کیا ۔۔۔۔پیچھے کہاں دیکھ رہی ہو ۔۔۔؟ زرش نے اسکے آگے چٹکی بجاتے ہوئے اسے ہوش دلانا چاہا ۔۔۔
میں ۔۔وہ ۔۔۔وہ کچھ کہنے ہی لگی تھی جبھی زرش اسکی بات آدھے میں کاٹتے ہوئے گویا ہوئی ۔۔۔
ادھر اُدھر کی باتیں چھوڑو ۔۔۔۔اور چلو میرے ساتھ ۔۔۔ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔۔۔ وہ اسے اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے کہنے لگی ۔۔
اور وہ مڑ کر بار بار پیچھے دیکھتے ہوئے کسی کو ڈھونڈنے لگی ۔۔۔
یوسف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔****************۔
آرہی ہوں ۔۔۔۔۔دروازہ کی کھٹکھٹاہٹ پر وہ دوڑتی ہوئی جانے لگی ۔۔۔۔
دروازے پر نمودار ہوتے شخص کو دیکھ کر اسے حیرت کا جھٹکہ لگا ۔۔۔
تم اس گھر کی ملازمہ ہو ۔۔۔۔؟
مناہل کے ہاتھ میں پکڑے جھاڑو کو دیکھتے ہوئے حدید نے طنز کا تیر پھینکتے ہوئے کہا ۔۔۔
جی ۔۔۔۔۔؟ مناہل نے تعجب سے کہا ۔۔
جی ۔۔۔اس نے بھی رسانیت سے جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔
آپ ہیں کون ۔۔۔۔۔؟ جو ہر وقت منہ اٹھائے ہمارے دروازے پر تشریف لاتے ہیں ۔۔۔وہ بھی طنزیہ بولی ۔۔
جی بجا فرمایا آپ نے ۔۔۔وہ سر کو کھجاتے ہوئے بولا ۔۔۔
اصل میں مجھے چائے کی طلب محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔اور میرے گھر میں آپ جیسی ملازمہ نہیں جو مجھے اچھی سی چائے پلا دے اسلئے یہاں چلا آیا ۔۔۔۔
اسے اپنے ملازمہ کہلائے جانے پر شدید غصہ آنے لگا ۔۔۔
اگلی بار اگر چائے پینی ہو تو دودھ کے ساتھ پتی بھی لائیئے گا ۔۔یہاں مفت میں چائے نہیں بٹ رہی ۔۔۔شکریہ ۔۔غصے سے کہتے ہوئے اس نے دھڑام سے دروازہ بند کردیا ۔۔۔
اور وہ بند دروازے کو تکتا رہ گیا ۔۔۔۔
۔**************۔
ویسے تم امل ہو نہ ۔۔۔جو چھت پر چڑھ کر اپنی بلی کا منہ چاٹتے ہوئے ہمیں جلتی تھی ۔۔۔
اخ خ ۔۔۔میں نہیں چاٹتی تھی بلیوں کو کسی بات کر رہی ہو ۔۔جھرجھری لیتے ہوئے اس نے شکل کے زاویئے بگاڑتے ہوئے کہا ۔۔
ارے اب یہ بلی کیا ۔۔۔انسانوں سے بھی ڈرتی ہے ۔۔رباب نے جواب دیا ۔۔
وہ تینوں ساتھ بیٹھی تابی کا موڈ ٹھیک کرنے کے لئے کچھ بھی بول رہی تھیں ۔۔جو زمین پر نظریں جمائے نہ جانے کیا سوچ رہی تھی ۔۔۔
تابین ۔۔۔۔زرش نے اسے کندھے سے پکڑ کر جھلانا چاہا ۔۔۔
ہاں ۔۔۔وہ منہ میں انگلی دبائے چونکی ۔۔۔
تمہارا بھائی ۔۔۔۔یوسف ۔۔۔وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی ۔۔
کون یوسف ۔۔کس کی بات کر رہی ہو ۔۔۔؟زرسہے نے انجان بنتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
