“کہہ دیا نا میں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے۔”
اس کے لہجے میں مایوسی، تلخی اور احتجاج سب ملے ہوئے تھے۔
آج جب وہ پاؤں گھسیٹتا، سر جھکائے، ملگجے لباس اور بڑھی ہوئی ڈاڑھی کے ساتھ سڑک کی طرف کا جالی دار دروازہ آہستگی سے کھول کر اپنے پسندیدہ کونے تک پہنچا تو میں بھی وہیں جابیٹھا۔
وہ مجھے دیمک زدہ خستہ شہتیر نظر آیا جو اپنے اوپر لدی چھت سمیت کسی بھی وقت کڑکڑا کر گرنے والاہو۔
سڑک کی طرف کھلنے والا دروازہ جس سے وحید ارشد حسب معمول برآمد بلکہ درآمد ہوا تھا دہرا دروازہ تھا۔ ایک لکڑی کے فریم کا شیشوں والاپٹ اور اس کے اوپر دہرا جالی دار پٹ۔
یہ دروازہ گویا شہر اور اہلیان شہر کو ہمارے گوشۂ علم و ادب تک براہ راست رسائی دیتا تھا۔
“مگر لکھنا کیوں چھوڑ دیا؟ آپ تو اتنا اچھا لکھتے تھے۔ زندگی کی کہانیاں۔ اصلی کہانیاں۔ حقیقت سے قریب۔”
میرے لہجے میں گہری تشویش در آئی۔
میں اس شب گزیدہ چراغ کی گزری ضوفشانیوں کا شاہد اور شیدا تھا۔
وحید ارشد میرے پسندیدہ افسانہ نگاروں میں سے ایک تھا۔ گہرا مشاہدہ، موضوعاتی تنوع، انسانی نفسیات کا ادراک اور بہترین اسلوب۔
میں نے وحید ارشد کے افسانوں کے دونوں مجموعے پڑھ رکھے تھے اور اس کی کہانیوں کا منتظر رہتا تھا۔
ریلوے اسٹیشن کا چائے خانہ، جس کا ایک دروازہ ریلوے اسٹیشن کے اندر پلیٹ فارم سے منسلک برآمدے میں اور دوسرا باہر مصروف سڑک کے کنارے کھلتا تھا اس کا پسندیدہ ٹھکانا تھا۔
یہ چائے خانہ حقیقت میں ہمارے شہر کا “پاک ٹی ہاؤس” بلکہ شاید اس سے بھی کچھ بڑھ کر تھا۔ اس تیس پینتیس مربع فٹ کمرے میں شہر بھر کے صحافی، ادیب، دانشور، سیاستدان اور فنکار چائے پینے اور گپ شپ لگانے آتے تھے۔ ادبی، ثقافتی، سیاسی حتیٰ کہ سماجی بیٹھکوں کے لیے بھی اسی چائے خانہ کا انتخاب کیا جاتا۔
کمرے کے وسط میں ایک بڑی، بہت بڑی، گول میز تھی جس پر بے تحاشا لکڑی استعمال ہوئی تھی۔ اس گول میز پر سبز رنگ کی پلاسٹک شیٹ بچھائی گئی تھی۔ درمیان میں مستقل نوعیت کے ظروف جیسے نمک دانیاں، شکر دانیاں، خلال دانیاں اور کیچپ کی بوتلیں پڑی رہتیں۔ میز کے گرد دس بھاری کرسیاں بچھی تھیں۔ تین مزید میزیں کمرے کے تینوں کونوں میں رکھی گویا اسی بڑی میز کی چھوٹی ہم شکل بہنیں تھیں۔ ہر ایک چھوٹی میز کے گرد چھ افراد کرسیاں سنبھال سکتے تھے۔ مسافر خال خال ہی اس چائے خانہ میں بیٹھتے، بس مستقل گاہک یہی افراد تھے جن کا ذکر ہوا ہے۔
میں ویسے تو پچھلے سات سال سے اس چائے خانہ کا جزو لاینفک، مالک اور منیجر تھا لیکن میری اصل یعنی دفتری حیثیت “ٹی روم کنٹریکٹر” (چائے خانہ کے ٹھیکیدار) کی تھی۔ مجھے آم کھانے سے غرض تھی اور میرے ملے جلے پیڑ میری بری بھلی شکم سیری کو کچا پکا پھل مہیا کر ہی رہے تھے۔
