کورا ثانی کچن میں مصروف تھی اور ساتھ ساتھ کچھ گنگنا رہی تھی ۔۔۔ اسی وقت اس کی امی کچن میں داخل ہوئیں۔
” کیا بنایا جارہا ہے ۔۔۔؟” امی نے اسے ککنگ کرتے دیکھ کے پوچھا ۔
” میکرونیز بنا رہی ہوں ممی۔۔۔کھائیں گی ؟” کورا ثانی نے کہا۔
” میکرونیز۔۔۔؟ کس کے لیے ؟” امی نے حیرت آمیز لہجے میں کہا ۔
” اپنے لیے۔۔۔بس زرا آج ناشتہ لائیٹ سا کیا تو اس لیے جلدی بھوک لگ گئی۔” کورا ثانی نے کہا۔
” لائیٹ ناشتہ ۔۔۔؟ 2پراٹھے ، آملیٹ ، بریڈ بٹر اور مارملیڈ ، فرنچ ٹوسٹ ، اورنج جوس اور پھر کافی ۔۔۔۔ یہ لائیٹ ناشتہ تھا ؟
کھاؤ پیو مزے کرو میرا چاند۔۔۔۔ لیکن دیکھنا کہیں وزن نہ بڑھا لینا ابھی سے ہی۔” امی نے کہا۔
” لوجی ۔۔۔ کورا اول کو کھانے کی میز پر بھیجنا بھی کسی وائی کنگ کو محاذِ جنگ پر بھیجنے کے مترادف ہے۔” کورا ثانی نے سوچا۔
” ہاں بالکل ممی لیکن ناشتے کو کافی دیر بھی تو ہوگئی۔۔۔ بس اس لیے زرا۔۔۔” کورا ثانی نے کہا۔
” ہاں ناشتے کو دیر تو ہو گئی ۔۔۔ لیکن ابھی ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تو ڈھیر سارے گرِلڈ چیز سینڈوچ بھی بنا کر لے جارہی تھی ۔۔۔۔ بیٹا ضرور کھاؤ پیو لیکن پھر اپنی فزیکل ایکٹیویٹیز بھی بڑھا لو جاگنگ کے علاؤہ کچھ گیم وغیرہ بھی شروع کردو جیسے بیڈمنٹن۔” امی نے کہا۔
” جی ٹھیک ہے ممی۔۔۔” کورا ثانی نے کہا۔
20 منٹ گزرے تھے کہ کورا لاؤنج میں داخل ہوئی ، اس کی امی صوفے پر بیٹھیں ٹی-وی پر ایک رئیلٹی شو دیکھنے میں مگن تھیں۔
” ماما ۔۔۔ لنچ میں کتنی دیر ہے ۔۔؟ اس کے امی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا ، کورا اول اور کورا ثانی تینوں چھت پر اسی کمرے میں موجود تھیں ۔
” کورا ، بہت بور ہورہی ہوں میں اب۔۔۔ کورا اول تو پھر بھی گھوم پھر آئی اور عدیم کے خرچے پے شہر کے بہترین ہوٹل سے ڈنر بھی کر آئی ، لیکن میں متواتر یہیں پڑی سوکھ رہی ہوں ۔۔۔ کچھ میرا بھی بندوبست کرو آؤٹنگ کا ۔” کورا ثانی کے کورا سے کہا ۔
” بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔۔۔۔ تم ایسا کرو صبح سے کالج جوائن کرلو ، ہفتے میں 3 دن تم چلی جانا اور 3 دن میں چلی جاؤں گی۔” کورا نے کہا۔
” گریٹ آئیڈیا ۔۔۔۔ مجھے بہت اچھا لگے گا کالج جانا۔” کورا ثانی نے چہکتی آواز میں کہا۔
” کالج کے بارے میں تمہاری یاداشت کی کیا کیفیت ہے ۔۔۔۔ ؟” کورا نے کہا۔
” کالج کے بارے میں مجھے بہت کچھ یاد ہے لیکن یہ یادیں دھندلی سی ہیں۔۔۔۔” کورا ثانی نے کہا۔