ایک منٹ ۔۔۔۔یہ کہتے ہی اس نے اپنے کمرے کی جانب دوڑ لگا دی ۔۔۔۔
الماری کو ٹٹولتے ہوئے وہ ایلبم تلاش کرنے لگی ۔۔۔
ہڑبڑاہٹ میں ساری تصویریں زمین پر گر کر بکھر گئیں ۔وہ ان میں اسے تلاش کرنے لگی ۔۔
با مشکل ہی ایک تصویر اسکے ہاتھ لگی ۔۔جس میں مسکراتا ہوا حدید ۔۔بیچ میں تابین ۔۔۔اور ساتھ میں ۔۔وہ حیران رہ گئی ۔۔
تصویر کہاں گئی ۔۔۔کیوں کہ آدھی تصویر غائب تھی ۔۔
ہاں یہ کہاں گئی ۔۔۔وہ حیران کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوئی ۔۔۔
۔**************۔
آج سب کی شامت آنے والی تھی ۔۔کوئی آسمان کی طرف ہاتھ بلند کئے دعائیں مانگنے میں مصروف تھا ۔۔۔
تو کوئی پریشانی میں چکر کاٹنے لگا ۔۔۔
وہ بے زار سی آرام آرام سے قدم اٹھاتے ہوئے آس پاس دیکھنے لگی ۔۔۔
تابی جلدی چلو نوٹس بورڈ پر ہمارے نتیجے لگ چکے ہیں جلدی چلو ۔۔
کیا ۔۔رزلٹ آگیا ۔۔۔؟ وہ چونکی ۔۔
ہاں اب جلدی کرو ۔۔۔دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے ہوئے دوڑ لگا دی ۔۔
نتیجہ دیکھنے کے بعد دونوں مایوسی سے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے ایک کونے میں بیٹھ گئیں ۔۔۔
ام ۔۔۔تم لوگوں کو کیا ہوا ۔۔فیل ہو کیا ۔۔۔؟حدید چوکلیٹ کھاتا ہوا انھیں اس حالت میں بیٹھا دیکھ کر پوچھنے لگا ۔۔
نہیں ۔۔۔۔دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا ۔۔
پھر ۔۔ٹاپ پر آئی ہو ۔۔؟ اس نے دانت نکالتے ہوئے پوچھا ۔۔
نہیں ۔۔۔۔اس بار بھی دونوں نے روتی شکل کے ساتھ نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا ۔۔
کیا ۔۔۔پھر کون آیا ۔۔۔؟ اس نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
خود ہی جا کر دیکھ لو ۔۔۔امل نے آنکھ کا کونہ صاف کرتے ہوئے کہا ۔۔
وہ تیزی سے نوٹس بورڈ کی جانب بھاگا ۔۔۔
نیچے سے چیک کرتے ہوئے اسکا ہاتھ اوپر کی جانب رک گیا ۔۔۔
عبدالباسط ۔۔ فرسٹ پوزیشن اے پلس گریڈ ۔۔۔۔۔اسکی آنکھیں باھر نکل آئیں ۔۔۔
گہرا صدمہ تو اسے تب لگا جب سیکنڈ پر حزیفہ کا نام دیکھا ۔۔۔
وہ مایوسی سے سر پکڑے تابی کے ساتھ سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔۔
مایوسی کا مطلب تو اب سمجھ میں آیا ۔۔۔جب دوست دوست فیل ہو تو دکھ ہوتا ہے ۔۔لیکن جب دوست پوزیشن پر آجائے تب اور بھی زیادہ تکلیف ہوتی ہے ۔۔وہ اپنے نہ آنے والے آنسو صاف کرتے ہوئے اداکاری کے ساتھ بولا ۔۔۔
