”ماموں میں نے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔؟“ وہ ساری رات سوچنے کے بعد پختہ فیصلہ کر کے صبح ان کے کمرے میں پہنچ گٸی۔
”ہاں بولو ! اب کیا بات ہے۔۔۔۔؟“ اس کو اپنے کمرے میں دیکھ کر عابدہ مامی کا ماتھا ٹھنکا ، جبکہ بیا نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ چاہے جو بھی ہو جاۓ وہ اسرار بھاٸی کے گھر کبھی نہیں جاۓ گی اور یہی بات کرنے وہ ان کے کمرے میں آگٸی۔ عابدہ مامی،صفدر ماموں کے کپڑے بیگ میں رکھ رہی تھیں۔۔ وہ کہیں جا رھے تھے شاید۔اور صفدر ماموں شیشے کے آگے کھڑے بال بنا رہے تھے۔
”مجھے آپ سے نہیں ماموں سے بات کرنی ہے۔۔“ اس نے عابدہ مامی کی بات سن کر دھیرے سے کہا۔
”ہاں بولوں ! کیا بات ہے؟“ صفدر علی نے بال بناتے ہوۓ مصروف انداز میں روکھے لہجے میں کہا۔
”وہ مم مجھے۔۔۔۔۔۔۔“
”کیا میں میں لگا رکھی ہے! اب آگے بھی بولو اتنا ٹاٸم نہیں تمہارے ماموں کے پاس۔۔۔“عابدہ نے بھنویں چڑھا کر بیزاری سے کہا اور دوبارہ سے بیگ میں کپڑے رکھنے لگی، صفدر علی فلحال دو دن کے لیے شہر سے باہر جا رہے تھے ، ان کو اندازہ نہیں تھا وہ کیا بات کرنے آٸی تھی،
”ہاں جلدی بولو۔۔! تمہاری مامی ٹھیک کہہ رہی ہیں،۔۔۔“
”وہ مم مجھے نہیں جانا ناٸمہ آپی کے گھر۔۔۔۔“ اس نے ڈرتے ڈرتے اک ہی سانس میں پوری بات کہہ دی ، عابدہ کو اس کی بات سن کر زور دار قسم کا جھٹکا لگا، اور یہی حال صفدر علی کا بھی تھا،
”یہ کیا بکواس کر رہی ہو؟“وہ بیگ چھوڑ کر اس کے پاس آٸی اور اس کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ تے ہوئے بولیں۔۔
”میں پورے ہوش و حواس میں ہوں مامی۔۔۔! مجھے نہیں پسند کسی کے گھر جانا۔۔آپ لوگ نائمہ آپی کو یہاں بلا لیں، میں ان کا ہر کام کروں گی افف تک نہیں کہوں گی لیکن ادھر نہیں جانا میں نے“ اب وہ روتے ہوۓ صفدر علی کے آگے کھڑی ہوگی ، آج اس میں بہت زیادہ ہمت آ چکی تھی۔اور وہ اپنے حق کے لیے بول رہی تھی اور یہ سب اللہ سے کی ہوٸی دعاٶں کا نتیجہ تھا،
”اُدھر کیوں نہیں جانا چاہتی تم ‘ کوٸی تو وجہ ہوگی” انہوں نے ناگواری سے پوچھا ،عابدہ مامی نے بھی غصے سے اس کو گھورا ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ صفدر علی کو کوٸی منتر پڑھ کر غاٸب کر کے اس کو پکڑ کر دو چار لگاتیں۔۔
”مم میں نہیں بتا سکتی۔۔۔“ اب وہ انہیں کیا بتاتی ان کے داماد کے بارے میں۔نہ ہی انہوں نے اس کی بات کا یقین کرنا تھا۔۔
”کیوں؟ کیوں نہیں بتا سکتی۔۔۔“وہ غصے سے دھاڑے ، بیا اندر تک لرز گٸی، لیکن نا امید پھر بھی نہیں ہوٸی تھی۔
”پتا نہیں بس میں وہاں نہیں جاٶں گی۔“ وہ پھر سے ہمت مجتمع کر کے پختہ لہجے میں بولی اور بغیر ان دونوں کی طرف دیکھے تیزی سے کمرے سے باہر نکل آئی۔
”یہ لڑکی تو نکل گٸی ہمارے ہاتھوں سے صفدرصاحب۔“ مامی بھی اس کی دیدہ دلیری پر دنگ رہ گٸیں،
”ہوں تم سہی کہہ رہی ہو! اس وقت تو میں جلدی میں ہوں، اب دو دن بعد ہی بات ہوگی۔تم ناٸمہ کو یہی بلوا لو۔۔۔۔“ انہوں پرسوچ لہجے میں کہا۔لیکن بیا پر اُنہیں ابھی بھی بہت غصہ آرہا تھا۔
کچھ دیر بعد صفدر علی چلے گٸے تھے۔۔۔!