فراوانی نہیں تھی لیکن گزارا ہو رہا تھا۔
وحید ارشد سیاہی مائل گندمی رنگت کا منحنی سا انسان تھا۔ چیچک کے خال خال داغ اس کے انتہائی سنجیدہ اور کرب ناک حد تک غمگین نظر آتے چہرے کو دلچسپ بناتے تھے۔ وہ کہنے کو تو بلدیہ میں کلرک تھا لیکن اس کی زندگی کا عشق افسانہ نویسی تھا۔
“افسانہ لکھنا کیوں چھوڑ دیا ارشد بھائی؟ آپ تو اتنا اچھا لکھتے ہیں۔ ادبی حلقوں میں جانے جاتے ہیں۔ اب تو آپ کی تیسری کتاب کا بھی تذکرہ سن رہے تھے۔”
میں نے حیرت کا اظہار کیا۔
“لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ساجد صاحب! مجھے کیا دیا ہے اس لکھنے نے۔ وقت ضائع کرتا ہوں۔ چھوٹی موٹی نوکری ہے۔ ہمیشہ ایسی پوسٹ پر لگتا ہوں کہ رشوت وغیرہ کے چکر سے بچ جاؤں۔ کچھ گھر کی تربیت ایسی تھی باقی آپ کے ان ادبی دوستوں نے دماغ خراب کر دیا۔”
رائٹر حساس ہوتا ہے۔ ادیب معاشرے کا ضمیر ہے۔ اور نہ جانے کیا کیا!!
سوچتا ہوں کچھ غلط کیا تو لوگ کہیں گے کہ لو جی بڑا افسانے لکھ رہا تھا۔ اب حرام خوری پر اُتر آیا ہے۔ لکھتے لکھاتے اَنا ویسے بھی سر چڑھ جاتی ہے۔ جی میں وحید ارشد ہوں۔ افسانہ نگار۔ ادبی پرچوں میں چھپنے اور ادبی حلقوں میں بیٹھنے والا۔
صبح گھر سے بیوی کی چخ چخ سنتا نکلتا ہوں اور وہ دکھیاری بھی کیوں چخ چخ نہ کرے۔ انٹر میں تھی کہ میرے افسانوں کے چکر میں لپیٹی گئی۔ اچھی خاصی اپنے چچا زاد سے منگنی کرا کر بیٹھی تھی اور وہ تھا بھی دبئی میں الیکٹریشن۔ وہ دبئی آج والا دبئی نہیں تھا۔ ان دنوں دبئی میں ہونا بڑے معنی رکھتا تھا۔ ویزے کا حصول آسان نہیں تھا اور غیر ملکی ہنر مندوں کی تنخواہیں بہت تھیں۔ ابھی بے قدری کا دور نہیں آیا تھا۔ اس کا باپ، یعنی میرا سسر، پرائمری ٹیچر تھا اور پڑھنے کا بہت شوقین۔ پتا نہیں کدھر سے ادبی جرائد لایا جو اس کرموں ماری کے ہاتھ لگ گئے۔ محلے کا معاملہ تھا۔ اپنی گلی کے وحید ارشد اتنے نامور کہانی کار تھے۔ ماری گئی بے چاری۔
ہماری سائیکل پاس سے گزرتی تو اس کی کاپی سے رقعہ گرتا۔ اس رقعے کے مندرجات کا ذکر میری اگلی کہانی میں حیلے بہانے سے ہو جاتا۔ لفظوں سے کھیلنا میرا کام تھا۔ بے چاری باپ سے بھڑ گئی کہ لطیف الیکٹریشن کو گولی ماریں وحید ارشد صاحب کے گھر اماں کو بھیجیں۔ ورنہ چوہے مار گولیاں کھا کر آپ کی اکلوتی بیٹی کو پار لگاتی ہوں۔ شریف استاد اور اس سے بڑھ کر ادب کا رسیا۔ فوراً مان گیا۔ باپ نے پرانا رشتہ توڑا اور بیوی کو آگے لگا نیا جوڑنے آ گیا میرے گھر۔ مجھ ناکارہ کو کوئی پوچھ نہیں رہا تھا۔ میرے گھر والوں نے ایک لمحہ ضائع نہیں کیا اور راحیلہ بی بی بیگم وحید ارشد بن گئیں۔ اب تک بھگت رہی ہیں۔