کیا ہوا ۔۔۔؟ تم سب ایسے کیوں بیٹھے ہو ۔۔۔۔؟ باسط نے چشمے کو دائیں بائیں حرکت دیتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
تینوں نے نوٹس بورڈ کی جانب اشارہ کیا ۔۔
میں فیل تو نہیں ہوا ۔۔۔۔اس ڈر سے وہ بھیڑ کو چیرتے ہوئے اپنا نام تلاش کرنے لگا ۔۔۔
وہ ساکت رہ گیا ۔۔۔اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا جبھی ساتھ والے لڑکے کو جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا ۔۔یہ نام پڑھو ذرا ۔۔۔۔
عبدالباسط ۔۔۔
ہائے میرے اللہ ۔۔وہ خوشی سے پاگل ہوتے ہوئے اسکے گلے لگ گیا ۔۔
اپنی خوشی بانٹنے وہ تابی ۔۔حدید اور امل کی جانب بڑھا ہی تھا ۔۔جبھی انھیں وہاں نہ پاکر وہ حیران ہوا ۔۔۔یہ کہاں گئے ۔۔۔
۔***************۔
لعنت ہے تم پر ۔۔۔اتنا سا پانی لے کر ڈوب مرو ۔۔۔اور جب کم پڑ جائے تو تھوڑا مجھ سے لے لینا ۔۔حدید کی بک بک سنتے ہوئے اس نے کان کو صاف کرتے ہوئے موبائل ایک سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔
تھوڑی دیر بعد فون کو کان سے لگاتے ہوئے گویا ہوا ۔۔
اب تم اگر بک چکے ہو تو میں کچھ عرض کروں ۔۔۔؟ اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا ۔۔
اب کیا بولے گا ۔۔تمہارے اور میرے پیپر ایک جیسے تھے تو ۔۔۔تیری کیسے پوزیشن آئی ۔۔۔
دفعہ ہو تیرا تو دماغ ہی خراب ہے ۔۔حزیفہ نے فون بند کرتے ہوئے بیڈ پر پھینک دیا ۔۔۔
۔**************۔
خوشی کے مارے وہ جھوم اٹھا ۔۔گھر والوں کے ساتھ خوشی بانٹنے کے لئے وہ مٹھائی کا ڈبہ لے کر گھر کی جانب روانہ ہوا ۔۔۔
ہولے ہولے سے قدم اٹھاتے ہوئے وہ گھر میں داخل ہوا ۔۔۔تاکہ مناہل اور اماں کو حیران کر سکے ۔۔
صحن میں قدم رکھتے ہی اسکے کانوں میں جو آواز پڑی ۔۔۔وہ سنتے ہوئے اسکے قدم وہیں جم گئے ۔۔
بہن ۔۔۔باسط سے کہو میری بیٹی کو اپنا لے ۔۔۔۔۔میں خود اس سے معافی مانگوں گا ۔۔وہ بس میری نوشی کو دوبارہ اپنا لے ۔۔۔
اسے لگا وہ ہل نہ سکے گا ۔۔اسکا دم گھٹنے لگا ۔۔ڈبہ گر کر زمین بوس ہو گیا ۔۔آنکھوں کو رگڑتے ہوئے اسنے واپسی کی راہ اختیار کی ۔۔
کسی چیز کے گرنے کی آواز پر وہ کمرے سے نکل کر صحن کی جانب بڑھی ۔۔
جبھی زمین پڑی مٹھائی ۔۔اور دروازے سے اس پار جاتے باسط پر نظر پڑتے ہی وہ سمجھ گئی ۔۔
کہ وہ سب کچھ سن چکا ہے ۔۔
بے بسی سے نفی میں سر ہلاتی وہ زمین پر جھکتے ہوئے مٹھائی اٹھانے لگی ۔۔۔
۔**************۔
کوئی میری بات سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہا ۔۔۔؟
سب موجود ہیں مگر وہ کہاں گیا ۔۔۔؟
