’’جو رہی سو بے خبر رہی ۔۔۔۔ عالم جلیل و فاضل بے عدیل تھے۔ اپنے تمام بھائیوں میں افضل گلاب کے پھول کی طرح حسین۔۔۔۔‘‘
نیم تاریک غلیظ گلیوں میں سے گذرتے ہوئے اچانک کسی ڈیوڑھی کے اندر کھلے تیز سرخ گلاب کی جھلک نظر آ جاتی ہے، بہت عجیب لگتا ہے۔
’’یہ قدیم دانش کدہ، یہ جزیرہ سخن وراں اتنا گندا۔۔۔۔ کیوں؟‘‘ سائیکل رکشا پر وسیع جھیل کے کنارے سے نکل کر بھول بھلیّاں میڈیول گلیاں طے کرتے ہوئے میں نے اپنے کزن سے پوچھا جو اس مشہور و معروف قصبے کے ہر چوتھے شخص کی طرح اچھے خاصے شعر کہتا تھا۔
’’ان گلیوں کی نالیوں کی نکاس۔۔۔۔‘‘ اس نے سائیکل پر ساتھ ساتھ آتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔ ’’جن کھیتوں میں ہوتی تھی وہاں کارخانے بن گئے۔ پانی رک گیا۔ اب نکاس کا کوئی راستہ نہیں۔‘‘
’’راستہ بنایا نہیں جا سکتا۔۔۔۔؟‘‘
’’کسی کو پرواہ نہیں۔ اور آبادی بڑھتی جا رہی ہے بے تحاشا۔‘‘
کیا یوروپ کے شہروں میں آل موسیٰ کے Ghetto اسی طرح بنے تھے؟ ایک تاریخی پھاٹک کے سامنے ایک خستہ حال بوڑھا میلی چادر پر مونگ پھلیاں اور سستے بسکٹ چُنے سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا۔ موڑ پر پہنچ کر اچانک ماموں میاں کی سفید ڈیوڑھی اس کے اندر سے سرو شمشاد کی جھلک گویا سمر قند یا طوس یا دسویں صدی عیسوی کے قرطبہ یا اٹھارہویں صدی عیسوی کے مرشد آباد یا دلّی کا جھپیٹا۔ صدر دروازے پر غریب برقعہ پوش عورتیں اور ان کی کچر دھان۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ٹی۔ وی۔ فلم۔‘‘ شاعر کزن نے جواب دیا۔
اندر زنانے صحن میں ہینڈ پمپ پر ممانی جگر جگر کرتے جہازی لوٹے میں وضو کے لیے پانی بھر رہی تھیں۔ گلاب کی کیاری کے نزدیک ریٹائرڈ ماہر تعلیم ماموں میاں آرام کرسی پر نیم دراز پیچوان کے کش لگانے میں مصروف۔ ان کے ایک پروفیسر شاگرد جو اُن سے ملنے کسی دوسرے شہر سے آئے تھے ایک مونڈھے پر مودب بیٹھے تھے۔ ’’اے بٹیا تم نے اپنے جد اعلیٰ زید شہید کی شمشیر کی زیارت اب تک نہ کی؟‘‘ ممانی نے دریافت کیا۔
’’جناب زید شہید کی شمشیر یہاں کیسے پہنچی؟‘‘
’’لوگ اور ان کی چیزیں کہاں کہاں کیسے پہنچ جاتی ہیں۔‘‘ ماموں نے کہا۔
’’اے بی سرّو بیگم کی بھی کچھ خیر خبر ملتی ہے؟‘‘ ایک پڑوسن نے بلبل چشم کے تخت پوش پر بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔ وہ بھی فلم دیکھنے آئی تھیں۔
’’سرو باجی کا تو بیاہ ہو گیا کراچی میں کب کا۔‘‘
’’اے لو۔۔۔۔ کس سے؟‘‘
’’میر حسن لندنی کے پڑپوتے سے۔‘‘ میرے بجائے ماموں نے جواب دیا۔ میں نے کان کھڑے کیے۔
’’اور نعمت خان عالی کا اصلی نام کیا تھا۔۔۔۔؟‘‘ میں نے فوراً پوچھا۔
’’مرزا محمد۔۔۔۔ سنبھل کے رہنے والے تھے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا
میں نے فوراً پرس سے نوٹ بک نکالی۔ ’’ان کے پڑ پوتے سے سرو بیگم کی پھوپھی ممتاز بیگم بیاہی تھیں۔‘‘ ماموں نے اضافہ کیا۔ بطور فُٹ نوٹ۔
’’ایک آل انڈیا پڑ پوتا ایسوسی ایس بنایا چاہئے۔‘‘ شاعر کزن نے کہا۔
’’مجھے ان دنوں میر قاسم کی بہت ٹوہ ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’فخر النساء بیگم۔۔۔۔‘‘ ماموں پیچوان گڑگڑاتے ہوئے بولے۔ ’’بنت سعادت علی خاں۔۔۔۔ غازی الدین حیدر کی سگی بہن۔۔۔۔ میر قاسم کے بیٹے نواب میر کلّو سے بیاہی تھیں۔‘‘
’’اے ذرا کلّو کو آواز دیجیو۔۔۔۔ چلتی ہو شمشیر کی زیارت کرنے؟‘‘ ممانی نے نماز کے لیے تخت پر بیٹھتے ہوئے دہرایا۔۔۔۔
’’شبو۔۔۔۔ کلّو سے کہنا رکشا لے آوے کل سویرے۔۔۔۔‘‘
’’ہسٹری محض فاتح قوم کا پروپیگنڈہ ہے۔ ماموں نے اچانک کہا۔
’’بقول شخصے خود عہد نامہ قدیم میں یہودیوں کا پروپیگنڈہ ہے۔ کسی نے آج تک اشوریہ والوں کا پوائنٹ آف ویو معلوم نہ کیا۔‘‘
’’مجھے مظفر نامے کی بہت تلاش ہے تاکہ پلاسی اور بکسر کے متعلق اپنا پوائنٹ آف ویو معلوم ہو۔۔۔۔ یہ کرم علی کون صاحب تھے؟ مظفر جنگ کے ملازم تھے؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔
’’سراج الدولہ کے عتاب سے بچنے کے لیے پٹنہ چلا گیا تھا۔ جہاں مظفر جنگ نے اسے ملازم رکھا۔ انگریزوں نے جب مظفر جنگ کو نائب نظامت سے معز ول کیا، کرم علی نے اپنے آقا کا غم غلط کرنے کے لیے مظفر نامہ لکھا۔‘‘
’’ہم ذرا غم غلط کرنے کے لیے ٹیلی ویژن اون کر آویں۔‘‘شاعر کزن نے کہا اور اٹھ کر دیوان خانے کی سمت چلے گئے۔
’’سید محمد رضا خاں مظفر جنگ مرشد قلی خاں کے زمانے میں دلّی سے بنگال پہنچے تھے۔‘‘ ماموں نے پھر اچانک بات کی۔
دور دھوبنیں بے سری آواز میں مسلسل گائے جا رہی تھیں۔ چھت پر کبوتر کا بکوں میں واپس آ رہے تھے۔ سرو شمشاد شام کی ہوا میں سرسرائے۔ ہرجائی ہوا جنگل جنگل منڈلاتی پھری۔
چاٹگام کے چکلہ دار محمد رضا خاں۔ سرما ندی کنارے مدھو کا کھلی ہے۔‘‘
’’محمد شاہ بادشاہ‘‘ کا زمانہ تھا۔۔۔۔ ۔۔ دور سے ماموں کی آواز آئی۔ محمد شاہ پیا سدا رنگیلے۔ موسیقی کی پریاں گوڑ ملہار کے بادل بکھیر رہی تھیں۔ ڈوبتے سورج کی کرنوں کی چلمن کے عقب سے وہ بانکے لوگ نکلے مرشد آباد جانے کے لیے چہار اسپہ تیار ہے اور چو ڈولہ۔
’’اجی میں نے کہار کشا ابھی لے آؤں۔۔۔۔؟‘‘ درمیانی ڈیوڑھی میں سے آواز آئی۔ چار خانہ تہمد، چگّی داڑھی، سیاہ مخملیں ٹوپی، پھٹی قمیص ایک بزرگ کانپتے کھانستے دروازے میں نمودار ہوئے۔
’’کہئے نواب میر کلّو۔۔۔۔‘‘ شاعر کزن نے کہا جو دیوان خانے سے واپس آ چکے تھے۔ ’’مزاج عالی۔‘‘
’’اللہ کا شکر ہے۔ میاں۔‘‘
’’شکر ہے تو کھانس کیوں رہے ہو۔ علاج کرواؤ۔‘‘
’’علاج۔۔۔۔‘‘ وہ ہنسے۔
’’میاں کی باتیں! بارہ آدمیوں کا ٹبّر، آٹھ بچّے، چار بیوہ لڑکی کے۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں۔ ہاں۔ روٹی نہیں ہے تو کیک کھاؤ۔ کیک کھاؤ۔۔۔۔‘‘
