تو اسے سزا دینے کی بجائے ملک بدر کر دیا گیا اور اب واپسی کی گنجائشیں بھی نکالی جا رہی ہیں ۔آصف زرداری کتنے مقدموں سے بری ہو کر بھی ضمانت پر رہائی کے حق سے محروم ہیں ۔ان پر جتنی کرپشن کے الزام ہیں اس سے زیادہ کرپشن خود وہ لوگ کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں جو زرداری کی قید کے ذمہ دار ہیں ۔ سندھی زرداری قتل کے کئی مقدمات سے باعزت بری ہو کر بھی قید میں ہیں اور اہل زبان کے عشرت العباد قتل اور دہشت گردی کے کسی مقدمے سے عدالتی طور پر بری ہوئے بغیر برطانیہ سے بلا کر سندھ کے گورنر بنا ئے جا چکے ہیں ۔اس کے باوجود سندھیوں نے بے نظیر کی قیادت میں آج تک وفاق پاکستان کی بات کی ہے۔ قاتلوں،لٹیروں اور چوروں رسہ گیروں کو حکومتی عہدے دینے والے اور بے نظیر اور آصف زرداری کے ساتھ متضاد سلوک کرنے والے فوجی حکمران کیا ان لوگوں کو اسی بات کی سزا دینا چاہتے ہیں کہ وہ ابھی تک وفاق کی بات کیوں کر رہی ہیں ؟کیا انہیں اسی طرف دھکیلا جا رہا ہے کہ وہ سندھ کو پاکستان سے الگ کرانے والوں کا کام آسان کریں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭ ہم نے طالبان کی کمر توڑ دی ہے۔( پاکستانی وفاقی وزیر اطلاعات شیخ رشید کا بیان)
٭٭ طالبان کی مزاحمت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے(افغان وزیر خارجہ عبداﷲ عبداﷲ کا بیان)
٭٭ افغانستان میں طالبان کے خلاف سرگرم دو اہم افراد کے بیان آپس میں ٹکرا رہے ہیں ۔اس پر ہم کیا تبصرہ کر سکتے ہیں ۔البتہ شیخ رشید نے کمر توڑنے کی بات کی تو اس سے دھیان خوامخواہ ”دردِ کمر“ کی طرف چلا گیا۔اگرچہ شیخ رشید ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں لیکن اس عمر تک پہنچتے پہنچتے انہیں ”دردِ کمر“کا خاصا تجربہ ہو چکا ہے۔تجربہ کی اس بات سے اب میرا دھیان امریکہ میں مقیم ایک ”شاعرہ“ کی طرف جا رہا ہے ۔جو ہیں توایسی کہ لوگ دردِ دل اور دردِ جگر میں مبتلا ہو جائیں ۔ لیکن وہ اتنی فراخدل ہیں کہ دردِ دل اور دردِ جگر میں مبتلا ہونے کی خواہش رکھنے والوں کو فوراً” دردِ کمر“ عطا کر دیتی ہیں ۔گویا نتائج کے اعتبار سے ان کے ساتھ کچھ ویسا سلوک کرتی ہیں جیسا بقول شیخ رشید انہوں نے طالبان کے ساتھ کیا ہے۔
٭٭