بات کدھر سے کدھر نکل گئی۔
خیر صبح نکلتا ہوں تو دور تک پیچھے بچوں کی اور ان کی ماں کی آوازیں آتی ہیں۔
کتاب نہیں، کاپی نہیں، فیس نہیں، وردی نہیں اور یہاں تک کہ گھی نہیں، شکر نہیں، دال نہیں، دودھ نہیں۔
سائیکل بھگاتا ہوں کہ دور نکلوں تو آوازیں کم ہوں لیکن بھن بھناہٹ دفتر تک ساتھ جاتی ہے اور دن بھر گاہے گاہے دفتر میں بھی آ پہنچتی ہے۔
یہ آوازیں ہولناک تصوراتی ہیولے بن کریوں میرے پیچھے لگ جاتی ہیں جیسے باؤلے کتے۔ “
میں نے اپنی کرسی گھسیٹ کر اس کے قریب کر لی۔ مجھے یہ کتھا یوں مزہ دینے لگی جیسے وحید ارشد کا نیا افسانہ ہو۔
چٹخارے دار۔
” لطیف الیکٹریشن کا کیا بنا؟”
میرا ذہن ابھی اُدھر ہی پھنسا ہوا تھا۔
“بھئی آپ بھی عجیب ہو۔ وہیں پر اٹکے ہوئے ہو۔
ہونا کیا تھا۔ جونہی میری بیگم نے فارغ کیا اسی کی ایک سہیلی نے فوراً لطیف کو گھیرا اور اس سے شادی کر لی۔
عقلمند تھی۔
پیلی کر دی اپنی دلہن لطیف الیکٹریشن نے دبئی کے سونے سے۔ دس سال ادھر لگا کر واپس آیا تو یہ بڑا سٹور کھولا الیکٹریکل ایمپلائنسز کا میں بازار میں۔ لکھ پتی ہے آج کل۔ کنال کا گھر بنایا ہے نئی ماڈل کالونی میں۔ بچے انگریزی سکولوں سے پڑھے ہیں۔
کبھی کبھی میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے سارے افسانے لے جا کر اس کے سر پر دے ماروں اور اس کے سارے پیسے، سارے وسائل چھین لوں۔
اس طرح کے لوگوں پر مجھے “کچیچیاں” چڑھتی ہیں۔ میں اتنا کچھ لکھتا ہوں لیکن ‘کچیچیاں ‘ جیسے پنجابی لفظ کا متبادل مجھے اردو میں نہیں ملا۔ ویسے مجھے چڑھتی بھی کچیچیاں ہی ہیں اور میرے خیال میں یہ کیفیت کسی بھی اور معتدل یا معقول لفظ سے بیان نہیں ہو سکتی۔ “
اب میں پورے انہماک سے اس افسانہ کا مزہ لے رہا تھا۔ وحید ارشد باتونی تھا اور میں ایک اچھا سامع۔
” اور محبت کی شادی؟ آپ کی بیگم؟”
میں نے نئی چنگاری چھوڑی۔
” سچ بتاؤں تو کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر میری بیگم کو اب یہ موقع دوبارہ دیا جائے کہ لطیف الیکٹریشن سے منگنی توڑ کر اردو ادب کے مایۂ ناز افسانہ نگار وحید ارشد سے شادی کر لو تو شاید اس کا فیصلہ میرے حق میں نہ جائے۔”
میں سوچ میں پڑ گیا۔ لطیف الیکٹریشن کبھی میرے چائے خانہ پر نہیں آیا تھا لیکن وحید ارشد اور باقی مقامی افسانہ نگار، شاعر، اور نقاد تو میرے پرانے گاہک تھے۔ سچ بتاؤں تو مجھے بھی ان کی لچھے دار باتوں، خوب صورت الفاظ پر مشتمل گفتگو اور ادبی لطائف و مباحث کا چسکا پڑ چکا تھا۔ میرا ان لوگوں کے بغیر دل نہیں لگتا تھا۔ یہ ایسی رونق تھی کہ میرے اصل اور زیادہ متمول گاہک، ریل گاڑی کے مسافر، مجھے بھول ہی چکے تھے۔ مجھے اُن کی زیادہ پروا نہیں ہوتی تھی۔ یہاں تک کہ گرما گرم طرحی مشاعرے یا افسانہ پر بحث کے دوران میرے کان ادھر ہی لگے رہتے۔ اس دوران اگر کسی گاڑی سے اتر کر مسافر یا کسی مسافر کا استقبال کرنے کو آئے لوگ چائے خانہ میں آ گھستے تو مجھے دخل در معقولات لگتا۔