شاعر کزن نے جمائی لے کر مجھے مخاطب کیا۔ ’’کلّو خاں مرشد آباد کی باقیات الصالحات میں سے ہیں۔ کیوں حضرت؟ ذرا اپنا مظفر نامہ بٹیا کو سنایئے۔‘‘
’’بٹیا ہمارے پرکھے مرشد آباد والوں کے خانہ زاد غلام تھے۔ ہم اب رکشا چلاتے ہیں۔‘‘
’’بچپن میں یہاں آ گئے تھے۔ لب و لہجہ بھی یہیں کا ہو گیا ہے۔ شاعر کزن نے کہا۔ ’’اور اپنی ہسٹری بتاؤ۔۔۔۔‘‘
’’اجی ہماری کیا ہسٹری۔ وہ تو آپ لوگوں کی ہوتی ہے۔‘‘
’’تاریخ خدا کا vision ہے۔‘‘ پروفیسر شاگرد نے غالباً کسی اور خیال میں محو اچانک ایک اسٹیٹمنٹ دیا۔
’’چہ خوب!‘‘ اگنوسٹک شاعر کزن نے تبسم کیا۔ کلو خاں آرام کرسی کے پاس زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے۔
’’خدا تاریخ کے ذریعے اپنا پلان work out کرتا ہے۔۔۔۔‘‘ پروفیسر شاگرد نے کہا۔
’’اچھا پلان ہے۔‘‘ شاعر کزن بولے۔
’’یہ ما بعد التواریخ ہے۔‘‘ پروفیسر شاگرد نے کہا۔
’’سبحان اللہ! لفٹ ونگ شاعر کزن دبی زبان سے بولے۔
میں دوسرے صحن کا چکّر لگا کر آئی۔ دیوان خانے میں ٹیلی ویژن اسکرین پر ہندوستانی ہیرو ہیروئن ایفل ٹاور کے اوپر کودنے، اچھلنے اور ڈئیوٹ گانے میں مصروف تھے اور آس پاس کے فرانسیسی بھونچکے سے ان کو تک رہے تھے۔
’’جو لاکھوں برس پہلے ڈینو سار تھے اب چھپکلی ہیں۔‘‘ ماموں نے کہا۔
’’ارتقا اب کیوں جاری نہیں کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے کم از کم خچّر گھوڑا بن جائے۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’وہ بھی ہو رہا ہے۔ ’’شاعر کزن بولے۔
’’اب مظفر جنگ کو لو۔۔۔۔‘‘ ماموں نے بات شروع کی۔ ’’ارتقاء کا الٹ۔۔۔۔ عروج سے زوال۔۔۔۔‘‘
’’جی ہاں۔ مظفر جنگ کو لیجئے۔۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔
ممانی نماز اور وظائف ختم کر کے نماز کے تخت سے اتریں۔
’’اب آپ قہوہ چی باشی بن جائیے اور ہمارے لیے کافی بنائیے۔‘‘ ماموں نے فرمائش کی۔ اس وقت وہ استانبول کے جھپیٹے میں تھے۔ پھر گویا ہوئے۔
’’پلاسی کے بعد فرنگیوں کو حکومت مل گئی تھی مگر ملک کے انتظام سے ناواقف تھے۔ محمد رضا خاں کے تجربے کو دیکھتے ہوئے میر جعفر کے انتقال کے بعد بنگال کونسل نے ان کو نائب دیوان بنگال، بہار، اڑیسہ مقرر کیا۔ پچھتر ہزار روپیہ سالانہ تنخواہ۔ اب وہ کمپنی کی طرف سے نائب دیوان اور نابالغ نواب نجم الدولہ کی طرف سے نائب ناظم تھے۔ مغل شہنشاہ نے ان کو بہار میں علاقہ ترہٹ کے اندر جاگیر دی تھی جو مظفر پور کہلائی۔ نواب مظفر جنگ خطاب ملا تھا۔ اٹھارہ لاکھ روپیہ جو کمپنی نظامت کے اخراجات کے لیے میر جعفر کو دیتی تھی، محمد رضا خاں کو دینے لگی۔ راجہ شتاب رائے ان کے نائب تھے۔
’’لیکن جب عین نصف النہار پر گھپ اندھیرا چھا جائے ایسا محمد رضا خاں کے ساتھ ہوا، وارن، ہیسٹنگز نے استمراری بندوبست شروع کر کے ایڈمنسٹریشن اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ مظفر پور پر قبضہ کیا۔ سید محمد رضا خاں کی پنشن مقرر کر دی۔
’’کل بی بی کی صحنک ہے۔ بلاوا دینے آئی تھی۔‘‘ ایک اور محلے والی نے قریب آ کر ممانی کے کان میں کہا۔ ماموں نے سن لیا۔ بولے ’’نور جہاں بیگم نے اپنی سوت کو طعنہ دیا تھا۔ موئی بن کی پکڑی مارواڑن۔ اسے بھی دن لگے۔۔۔۔ اس مارواڑن نے بی بی کی صحنک شروع کر کے بدلہ لیا۔‘‘
’’انہیں امپریل رویّوں کے نتائج۔۔۔۔ شاعر کزن نے بات ادھوری چھوڑی اور آسمان پر سے اتر تے ہوئے کبوتروں کو دیکھنے لگے۔
’’مظفر جنگ کی چیت پور والی چار ہزار بیگھہ زمین کی وجہ سے فورٹ ولیم کالج کے کاغذات میں ان کو محض ’’نواب چیت پور‘‘ لکھا گیا۔ بعد میں اس کے حصے پر کسی مارواڑی نے جوٹ مل بنا لی۔‘‘ ماموں نے کہا۔
’’موئے بن کے پکڑے مارواڑی نے۔۔۔۔‘‘ شاعر کزن نے اضافہ کیا۔
’’مظفر جنگ کو انگریز نے معز ول کیا اور ان کی زمین پر مارواڑی نے قبضہ کر کے جوٹ مل بنائی۔۔۔۔ یہ واقعہ بذاتِ خود ایک اہم علامت ہے۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’انڈین سول سروس کے لیے جان بیم نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ جنگ پلاسی محض ایک ہندوستانی صوبے پر ایک یوروپین تاجر کمپنی کی فتح نہیں تھی بلکہ ایک Foreign Mohammedan Power پر ہندو نٹیو تاجر اور برٹش فنانشل طبقات کی مشترکہ فتح تھی۔ محمڈن حکومت کے زوال کا باعث اس کا اندرونی نفاق تھا۔ اور انگریز، ہندو مرچنٹ کلاس سے گہرا رابطہ رکھتے تھے۔ کارل ماکس نے یہی بات اس طرح کہی کہ فیوڈل نظام پر نئی مرچنٹ سرمایہ داری کی فتح ہوئی۔‘‘
’’لیکن انگریز جو اپنی کتابوں میں مسلمانوں کو Foreign power لکھ گیا اس بے ایمانی اور شرارت کا نتیجہ ہم آج تک یہاں بھگت رہے ہیں۔۔۔۔‘‘ شاعر کزن بولے۔
مرزا ابو طالب اصفہانی۔۔۔۔ مجھے یاد آیا۔۔۔۔ مظفر جنگ کے وارڈ تھے۔ اسی خاندان کی ایک لڑکی سے ان کی شادی ہو گئی تھی۔ ۱۷۹۹ء میں مرزا صاحب لندن پہنچے وہاں ایک انگریز کے گھر میں انہوں نے نواب شیر جنگ کے لُٹے ہوئے نوادرات اورکتب خانہ دیکھا۔۔۔۔ ۱۷۹۹ء اسی سال کاویری کے کنارے ٹیپو گرا تھا، وکٹوریہ اینڈ البرٹ میوزیم لندن میں ٹیپو کا خود رکھا ہے۔ اس پر فارسی میں کندہ ہے۔ ’’یہ خود آب زمزم سے دھویا گیا ہے۔ اس پر دشمن کا کوئی ہتھیار اثر نہ کرے گا۔‘‘
ٹیلی ویژن پر فلم میں ہندوستانی ہیرو ہیروئن اب ہائیڈ پارک لندن کے اندر دوڑتے بھاگتے ڈوئیٹ گا رہے تھے۔
’’مرشد آباد پہنچ کر سراج الدولہ نے التجا کی تھی۔ مجھے گزارہ دے دو اور تھوڑی سی زمین پناہ کے لیے۔ اس کی لاش کو ہاتھی پر رکھ کر گشت کروایا گیا۔‘‘
میں نے بآواز بلند کہا۔ ’’جب ہاتھی اس کے محل کے سامنے سے گذرا اس کی والدہ روتی ہوئی محل سے نکلیں اور ہاتھی کے پاؤں سے لپٹ گئیں۔۔۔۔‘‘
’’سراج الدولہ کی بڑی خالہ بڑی سیاست داں عورت تھیں۔ گھسیٹی بیگم۔۔۔۔ اپنے لڑکے شوکت جنگ کی جانشینی کے لیے کیا کیا جوڑ توڑ کیے۔۔۔۔‘‘ ماموں نے اظہارِ خیال کیا۔