عابدہ نے اسرار احمد اور ناٸمہ کو کال کر کے گھر ہی بلوا لیا۔۔۔ لیکن اُسے خبر نہیں تھی کہ گھر میں اس کی عزت پر وار کرنے والا بھیڑیا آ چکا تھا اور اب اس کی تاک میں بیٹھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔!
**…**…**
اس نے مغرب کی نماز پڑھ کر دعا مانگی اور کمرے سے باہر آگٸی، اس کا رخ کچن کی طرف تھا ، کیونکہ مغرب ہوگٸی تھی راٸمہ کے آنے کا وقت ہوگیا تھا۔وہ سالن سلاد ، راٸتہ اور بریانی پہلے ہی بناچکی تھی، بس اب اس نے روٹیاں بنانی تھی، جب سے صفدر ماموں گھر سے گٸے تھے ‘ اس وقت سے لے کر اب تک عابدہ مامی سے اس کا سامنا نہیں ہوا تھا اور نہ ہی وہ گھر تھیں،وہ ناٸمہ آپی کے ساتھ ہوسپٹل چلی گٸیں تھیں اس نے بھی شکر کیا اور ٹاٸم دیکھا۔۔۔
”ابھی تک راٸمہ آٸی نہیں۔۔۔“ وہ خود سے بڑبڑاٸی،
پہلے تو وہ اس وقت آجاتی تھی ، سردیوں کے چھوٹے دن تھے سرے شام ہی رات کا گمان ہو رہا تھا وہ تھوڑی پریشان ہوٸی لیکن پھر سر جھٹک کر کچن میں آگٸی۔۔
”کیسی ہیں آپ سالی صاحبہ۔۔۔؟؟“ وہ فریج سے آٹے والا باٶل نکال رہی تھی ، جب اسرار بھاٸی کی آواز اس کے کانوں میں پڑی وہ کرنٹ کھا کر پیچھے مڑی ، اور ان کو کچن کے دروازے میں ایستادہ دیکھ کر آٹے کا باٶل اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہوگیا اور اس کے چہرے پر اتنی زیادہ سردی میں بھی پسینے کے قطرے نمودار ہوگٸے۔۔
”آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔؟“ وہ بمشکل بولی ،خوف سے اس کی آواز لرز گئی۔۔۔ وہ ان کی بےباکی پر بہت گنگ تھی۔۔
”یہ میرا سسرال ہے ، میں یہاں کسی بھی وقت آ سکتا ہوں۔۔“ وہ اس کے جسم پر ہوس بھری نظریں گاڑھے بولے اور کچن کا دروازہ عبور کر کے اندر آگٸے،
”آپ جاٸیں یہاں سے پلیز۔۔۔! مامی اور ناٸمہ آپی گھر پر نہیں ہیں۔۔“ اس نے اپنے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیر کر کہا۔۔۔
”ہاہاہاہاہا۔۔۔!جانتا ہوں۔۔۔یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔“ وہ قہققہ لگا کر ہنسے اور دو قدم کا فاصلہ طے کر کے اس کے بلکل پاس آگٸے وہ ڈرتے ڈرتے پیچھے سینک کے ساتھ لگ گٸی،
”یہ کک کیا کر رہے ہیں آپ ؟ جاٸیں یہاں سے پلیز۔۔۔؟“ وہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر اس کو پوری قوت سے پیچھے دھکیلتے ہوۓ چیخیی ، لیکن وہ اک انچ بھی نہیں ہلا تھا ، خوف و بے بس سے اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو آگٸے تھے، لیکن یہ وقت رونے کا نہیں، ہوش و ہواس میں رہ کر خود کو بچانے کا تھا، اس نے پیچھے سینک میں ہاتھ مارا،کفگیر اس کے ہاتھ میں آگیا اس نے وہ اٹھا کر پوری قوت سے اس کے منہ پر دے مارا۔۔
”اُوٸیییییی۔۔۔۔۔“ وہ اک دم سے بلبلا کر پیچھے ہٹا اور یہی موقع تھا،انابیہ نے اس کو زور سے پیچھے دھکیلا اور باہر صحن کی طرف بھاگی اور جلدی سے بھاگ کر کچن کی دیوار کے ساتھ رکھے سٹول کو اٹھا کر دوسری دیوار کے ساتھ رکھا اور اس پر چڑھ کر عاشی کی بلانے لگی۔۔۔
”عاشی۔۔۔! عاشی۔۔زرینہ خالہ پلیز میری مدد کرو۔۔۔۔“ وہ روتے ہوۓ ان کو پکار رہی تھی ، تب ہی اسرار احمد نے اس کو بالوں سے پکڑ کر کھینچا وہ درد سے کرہ اٹھی۔۔
”کوٸی بھی نہیں کرے گا مدد۔۔ تیری مامی اور آپی کو میں ان کی دوست کے گھر چھوڑ کر آیا ہوں ، وہ تب آٸیں گی جب میں ان کو لینے جاٶں گا۔۔۔“اس کی بات سن کر وہ سکتے میں آگٸی،جبکہ وہ اس کو گھسیٹتے ہوۓ برآمدے کی طرف لے گیا وہ ایسے ہی اس کے ساتھ کھنچتی چلی گٸی،