وہ تو بہت خیال رکھتا تھا میرا ہمیشہ میرے ساتھ رہتا تھا پھر اچانک کہاں غائب ہو گیا ۔۔اور جب اتنے سالوں بعد زرش اور اسکے ماما بابا صحیح سلامت ہیں تو وہ کہاں گیا ۔۔؟
کہیں وہ ۔۔۔۔۔۔
نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔چاند کی روشنی کے نیچے وہ جھولے پر بیٹھی ہاتھ میں کنچے لئے انھیں تکتے ہوئے سوچنے لگی ۔۔۔
اہ کنچے ۔۔۔۔۔حدید اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے اسکے ہاتھ سے کنچے اٹھاتا جبھی تابی نے جلدی سے مٹھی بند کرتے ہوئے انھیں چھپا لیا ۔۔اتنے سالوں سے وہ ان دو کنچوں کو سمبھالتی آئی تھی ۔۔
کتنے خوبصورت ہیں نہ یہ کنچے ۔۔بچپن میں بہت شوق سے کھیلا کرتے تھے اور تم ہمیشہ ان کو لے کر بحث کرتی تھی ۔۔۔وہ ساری یادیں تازہ کرتے ہوئے بولا ۔۔
لیکن یہ کنچے تو اس نے پھینک دیئے تھے ۔۔پھر تمہیں کہاں سے ملے ۔۔۔حدید کی اس بات پر وہ چونکی ۔۔
تمہیں یاد ہے وہ ۔۔۔۔جلدی سے اسکی جانب مڑتے ہوئے وہ پوچھنے لگی ۔۔
اہ ۔۔۔اسے کیسے بھول سکتا ہوں میں ۔۔۔وہ آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے ماضی کی یادوں میں کھو گیا ۔۔۔
۔****************۔
رات کے پہر ۔۔۔وہ زرش کہنے پر تیار ہو کر تابی کی طرف جانے لگا ۔۔۔
حدید کو بھی تو منانا تھا ۔۔جبھی راستے میں چاکلیٹس اور پھولوں کا بکا لیئے وہ اپنی منزل کی جانب بڑھ گیا ۔۔
دکھ دے کر_________ سوال کرتے ہو
تم بھی غالب _______! کمال کرتے ہو
دیکھ کر_______ پوچھ لیا حال میرا
چلو کچھ تو ________خیال کرتے ہو
شہر دل میں____ یہ اُداسیاں کیسی
یہ بھی___ مجھ سے سوال کرتے ہو
مرنا چاہیں تو______ مر نہیں سکتے
تم بھی_______ جینا مُحال کرتے ہو
اب کس کس کی مثال دوں__ تم کو
ہر ستـم بـے مثـال ________کرتے ہو۔
ہلکے سے میوزک میں وہ یہ سنتا ہوا خیالوں میں اسے بسانے لگا ۔۔۔۔
۔****************۔
وہ بلاوجہ یونہی بے مقصد سڑکوں پر دھکے کھاتا رہا ۔۔
ایک وہ وقت تھا جب وہ اپنے گھر کا شہزادہ تھا ۔۔مگر پھر شاید زندگی کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔۔
شہزادے سے فقیر بننے تک کا سفر بس کچھ ہی پل میں کٹا ۔۔اور تب سب رشتے داروں نے منہ موڑنا شروع کیا ۔۔حتٰی کہ وہ شخصیت ۔۔جسے اس نے ہمیشہ سے چاہا تھا ۔۔جسے پلکوں پر بٹھانے کے خواب دیکھے تھے ۔۔۔جسے اپنا بنانے کی خواہش کی تھی ۔۔
خالی ہاتھ دیکھ کر اپنوں نے بھی اس سے منہ پھیر لیا ۔۔وہ اپنے آپ کو کمتر اور حقیر سمجھنے لگا ۔۔۔اور پھر ۔۔
آج جب دوبارہ شہزادہ بننے کا وقت قریب تھا تو رشتہ دار بھی واپس لوٹنے لگے ۔۔