’’جوڑ توڑ، سازشیں، تشدّد۔‘‘ شاعر کزن بولے۔ ’’بڑا تشدد تھا اس زمانے میں۔‘‘
’’آج نہیں ہے۔۔۔۔؟‘‘ ماموں نے دریافت کیا۔
’’نیچے کروڑوں کیڑے مکوڑے اور اوپر چند ہزار گدھ۔۔۔۔‘‘ شاعر کزن نے آسمان پر نظر ڈالی۔
’’لیکن محمد رضا خاں سے ہمدردی کیوں؟ نہ ان کے پاس جدید سائنس تھا نہ ٹیکنولوجی نہ عقلیت پسندی جس سے کلائیو اور وارن ہیسٹنگز لیس ہو کر آئے تھے۔ جب مظفر جنگ کلائیو اور وارن ہیسٹنگز سے مصافحہ کرتے ہوں گے لگتا ہو گا عہدِ وسطیٰ نئے سائنسی دور کو سلام کر رہا ہے۔۔۔۔‘‘ میں نے کہا اور ان جدید مغربیوں کا بسایا ہوا کلکتہ جسے دیکھ کر مرزا غالب ششدر رہ گئے تھے۔‘‘
’’سارے مفتوحین کلکتہ میں بسائے گئے۔۔۔۔‘‘ ماموں نے کہا۔
’’قید بابل۔۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔
’’مظفر جنگ کی اولاد ۔۔۔۔ ٹیپو کی اولاد۔۔۔۔ مرشد آباد والے میر جعفر کی اولاد۔۔۔۔ اور ان سب کے بعد جان عالم۔۔۔۔ اور سب وہاں عیش و عشرت میں پڑ گئے۔ آپس میں یہ مفتوحین ایک دوسرے سے رشتے ناتے کرتے اور اسی میں خوش رہتے۔‘‘ ماموں نے کہا۔
’’ٹیپو کے پوتے پرنس غلام محمد کی لڑکی سے مظفر جنگ کے پوتے دلدار جنگ نے اپنے لڑکے کا بیاہ کیا۔۔۔۔‘‘
’’وہ مرحومہ ہمارے ابّا کی تائی تھیں۔ سید اصغر علی دلیر جنگ کی بیوی۔۔۔۔‘‘ ممانی بولیں۔
کلّو خاں سر آگے کو بڑھائے غور سے سن رہے تھے۔۔۔۔ اچانک بولے۔۔۔۔‘‘ ہمارے پردادا مرشد آباد والوں کے ہاں سے آ کر دلیر منزل میں ملازم ہو گئے تھے اور ان کے بڑے بھائی رابرٹ صاحب کے ہاں خدمت گار تھے۔ رابرٹ صاحب اس وقت کپتان تھے۔۔۔۔‘‘
’’کمپنی کے متعلق عوام ایک گیت گاتے تھے۔۔۔۔
کمپنی نشان۔۔۔۔
بی بی گیا دمدمہ۔۔۔۔
اڑائے ہے نشان۔۔۔۔
بڑا صاحب، چھوٹا صاحب۔
بانکا کپتان،
دیکھ میری جان۔
لیا ہے نشان۔
’’کسی بانکے کپتان کے دستے نے شاید سراج الدولہ ہی کے کسی نشانچی سے اس کا پھریرا چھینا ہو گا جب یہ گیت بنا۔ جس کے بعد انہوں نے دمدمہ جا کر بڑا کھانا اڑایا ہو گا۔‘‘ ماموں نے کہا۔
’’دمدمہ انہوں نے ڈم ڈم بنایا۔ محرم میں یا حسین یا حسین کی صدائیں ان کو Hobson Jobson سنائی دیتی تھیں۔ ٹیپو کا لباس اور پگڑی فتح کی نشانی کے طور پر انہوں نے اپنے چپراسیوں کو پہنائی۔ آزاد بر صغیر کی حکومتوں کے چپراسی آج تک یہی لباس پہن رہے ہیں۔۔۔۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ع رہے گا کوئی تو تیغِ ستم کی یاد گاروں میں۔‘‘ شاعر کزن گنگنائے۔
’’کلکتہ شہر میں کتّے گاڑیاں چل رہی تھیں۔ صبح کو صاحب لوگ میدان میں شہسواری کرتے۔ شام کو لیڈی لوگ گاڑیوں میں ہوا خوری۔ امریکہ سے برف امپورٹ کی جاتی تھی۔ بنگال کلب ریس کورس، کرکٹ steeple chase پولو فاتح انگریزوں کے مشاغل تھے۔ مسلم مفتوحین کی اولاد کے پاس سوائے تفریح کے کوئی کام نہ تھا۔ سب کو وافر پنشنیں ملتی تھیں۔ بڑی بڑی کوٹھیاں بنوا لی تھیں۔ ٹیپو کے پوتے اور مرشد آباد کے عالی جاہ سوشل سرگرمیوں میں نمایاں تھے۔ جے پی بنا دیئے گئے تھے۔ مظفر جنگ کے پر پوتے اصغر علی دلیر جنگ لندن سے بیرسٹری پڑھ آئے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی سید احمد علی بے حد صاحب آدمی تھے۔ شاید ہندوستان کے پہلے براؤن صاحب۔ لوئر سرکلر روڈ پر اپنی کوٹھی بمبو ولا میں بالکل انگریزوں کی طرح رہتے تھے۔ فریڈرک رابرٹ سے بہت دوستی تھی۔ اکٹھے پولو کھیلتے تھے۔ فتح کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور انگریز مسلم مفتوحین کی اولاد سے برابری سے ملتا تھا۔
غدر سن ستاون میں لکھنؤ کی خورشید منزل بعد لا مائینٹر گرلز اسکول بن گئی اس پر فتح کا پرچم کیپٹن فریڈرک رابرٹ نے نصب کیا تھا۔
’’رابرٹ صاحب کی ایک بہت حسین بہن تھی مارگریٹ۔ سید احمد علی خوب صورت لکھ پتی نوجوان تھے۔ سید محمد رضا مظفر جنگ کے نوادرات اور ہیرے جواہرات کے وارث۔ اس سے زیادہ افسانوی ’’انڈین پرنس چارمنگ‘‘ اس وقت طامس مور کی ’’لالہ رخ‘‘ ہی میں مل سکتا تھا۔ مارگریٹ اور سید احمد علی کی شادی ہو گئی۔ اسلامی نام اشرف النساء بیگم رکھا گیا۔ تین بچے پیدا ہوئے۔ سید یوسف علی، فاطمہ بیگم، احمدی بیگم۔
’’چودہ برس تک یہ خاندان ریجنٹ اسٹریٹ لندن میں مقیم رہا جہاں نواب احمد علی نے ایک عالی شان مکان کرائے پر لے رکھا تھا اور لندن کی اعلا ترین سوسائٹی میں شامل تھے۔ اسی سوسائٹی میں بے چارہ مہاراجہ دلیپ سنگھ بھی مصنوعی انگریز بن کر وکٹوریہ کے ’’بیٹے‘‘ کی حیثیت سے زیست کر رہا تھا۔‘‘ ماموں نے بات ختم کی۔
’’ہماری دادی کی دادا جان سے ناچاقی رہنے لگی۔ کلکتہ واپس آ کر کچھ عرصے بعد لندن واپس چلی گئیں۔ پھوپھی احمدی کو ساتھ لیتی گئیں۔ پھوپھی احمدی سایہ پہنتی تھیں۔ پردے کا کیا سوال۔ وہیں لندن میں ایک مصری پاشا سے بیاہ کر لیا۔‘‘ ممانی نے کافی بناتے ہوئے کہا۔
’’مارگریٹ اشرف النساء کے بھائی نے بہت ترقی کی۔ فیلڈ مارشل بنے۔ لارڈ کا خطاب اور ارل کا رینک حاصل کیا۔ تیسرے اینگلو افغان وار میں مشہور عالم مارچ ٹو قندھار کی جنرل رابرٹ نے قیادت کی تھی۔‘‘ ماموں کافی پیتے ہوئے بولے
’’لارڈ ڈفرن وائسرائے کے عہدمیں جنرل رابرٹ انڈین آرمی کے کمانڈر ان چیف تھے۔ انہوں نے صوبہ سرحد اور افغانستان کے دروں کی قلعہ بندیاں مستحکم کیں اور رؤسائے ہند کو فوج میں بہتر عہدے دیئے۔ ان کے بھانجے بھانجی یوسف علی اور فاطمہ کی پرورش ان بچوں کی لا ولد تائی بیگم دلیر جنگ نے کی۔۔۔۔ وہی جو ٹیپو سلطان کی پڑ پوتی تھیں۔۔۔۔‘‘
’’اصغر علی دلیر جنگ کی دوسری بیوی سے دو لڑکے تھے۔ نادر جنگ اور بابر جنگ۔ دو لڑکیاں روشن آراء اور گیتی آراء ۔ روشن آرا پھوپھی کا لڑکا کلکتے میں کس مپرسی کے عالم میں زندہ ہے۔ ایک سنیما گھر میں ٹکٹ بیچتا ہے۔۔۔۔ کیوں کہ تعلیم کا شوق اس نسل کے بعد سے اٹھ گیا تھا۔ ممانی نے کہا۔