” اوکے ۔۔۔ میں تمہیں وہ سب کچھ ری-مائینڈ کروادیتی ہوں کہ جس سب کا تمہیں علم ہونا ضروری ہے۔۔۔ ساتھ ہی میں کالج کے فیس بک گروپ سے اپنے سب کلاس فیلوز ، یعنی وہ کلاس فیلوز کے جو اس ٹور میں میرے ساتھ نہ تھے اور اس حادثے سے بچ نکلے ان کی تصاویر ، نام اور ضروری تفصیلات سے تمہیں آگاہ کردیتی ہوں۔۔۔” کورا نے کہا ۔
” ٹھیک ہے۔۔۔۔ویسے اس سانحہ میں تمہارے کتنے کلاس فیلوز جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔۔” کورا ثانی نے پوچھا ۔
جس پر کورا نے ایک طویل سانس لیا۔۔۔۔
” کلاس کے 60 میں سے 20 سٹوڈنٹس اس سانحہ میں جاں بحق ہوگئے تھے ۔۔۔” کورا نے افسردہ لہجے میں کہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا ثانی کالج میں اپنے کلاس روم میں موجود تھی اور Maths کی کلاس چل رہی تھی ۔
ٹیچر بورڈ پر ایک Equation لکھنے میں مصروف تھیں ۔۔۔
” جی ، تو کون حل کرے گا یہ ایکویشن؟” ٹیچر نے کلاس سے مخاطب ہو کر کہا۔
جس پر کلاس میں نصب طلبہ نے ہاتھ کھڑے کیے اور باقی نصف ساکت رہے۔
” ہانیہ ۔۔۔ آپ آجائیں۔” ٹیچر نے آخری بینچ پر موجود ایک لڑکی سے کہا ۔ جس نے ہاتھ کھڑا نہیں کیا تھا۔
وہ اٹھی اور بورڈ تک پہنچی ، ٹیچر نے مارکر اس کی طرف بڑھایا اور اس نے بورڈ پر لکھی ایکویشن کو حل کرنا شروع کیا ، لیکن اس کی رفتار کافی سست تھی ، یہاں تک کہ چوتھے سٹیپ پر ہی وہ اَڑ گئی ۔۔۔
” ٹھیک ہے آپ واپس جاؤ ۔۔۔ کورا آپ آجاؤ .” ٹیچر نے کہا ۔
کورا ثانی اپنی نشست سے اٹھ کر بورڈ تک پہنچی ، اس نے ہانیہ کی حل کی نصف ایکویشن کو ڈسٹر سے مٹایا ۔۔۔ اور پھر اسے دوبارہ حل کرنا شروع کردیا ۔۔۔ بمشکل ایک منٹ کے اندر اندر ایکویشن حل ہوچکی تھی ۔
” ایکسیلنٹ ۔۔۔ تو اب آپ بتائیں کہ اس ایکویشن کو حل کرنے میں ہانیہ سے کہاں اور کیا غلطی ہوئی؟” ٹیچر نے پوچھا ۔۔۔جس پر کورا ثانی اس غلطی کی وضاحت کرنی لگی۔
کچھ ہی دیر میں کلاس کا وقت ختم ہوگیا ۔ اس کے بعد کالج میں تفریح کا وقت تھا ، نصف سٹوڈنٹس کلاس روم سے باہر چلے گئے اور باقی نصف کلاس میں ہی موجود رہے۔۔۔
کورا ثانی ابھی تک کلاس میں موجود تھی اور ایک سوال ، بورڈ سے رجسٹر پر اتارنے میں مشغول تھی کہ اچانک کسی نے رجسٹر اس سے جھپٹ لیا۔۔۔اس نے بےاختیار سر اٹھایا تو وہی ہانیہ اور اس کے ساتھ کلاس کی دو اور لڑکیاں اس کے سامنے کھڑی تھیں ۔
” کیوں بھئی فیثا غورث کی نواسی تمہیں میرے مقابلے میں ایفیشنسی دکھانے کا بہت شوق ہے۔۔۔؟” ہانیہ نے طنز سے لبریز لہجے میں کہا ۔
” لگتا ہے ڈوبنے سے انسان کا دماغ تیز ہو جاتا ہے ۔۔۔ اوسط سٹوڈنٹ سے ایک دم ہی کتابی کیڑے میں بدل گئی ۔۔۔؟” ہارلین نے کہا۔
” کہو تو تمہیں دو چار غوطے مزید دے دیں ۔۔۔؟ ٹاپر بن جاؤ گی.” ہیزل نے اپنی آستین چڑھاتے ہوئے کہا ۔