میرا پلیٹ فارم کی طرف کا دروازہ زیادہ تر بند رہتا اور سڑک کی طرف والا ہمیشہ کھلا۔
میں لاشعوری طور پر اپنی آمدن کو بھی اپنے ادبی مہمانوں کی سرگرمیوں سے کم تر جاننے لگا تھا۔ بس گزارا چل رہا تھا اور ہم سب خوش تھے۔ یہ ایک غیر حقیقی سی صورت حال تھی لیکن بن گئی تھی۔
اب بیچ میں وحید ارشدصاحب نے نئی درفنطنی چھوڑ دی تھی۔
میں کچھ پریشان سا ہو گیا۔
“لیکن ارشد بھائی افسانہ لکھنا چھوڑنے کی تُک اب بھی میری سمجھ میں نہیں آ سکی۔ آپ ملازمت کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔ گزارا کرنے کو معقول مستقل آمدن ہے۔ لکھنے کی وجہ سے نام ہے۔ اب تیسری کتاب چھپنے لگی ہے ماشااللہ !! اتنا بد دل ہونے کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی۔”
میری حیرت اور دلچسپی بدستور قائم تھی۔
“کتاب کی بھی بھلی کہی۔ کوئی ایک سو چالیس کے لگ بھگ افسانے لکھ چکا ہوں۔ دو کتابیں بھلے وقتوں میں چھپ گئیں۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ اپنا خرچ نکال کر تھوڑے پیسے مجھے بھی چھوڑ گئیں۔
ان دنوں ادبی جرائد نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ جو چند کام کے ہیں بمشکل ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا کے برے بھلے تنقیدی مضامین اور پھر اپنے گروپ کے چند لوگوں کے افسانے اور غزلیں نظمیں لگاتے ہیں۔ کچھ کلاسیکی چیزیں پرانی لگنی ہوتی ہیں۔ آپ اگر افسانہ دو تو پھر دے کر بھول جاؤ۔ پتا نہیں کب پرچہ نکلے اور چھپے یا نہ چھپے۔ پھر اگر چھپ بھی جائے تو اکثر آپ کو ایک اعزازی پرچہ تک نہیں بھیجتے۔ پتا نہیں یہ مجلے دو درجن چھپتے ہیں کہ تین درجن جو کہیں نظر نہیں آتے۔ نہ سٹال پر نہ کسی کتابوں کی دکان پر۔ ہم پرانے لوگوں کو سوشل میڈیا کی زیادہ خبر نہیں۔ سنا ہے وہاں کچھ ادبی فورم دھوم مچائے ہوئے ہیں۔ میرے بھی دو چار افسانے کسی نے لگوا دیے۔ سچ کہوں تو کچھ پتا نہیں چلا کہ کیا ہوا۔ میرے بڑے لڑکے نے پڑھ پڑھ کر تبصرے سنائے تو ایک دو ناموں کے علاوہ سب نامانوس نام۔
جانے کون لونڈے لپاڑے ہیں جو الگ سے شغل لگائے بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں کتابیں بھی ختم ہو جائیں گی اور برقی کتابیں ہی رہ جائیں گی۔
واللہ اعلم بالصواب!