’’دادی مارگریٹ کے لندن واپس جانے کے بعد ہمارے دادا جان نے ایک سجّادہ نشین کی لڑکی سے شادی کر لی تھی۔ وہ ہماری پھوپھی فاطمہ بیگم سے ملنے بمبو ولا آیا کرتی تھیں۔ دھرم تلہ میں مولانا علی کی درگاہ تھی۔ شیخ گلاب اس کے تکیہ دار فقیر تھے۔ نصیبن ان کی بیٹی تھیں۔ خانم صاحب کہلاتی تھیں سونے کی کنجیوں کا گچھا ڈھکئی ململ کی ساڑی کے آنچل میں باندھے رہتی تھیں۔ ناک نقشے کی اچھی تھیں۔ ان سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ محمد حسین، سید احمد علی نے اُس کا بیاہ واجد علی شاہ کی پوتی سلطنت آرا منّی بیگم سے کیا۔ فرخ مرزا کی لڑکی ہے۔
’’سید یوسف علی ہمارے ابّا کی شادی کا قصہ بہت دلچسپ ہے۔ ان کے والد سید احمد علی نے ان کا بیاہ واجد علی شاہ کی ایک بیٹی سطوت آرا حلیمہ بیگم سے کیا۔ وہ گل اندام محل کے بطن سے تھیں۔‘‘
’’یہ اختر جو ہے خاکپائے جہاں
یہ شاہِ اودھ تھا کبھی اے جواں‘‘ شاعر کزن گنگنائے۔
’’سید یوسف علی بھی دس مہینے کے تھے جب ماں باپ کے ساتھ لندن گئے تھے۔ پورے چودہ برس بعد واپس آئے۔ شکلاً اور مزاجاً بالکل انگریز۔ شاید مٹیا برج میں شادی بھی نہ کرنا چاہتے تھے۔ نکاح کے دوسرے روز ہی رنگون چلے گئے جہاں ان کی پھوپھی زاد بہن رہتی تھیں جن کے میاں وہاں تاجر تھے۔ چند روز بعد یوسف علی نے برما میں کہیں پر یاقوت کی کان پر پہرے دار کی نوکری کر لی۔۔۔۔ برما پولس میں بھرتی ہو گئے۔‘‘
’’یہ مہم جو وکٹورین امپریلسٹ انگریز جنرل لارڈ رابرٹ کے خون کے ورثے کا تھا ورنہ اس وقت کے ہندوستانی مسلمان کی مہم جوئی مشاعروں اور مجروں تک محدود تھی۔‘‘ پروفیسر شاگرد نے اظہار خیال کیا۔
’’ایک چور نے بندوق چلا دی۔ گولی کان کے پاس سے گذر گئی۔ اخبار میں چھپا۔ باپ نے گھبرا کر کلکتہ واپس بلا لیا۔ رخصتی کے لیے بارات لے کر مٹیا برج گئے۔ واجد علی شاہ کے سارے بیٹے تقریب میں جمع تھے۔ پرنس بابر مرزا وغیرہ انہوں نے دولہا سے تین سو روپے ماہوار پاندان کا خرچ باندھنے کے لیے کہا۔ انہوں نے جواب دیا میں اس پر قادر نہیں ہوں۔ باپ کا دست نگر ہوں۔ باپ کو بہت غصہ آیا۔ بہر حال دلہن رخصت ہو کر بمبو ولا آئین۔ غالباً میاں کی بے التفاتی سے دق میں مبتلا ہو کر تین سال بعد مر گئیں۔
’’نواب احمد علی خود بے حد انگریز تھے۔ پانچ بجے شام کو سگار پیتے ہوئے بمبو ولا کے برآمدے میں ٹہلتے تو لوگ اس وقت گھڑیاں ملاتے۔ نواب صاحب سگار پی رہے ہیں۔ پانچ بج گئے۔ دو کڑی برساتی میں سیڑھیوں سے لگتی۔ ایک پاؤں سیڑھی پر، دوسرا پائیدان پر تیسرا گاڑی کے اندر۔ نواب یوسف بہت خودسر تھے۔ ان کا کہا نہیں مانتے تھے۔ ایک دن انہوں نے گاڑی میں سگار پیا۔ باپ نے دوسرے دن کہا۔ سید نواب میری گاڑی میں سگار نہیں پیا جاتا۔۔۔۔ یوسف علی کلکتہ سے چلے آئے۔ لکھنؤ آ کر ریلوے میں نوکری کر لی۔
۱۹۰۲ء میں نواب احمد علی بیمار پڑے۔ لکھنؤ تار دیا۔ جب تک یوسف علی بمبو ولا کلکتہ پہنچیں۔ باپ کا انتقال ہو چکا تھا۔۔۔۔ ابّا نے دوسری شادی لکھنؤ کی ایک رئیس زادی سے کی۔ میں ان کی اکلوتی اولاد ہوں۔
’’۳۲ء میں میں مٹیا برج گئی تھی۔ اس وقت تک سلطان خانے کے خوض میں ایک مچھلی سونے کی نتھ پہنے میں نے بھی دیکھی تھی۔۔۔۔‘‘ ممانی خاموش ہو گئیں۔ کچھ دیر بعد بولیں۔۔۔۔‘‘ ابّا کے تایا دلیر جنگ سات زبانیں جانتے تھے۔ گوہر جان مجرے کے لیے دلیر منزل آیا کرتی تھیں اور اس کی ماں ملکہ جان گانا سنانے بمبو ولا بلائی جاتی تھیں۔ ٹیپو سلطان کے ایک پڑ پوتے نے ملکہ جان کے لیے قصیدہ لکھا تھا۔۔۔۔‘‘
’’یہ ہے اصل بات ٹیپو کا پڑ پوتا ملکہ جان کے لیے قصیدہ لکھتا ہے۔ طاؤس و رباب آخر۔۔۔۔‘‘ شاعر کزن نے اظہار خیال کیا۔
’’میں نے کتاب میں اس طرح پایا ہے کہ لوگ صورت مثال کو اصل سمجھ بیٹھے۔۔۔۔‘‘ ماموں اپنی دھن میں کچھ کہے جا رہے تھے۔
’’دفعتاً میں نے کہا۔ ’’ماموں میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ۴ مئی ۱۷۹۹ء کے روز یوم پنچ شنبہ صبح سویرے بطور صدقہ ایک بورہ سیاہ تِل، ایک سیاہ بیل، تابنے کے ننانوے پیسے ٹیپو کے لیے خیرات کیے گئے تھے۔ درمیان عصرو مغرب شہید ہوا۔‘‘ خاموشی چھا گئی۔
’’وہ کس لیے ہارا کیوں کہ ہم لوگ مچھلیوں کو سونے کے نتھ پہنا رہے تھے۔‘‘ ماموں نے چند لمحوں بعد کہا۔
فرانس کے انقلابیوں نے ٹیپو کا نام اپنے کلب کے رجسٹر میں یوں درج کیا تھا۔۔۔۔ Citizen Tipu, Member, Republican Club میں نے یاد کیا۔
’’اجی کس کس بات کا غم کرو۔‘‘ شاعر کزن نے موضوع تبدیل کیا۔‘‘ پچھلے سال ہمارے ہاں کا شان دار محرم دیکھنے دلّی سے کئی روسی اور امریکن آئے تھے۔‘‘
’’کچھ روپے سے اگر آپ ان گلیوں کی صفائی۔۔۔۔‘‘ میں نے کہنا شروع کیا۔
شاعر کزن اٹھ کر دیوار خانے کی طرف چلے گئے جہاں ٹی۔ وی پر ہندوستانی ہیرو ہیروئن اب سوئیٹزر لینڈ میں ڈوئیٹ گا رہے تھے۔
’’مٹیا برج ایک غلیظ slum ہے جس میں واجد علی شاہ کے نام لیوا بستے ہیں۔ سولہ سولہ آدمی کے کنبے میں پاؤ بھر دال پکتی ہے۔ وہی حال ہے جو لکھنؤ کے وثیقے داروں کا ہے۔ اسی غربت میں پیسہ پیسہ جوڑ کر ہر سال دھوم کا محرم کرتے ہیں۔ بہت سی شہزادیوں کی شادیاں نہیں ہوئیں۔ بڑھیا ہو گئیں مگر مطالبہ دس لاکھ روپیہ مہر باندھنے کا قائم ہے۔ اب بتاؤ اتنا بڑا مہر کون باندھے گا۔ پچاس روپیہ مہینہ وثیقہ۔ صبح کو چاء اور رات کی باسی روٹی سے ناشتہ کرتی ہیں۔ عبرت۔‘‘
پروفیسر شاگرد نے ایک آہِ سرد بھر کر کہا۔ ان کی بیوی بھی مٹیا برج سے تعلق رکھتی تھیں۔
’’حضرت زید شہید کی شمشیر میں یہ کرامت ہے کہ جب کوئی بھاری مصیبت آنے والی ہو اس کی سطح پر ایک دھبّہ سا پڑ جاتا ہے۔ غدر سے پہلے بھی سنا ہے پڑا تھا اور اس کے بعد بھی کئی مرتبہ‘‘
کلّو خاں بولے۔ ’’پرچھائیں سی پڑ جا ہے۔‘‘
’’تو اب تک اس کی سطح پر پرچھائیاں ہی پرچھائیاں ہوں گی۔‘‘ میں نے کہا۔