” وہ ہیری پوٹر میں کہا کہتے تھے ۔۔۔ ” ایک بچہ جو بچ گیا”۔۔۔ کورا کی بھی یہی صورت حال ہے۔۔۔” ایک بچی جو بچ گئی”. ہارلین نے کہا۔
” سنو لڑکی ۔۔۔ مانا کہ حادثے میں کلاس ٹاپرز کی موت ہوچکی ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم ان کی جگہ لینے کے لیے ضرورت سے زیادہ پر پرزے نکالنے لگو۔۔۔ یہ تمہارے لیے محض ایک وارننگ ہے ۔” ہانیہ نے کہا ، اس کا رجسٹر کھولا اور اسے لمبائی کے رخ درمیان سے پھاڑ کر دو ٹکڑے کردیا ۔
” یہ کیا کردیا تم نے۔۔۔۔ باؤلی ہوچکی ہو کیا ؟” کورا ثانی جو سب تک شاک کی سی کیفیت میں تھی، بےاختیار بول اٹھی ۔
ہانیہ نے اپنا ہاتھ بڑھایا ، کورا کے گریبان کو مظبوطی سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔
” تم جیسی پڑھاکو چیونٹیوں کے پر کاٹنا ہمیں خوب اچھی طرح سے آتا ہے۔۔۔ اس کے بعد ہمارے راستے میں کبھی مت آنا۔” ہانیہ نے کہا اور اپنے ہاتھ کو پیچھے کی طرف جھٹک دیا ، کورا ثانی جھٹکے سے کلاس کی دیوار سے جا ٹکرائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا کی امی ، بابا اور سعد گھر کے لاؤنج میں بیٹھے محوِ گفتگو تھے ۔
” نجانے کیا ہوگیا ہے میری شہزادی کو ۔۔۔ جب سے حادثے کے بعد اس کی واپسی ہوئی ہے بالکل بدل گئی ہے ۔۔۔۔ پہلے مجھے ہمیشہ ماما ہی کہا کرتی تھی ۔۔۔ اور اب کبھی ماما ، کبھی ممی اور کبھی مَوم کہتی ہے۔۔۔۔ پہلے کھانے پینے کی بہت کچی تھی اور اب تو دن میں کوئی پانچ چھے دفعہ سے کم تو کھاتی ہی نہیں۔۔۔۔ پہلے تین دن بعد لباس بدلا کرتی تھی اور اب تو دن میں دو تین مرتبہ ۔۔۔ پتا نہیں کیا ہوگیا ہے کورا کو۔” کورا کی امی نے کہا۔
” مجھے بھی پہلے صرف بابا کہا کرتی تھی۔ اب کبھی بابا ، کبھی پاپا اور کبھی ڈیڈ۔۔۔” کورا کے ابو نے کہا۔
” اور مجھے آپی پہلے ہمیشہ سعد کہہ کر بلاتی تھی اب کبھی سعد، کبھی سعدی اور کبھی بھائی ۔۔۔ ہو نہ ہو اس حادثے سے ان کی دماغی کیفیت ضرور متاثر ہوئی ہے۔” سعد نے کہا۔
” خدا نہ کرے۔۔۔۔ لیکن پھر بھی مجھے احتیاطاً ستی سے بات کرنی پڑے گی اس سلسلے میں۔” امی نے کہا ۔
اسی وقت کورا ثانی کالج سے واپس پہنچ کر لاؤنج میں پہنچی ۔
” آگیا میرا بچہ ۔۔۔ ” امی نے اسے دیکھتے ہی پیار سے پکارا ۔
” جی ممی۔۔۔” کورا ثانی نے بجھی سی آواز میں کہا اور اپنا بیگ صوفے پے رکھا ۔
” چینج کر آؤ تم ۔۔۔ میں کھانا لگا دیتی ہوں۔” امی نے شفقت آمیز لہجے میں کہا ۔
” نہیں ۔۔۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔ میں کچھ دیر سونا چاہتی ہوں بس۔” کورا ثانی نے کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔
کمرے میں داخل ہوکر اس نے کمرے کو اندر سے لاک کیا ، کھڑکی کے راستے عقبی گیلری میں پہنچی اور دائروی سیڑھی کے زریعے چھت پے پہنچ گئی۔
حسبِ معمول اس نے دروازے پر ہلکی سی دستک دی اور چند لمحے بعد بعد دروازہ کھل گیا ۔۔۔ دروازے پر کورا اول تھی ۔
” آگئی میری پڑھاکو بہن ۔۔۔” کورا اول نے کہا۔
” ویلکم بیک ثانی۔۔۔ کیسا رہا کالج میں پہلا دن؟” کورا نے کہا ۔
” میں آئیندہ کالج نہیں جاؤں گی۔۔۔” کورا ثانی نے کپکپاتے لہجے اور بھیگتی آنکھوں کے ساتھ کہا۔
” ارے ۔۔۔ کیا ہوا ثانی ؟؟” کورا نے فکرمند لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔ جس پر کورا ثانی پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔
” ثانی ۔۔۔ ؟؟ کیا ہوگیا ہے یار ؟” کورا اول نے کہا اور آگے بڑھ کے اسے اپنے بازوؤں میں بھر کے خود سے چمٹا لیا ۔
کورا ثانی بغیر کچھ کہے یونہی بلکتی رہی۔
” کورا ۔۔۔ پانی لاؤ جلدی .” کورا اول نے کہا ۔
کورا ٹیبل کی طرف بڑھی اور وہاں موجود جگ سے ، ایک گلاس میں پانی انڈیلا ۔۔اور واپس دروازے کے پاس پہنچی جہاں کورا اول ، کورا ثانی کو تھپک کر تسلی دے رہی تھی ۔۔۔
” ثانی ۔۔۔ ہمت سے کام لو پانی پیو اور پھر ہمیں بتاؤ کہ کیا ہوا ہے ہماری پیاری بہناں کو۔” کورا نے شفقت آمیز لہجے میں کہا۔۔۔ کورا اول نے اس سے پانی کا گلاس لیا اور کورا ثانی کو تھما دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کالج میں تفریح کا وقت تھوڑا ہی باقی تھا اور تقریباً سبھی سٹوڈنٹس کلاس میں واپس پہنچ چکے تھے ۔۔۔ کورا اول نے چیونگم چباتے ہوئے ، اپنے بیگ میں ہاتھ مارا اور وہاں سے اپنا موبائل برآمد کیا ۔
” یہ کیا کررہی ہو کورا ۔۔۔؟ پتا ہے ناں کلاس میں موبائل رکھنا سختی سے ممنوع ہے “. اس کے ساتھ بیٹھی سینڈی نے کہا۔
اسی وقت ہانیہ ، ہیزل اور ہارلین کلاس روم میں داخل ہوئیں اور اسی روایتی اکڑ کے ساتھ چلتے ہوئے عقب میں موجود اپنی نشستوں کی طرف بڑھیں۔۔۔۔
کورا اول نے موبائل کا کیمرہ کھولا اور موبائل سینڈی کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔ “۔ سنو سینڈی بنتِ کینڈی ، اب جو کچھ بھی ہوگا اس کی ویڈیو ریکارڈ کرنا ۔” کورا نے موبائل سینڈی کو تھما کر کہا ۔
اسی وقت کلاس میں دھماکے کی سی آواز اور پھر ایک چیخ ابھری اور سب سٹوڈنٹس نے چونک کر اس طرف دیکھا جہاں ہانیہ منہ کے بل زمین پے گر چکی تھی اور ہارلین و ہیزل بوکھلاہٹ کے عالم میں اسے اٹھانے کی کوشش کررہی تھیں ۔
اٹھنے کے بعد ہانیہ کسی زخمی بھیڑیے کی طرح کورا اول کی طرف لپکی۔۔۔۔ ” تم نے میرے پاؤں سے اپنا پاؤں اَڑایا تھا ۔۔۔ ہاں ؟” ہانیہ نے گرجتے ہوئے کہا ۔