کوشش کے باوجود خود کو مائل نہیں کر سکا کہ موبائل ٹیلی فون یا کمپیوٹر میں افسانہ لے کر گھس جاؤں۔
ایسے میں سوچا جو کچھ معیاری اور مقبول افسانے لکھ چکا ہوں اور غیر مطبوعہ ہیں تو کتابی شکل میں محفوظ کر لوں۔ افسانہ چوری تو اب کوئی عیب ہی نہیں رہا۔ چلو جو چھپ جائیں گے شاید چوری سے بچ جائیں۔ ایک دو ادیب دوست ہیں جو پبلشنگ کا کام کرتے ہیں۔ بھیا جی وہ تو کہہ رہے ہیں کہ پیسے دو اور کتاب چھپوا لو۔ مارکیٹنگ کا نام نہیں سنتے۔ کہتے ہیں اب کتاب کوئی خریدتا ہی نہیں۔ آپ اپنی کتابیں خود بیچ لینا اگر بکتی ہوں۔ ادیب برادری کا اور پرانا دوست ہونے کا یہ فائدہ دینے کو تیار ہیں کہ صرف کاغذ اور چھپائی کا خرچہ لے لیں گے۔ سو دوسو کتاب مجھے تحفے تحائف کے لیے دے دیں گے۔ پچیس تیس افسانے بھی چھپواؤں تو اسی ہزار سے ایک لاکھ کا خرچہ بتاتے ہیں، اگر درمیانہ سا کاغذ استعمال کریں تو۔ کل بینک سے پتا کیا تو کھاتے میں کل گیارہ ہزار تین سو باسٹھ روپے پڑے ہیں۔ دوست واقف کار ابھی سے “دستخط شدہ کاپی” کی فرمائشیں رجسٹر کرا رہے ہیں۔ یعنی کسی کی کتاب خریدنے کی نیت نہیں۔ میں یہ سرمایا کاری کدھر سے کروں۔ پتا نہیں کون مشہور ترین لوگ ہوں گے جن کی کتابیں ناشر مفت چھاپتے ہوں گے۔ رائیلٹی کا تو ملک عزیز میں تصور ہی نہیں۔ سنا ہے مستنصر حسین تارڑ صاحب کو رائیلٹی ملتی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کتاب چھپواؤں تو کیسے؟ آپ میرے افسانے لے لیں اور چھپوا لیں۔ میرا کچھ تقاضا نہیں۔”
اتنی لمبی رام کہانی سن کر میرے تو پسینے چھوٹ گئے۔
“لیکن ارشد بھائی! سب کچھ پیسا تھوڑے ہی ہے۔ پیسا تو ایسے ویسوں کے گھر بھی بہت ہوتا ہے۔ اصل چیز تو عزت ہے۔
اور پھر پرسوں کی بیٹھک میں کتنی بات ہوئی تھی اس موضوع پر:
“ہم کیوں لکھتے ہیں؟”
آپ کے اندر کا تخلیق کارآپ کو اکساتا ہے نا۔ بئیے کو جو گھونسلا بُننا آتا ہے وہ فاختہ تو نہیں بُن سکتی۔ کیمیا کا بڑے سے بڑا فارمولا بنا لینے والاضروری نہیں کہ ایک مصرع موزوں پڑھ سکے۔ تخلیق کرنا تو بہت بعد کی بات ہے۔ آپ کے افسانہ کا ایک ایک تخلیقی فقرہ سونے میں تولنے کے لائق ہوتا ہے۔ سارے یہی کہتے ہیں کہ وحید ارشد جیسا علامت کا استعمال شاید ہی کوئی کر سکے۔ “
میں بھی ایک عرصے سے نثر، شاعری اور اس پر تنقید سن سن کر آدھا نقاد بن چکا تھا۔ اپنا وعظ جاری رکھا۔