دوسری صبح جب میں اور ممانی کلّو خاں کی رکشا پر سوار ہو کر گلی میں سے نکلے اور مزید پیچ دار گلیوں میں سے گزرے دونوں طرف گندے سیاہ پانی کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ اچانک مجھے شدت کا رد عمل ہوا۔ پرانی تاریخ اور میڈیول قصبوں اور تاریخی ہستیوں اور افسانوی کھنڈروں کے لیے میرا فیسی نیشن بالکل غلط، بے کار، احمقانہ اور لا یعنی ہے۔ یہ بالکل ٹھہرا ہوا پانی ہے۔ سیاہ، کائی آلود، منجمد، غلیظ تو کیا اس تہذیب یا اس کے آثار کو اب محض لائبریری اور میوزیم میں بند کر دینا چاہئے؟
شاعر کزن جو سائیکل پر ساتھ ساتھ آ رہے تھے انہوں نے غالباً میرے خیالات پڑھ لیے بولے۔ ’’یہیں کے پلے بڑھے ہمارے عزیز کراچی سے چند روز کے لیے آ کر اس اچنبھے اور احساس برتری سے ہم کو دیکھتے ہیں جیسے پہلے زمانے میں بد دماغ انگریز نیٹوز کو دیکھتا تھا۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے قصبوں کا موازنہ کراچی سے کرتے ہیں۔ تینتیس، چونتیس سال اور چل لی یہ تہذیب، اب اسے ہم اپنے ہاتھوں سے ختم کر رہے ہیں۔‘‘
’’کیوں کہ آپ کی ترجیحات priorities بالکل غلط ہیں۔ جب انگریزی پریس آپ کو بحیثیت ’’بیک ورڈ کلاس‘‘ شیڈولڈ کاسٹس کے ساتھ بریکٹ کرتا ہے تو آپ خوش ہوتے ہیں کہ آپ کو بھی مراعات ملنی چاہئیں۔‘‘ میں نے پوچھا۔
’’سنیما، مشاعرے، قوالی اور محرم، اس کے علاوہ امت مرحومہ کی دلچسپیاں کیا ہیں؟ سارے ہندوستان کے سنیما گھروں میں فلمیں آپ کی سرپرستی کی وجہ سے جوبلی مناتی ہیں۔۔۔۔‘‘
’’بٹیا۔۔۔۔‘‘ کلّو خاں نے رکشا چلاتے چلاتے اشارہ کیا۔۔۔۔ ’’ادھر نکٹی نورن کا امام باڑہ ہے۔ لال قلعہ دلّی سے یہاں آئی تھیں۔‘‘
’’ایک امپریل ماضی کسی قوم کے لیے بڑا نقصان دہ اور جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘ میں نے شاعر کزن سے کہا۔
سید محمد رضا خاں مظفر جنگ کی اس Post-Mughal دنیا میں آخری وارث ممانی جان برقعے میں لپٹی رکشا میں سمٹی سمٹائی بیٹھی تھیں۔
’’بٹیا‘‘۔۔۔۔ کیا کہئے۔۔۔۔ کلو خاں کو کیا یاد آیا۔۔۔۔ برطانوی امپریل کلکتے کے سہانے دن۔۔۔۔ اچانک بولے۔۔۔۔ ’’گوہر جان نے دلیر منزل میں بھیم پلاسی میں ایک چیز سنائی تھی۔۔۔۔ ہم دس بارہ سال کے تھے۔ خوب یاد ہے خدا بخشے ہمارے باپ بھی نادر جنگ کے خواص تھے۔۔۔۔ شاگرد پیشے سے آ کر ہم برآمدے میں بیٹھ جاں تھے اور سنا کریں تھے۔ یہ نرگس کی ماں جدّن بائی بھی آیا کرے تھی اور گوہر جان نے اس روز گایا تھا۔۔۔۔ سماں بندھ گیا تھا۔۔۔۔ بھیم پلاسی میں گایا تھا۔ جاؤ سدھارو میری جان تم پہ خدا کی ہو اماں۔۔۔۔‘‘ وہ خاموش ہو کر رکشا چلاتے رہے۔
شمشیر بکف ٹیپو خود پہن کر ۴ مئی کی دوپہر میدان جنگ میں جانے کے لیے گھر سے نکل رہا ہے۔۔۔۔ ایک اور خیال: جعفر علی خاں مرشد آباد سے آن کر کلکتے میں جہاں رہے تھے اور اپنے لواحقین کے لیے کوٹھیاں بنوائی تھیں وہ جگہ علی پور کہلاتی ہے کہ جعفر علی خاں نے اسے بسایا تھا اور وہاں پتّیوں کا بڑا سنّاٹا ہے اور ڈوئل لڑنے والے فرنگیوں کی آہٹ جو درختوں کے سائے میں چل رہے ہیں۔ اور سراج کی پسپائی کی آوازیں۔ نیچے نگاہ کی۔ کلّو خاں کے شکستہ، گرد آلود چپّلوں میں اٹکے پاؤں یکسانیت سے رکشا کے پیڈل چلاتے جا رہے تھے۔
ایک گلی کے سرے پر ایک شکستہ پھاٹک نظر آیا جس کی اینٹوں میں گھاس اور پیپل کے پودے اگ آئے تھے۔ پھاٹک سے چند قدم کے فاصلے پر ایک اور ڈیوڑھی تھی جس کی سیڑھیوں کے نیچے سیاہ پانی کا نالہ بہہ رہا تھا۔ ایک مہترانی گھونگھٹ کاڑھے جھاڑو ٹوکرا لیے سامنے سے گزری۔ ہم لوگ رکشا سے اتر کر ڈیوڑھی کے اندر گئے۔
عین سامنے صحن کی لپی پُتی دیوار کے کنارے گلاب کا ایک پھول کھلا ہوا تھا۔ ہرے ڈنٹھل پر ہری پتّیوں سے گھرا تیز سرخ گلاب کا صرف ایک پھول جیسا پہلے زمانے میں اٹراف روزیز کی شیشی پر بنا ہوتا تھا۔ اندر دالان میں ایک لڑکی مشین پر سلائی کر رہی تھی۔ طاق میں رکھا ریڈیو وودھ بھارتی کے فلمی گانے سنا رہا تھا۔ میں اور ممانی جا کر لڑکی کے پاس دوسرے کھرّے پلنگ پر بیٹھ گئے۔ لڑکی نے سلام کیا۔ ریڈیو بند کر کے پان بنانے لگی۔
انگنائی کی دیوار کے ادھر سے ایک ضعیفہ اونچی آواز میں کسی سے مخاطب تھیں۔۔۔۔ ’’تیرہ تیزی، بارہ وفات، میرانجی، شاہ مدار، خواجہ جی، مریم روزہ۔۔۔۔ اے لو پورا سال گذرا جاتا ہے پر بٹو نہ آئیں پاکستان سے۔ کیا میرا چالیسواں کرنے آئیں گی۔‘‘
ایک اور ضعیفہ دہری کمر، کمانی جیسی ٹانگیں کمرے سے بر آمد ہوئیں۔ ہاتھ میں بڑا سا کنجیوں کا گچّھا۔ دعا سلام کے بعد ان کے ہم راہ ہم لوگ انگنائی پار کر کے ڈیوڑھی میں پہنچے۔ گلی میں اترے۔ کیچڑ سے بچتے اس قدیم پھاٹک میں داخل ہوئے جو گلی کے سرے پر استادہ تھا۔ اندر اینٹوں کے وسیع صحن میں زرد خود رو پھول اُگے ہوئے تھے۔ چاروں طرف ایک عالی شان حویلی کے کھنڈر سامنے ایک اجاڑ برآمدے میں دیوار کے نزدیک ایک طویل چوبی صندوق رکھا تھا۔ فرش پر چٹائی ایک کونے میں کسی کتاب کے بوسیدہ پیلے اوراق کسی نے چٹائی کے نیچے سرکا کر اوپر اینٹ رکھ دی تھی۔ زرد کاغذوں پر چھپی دھندلی عبارات چٹائی کے ایک بڑے سوراخ میں سے جھانک رہی تھیں۔۔۔۔
جب حلیمہ بیگی آغا ولایت شیروان سے تشریف لے گئیں۔۔۔۔ قول آنجناب اکثر چنیں بود کہ وقتے کہ درگوش من آواز دوں دوں از نقارہ برمی آید خیال می کنم کہ اگر نادر شاہ۔ ان کی مادر گرامی کا نام لو راد تھا۔ مختار بن ابو عبیدہ ثقفی نے چھ سو دینار میں خرید کر مع چھ سو اشرفی خدمت میں امام عالی مقام کے گزرانا تھا۔ کنیت ابو الحسین اور بہ سبب کثرت تلاوت کلام اللہ حلیف القر آن بھی مشہور تھے۔ عالم جلیل و فاضل بے عدیل تھے۔ اپنے تمام بھائیوں میں افضل۔۔۔۔ گلاب کے پھول کی طرح حسین۔
’’اے باجی بیگم میں بھی آ جاؤں زیارت کرنے؟‘‘ دیوار کے ادھر سے آواز آئی۔