کورا اطمینان سے اپنی نشست اٹھی۔۔۔ تب تک ہارلین و ہیزل بھی وہاں پہنچ چکی تھیں۔
” نہیں ۔۔۔ بالکل نہیں۔۔۔ میں بھلا ایسے کیوں کروں گی سویٹ ہارٹ ؟؟ کون پاگل کسی باؤلی کتیا کی دم پر پاؤں رکھنا چاہے گا ۔۔۔؟ کورا اول نے مسکراتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے کہا ۔۔۔ جس پر کلاس میں ایک فلک شگاف قہقہ بلند ہوا۔۔۔ سبھی طلباء و طالبات پورے انہماک سے انہیں دیکھ رہے تھے ۔
” تمہاری یہ جرات منحوس ۔۔۔” ہیزل نے شعلہ اگلتے چہرے کے ساتھ کہا اور یوں اپنی آستین چڑھانے لگی جیسے کوئی گلی کا غنڈا ہو۔
” ششششش ۔۔۔۔ مہاراج پلیز مجھے ایک موقع دیجیئے۔” کورا اول نے التجا بھرے لہجے کہا۔
” ہم سے پنگا اور پھر ایک موقع اور چاہیے ۔۔۔ کس چیز کا موقع چاہیے ۔ ہاں ؟” ہارلین نے سرخ چہرے کے ساتھ کہا۔
” مجھے موقع دیجیئے کہ میں آپ تینوں کو اس درگت سے بچالوں کہ جو چند سیکنڈ بعد میرے ہاتھوں آپ کی ہونے والی ہے ۔۔۔” کورا نے کہا اور اپنے بدن کی پوری طاقت اپنے دائیں ہاتھ میں مرکوز کرتے ہوئے ہارلین کے منہ پر مکہ جڑ دیا ۔ ہارلین چیخ کر ٹھیک ہانیہ ہی کہ طرح زمین بوس ہوگئی۔
لیکن اس کی زمین تک پہنچنے سے قبل ہی کورا اول نے پوری قوت سے ہیزل کے پہلو میں اپنی لات رسید کردی اور وہ دونوں ہی چیختے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکرا کر زمین پے ڈھیر ہوگئیں۔۔۔اگلے ہی لمحے کورا اول آگے بڑھی اور اس نے شاک کی حالت میں ساکت کھڑی ہانیہ کی چٹیا کو اپنے ہاتھ میں لیا اور تیزی سے اسے تہہ در تہہ ہاتھ پر لیٹتے ہوئے ہاتھ کو ایک زور دار جھٹکا دیا اور کمرہ ہانیہ کی چیخوں سے گونج اٹھا ۔۔۔کورا اول اسی حالت میں لیے اسے آگے بڑھی اور اس کی پیشانی زوردار طریقے سے دیوار سے دے ماری ۔۔۔ ہارلین جو اپنے ابتدائی شاک سے سنبھل چکی تھی کسی درندے کی طرح کورا اول کی طرف بڑھی لیکن کورا اول نے اپناپہلو بچاتے ہوئے ٹھیک اسی طرح کا ایک مکا ہیزل کے منہ پر دوسری جانب جَڑ دیا۔۔۔ ہانیہ اپنی خود آلو پیشانی کے ساتھ وہیں کی وہیں دیوار کے ساتھ ڈھیر ہو چکی تھی ۔۔۔ کورا اول اب کسی بھوکی شیرنی کی طرح ہارلین کی طرف لپکی ، اور ہارلین نے اپنے بدن کی تمام قوت اپنی ٹانگوں میں مرتکز کرتے ہوئے باہر کی طرف دوڑ لگادی ۔۔۔ ٹھیک اسی وقت اگلے پیرئیڈ کی ٹیچر کلاس میں داخل ہورہی تھیں اور دروازے پر ہارلین زوردار طریقے سے ان سے ٹکرا گئی۔۔۔اور وہ دونوں چیختی ہوئی وہیں ڈھیر ہوگئیں۔۔۔۔کورا اول بھاگتے ہوئے دروازے پر پہنچی اور اس نے ٹیچر کو اٹھنے میں مدد دی ۔۔۔ ہارلین بھی تصادم کے بعد کراہتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کررہی تھی ، کورا اول نے آگے بڑھ کر اپنا ہاتھ اس کی جانب بڑھایا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے اٹھنے میں مدد دی ۔۔۔ جب ہارلین اٹھ کے کھڑی ہونے میں کامیاب ہوگئی تو کورا اول نے کلائمیکلس کے طور پر ایک اور زوردار مکا اس کے منہ پے جڑ دیا اور ہارلین پھر سے کسی کٹے ہوئے درخت کی طرح زمین بوس ہوگئی۔۔۔۔ ٹیچر تیزی سے اس جانب بڑھیں اور انہوں نے کورا اول کی کلائی مظبوطی سے تھام کر اسے مزید حملے سے روک دیا۔
ہارلین کے ہونٹ اور ٹھوڑی خون میں نہا چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک سال میں یہ آپ تینوں کی 12ویں لڑائی ہے۔۔۔ ہمیں آپ تینوں کے بارے میں بیس سے زیادہ مرتبہ شکایات موصول ہوچکی ہیں۔۔۔ کتنی ہی مرتبہ آپ کو وارننگ دی گئی ، جرمانہ کیا گیا ، عارضی طور پر کلاس سے سسپنڈ کیا گیا لیکن آپ تینوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔۔۔”
” اور کورا ، کلاس کی ہونہار سٹوڈنٹ ہونے اور ایک صاف ریکارڈ رکھنے کے باوجود بھی آپ نے بجائے انتظامیہ کو کمپلین کرنے کے ، قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی ۔۔۔؟
وہ چاروں پرنسپل کے آفس میں موجود تھیں۔۔۔ہارلین ، ہانیہ اور ہیزل تینوں کو کالج کی انفرمری میں ابتدائی طبی امداد فراہم کی جاچکی تھی اور ہانیہ کی پیشانی پر بینڈیج بندھی تھی ۔
” ہارلین ، ہیزل اور ہانیہ ۔۔۔ آپ تینوں کو مسلسل کالج کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ، ساتھی سٹوڈنٹس سے لڑائی جھگڑا کرنے اور بار بار کی تنبیہ کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے کالج سے Expel کیا جاتا ہے ۔۔۔ آپ جمع کروائی ہوئی فیس کا ریفنڈ لینے کی اہل نہیں ۔”
” اور کورا ، آپ کو کلاس میں لڑائی جھگڑے اور کالج کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے جو دو دن میں واجب الادا ہوگا۔۔۔”
پرنسپل نے کہا۔
” ایکسکیوزمی سر ، میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔۔۔” کورا اول نے کہا۔
” جی بولیں۔۔۔” پرنسپل نے کہا۔
” میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ۔۔۔ اب کی بار غلطی ان تینوں کی نہیں بلکہ میری تھی۔۔۔ میں دُہرا جرمانہ ادا کرنے کو تیار ہوں۔۔ لیکن ان تینوں کو کالج سے ایکسپل نہ کرنے کی درخواست کرتی ہوں۔” کورا اول نے کہا اور ان تینوں نے چونک کر اس کی جانب دیکھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا اول بیگ بائیں کندھے پر لٹکائے کالج کے میں گیٹ سے باہر نکلی اور وہاں سے چند منٹ کے پیدل فاصلے پر موجود بس سٹینڈ کی جانب بڑھ گئی۔
