میں تم سے محبت نہیں کرتی اور میں نے صرف پیسوں کے لئے تم سے محبت کی ہے ۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔۔۔کیوں کیا ایسا ہانیہ میں تو کتنی محبت کرتا تھا تم سے۔
یہ کیا کردیا تم نے اتنا برا دھوکا وہ بھی چند روپیے کے لئے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگا ہانیہ کبھی نہیں اب تک تم نے میری محبت دیکھی ہے اب نفرت دیکھو گی آئی ہیٹ یو ہانیہ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
ہاااااااااااہہہہہہہہہہہ جب حنان کمرے میں آیا تو شیشے کے سامنے کھڑے ہوکراس کے منہ سے ایک درد کی آہ نکلی جس وجہ سے
شیشے کو زور سے مکا مارتے ہوئے کہا۔۔۔
شیشے تھے کے زمین پر چکنا چور ہوئے پڑے تھے۔۔۔۔۔
جس طرح یہ ٹکڑے بکھیرے پڑے یے نا اسی طرح میں بھی بکھر کر ٹوٹ چکا ہو ۔۔
میں نے زندگی میں کبھی خود کو اتنا بے بس نہیں سمجھا جتنا تم نے مجھے کردیا ہے میں تمھیں کبھی معاف نہیں کرونگا کبھی نہیں۔۔۔۔
حنان نے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر ٹوٹے ہوئے شیشے کا ٹکڑا اٹھاتے ہوئے کہا۔۔
آج حنان بہت تکلیف میں تھا بس فرق اتنا تھا کے اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے باقی درد کی انتہا کم بھی نہیں تھی بس اس کے آنسو اسکی آنکھوں میں آنے کے بجائے اس کے گلے میں پھندا بنے اٹکے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔
آپ نے ٹھیک نہیں کیا ارسلان صاحب آپ نے اپنے بچے کو جیتے جی مار ڈالا ہے۔
آپ اسے دیکھیے کمرے میں کس طرح مچھلی کی طرح تڑپ رہا ہے آپ نے بہت ظلم کیا ہے۔۔۔
حنان کی ماں اپنے شوہر سے کہے رہی تھی جو کسی بات کی پروا کئے بغیر کمرے میں صوفے پر بیٹھے ٹانگ پر ٹانگ رکھے آرام سے اخبار پرھنے میں مگن تھے ۔۔۔
انہیں کچھ احساس ہی نہیں تھا اور ہوتا بھی کیوں وہ خود اپنے بیٹے کے پیار کے دشمن بنے تھے اور انہوں نے خود ہی تو سب کروایا تھا لیکن یہ بات بس حنان کی ماں ہی حانتی تھی اور ارسلان صاحب نے حنان کو کچھ بھی بتانے سے منا کیا تھا۔۔۔۔۔
لیکن ایک ماں کسے اپنے بیٹے کو تکلیف میں دیکھ سکتی تھی ۔۔۔لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بیٹے کو کچھ نہیں بتا سکتی تھی۔ کیونکہ ارسلان صاحب نے انہیں طلاق کی دھمکی دی تھی جس وجہ سے وہ مجبور تھی۔۔۔۔۔
دیکھو بیگم اگر تم چاہتی ہو کے میں تمہیں طلاق نا دو تو حنان کو کچھ بھی پتا نہیں لگنا چاہیے اور کوئی لڑکی دیکھ کر میں حنان کی شادی کردونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ۔۔۔بس میں اور کچھ نہیں سنوگا جو بول دیا تو بول دیا۔۔۔۔۔
۔۔ارسلان صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں چپ رہنے کا کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
جی کون بات کر رہا یے۔۔
موبائل کی رنگ بجی تو حور نے کال اٹھاتے ہی کہا۔۔۔
جی میں آر یچ RH بات کر رہا ہو۔۔۔
کیا ک ک کون ہو تم اور کیوں میرے پیچھے ہرے ہو۔۔۔دوسری طرف ایک مردانہ آواز سن کر حور نے جھٹ سے کہا۔۔۔۔
میں جو بھی ہو پتا چل جائے گا اس کے لئے تمھیں مجھ سے ملنا ہوگا۔۔۔
کیا میں اور تم سے ملوگی کبھی بھی نہیں۔۔۔حور نے چلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ملنا تو تمہیں پرے گا نہیں تو تمھیں کچھ بھی نہیں پتا چلے گا۔۔۔
کہا ملنا ہے میں آجاؤنگی۔۔حور نے ملنے کے لیے حامی بھر لی۔۔۔۔ٹھیک یے تم مجھے روکسٹار کفے میں ملو ۔۔۔۔۔
لیکن میں تمہیں پیچانوگی کسے۔۔۔۔۔
حور نے دھیرے سے کہا۔۔
وہ تم فکر مت کرو بس تم آجاؤ۔۔۔
ابھی دس بج رہے ہے تم گیارہ بج تک پہنچو۔۔۔۔
آر ایچ RH نے اسے ٹائم دیا۔۔اور کال بند ہوگئ۔۔۔.