“لطیف الیکٹریشن اپنے سارے درہم اور دینار خرچ کر کے آپ جیسا ایک افسانہ نہیں لکھ سکتا۔ اللہ نے آپ کو وہ خاص ہنر اور لیاقت دی ہے، آپ کے اندر کی وہ آنکھ کھول دی ہے کہ آپ کی بصیرت کا کوئی مول ہی نہیں۔ ہُما شُما آپ کے پاؤں کے برابر نہیں۔ “
میں نے اپنی ساری دانشوری بگھار دی۔
وحید ارشد چُپ سا ہو گیا۔
میں بھی اُٹھ کر اپنی مینیجر والی نشست پر جا بیٹھا۔ سامنے آمدن اور اخراجات کا رجسٹر کھلا تھا۔ اسٹیشن سپرنٹنڈنٹ کا دو ماہ کرایہ نہ دے سکنے کی وجہ سے چائے خانہ کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کا نوٹس اسی رجسٹر سے جھانک رہا تھا۔ دائیں طرف لال رنگ کی پرانی گھسی ہوئی جلد والی نوٹ بک پڑی تھی جس میں کئی نامور افسانہ نگاروں شعرا اور ادبی محققین کی واجب لادا رقوم درج تھیں۔ میں نے گھبرا کر ہاتھ پیچھے ہٹا لیے۔ بے خیالی میں ہاتھ ویسٹ کوٹ کی جیب میں ڈالا تو بجلی کا بل کڑکڑایا۔
کل جمع کرانے کی آخری تاریخ تھی۔
وحید ارشد آج جلدی آ گیا تھا اور باقی ادبا اور دانشور صاحبان کے آنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔
میں اپنی کرسی سے اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا پلیٹ فارم کی طرف کھلنے والے دروازے کی طرف گیا۔ جا کر تسلی کی کہ دروازہ کھلا تھا اور چٹخنی نہیں چڑھی تھی۔
پھر میں خالی الذہن سا چلتا ہوا سڑک کی طرف کھلنے والے دروازے کی طرف گیا۔ جا کر آہستگی سے دروازہ مکمل بند کر کے چٹخنی چڑھا دی۔
میں نے پلٹ کر دیکھا تو وحید ارشد میری ہی طرف متوجہ تھا۔ اس کے چہرے پر بڑی معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی۔
میں جھینپ گیا۔ کھونٹی سے لٹکتا جھاڑن یونہی پکڑا اور دروازے کے صاف شیشوں کو خواہ مخواہ دوبارہ صاف کر دیا۔ مجھے اپنی سانس گھُٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔
میں نے چٹخنی کھول دی۔
پلٹ کر دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا تو وحید ارشد کی معنی خیز مسکراہٹ اور گہری ہو چکی تھی۔
میں نے دروازے کے شیشوں والے دونوں پٹ مکمل کھول دیے اور جالی والادروازہ چٹخنی چڑھائے بغیر کھلا رہنے دیا۔
اس دروازے سے روشنی تو آتی ہی تھی ہوا بھی آ جا سکتی۔ اس آمدورفت کے بغیر مجھے میرا چائے خانہ قید خانہ محسوس ہوا۔
٭٭٭