”چھچھ چھوڑو میرے بازوں ذلیل انسان۔۔۔یااللہ مجھے بچا لیے اس درندے سے ۔۔۔۔“ وہ یک دم ہوش میں آٸی اور اس سے اپنا بازوں چھڑوا کر باہر کی طرف بھاگی۔
”چٹاخ۔۔۔۔۔۔! کب سے بچ رہی ہے تو مجھ سے ،لیکن آج نہیں۔۔ تم میرے گھر نہیں جا سکتی تو میں نے سوچا ادھر ہی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔“ اس کا بھاری ہاتھ اٹھا اور بیا کے گال پر اپنانشان چھوڑ گیا ،وہ تیورا کر فرش پر گری۔۔اس کے منہ سے خون بہنے لگ گیا،
”میں نے تو سوچا تھا کہ تو میری بات جلدی مان جاۓ گی، لیکن تم نہیں چاہتی کہ میں تم پر نرمی کروں“ وہ حیوانوں کے طرح اس پر جھپٹا اور اس کو بازوں سے پکڑ کر اندر کمرے میں لے جا کر بیڈ پر پٹخ دیا۔۔
”یہ آپ ٹھیک نہیں کر رہے،مم میں ماموں کو بتاٶں گی وہ آپ کو چھوڑیں گے نہیں،جان سے مار دیں گے۔۔۔“ وہ ہمت مجتمع کر کے بولی ، اور بیڈ سے اتری ، کیونکہ یہ وقت جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا تھا وہ بہت ڈری اور سہمی ہوٸی تھی ، لیکن پھر بھی ہمت سے بات کر رہی تھی، اس نے خود کو اس درندہ صفت انسان سے بچانا تھا۔۔
”ہاہاہاہاہا۔! تمہاری مانے گا کون؟جانتا ہوں کتنی چلتی ہے تیری اس گھر میں۔۔۔“ اس نے خباثت سے مسکراتے ہوۓ کہا اور اس کی طرف بڑھا، جبکہ وہ صدمے سے گنگ رہ گٸی کوٸی اتنا بھی گر سکتا ہے ، جتنا وہ گر چکا تھا ۔وہ کچھ بول ہی نہ پاٸی۔۔
”بہت زیادہ انتظار کیا ہے میں نے اس دن کا۔۔۔اب وقت آیا ہے تو کیسے جانے دوں میں تمہیں۔۔۔تمہاری وجہ سے آتا تھا میں اس گھر میں،تو مجھے نکھرے دکھاتی تھی اب تو میں سارے بدلے لوں گا تجھ سے۔۔۔“ اس نے بولتے ہوۓ بیا کے اوپر سے شال کھینچی ، تب وہ ہوش میں آٸی اور اس کو دھکا دے کر وہاں سے بھاگی۔لیکن دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی اس نے دوبارہ دبوچ لیا۔۔
”چھوڑو مجھے کمینے انسان۔۔۔تمہیں تو میں تمہارے گندے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دوں گی۔“ اس نے چیخ کر کہا اور اپنے دونوں ہاتھ اس کے منہ پر زور سے مارے اس کی انگالیاں اسرار احمد کی آنکھوں میں چبھ گٸی تھی ،وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو تھام کر پیچھے ہٹا۔لیکن وہ جلدی سے دروازہ کھول کر باہر نکل کر کچن کی طرف بڑھی اور اس کے دروازے کی اوٹ میں رکھے موٹے سے ڈنڈے کو اٹھا کر ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام لیا، جیسے ہی اسرار احمد آنکھوں کو مسلتا اسکی طرف بڑھا ، اس نے اپنی پوری قوت لگا کر ڈنڈا اس کے سر پر دے مارا۔۔
”اوٸیییییی ماں مر گیا “ اس کا وار اتنا زور کا تھا کہ اسرا احمد جیسا مضبوط بندا بھی تڑپ کر منہ کے بل نیچے جا گرا۔۔
”مم تمہیں چھوڑوں گا نہیں بیا۔۔“ وہ درد سے تڑپتے ہوۓ بھی اس کو دھمکی دے رہا تھا اور پھر کچھ دیر ایسے ہی درد سے تڑپنے کے بعد ڈھیر ہو گیا. جبکہ وہ ہکابکا رہ گٸی اس کے ہاتھ پاٶں کانپ خوف سے کانپ رہے تھے،اس کے سر سے شال اتر چکی تھی ، پاٶں میں جوتا بھی نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوٶوں کا سیلاب رواں تھا، اس نے ڈنڈے کو دور پھنکا اور شال کو مضبوطی سے پکڑ کر دروازے کی سمت بھاگی۔۔۔اس کا ارادہ عاشی کے گھر جانے کا تھا۔۔
تب ہی دروازے پر زور سے دستک ہوٸی ، اس کا دل ڈر سے اچھل کر حلق میں آگیا وہ ننگے پاٶں دروازے کی طرف لپکی اور گھبراہٹ میں کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھول کر سامنے والے کو دیکھے بغیر دھکا دے کر آندھا دھند باہر کی طرف بھاگ گٸی۔۔۔۔۔اور پھر کہیں مڑے بغیر بس بھاگتی ہے چلی گئی۔۔۔!