سچ کہتے ہیں ۔۔جب خود پر مشکل وقت آجائے تب ہی سامنے والے کے دکھ کا احساس ہوتا ہے ۔۔
۔***************۔
ا ن کنچوں میں غور سے دیکھو یوں لگتا ہے جیسے خلا اندر بسا ہو ۔۔وہ ایک آنکھ بند کیئے دوسری آنکھ سے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔
ہاں ۔۔سر چکرارہا ہے ۔۔جواباً اس نے کہا ۔۔
تم نہیں کھیلو یہ کنچے ۔۔۔
کیوں اس میں کیا ہے ۔۔۔؟اس نے جواباً پوچھا ۔۔
مجھے اچھا نہیں لگتا ۔۔لوفر لڑکے کھیلتے ہیں تم نہیں کھیلا کرو ۔۔۔وہ اپنے چھوٹے ہاتھوں سے اسکے ہاتھ سے کنچے لیتے ہوئے بولی ۔۔
اری او تابی ۔۔۔ہم تو لوفر نہیں ۔۔حدید نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ۔۔ضروری نہیں صرف لوفر بچے ہی کھیلیں ہم تو کھیلیں گے ۔۔
نہیں تم نہیں کھیلو گے ۔۔۔وہ معصوم سی اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی ۔۔
اس نے تابی کے ہاتھ سے کنچے لیتے ہوئے گھاس کے اندر دور جا پھینکے ۔۔بس اب خوش ۔۔۔تابی کی جانب مسکراتے ہوئے پوچھا ۔۔
وہ کھلکھلاتے ہوئے اسکے سینے سے جا لگی ۔۔
بتاؤ نہ وہ کہاں ہے ۔۔۔کیا تم نے اسکو دیکھا ۔۔۔؟ تابی نے حدید کو جھنجھوڑ ڈالا ۔۔جس سے وہ خیالات کی وادی سے باھر نکلا ۔۔
وہ یہی ہے تمہارے آس پاس ۔۔۔وہ اٹھتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے بولا ۔۔
کہاں ۔۔۔۔۔مجھے تو نظر نہیں آتا ۔۔بتاؤ نہ میرا دل بیٹھا جارہا ہے ۔۔اسکی آنکھیں پانی سے بھر آئیں ۔۔
وہ یہی کہیں ہے ۔۔مکھی کی آنکھ میں ۔۔مچھر کے پھیپھڑے میں ۔۔چیونٹی کے پیر میں ۔۔۔یہ درختوں کے سائے میں ۔۔۔
کیا ۔۔۔۔۔۔پاگل ہو ۔۔۔؟ ٹھیک سے بتا کیوں نہیں رہے ۔۔۔تابی نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے روتے لہجے میں اداسی پیدا کرتے ہوئے پوچھا ۔۔
اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ کر حدید کو کچھ ہوا ۔۔۔
وہ اپنے ہاتھ سے اسکے آنسوں صاف کرنے لگا ۔۔جبھی دور سے یہ منظر دیکھتے ہوئے حزیفہ کے قدم تھم گئے ۔۔
چہرے پر مسکراہٹ کی جگہ غصے نے لے لی ۔۔۔آنکھیں سرخ ہو گئیں ۔۔
پھول اور چاکلیٹس دور پھینکتے ہوئے وہ غصے اور اشتعال جیسے ملے جلے تاثرات سے الٹے پیر واپس لوٹ گیا ۔۔
یار تم یوں رویا نہ کرو ۔۔بہت بری لگتی ہو ۔۔اور پتا ہے اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تم اسکی امانت ہو ہمارے پاس ۔۔اس لئے تمہیں کبھی اداس نہ ہونے دیں ۔۔حدید نے اسکی ناک کو دباتے ہوئے کہا ۔۔