’’جم جم آؤ بہار آرا بیگم۔‘‘ ہماری میز بان ضعیفہ نے جواب دیا۔
’’چند لمحوں بعد ایک اور بڑی بی جھکی جھکی دوسرے صحن سے دالان میں داخل ہوئیں بوڑھی پھونس۔۔۔۔ دھندلی آنکھیں۔۔۔۔ لیکن کراری آواز۔۔۔۔ شاید کچھ دیر قبل یہی پاکستان سے بٹو کے نہ آنے کا شکوہ کر رہی تھیں۔ اور ان خزاں رسیدہ بی بی کا نام بہار آراء بیگم تھا۔ وہ بھی آن کر چٹائی پر اکڑوں بیٹھ گئیں۔
میری نظر پھر اس سوراخ سے جھانکتی عبارت پر پڑی۔ ’’جب حلیمہ بیگی آغا ولایت شیروان سے تشریف لے گئیں۔‘‘ ایک خاتون کا نام حلیمہ بیگی آغا بھی کیا بانکا ترک تازی والا نام تھا۔ بہار آراء بیگم بڑھیا انگلش کارڈیگن۔ پہنے ہل ہل کر دعائیں پڑھ رہی تھیں۔ یہ کارڈیگن یقیناً ان کے کسی پوتے نواسے نے گلف سے یا انگلستان سے بھیجا ہو گا۔
محلے محلے قصبے قصبے غریب مسلمانوں کے گھروں سے افلاس کے آثار مٹتے جا رہے تھے۔ کماؤ بیٹوں کے سمندر پار سے بھیجے روپئے اور خود اپنی دیس میں نئے کارو بار اور گھریلو صنعتوں کی بیرونی دنیا میں بڑھتی ہوئی مانگ نے ان لاکھوں کاریگر مسلمانوں کے دن پھیر دیئے جن کے بے مثال آبائی ہنر یہ گھریلو صنعتیں تھیں۔ قالین بافی کے مرکز ایک چھوٹے سے قصبے میں مغرب کے تمام بنکوں کی شاخیں کھل چکی تھیں۔ ہر طرف نئے مکان بن رہے تھے۔ دینی مدرسے، مساجد۔
’’سارے ملک کے ہر فرقے میں مذہب کا غلبہ شدت سے بڑھتا جا رہا ہے۔‘‘ کل شاعر کزن نے کہا تھا اور اس کے بعد خود فخریہ اپنے ہاں کے محرم کی تصاویر دکھائی تھیں۔
میزبان ضعیفہ نے کنجیوں کا گچّھا چھنکا کر طویل صندوق کا قفل کھولا۔ رات ماموں میاں نے تفصیل سے سمجھایا تھا۔ اکبری منصب دار سید ابو الحسن یہاں آتے ہوے گڑھ مکتیشر میں کنار دریا سرائے میں ٹکے۔ وہاں ان کی ملاقات ان کے مرشد میاں اللہ بخش گنج بخش سے ہوئی جنہوں نے یہ مقدّس تلوار اور نیزہ انہیں عطا کیا۔ ان کو ان کے مرشد شیخ مبارک بالا دست جھنجھنانوی نے اور ان کو ان کے مرشد میر علی عاشق اشطاری جونپوری سرائے میر والے عارف باللہ نے کہ زید شہید کی اولاد میں سے تھے۔
’’تم کو معلوم ہے۔۔۔۔‘‘ ماموں میاں نے پیچوان کی نے رکھ کر اچانک پوچھا تھا
’’پہلے زمانے میں صوفی لوگ۔۔۔۔ فقراء اور درویش ایک دوسرے کو سلام کس طرح کرتے تھے؟ ایک کہتا یا علی۔۔۔۔ دوسرا جواب دیتا مولا علی۔۔۔۔ گویا وعلیکم السلام۔۔۔۔
اچھا تو میاں اللہ بخش درویش نے یہ شمشیر اور نیزہ سید ابو الحسن منصب دار کو عطا فرمایا اور بولے یاد رکھو کرامت اس شمشیر کی یہ ہے کہ جب کوئی بڑی مصیبت نازل ہونے والی ہواس پر داغ پڑ جائیں گے۔۔۔۔
’’سابق میں یہ تبرکات جن صاحب کے پاس تھیں ان کے ورثا میں سے ایک کی زوجہ ثانی ہمشیر حکیم غلام حسین خاں کی تھیں۔ حکیم صاحب نے یہ تبرکات نواب یوسف علی خاں والی رام پور کو دے دیں۔ نواب کے ایک اہل کار کو ان کی حقیقت معلوم نہ تھی۔ اس نے تلوار اور نیزہ اسلحہ خانے میں جمع کر دیا۔ اسلحہ خانے میں آگ لگ گئی۔ ایک بزرگ نے خواب میں آ کر نواب سے کہا کہ تبرکات فوراً واپس کر دو۔ چنانچہ نواب نے ہاتھی پر طلائی ہودہ کسوا اس میں تبرکات رکھ کر بصد عزت و تکریم انہیں واپس کیا۔ یہاں لا کر زیارت کے لیے نکالا گیا تو شمشیر پر چتّے نظر آئے بعد چند روز کے غدر پڑا۔ انگریز سرکار نے رعایا کو نہتا کیا۔ یہ مقدس تلوار بھی کلکٹر ضلع نے اپنے قبضے میں کر لی۔ بعد کچھ عرصے کے اسے واپس کیا۔‘‘
جو رہی سو بے خبری رہی۔ فرنگی کلکٹر بھی بے خبر تھا۔ ممانی جان واقف ہیں۔ صندوق کے سرہانے بیٹھی دعائیں پڑھ رہی ہیں۔ ان کی انگریز دادی کے بڑے بھائی فیلڈ مارشل ارل رابرٹ نے اپنی ولایتی تلوار سے افغانستان میں اہلِ ایمان کے کشتوں کے پشتے لگا دیئے تھے۔ وہ بے خبر تھا۔۔۔۔ لیکن ہم جو واقف ہیں۔۔۔۔
’’سن سینتالیس میں بھی اس شمشیر پر دھبّے پڑ گئے تھے۔‘‘ ضعیفہ نے کہا۔
’’اس مکان میں کوئی نہیں رہتا؟‘‘ میں نے دریافت کیا۔
’’سن سینتالیس میں یہاں شرنارتھی آباد کر دیئے گئے تھے۔ وہ چند روز بعد کہیں اور چلے گئے۔‘‘
’’ان تبرکات کو کسی کمرے میں مقفل کیوں نہیں رکھتیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بالی۔ جب بھی اس صندوق کو کمرے میں رکھ کرتا لا لگاؤ تالا آپ سے آپ کھل جاتا ہے۔ حکم نہیں ہے۔‘‘
انہوں نے صندوق کا پٹ کھولا۔ احتیاط سے پہلے حضرت شرف الدین شاہ ولایت? کے تبرکات نکالے۔ تراشیدہ کہربا کی ایک انگشتری، ایک بڑا کڑا جس پر آیات قر آنی کے امداد نقش تھے۔ ایک عصا۔ ان کو واپس رکھنے کے بعد قدیم بوسیدہ کپڑے میں لپٹی ایک تلوار نکالی۔ کپڑے کی پٹیاں کھولیں۔ تلوار نیام سے برآمد کی۔ تلوار کا دستہ چوبی تھا۔ میں نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔ سطح پر جگہ جگہ چتیاں سی پڑی تھیں۔ تلوار کی قدامت جن کی سائنٹفک توجیہ ہو سکتی تھی۔ بھالا بھی کپڑے میں لپٹا ہوا تھا۔ دو منٹ بعد ضعیفہ نے دونوں چیزیں صندوق میں واپس رکھیں۔ جدّ اعلیٰ حضرت زید شہید ابن امام زین العابدین کی تلوار اور نیزہ۔۔۔۔کمال ہے۔
صحن میں بڑا سنّاٹا تھا۔ ممانی دعائیں پڑھنے میں منہمک تھیں۔ تیز دھوپ میں خود رو زرد پھول لہلہا رہے تھے۔ چند کوّے فرش پر ٹہلتے پھر رہے تھے۔ سُرماندی کنارے مدھو کا کھلی ہے۔ ہر جائی ہوا جنگل جنگل۔۔۔۔ میزبان ضعیفہ اور بہار آرا بیگم کو خدا حافظ کہہ کر ہم لوگ باہر آئے کلّو خاں رکشہ کے پاس اس طرح مستعد کھڑے تھے گویا سید محمد رضا خاں مظفر جنگ کے چوبدار مغرق ہاتھی یا چو ڈولے کی نگہبانی کرتے ہوں۔
اسی وقت مہترانی ٹوکرا اٹھائے گلی کی سیاہ کیچڑ میں پھچ پھچ کرتی دوبارہ پاس سے گذری۔ کیچڑ کی چند چھینٹیں اڑیں۔ کلّو خاں توبہ تلّا کرتے اُچک کر ایک طرف کو ہو گئے۔ ’’لاحول ولاقوۃ۔ صبو صبو۔۔۔۔ نہا دھو کر کپڑے بدلے۔ لے کے کمبخت نے نجس کر دیئے۔۔۔۔ ہمارے پاس اتنے کپڑے بھی تو ناں ہیں کہ بار بار بدلتے پھریں۔ توبہ توبہ‘‘ اپنے شکستہ لباس پر نظر ڈال کر انہوں نے تاسف سے سر ہلایا۔ اور ہم لوگوں کو سوار کرا کے گلی سے نکلے۔