**…**…**
دراین غصے کا بہت تیز تھا۔۔۔!
لیکن ہر دکھ کی طرح اپنا غصّہ بھی دل میں ہی رکھتا تھا ۔۔۔، کبھی گھر کے کسی فرد پر ظاہر نہیں کرتا تھا ‘ لیکن پتا نہیں کیوں آج جب اُسے شاہانہ بیگم پر بہت زیادہ غصہ آیا تھا تو اس نے اپنے دل میں رکھنے کی بجائے اُن دونوں پر نکال دیا تھا۔۔ شاید اس وجہ سے کہ شاہانہ بیگم نے اس کو نظر انداز کر کے اپنی سو کالڈ بھانجی رمل کی ساٸیڈ لی تھی’ تب سے ہی اُس کا موڈ بھی خراب ہو گیا تھا۔۔۔!
وہ فریش ہو کر واش روم سے نکلا تو زین بلیک تھری پیس میں ملبوس نک سک سے تیار پہلے سے ہی اس کے روم میں بیٹھا اپنے موباٸل میں مصروف تھا ، اس نے اک نظر زین پر ڈالی( وہ نک سک سے تیار بہت پیارا لگ رہا تھا۔۔ آج پہلی بار وہ اس کے ساتھ کسی بزنس پارٹی میں جا رہا تھا ) خراب موڈ کے ساتھ ہی اس نے اپنے گلے بال صاف کر کے تولیہ بیڈ پر پھنک کر بیڈ سے شرٹ اٹھا کر پہنی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آگیا ، آٸینے کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے بالوں کو سیٹ کر کے اپنے مخصوص پرفیوم کا چڑکاٶ کر کے کوٹ پہنا اور ریسٹ واچ باندھ کر اک بار پھر سے آٸینے میں اپنا تنقیدی جاٸیزہ لینے کے بعد وہ اس کی طرف مڑا ۔۔
”چلیں زین۔۔؟“ وہ بےدلی سے تیار ہوا تھا لیکن پھر بھی ڈیشنگ اور سمارٹ لگ رہا تھا۔
”جی بھاٸی۔۔۔۔۔!۔۔۔۔۔۔“ وہ بھی تیزی سے کھڑا ہوگیا، تب ہی اس کا سیل بجا، اس نے بغیر نمبر دیکھے سیل اٹھا کر کال اٹینڈ کی اور بےدلی سے بولا ۔۔۔
”ہیلو۔۔۔۔۔!۔۔۔۔۔“
”مسٹر دارین حیدر کب تک پہںچ رہے ہیں آپ۔۔سب آپ کا ویٹ کر رہے ہیں ۔۔؟“ دوسری طرف سے پوچھا گیا، اس نے سیل کان سے ہٹا کر نمبر دیکھا اور پھر کان سے لگالیا۔۔۔
”بس کچھ ہی دیر میں۔۔“ اس نے سنجیدگی سے کہہ کر کال ڈسکنیکٹ کر دی۔۔
”زین جلدی آٶ میں گاڑی میں تمہارا ویٹ کر رہا ہوں۔۔“ وہ جلدی جلدی سیڑھیاں اترتے ہوۓ بولا، اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا لاٶنج عبور کر کے باہر نکل گیا،
پورچ میں جا کر اس نے گاڑی سٹارٹ کی تب تک زین بھی پہنچ آیا تھا، اس نے گاڑی گیٹ سے نکال کر روڈ پر ڈالی اور اس کی سپیڈ بڑھا دی۔
”کیا بات ہے بھاٸی آپ کا موڈ کچھ آف ہے۔۔۔؟“ زین نے لب بھینچ کر ڈراٸیونگ کرتے دارین کی طرف دیکھ کر پوچھا ، وہ کب سے نوٹ کر رہا تھا۔۔
”نہیں تو۔۔“ اس نے مختصر جواب دیا،
”پھر بھی بھاٸی میں نے نوٹ کیا ہے ‘ آپ بڑی بےدلی سے تیار ہو رہے تھے۔ کچھ ہوا ہے کیا۔۔۔؟“ اس نے پھر سے سوال کیا۔۔۔