لیکن اسی وقت ایک جانی پہچانی آواز سے اس کا نام پکارا اور اس نے مڑ کے دیکھا۔۔۔اسے پکارنے والا عدیم تھا۔
” عدیم تم یہاں ۔۔۔” کورا اول نے خوشگوار حیرت کے ساتھ کہا۔
” تمہیں پتا ہے ناں پھپھو اسی کالج میں لیکچرار ہیں۔۔۔۔انہی سے ملنے آیا تھا ۔ہوگئی ملاقات اب واپس جارہا تھا کہ تم پے نظر پڑ گئی۔” عدیم نے کہا۔
” اوہ اچھا۔۔۔ مجھے بھی ابھی چھٹی ہوئی۔ اب واپس جارہی ہوں۔” کورا اول نے کہا۔
” تو چلو اکھٹے چلتے ہیں۔۔۔” عدیم نے کہا۔
کچھ ہی دیر میں کورا اول عدیم کی کار میں اس کے ساتھ محوِ سفر تھی ۔۔۔۔
” آج کالج میں کوئی لڑائی جھگڑا برپا ہوا ہے کیا ۔۔؟” عدیم نے ڈرائیو کرتے ہوئے پوچھا اور کورا اول چونک اٹھی۔
” ہاں کچھ سٹوڈنٹس جھگڑ پڑے تھے شاید۔۔۔ کیوں ؟” کورا اول نے کہا۔
” کچھ نہیں۔۔۔ بس جب میں پھپھو سے بات چیت کررہا تھا تو کچھ وہیں کچھ فاصلے پر شور شرابے کی آوازیں سنائی دیں۔۔۔ کیسے بدتہذیب اور گنوار لوگ ہیں ناں۔۔۔ اپنی درس گاہ میں بھی غنڈہ گردی اور اٹھا پٹک سے باز نہیں آتے ۔” عدیم نے کہا ۔
” شکر ہے تم دیکھ نہیں لیا کہ وہ بدتہذیب اور گنوار تھے کون کون۔۔۔” کورا اول نے دل میں کہا۔
” ایک بات کہوں کورا ۔۔۔؟” عدیم نے کہا۔
” جی جی ۔۔۔ ؟” کورا اول نے کہا۔
” یونیفارم میں تم بےانتہا کیوٹ لگتی ہو۔۔۔” عدیم نے کہا۔
” تھینک یو ۔۔۔” کورا اول نے شرم سے سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ کہا۔
” اچھا اس ویک اینڈ تم کیا کررہی ہو۔۔۔۔؟” عدیم نے پوچھا ۔
” ایک بہت عزیز دوست کے ساتھ آوٹنگ پر جارہی ہوں۔۔۔” کورا اول نے کہا ۔
” کیا ۔۔۔؟ کون دوست ؟؟ ” عدیم نے چونک کر پوچھا ۔
” آفکورس تم یار ۔۔۔۔ جب کوئی لڑکا ، کسی لڑکی سے پوچھے کہ ویک اینڈ پر اس کی کیا مصروفیات ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے ۔۔۔ کہ وہ اس کے ساتھ کہیں آوٹنگ پر جانا چاہتا ہے ۔۔۔” کورا اول نے کہا اور وہ دونوں ہی کھلکھلا کر ہنس دیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورا ، کورا ثانی اور کورا اول کمرے میں موجود تھیں ۔۔۔ کورا اول ابھی ہی وہاں پہنچی تھی۔
” گرلز Guess what آج میں ایک بہت تباہی قسم کی ایکشن مووی لائی ہوں۔۔۔۔ابھی مل کر دیکھیں گے۔۔۔لیکن پہلے پیزا اور کلب سینڈوچ آرڈر کرو فُوڈ وے بیکرز سے ۔۔۔” کورا اول نے کہا ۔
” یہ کونسی مووی ہے جس کے لیے تم اتنی ایکسائٹڈ ہورہی ہو۔۔۔۔؟؟” کورا ثانی نے پوچھا ۔
” مووی کا نام ہے۔۔۔۔ کورا کا انتقام”. کورا اول نے کہا ۔۔۔ کورا اور کورا ثانی نے بےاختیار ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