۲
قائم کی بیریاں شہر ہماری طرف بڑھتے رہے اور ہم میں شامل رہے اور ہمارے پاس سے اور ہمارے اندر سے ہو کر نکل گئے۔ ہم نے بہتے دریا کے کنارے خیمہ کیا تھا۔ ۱۹۵۴ء میں وہ کوٹھی خان بہادر میر قائم علی سی۔ آئی۔ ای۔ نے لکھنؤ سے آ کر پنجاب جانے سے قبل بنوائی تھی۔ پوری Urban Estate تھی۔ وسیع احاطہ، متصل فیض گنج۔ ایک طرف دکانوں کی قطار۔ احاطے کا پھاٹک اور اونچی دیوار اب بھی باقی ہے۔ احاطہ میر قایم علی کی ایک پڑپوتی ثروت آرا بیگم کو ورثے میں ملا تھا۔ کوٹھی ثروت آراء کی بہن نذر سجّاد حیدر کو، دوکانیں ایک پڑ پوتے میجر حسنین کو ملی تھیں۔ سڑک کے پار عین مقابل میں قلعے کی سفید مسجد آم کے گھنے درختوں میں پوشیدہ۔ کچھ فاصلے پر قلعے کی شکستہ فصیل، اس کے احاطے میں گورنمنٹ کالج، کوٹھی کے عین سامنے چورا ہے کے ادھر میر قایم علی کے ایک بڑے جاگیر دار کزن کا شہری مکان۔ اس مکان کے بالا خانے کے رنگ برنگے شیشوں والے دروازوں میں گرمیوں کی بھری دوپہروں میں سامنے کا پر فضا منظر بے حد سہانا معلوم ہوتا تھا۔ میر قایم علی کہیں پر بیریوں کے درخت بھی لگائے گئے تھے۔ وہ محلہ اب تک قائم کی بیریاں کہلاتا ہے۔ صاف ستھری گلیاں، صاف ستھرے محلے۔ اس شہر آئینہ کے اس رنگ برنگ شیشوں والے مکان میں صبح و شام بھشتی زینے کے دروازے پر آواز لگاتا۔۔۔۔ پردہ کر لیجئے کبھی تیسرے پہر کو بہو نہ آتی اس کا آدمی یہی ہانک لگاتا۔۔۔۔
اس وقت آنگن میں نیم تلے بھائی مہدی اپنی انٹلکچوئیل گفتگو کا رخ اس کی طرف موڑ دیتے۔ یہ نظام کس طرح بدلے گا۔ وہ جوش سے کہتے۔ تین ہزار سال سے ایک پوری آبادی کو Night Soil اٹھانے کے کام پر لگا رکھا ہے۔ اور خود کو مہذب کہتے ہیں۔ خود مارے تہذیب کے بھائی علی مہدی ہمیشہ Night Soil ہی کہتے تھے۔ آزادی کے فوراً بعد بھائی علی مہدی خود تو امریکہ جابسے وہ آبادی اسی طرح Night Soil اٹھایا کی۔ آزادی کے پندرہ بیس سال بعد تلک قائم کی بیریوں پر خاصی بے رونقی اور اداسی چھائی رہی تھی۔
پچھلے چند سال سے اس پورے شہر پر ایک دم زوروں کی بہار آ گئی تھی۔ تین سال ادھر میں وہاں گئی تو ایک نواب زادہ کزن مونچھوں پر تاؤ دے کر بولے۔ اجی اب تو میں بھی سماوار ایسکپورٹ کر رہا ہوں۔ منجھلے بھیا کراچی سے آ کر بتا جایا کریں تھے کہ ان کے ہر لڑکے لڑکی کے پاس الگ الگ Toyota موٹریں ہیں۔ ہم دم بخود سرجھکائے سنا کریں تھے۔ تو بھنو ہم بھی اس کاروبار میں لگ گئے۔ پرانی نکال کر نئی ایمبیسڈر خرید لی۔ اب انشاء اللہ سامنے والی اپنی زمین جو خالی پڑی ہے اس پر شوروم بنواؤں گا اور جو باہر سے۔۔۔۔ اجی مڈل ایسٹ، یوروپ، امریکہ سے برتنوں کے خریدار آویں گے ان کے ٹھہرنے کے لیے گیسٹ ہاؤس۔‘‘
مصر قدیم میں موت کا تصور یوں تھا کہ موت کا ملاح نیل کی موجوں پر اپنی کشتی کھیتا شمال کی طرف رواں ہے اور جنوب کی سمت منہ کیے رہتا ہے۔ روحوں سے لدی کشتی الٹی سمت کو بہتی رہتی ہے۔ سامنے جو دریا بہہ رہا ہے اس پر ایسی کشتیوں کی ایک قطار گذرتی جا رہی ہے۔ جب کشتیاں آگے جا کر موت کے دھندلکے میں کھو جاتی ہیں ایک اور قطار نمودار ہو جاتی ہے۔ یہ سلسلہ لامتناہی ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ مردے آدھی رات کو قبروں سے اٹھ کر Synogogue میں جا کر عبادت کرتے ہیں کوئی بتا رہا تھا کہ پرسوں جلے ہوئے کارخانوں میں رات بھر کھٹ کھٹ ہوا کی۔ بڑی گہما گہمی تھی۔ جیسے جلد از جلد سارا مال تیار کر کے نقش و نگار سے مکمل پیک کر کے دریا پر پہنچا دیا جائے جہاں خالی بجرے منتظر تھے اور ان کے ملاح خاموشی سے جنوب کی طرف دیکھ رہے تھے۔
کوٹھی میر قائم علی کی جگہ اب دو منزلہ عمارت کھڑی ہے جس میں متعدد ڈاکٹر رہتے ہیں۔
’’اجی ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ دو مریض عورتیں اندر گئیں زندہ واپس نہ آ سکیں۔‘‘
سامنے قلعے کی سفید مسجد آم کے گھنے درخت، ثروت خالہ مرحومہ کے احاطے کا پھاٹک۔ سامنے رنگ برنگے شیشوں والا مکان، دور قلعے کی فصیل، بہتا دریا، سب چیزیں اسی طرح موجود تھیں۔ شاعر کزن جو قصبہ دانش منداں سے آئے ہوئے تھے حسبِ عادت آسماں کو دیکھ کر بولے اجی کس کس بات کا غم کرو۔ ہم لوگ کالج کے احاطے میں داخل ہو کر فصیل کی سمت چلے۔
شاعر کزن بولے۔۔۔۔ Holocauset کے فوراً بعد کلکتے کے اس بے حد اہم مشہور انگریزی اخبار کا مسلمان اڈیٹر یہاں آیا تھا۔ مجھ سے پوچھا کیا آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں گے؟ میں نے جواب دیا اندلس سے جب لوگ نکلے مراقش پہنچ کر اپنے اندلسی مکانوں کی کنجیاں دیواروں پر ٹانگ دی تھیں کہ ایک روز واپس جائیں گے، کبھی نہ جا سکے۔‘‘
’’یہ اندلس والی سچویشن ہرگز نہیں ہے۔‘‘ ایک رپورٹر بولا۔ میں نے کہا حضرت سب سچویشن جہاں تک جان و مال کی تباہی، ہلاکت اور خونریزی کا تعلق ہے یکساں ہیں۔ مشرقی پاکستان کی سچویشن کیا تھی؟ جو لوگ وہاں سے جان بچا کر کٹھمنڈو اور کلکتہ پہنچے تھے کیا وہ اندلس سے نکلے تھے؟ ان کو ان کے ہم مذہبوں نے مارا اور نکالا تھا۔۔۔۔ اس نے پوچھا اب کیا ہو گا۔ میں نے کہا میں تری کال درشنی نہیں ہوں کہ بھوت، ورتمان، بھوش کا حال ایک ساتھ بتا دوں۔ کچھ نہیں ہو گا دھوپ چھاؤں۔ اسی طرح گاڑی چلتی رہے گی جب تک سارا معاشی نظام نہیں بدلتا۔۔۔۔‘‘