”نہیں ۔۔۔“اس نے جواب دے کر پارکنگ میں جا کر گاڑی کو زور سے بریک لگاٸی،اور خاموشی سے باہر نکل آیا۔۔ زین بھی خاموشی سے اس کے ساتھ ہی باہر نکل آیا، وہ دونوں جب اندر پہنچے تو سب لوگ پہلے ہی آچکے تھے۔۔۔
”ویلکم مسٹر دارین حیدر شاہ۔۔“ مسٹر سبحان نے بڑی خوش دلی سے ان کا استقبال کیا ،لیکن وہ سب سے بہت بےدلی سے مل رہا تھا۔۔
”مسٹر دارین یہ آپ کے ساتھ کون ہیں۔۔؟“وہ سب سے مل کر مسٹر سبحان علی سے محو گفتگو تھا جب ان کے کسی دوست نے زین کی طرف اشارہ کر کے اس سے پوچھا۔
”یہ میری جان ، میرا سب کچھ ہے۔۔۔ “ اس نے زین کی طرف دیکھ کر پیار سے کہا،
”ہم سمجھے نہیں مسٹر شاہ ۔۔؟“ وہ سب چونکے۔کافی لوگ ان کی طرف متوجہ ہوگٸے تھے۔۔
”یہ زین حیدر شاہ ہے ، میرا چھوٹا بھاٸی۔۔“ اس نے زین کو اپنے پاس بلا کر اس کا سب سے تعارف کروایا، زین اتنے بڑے بزنس ڈنر میں آج پہلی بار آیا تھا،اس لیے اس کے بارے میں جاننے کا سب کو تجسس تھا ۔
”واٶ ویری ناٸس۔۔۔۔! دونوں بھاٸی ہی بڑے ہینڈسم ، سمارٹ اینڈ ڈیشنگ ہیں۔“ان لوگوں کے جواب دینے سے پہلے ہی زونش سبحان شوخی سے بولی اور چلتی ہوٸی ان کے پاس آگٸی، سب اس کی طرف متوجہ ہوۓ چکے تھے۔
”ارے زونش بیٹا تم آگٸی۔؟“ سبحان علی بھی بیٹی کو دیکھ کر چہکے ۔۔۔
”جی پاپا۔۔۔۔“ وہ بھی مسکراتی ہوٸی ان کی طرف بڑھی۔۔
دارین اور زین نے اک دوسرے کی طرف دیکھ کر زونش سبحان کی طرف دیکھا جس نے بلیک ڈیپ گلے والی سلیولیس میکسی پہنی ہوٸی تھی، جس سے اس کے دودھیاں بازو عیاں ہو رہے تھے اور بلیک پینسل ہیل سے اس کا قد اور نمایاں ہو رہا تھا،باتیں کرتے ہوۓ وہ اپنے ڈاٸی کیٸے شولڈر کٹ بالوں کو کبھی ادھر تو کبھی اُدھر جھٹک رہی تھی،اس کی اداٸیں دیکھ کر دارین کا موڈ اور زیادہ خراب ہوگیا تھا۔
”دارین میٹ ماٸی لولی ڈاٹر زونش۔۔۔۔! اینڈ زونش ہی از دارین حیدر شاہ آور نیو بزنس پارٹنر۔۔“ سبحان علی نے بڑی گرمجوشی سے اس کا تعارف کروایا،
”ناٸس ٹو میٹ یو مسٹر شاہ۔۔۔“ زونش نے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے کیا،تو ناچاہتے ہوۓ بھی دارین نے اس کے ہاتھ کو تھام لیا۔۔
”ہمممممممممم۔۔۔تھینکس ۔۔۔۔“
”ایکسکیوز می میں ابھی آتا ہوں، تب تک آپ لوگ باتیں کریں۔۔“مسٹر سبحان ان کو وہاں چھوڑ کر کسی اور کی طرف چلے گٸے تھے،اب وہاں وہ تینوں کھڑے تھے،
”رٸیلی مجھے آپ سے مل کر بہت اچھا لگا دارین ۔۔۔“ زونش نے پرجوش لہجے میں مسکراتے ہوۓ بات کا آغاز کیا، لیکن دارین کچھ نہیں بولا۔
”جی مجھے بھی اچھا لگا۔۔۔“ دارین کو چپ دیکھ کر زین مروتاً بول پڑا۔۔