تم بتا بھی تو نہیں رہے ۔۔اگر وہ میرے آس پاس ہے تو مجھے نظر کیوں نہیں آتا ۔۔مجھ سے بات کیوں نہیں کرتا ۔۔وہ روتے ہوئے بول رہی تھی ۔۔
اس دن جب میں مصیبت میں تھی تکلیف میں تھی تب وہ کیوں نہ آیا ۔۔کیا اسے ایک بار بھی میرا خیال نہ آیا کہ میں کس حال میں ہوں ۔۔بتاؤ ۔۔
کتنی پاگل ہو نہ تم تابی ۔۔۔کتنی غلط فہمی ہے تمہیں ۔۔کہ وہ تمہارا خیال نہیں رکھتا ۔۔۔حدید رسانیت سے کہنے لگا ۔۔
اگر آج تم زندہ ہو صحیح سلامت ہو تو صرف اسکی وجہ سے ۔۔اسکی نظریں ہر وقت تم پر ٹکی ہوتی ہیں ۔۔وہ تمہارے معملے میں بے خبر نہیں رہتا ۔۔
وہ حیرانگی سے آنکھیں کھولے اسے سننے لگی ۔۔
پتا ہے اتنے سالوں میں اس نے تم سے رابطہ کیوں نہیں کیا ۔۔۔؟ کیوں kکہ وہ جاننا چاہتا تھا کہ تم اسے یاد کرتی یو ys اسے بھلا دیا ۔۔تابی وہ تمہیں بدلنا چاہتا تھا ۔۔تمہیں سیدھی راہ پر لانا چاہتا تھا ۔۔۔۔صرف اس لئے کہ تمہارے لئے کوئی مشکل نہ ہو ۔۔یہ جو اس دن تمہاری حالت ہوئی ہے صرف اور صرف تمہاری اپنی لاپرواہی کے زریعے ہوا ہے ۔
جانتی ہو اس دن کس نے تمہاری جان بچائی ۔۔؟
وہ سوالیہ آنکھوں سے اسے تکنے لگی ۔۔۔
تابی تم غائب ہوئی تو اسے ایک پل بھی قرار نہ آیا ۔۔اسنے اپنی پاگلوں جیسی حالت بنا لی تھی وہ بھی صرف تمہاری وجہ سے ۔۔۔وہ خود کو قصور وار سمجھنے لگا ۔۔ساری رات وہ سڑکوں پر پھرتا رہا ہے ۔۔۔اور جب اسے تمہاری خبر ہوئی تو ایک پل ضائع کئے بغیر وہ تمہاری طرف دوڑتا چلا آیا ۔۔جب تک تم نے آنکھیں نہیں کھولیں۔۔وہ ہلا تک نہیں ۔۔۔اور تم تم نے کیا کیا تابی ۔۔
ہر وقت اسے دھتکارتی رہی ۔۔انا کی آگ میں جلتے ہوئے تم اسے اپنے بے حد قریب پاتے ہوئے بھی نہ پہچان سکی ۔۔چہ چہ افسوس ۔۔۔۔
کون ۔۔۔۔؟اس نے آنکھیں رگڑتے ہوئے پوچھا ۔۔
اگر اب بھی نہ سمجھ پائی تو لعنت ہے مجھ پر جو اتنا مغز کھپایا ۔۔۔وہ اپنا سر پیٹتے ہوئے بولا ۔۔
اور وہ سوالات میں الجھی اسے تکنے لگی ۔۔
ناچار حدید نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے انگلی سے اسکے ہاتھ پر تحریر کرنے لگا ۔۔جو بچپن سے انکا مشغلہ تھا ۔۔وہ خفیہ باتیں اکثر اسی انداز میں کرتے ۔۔
سمجھنے کے بعد تابی کو یقین نہ آیا ۔۔وہ سن ہو گئی ۔۔
نہیں ۔۔۔۔ایسا نہیں ہو سکتا ۔۔۔وہ حیرت سے دو قدم پیچھے ہوتے ہوئے بڑبڑائی ۔۔
ایسا شخص جس سے اسنے بے حد نفرت کی تھی وہی شخص سب sسے خاص تھا ۔۔اسکا دوست ۔۔اسکی چاہ ۔۔سب کچھ ۔۔
وہ شاکڈ کی سی کیفیت میں باھر کی جانب بھاگی ۔۔
تابی ۔۔۔وہ اسکے پیچھے لپکا ۔۔۔۔
۔*****************۔