ہم لوگ کالج کے احاطے میں سے ٹہلتے ہوئے فصیل تک پہنچے۔ گذشتہ سال ایک شام کو میں یہاں شاعر کزن اور نواب زادہ کزن کے ساتھ چہل قدمی کے لیے آئی تھی۔ ایک دلچسپ منظر دیکھا تھا۔ فصیل کی اندرونی دیوار میں ایک طاقچے میں چراغ روشن تھا، پھول رکھے تھے، اگر بتّی سلگ رہی تھی۔ یہ کسی پیر کا چلّہ تھا۔ اس کے نیچے ایک دوسرے سے دور کچھ فاصلے پر دو غریب مسکین صورت آدمی چپ چاپ آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ایک دھوتی پوش۔ ایک چگی داڑھی والا۔ یہ دونوں کالج کے چپراسی ہیں۔ شام کو دونوں یہاں بیٹھتے ہیں۔ آپس میں معاہدہ ہے۔ اس چلّے کے مجاور بن گئے ہیں۔ ہندو مسلمان جو چڑھاوا چراغی کا نذرانہ لاتے ہیں اُسے آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔‘‘
نواب زادہ کزن نے محظوظ ہو کر بتایا تھا۔ میں کچھ دیر کھڑی دیکھا کی۔ دونوں صبر سے ان چند پیسوں کی آس لگائے بیٹھے تھے جو کوئی عقیدت مند اس طاقچے پر چڑھا جائے۔
’’تمہیں جان بیم کی بات یاد ہے جس کا میں نے پچھلے سال نواب مظفر جنگ کی زمیں اور مارواڑی کی جوٹ مل کے سلسلے میں تذکرہ کیا تھا۔ پچھلے سال ماموں میاں کے ہاں؟‘‘ اس وقت قلعے کی شکستہ فصیل کے نیچے میں نے شاعر کزن سے پوچھا۔
’’نئے کاروباری طبقات کے مفاد۔۔۔۔؟‘‘ اس نے کہا۔
’’ہاں۔ لیکن کم از کم اس شہر کے لوگ ان دونوں مفلس چپراسیوں سے عقل سیکھ لیتے کہ نئی خوشحالی میں جو نفع ہوا سے مل بانٹ کر کھاؤ۔۔۔۔ وہ دونوں ہیں کہاں؟‘‘
’’کون۔۔۔۔؟‘‘
’’وہی دونوں خود ساختہ مجاور جو گذشتہ برس یہاں دھونی رنائے بیٹھے تھے۔‘‘
’’شاید زندہ ہوں۔ انسان بڑا سخت جان ہے۔‘‘
’’اور شاید پھر یہاں چراغ جلا کر بیٹھ جائیں۔‘‘
’’جی ہاں۔ انسان بڑا سخت جان ہے۔ چلیے قائم کی بیریوں میں چھبّن آپا کے ہاں۔ ان کا بڑا لڑکا کویت سے آیا ہوا ہے۔ اس کی منگنی کی دعوت ہے۔‘‘ شاعر کزن نے گھڑی دیکھ کر یاد دلایا۔
قائم کی بیریوں کے اس مکان میں بڑی چہل پہل تھی۔ انگنائی زرق برق کپڑوں میں ملبوس مہمان بیبیوں سے بھری ہوئی تھی۔ جس وقت ہم لوگ وہاں پہنچے اسی وقت چھبّن آپا کا چھوٹا لڑکا ڈنمارک واپس جانے کے لیے اسٹیشن روانہ ہو رہا تھا۔ سب ڈیوڑھی کی طرف لپکے۔
’’سدھارو۔ امام ضامن کی ضامنی اور بی بی سیدہ کی چادر میں دیا۔۔۔۔‘‘ لڑکے کی دادی کی جھرجھری آواز بلند ہوئی۔
اتنے میں پچھلے دروازے کی کنڈی کھڑکی۔۔۔۔ اور ایک کرارا نعرہ۔۔۔۔ ’’اجی میں نے کہا پردہ کر لو۔۔۔۔‘‘
’’توبہ ہے۔ نگوڑے کو عین اسی وقت آنا رہ گیا تھا۔ مجّن بیٹے دس منٹ رک جاؤ۔۔۔۔‘‘ دادی نے جھنجھلا کر کہا۔ دور پار۔ چھائیں پھوئیں۔‘‘
ڈھاٹا باندھے، ٹو کرا اور جھاڑو اٹھائے ذرا لنگڑاتا ہوا مہتر آنگن میں داخل ہوا۔
’’اے کلو آ تم صبح نہ آئے۔۔۔۔‘‘ ایک اصیل نے شکایت کی۔
’’کیا کرتا۔ تلوے میں شیشہ چبھ گیا۔ زمین پاؤں تلے سے نکل گئی۔ اتنی تکلیف تھی۔ دو گھنٹے دوا خانے کی لین میں کھڑا رہا اور صاحب کان کھول کر سن لو۔ میرا نام کلوا نہیں کلّو خان ہے۔‘‘
کلّو خاں۔۔۔۔ میں چونکی، انہوں نے جھاڑو ٹوکرا زمین پر رکھا۔ بغل سے نکال کر دستانے پہنے۔ پھر جھاڑو ٹوکرا اٹھایا اور بیت الخلا کی طرف سر جھکائے اس طرح چلے جیسے ان کے بزرگ سراج الدولہ کے ساتھ پلاسی سے لوٹے تھے۔
’’کلو خاں۔۔۔۔‘‘ میں نے بھونچکی آواز میں دہرایا۔ ’’میری للکار پر وہ ٹھٹھکے۔ پلٹ کر دیکھا۔ ڈھاٹا منہ ناک پر سے اس طرح سرکایا گویا میدانِ جنگ میں ڈٹے ہوں اور چہرے پر سے خود اٹھاتے ہوں۔
’’بات گے ہے بٹیا۔۔۔۔‘‘ انہوں نے کھنکار کر کہا۔ ’’اس قیامت کے بعد سے اس شہر کے خاک روبوں کا بائیکاٹ کر دیا گیا۔ جھگڑا تو ان ہی کا شروع ہوا تھا کیا کرتے۔ ہم بیس تیس آدمی اس کام میں لگ گئے۔ میں بھی شہر آ گیا۔ اس میں پیسہ بہت مل جاتا ہے۔ رکشہ کھینچنے، ٹھیلہ چلانے سے کہیں زیادہ بڑھاپا ہے۔ پھیپھڑے ناکارہ ہو گئے۔ رکشا نہ چلائی جاتی۔ بارہ جنوں کا ٹبّر، کمانے والا اکیلا میں۔ دوسری بات گے۔۔۔۔ یہ جتنے باہرے کے ملک ہیں اسلامی اور کرسچین، ان میں بھی تو یہ کام لوگ باگ خود ہی کریں ہیں۔‘‘
میرا کوئی جواب نہ پا کر چند سکنڈ کھڑے رہے۔ پھر بولے۔۔۔۔ ’’اور آپ اپنے ماموں ممانی سے ملنے نہ گئیں؟ مل آئیے۔ چراغ سحری ہیں دونوں۔۔۔۔‘‘
’’انہوں نے آپ کو کیسے آنے دیا۔۔۔۔؟‘‘
’’ان کو بتایا ہی کاں۔۔۔۔؟ چپکے سے سٹک لیا۔ آپ بھی نہ بتلائیے گا۔۔۔۔ اچھا اللہ بیلی۔‘‘ ڈھاٹا منہ ناک پر واپس کھسکا کر وہ لنگڑاتے ہوئے غسل خانوں کی سمت چلے گئے۔
کبھی عبرانیوں نے قاصیوں کو پانی بھرنے اور لکڑی چیرنے والے بنایا تھا کبھی قاصیوں نے عبرانیوں کو۔ نوشیرواں عادل کے محل میں آگ روشن ہے۔ اس نے بھیم پلاسی کے سُر اتنے اونچے کیے کہ شیشہ ٹوٹ گیا۔ الٰہی یہ جلسہ کہاں ہو رہا ہے۔ اس شہر آئینہ سے جواب شہر کا بوس ہے۔ بیس میل دور اس قدیم قصبہ دانش منداں میں اپنے مغلیہ مکان کے اندر سرو کے نیچے آرام کرسی بچھائے والدہ مرحومہ کے کزن اور کوکلتاش جواب بھی لال قلعے کی زبان کے جھپیٹے میں ہیں، افسردگی سے کہیں گے۔۔۔۔ عبرت، بے چارہ کلّو بھی آخورچی بن گیا۔
اور اسی قصبے کی ایک اجاڑ حویلی کے دالان میں ایک داغ داغ شمشیر کے صندوق کے سامنے وہ بوڑھی عورتیں شاید سرنگوں بیٹھی ہوں۔ بہار آراء بیگم اور ان کی پڑوسن۔ یا صاحب العصر والزماں ۔ الاماں۔ الاماں۔ الاماں۔
۲۲ جنوری ۱۹۸۱ء کا لکھا ہوا چھبّن آپا کی لڑکی کا خط۔
باجی جان تسلیم۔
یہاں کے حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ کاروبار زور شور سے شروع ہو گئے ہیں۔ پہلے جیسا ماحول نظر آتا ہے لیکن ابھی تلاشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ انشاء اللہ اب حالات صحیح رہیں گے کیوں کہ لوگ کاروبار میں مصروف ہیں۔ انہیں افواہیں سننے کی بھی فرصت نہیں۔ چند روز قبل ایک افواہ سارے شہر میں گشت کر رہی تھی کہ محلہ لال باغ کے فساد میں شہید ہونے والے ببّن خاں کی روح رات کو آ کر اپنے دشمنوں سے بدلہ لیتی ہے لیکن چند روز بعد اس افواہ نے دم تور دیا۔ پڑھے لکھے لوگ بھی یقین کرنے لگے تھے۔ اب سوچ کر ہنستے ہیں۔ کلوا حلال خور بھی خیریت سے ہے۔ سلام لکھواتا ہے۔
٭٭٭