”لیکن مجھے بلکل بھی اچھا نہیں لگا۔۔۔“ دارین نے اس کا سرتاپا جاٸزہ لینے کے بعد سنجیدگی سے کہا، زونش کے چہرے پر اک سایا سا آ کر گزر گیا۔
”لیکن کیوں۔۔۔؟“
”یہ بتانا میں ضروری نہیں سمجھتا۔۔“ اس نے بےرخی سے کہا اور ایکسکیوز کرتا وہاں سے ہٹ گیا،
”واہ بھٸی مسٹر دارین حیدر کے بارے میں جو سنا تھا یہ تو بلکل ویسے ہی ہیں“ اس کے جانے کے بعد وہ زین کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوۓ بولی ۔
”کیا سنا تھا آپ نے بھاٸی کے بارے میں۔۔؟“ زین نے چونک کر پوچھا۔۔۔
”یہی کہ دارین حیدر بڑا مغرور ، گھمنڈی اکڑو اور کھڑوس سا ہے۔۔۔“وہ بتاتے ہوۓ بڑی ایکساٸیٹڈ ہو رہی تھی۔
”یہ آپ ان کی تعریف کر رہی ہیں یا انسلٹ ۔۔؟“وہ ہلکا سا مسکرا کر پوچھنے لگا۔
”آف کورس تعریف ۔۔۔“ وہ بہت زور سے ہنسی۔
”ہممممم ! میرے بھاٸی بہت پیارے ہیں ، لیکن لوگ ان کو سمجھنے میں ہر بار غلطلی کر جاتے ہیں۔ بٹ اس بات سے ان کو کوٸی فرق نہں پڑتا۔۔۔“ اب کے زین نے سنجیدگی سے کہا اور اس سے ایکسکیوز کرتا دارین کے پیچھے ہی چلا گیا،
پھر وہ کچھ دیر ہی وہاں رکے تھے ، دارین نے طبیعت خراب کا بہانہ کر کے سبحان علی سے جلدی گھر جانے کی اجازت چاہی ، لیکن وہ جب تک وہاں رہا، زونش سبحان اس کے اردگرد ہی منڈلاتی رہی تھی ، اور اس بات سے دارین کو اور زیادہ چڑ ہوٸی تھی، اس کا بس چلتا تو وہ اسکو وہاں سے غاٸب کر دیتا، ایسی عورتوں کی وجہ سے ہی تو اس کو عورت ذات پر اعتبار نہیں تھا اور ابھی تک اسی وجہ سے اس نے شادی بھی نہیں کی تھی ، گھر میں اس کی ماں ، رمل اور رومانہ اور باہر جاتا تو کوٸی نہ کوٸی ایسی مل ہی جاتی تھی، غصے سے اس کے سر میں پین شروع ہوگیا تھا، اس نے زین کو گاڑی ڈراٸیو کرنے کا کہا اور خود فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔زین نے بھی بغیر کوٸی سوال کٸیے گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔!
اور پھر راستے میں وہ حادثہ ہو گیا۔۔۔!
**…**…**
اس لڑکی کی پوری کہانی سننے کے بعد وہ تذبذب کا شکار ہوگیا تھا ، وہ لڑکی سچ کہہ رہی تھی یا جھوٹ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا، لیکن پتا نہیں کیوں اس کا دل کہہ رہا تھا وہ سچ بول رہی ہے،اور اگر وہ جھوٹ بھی بول رہی تھی تو پھر بھی اب وہ اس کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اس لیے وہ اس کو لے کر اپنے فلیٹ میں چلاگیا تھا تاکہ وہ کچھ دن ریسٹ کر لے اور اس کا زخم بھی ٹھیک ہوجاۓ۔۔اس کو وہاں چھوڑ کر وہ گھر چلا گیا۔۔۔۔!
**…**…**
چھے سات دنوں سے وہ اسی فلیٹ پر تھی۔۔۔۔!
دارین حیدر جب سے اس کو چھوڑ کر گیا تھا اس کے بعد اب تک واپس نہیں آیا تھا ، اس کے ذہن میں عجیب عجیب سے خیال آ رہے تھے، وہ اتنے دنوں سے گھر سے غاٸب تھی،عابدہ مامی نے اس کے بارے میں صفدر ماموں کو کیا بتادیا ہوگا؟ اور وہ سب سن کر ان کا کیا ری ایکشن ہوگا؟کیا سوچ رہے ہوں گے میرے بارے میں؟ کتنی بدنامی ہوٸی ہوگی میری؟ یہ سب سوچ کر اس کے اندر خوف کی لہر دوڑ گٸی اور ٹانگیں کانپنے لگ گٸیں، وہ ایسے ہی نیچے کارپٹ پر گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گٸی۔۔تب ہی ڈور بیل بجی، وہ یک دم چونکی، لیکن اٹھی پھر بھی نہیں، ڈور بیل پھر سے بجی۔ناچاہتے ہوۓ بھی وہ وہاں سے اٹھی اور کانپتی ہوٸی ٹانگوں کو گھسیٹتی ڈور تک پہنچی ۔
”کک کون ہے۔۔۔؟“ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا،اس کی زبان لڑکھڑا گٸی ۔۔
”میں ہوں دارین حیدر۔“باہر سے دارین حیدر کی روعب دار آواز آٸی تو اس نے جلدی سے ڈور کھول دیا اور پیچھے ہٹ کر اس کو اندر آنے کا راستہ دیا۔
”کیا ہوا؟ اتنا ڈر کیوں رہی ہیں آپ۔۔؟“ اس نے انابیہ کے ڈرے ہوۓ چہرے کو دیکھا ، وہ شال میں لپٹی ہوٸی تھی لیکن اس کی گھبراہٹ اور کپکپاہٹ اس کو صاف نظر آرہی تھی۔
”وہ مم مجھے لگا کہ کوٸی اور آگیا،اس لیے مم میں ڈر گٸی۔۔۔۔“ وہ ہاتھوں کو آپس میں مسلتے ہوۓ گھبراٸی ہوئی آواز میں بولی۔
”یہاں میرے علاوہ کوٸی نہیں آتا ڈونٹ وری۔۔“ اس نے بیا کو تسلی دی۔اور پھر دونوں چلتے ہوۓ ڈراٸینگ روم میں آگٸے۔
”میں نے آپ کے گھر والوں کا پتا کروایا ہے۔۔۔“ اس نے انابیہ کو بتایا۔ وہ پچھلے چھے سات روز سے آفس ورک میں بزی تھا لیکن اس لڑکی سے غافل نہیں ہوا تھا اس نے اپنے بندوں سے کہہ کر صفدر علی کے بارے میں سارا پتا کروا لیا تھا، اور پھر اس نے خود بھی وہاں جا کر ساری بات کی تصدق کی تھی، لیکن محلے والوں نے اُسے اور ہی کہانی سنائی تھی۔۔ جو اس کو انابیہ نے بتایا تھا اس سے مختلف۔۔
”پھر کک کیا پپ پتا لگا آپ کو۔“ اس نے نا سمجھی سے اس کی طرف دیکھ کر لڑکھڑاتی آواز میں پوچھا،
”وہ ہی جو آپ نے بتایا۔لیکن۔۔۔۔۔“دارین نے اس کو بتایا۔وہ جو خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی پھر اس کا لیکن کہنا سن کر بے چین ہو گٸی۔
”لیکن کیا دارین جی۔۔؟“ وہ ٹھٹھکی۔
” آپ کی مامی نے آپ کے بارے میں محلے میں کوٸی غلط افواہیں پھیلاٸی ہوٸی ہیں۔۔“
”افواہیں۔۔۔؟ پلیز دارین صاحب آپ پوری بات بتاٸیں۔۔کیا معاملہ ہے۔۔؟“ پریشانی سے اس کے اندر ہول اٹھنے لگے تھے۔
”یہی کہ آپ کا کسی لڑکے کے ساتھ چکر تھا اور جب گھر میں کوٸی نہیں تھا تو آپ اپنے آشنا کے ساتھ گھر سے بھاگ رہی تھی تب ہی آپ کا بہنوٸی آگیا اس نے آپ کو روکنے کی کوشش کی ، لیکن آپ لوگوں نے اس کو راستے سے ہٹانے کے لیے زخمی کر دیا ، اور وہاں سے بھاگ گٸیں۔ آپ کے ماموں نے بھی کہہ دیا ہے کہ اب ان کی کوٸی بھانجی نہیں ہے۔۔۔۔۔“ دارین حیدر نے اس کو ساری تفصیل بتاٸی اور وہ ساکت رہ گٸی۔
”افففف میرے خدایا ۔۔۔۔۔۔۔“ وہ سر تھام کر وہیں نیچے بیٹھتی چلی گٸی، اب تو اس کے واپس جانے کا کوٸی راستہ ہی نہیں بچا تھا،
”اب بتاٸیں کیا اب بھی آپ وہاں جانا چاہتی ہیں۔۔۔؟“ اس نے اٹھ کر گلاس میں پانی انڈیلا اور لبوں سے لگا لیا۔۔اور سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا،
”نن نہیں۔۔۔۔۔کیسے جاٶں گی میں وہاں۔۔“ اس کے منہ سے پھسلا۔۔
”تو پھر کہاں جاٸیں گی آپ۔۔؟“ اس نے گلاس خالی کر کے ٹیبل پر رکھا اور اس کی طرف دیکھا جو ساکت سی بیٹھی اپنے ہاتھوں کو گھور رہی تھی۔
”پپ پتا نہیں۔۔لیکن اب اس گھر میں نہیں جاٶں گی۔“ اس نے اپنے آنسو صاف کر کے کہا اور کھڑی ہوگٸی۔
”آپ کا اس شہر میں اور کوٸی نہیں۔۔۔؟“ وہ اس کو اٹھتے دیکھ کر خود بھی چلتا ہوا اس کے پاس آگیا۔۔
”نہیں۔۔۔“ اس نے مختصر جواب دیا۔
”تو پھر آ۔۔۔۔۔۔“ ابھی بات اس کے منہ میں ہی تھی جب وہ ہزیانی انداز میں چیخی۔
”کوٸی نہیں ہے میرا ، میرے بابا اور امی دونوں مجھے اس ظالم دنیا میں تنہا چھوڑ کر چلے گٸے۔ میں اکیلی رہ گٸی۔ مم میں نے بھی جانا ہے ان کے پاس۔“ وہ ایسے ہی چیختی ہوٸی باہر کی طرف لپکی،وہ ہوش و ہواس میں نہیں تھی ، دراین اس کی کیفیت سمجھ چکا تھا،
”پلیز انابیہ ریلیکس!“ اس نے آگے بڑھ کر شدت غم سے چیختی انابیہ کو کندھوں سے پکڑ کر روکنے کی کوشش کی۔۔
”چھچ چھوڑیں مجھے۔۔۔“ اس نے دارین کے ہاتھوں کو جھٹک کر خود سے دور کیا۔۔۔۔۔”مم مجھے مرنے سے تو کوٸی نہیں روک سکتا ناں ، میں خود کو ختم کر لوں گی۔۔۔۔۔۔“ وہ آنسوٶں کے بیچ چیختے ہوۓ بولی۔ وہ ہر طرف سے نا امید ہوچکی تھی ،اس لیے وہ خود کو ختم کرنے کا سوچ چکی تھی۔
”جسٹ شٹ اپ انابیہ۔۔ ایسے بزدلوں والی باتیں کیوں کر رہی ہیں آپ“ اس نے چیختی ہوٸی انابیہ کو جھنجھوڑ کر ہوش دلایا۔
”تو کیا کروں میں دارین صاحب آپ ہی بتاٸیں، میں بلکل تنہا ہو گٸی ہوں ، نہ میرا گھر رہا نہ ہی ماں باپ ، ایک ماموں تھا وہ بھی مجھے اپنانے کو تیار نہیں اور آپ جانتے ہیں کہ یہ دنیا اکیلی اور گھر سے بھاگی ہوٸی لڑکی کو کبھی عزت سے جینے نہیں دیں گے۔کون اپناۓ گا مجھے بتاٸیں؟“ وہ دوزانو ہو کر پھر سے نیچے بیٹھ گٸی۔اور اپنے ہاتھوں میں منہ چھپا کر رونے لگی۔۔
”میں اپناٶں گا آپ کو۔۔۔۔“دارین نے بغیر سوچے سمجھے جھٹ سے فیصلہ کر کے اس کو کہا۔۔۔انابیہ نے جھٹکے سے سراٹھا کر اپنے سامنے کھڑے اس خوبرو انسان کو دیکھا۔
”کیا آپ مجھ جیسے انجان شخص پر اعتبار کریں گی؟ “دارین نے ششدر بیٹھی انابیہ سے پوچھا اور سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔
”میں جانتا ہوں آپ کے لیے کسی بھی اجنبی پر اعتبار کرنا مشکل ہے،اور نہ ہی میں اتنا اچھا ہوں کہ مجھ پر اعتبار کیا جاۓ۔اس لیے میں آپ سے اتنا ہی کہوں گا کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں سوچ سمجھ کر کریں۔۔“ اس نے صاف گوٸی سے کہا اور فیصلہ اس پر چھوڑ دیا، وہ خاموشی سے اس کو دیکھ رہی تھی بولی کچھ نہیں۔۔
”اگر آپ مجھ جیسی گھر سے بھاگی ہوٸی لڑکی کو اپنا رہے ہیں تو مجھے بھی کوٸی اعتراض نہیں۔“اس نے بھی ہامی بھر لی تھی۔کیونکہ وہ اس پر اعتبار کر چکا تھا ، حالانکہ وہ دونوں ہی اک دوسرے سے مکمل طور پر انجان تھے۔وہ یہ بھی جانتی تھی کہ دارین حیدر کو اس سے بس ہمدردی تھی۔۔جب وہ ہمدردی میں اتنا بڑا قدم اٹھا چکا تھا تو اس نے بھی ہاں کر دی ۔۔
سب سے پہلے اس نے انابیہ سے نکاح کیا تھا۔۔۔۔!
اس کا ارادہ تھا بیا کو فلیٹ میں رکھنے کا لیکن رمل اور مسسز شاہ نے ان دونوں کو اک ساتھ دیکھ لیا تھا، اس لیے اس نے بھی فلیٹ میں جانے کا ارادہ ملتوی کیا اور گاڑی کا رخ ”شاہ ولا “ کی طرف موڑ دیا۔وہ جانتا تھا وہاں ہنگامہ کھڑا ہو چکا ہوگا،اب اس کے ذہن میں بہت سی سوچیں بیک وقت چل رہی تھیں۔۔۔۔!
**…**…**
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...