بہار میں جائے دفر کہی کا آج تک میرے بابا نے مجھے ٹائم نہیں دیا اور یہ برا آیا مجھے ٹایم دینے والا۔۔۔۔۔۔
حور غصےسے بربرایی۔۔..اور اپنا موبائل اٹھا کر بیڈ پر پھینکا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلو سویٹ ہارٹ۔۔ جب حور نیلے کلر کی شلوار قمیض میں ملبوس جس نے سفید کلر کا دوپٹہ گلے میں لے رکھا تھا ساتھ اس نے بال کھول رکھے تھے جو کاندھوں تک آرہے تھے اور چہرے پر ہکلے سے میک آپ میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔۔۔
جب حور پلٹی تو دیکھا کے ریحان سفید کلر کی شلوار قمیض میں ملبوس جس کے اوپر کالے کلر کی واسکٹ پہن رکھی تھی وہ ہاتھ میں پھولوں کا گلدستہ لیے کھرا تھا جسے دیکھ کر حور پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
تو تم ہو آر آیچ RH مستر ریحان۔جو مجھے اتنے دن سےفولو کر رہے ہو اور یہ پھول پیچھے کرو انھیں ۔۔
حور نے غصے سے چلاتے ہوئے وہ پھولوں کا گلدستہ اس کے ہاتھ سے لے کر زمین پر پھینکا جو چہرے پر مسکراہت سجانے اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔
تم آؤ میری بات سنو میں سب سمجھاتا ہو۔۔۔
ریحان نے اسے کہا ۔۔۔
مجھے کہی نہیں بیٹھنا جس کام کے لئےآئےہو وہ کرو ۔۔
حور نے غصے سے بولتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اوکے ٹھیک ہے سنو۔۔۔۔ہاں میں ہی ہو آر ایچ RH..
جو تم سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔۔
محبت مئ فٹ۔۔ریحان نے جب اسے کہا تو حور نے زور سے پاؤں کو زمین ہر جھٹکا۔۔
میں یہاں تمھاری عشق معشوقی کی باتیں نہیں سننے آئی ۔
تم یہ بتاؤ کے اس بوکس میں ایسا کونسا راز ہے اور اس انگوٹھی کا بھی راز بتاؤ جس وجہ سے میرے بابا کی بھی حالت خراب ہوئی جس وجہ سے میں نے ان سے بات نہیں کی اب تم بتاوگے سب کچھ۔۔۔۔
حور نے ایک ہی سانس میں سب کہے دالا۔۔۔۔۔۔
بتاونگا سب بتاونگا تم یہاں آؤ پہلے ۔۔۔
ریحان نے اسے ایک کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
وہ کچھ کہے بغیر بیٹھ گئ اور وہ بھی اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔
تو پہلی بات ہے اس انگوٹھی کی تو حور میں بتاتا چلو کے تم میری منگیتر ہو جس کی بچپن میں مجھ سے منگنی ہو چکی ہے اور تمھارے ماما پاپا اور میری ماما نے مل کر خوشی سے یہ فیصلہ کیا تھا۔۔
ک ک کیا ت تت تم جھوٹ بول رہے ہو ایسا نہیں ہوسکتا
جب حور نے ریحان کی بات سنی تو اس نے حیرانی سے کہا ۔
اچھا تو میں جھوٹ بول رہا ہو نا تو ٹھیک ہے تمھیں جو بوکس دیا ہے باقی کے سوالات تمھیں اس میں ملے گے اس کا کود RH ہی ہے اسے کھولو پھر میری باقی کی بات تمھیں اچھی طرح پتا چل جائے گی۔۔۔۔۔۔
حور اٹھی اور اپنی گاڑی کی طرف بھاگی۔۔۔
اسے جلدی گھر پہنچنا تھا اور اپنے سوالوں کے جواب لینے تھے ۔
وہ اب گاڑی کو رفتار سے دوڑا رہی تھی ۔۔ایسا کسے ہوسکتا ہے ریحان اور میرا منگیتر اور وہ بھی میرے ماما پاپا نے اور اس کے ماما پاپا نے مل کر کروائی لیکن اگر یہ سچ ہے تو ابھی تک مجھ سے یہ راز ماماپاپا نے کیوں چھپا کر رکھا کیوں نہیں بتایا مجھے کے میری منگنی ہو چکی ہے اور اگر منگنی ہو بھی چکی ہے تو کیا رشتہ یے ریحان کا اور اسکی فیملی کا میرے گھر والوں سے ان سب کا جواب تو مجھے اس بوکس میں ہی ملے گا نا جانے کیا راز ہے کیا حقیقت ہے۔
کتنے سارے سوالات حورعین کے دماغ میں چل رہے تھے اس نے گاڑی کی سپیڈ اور بھی تیز کی کے اچانک اس کی گاڑی آؤٹ اف کنٹرول ہوئی گاری کے سامنے دوسری گاڑی آئی اور بڑی طرح دونوں گاڑیوں کا اکسیدنٹ ہوگیا
حور کی گاڑی تو کھائی میں گیر چکی تھی جبکہ دوسری گاڑی کا برا ہال تھا اس میں دو افراد بری طرح خون سے لدے تھے اور اپنی جان کی بازی ہار بیٹھے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناظرین اپکو ایک خبر سے آگاہ کیا جاتا ہے کے ہائی وے کے موڑ پر بری طرح دو گاڑیوں کا اکسیدینٹ ہوا ہے ایک گاری تو کھائی میں جا گیری جبکہ دوسری گاڑی میں دو افراد بری طرح جہاں بحق ابھی دوسری گاڑی کی بھی جانچ پڑتال جاری ہے اپکو اگاہ کرتے رہے گے تب تک ہمارے ساتھ رہیئے شکریہ۔۔
۔۔۔۔۔۔
توبہ اللہ معاف کرے اتنا عبرتناک واقعہ اللہ کرے جس کی بھی گاڑی ہے اس کی بھی جلدی ہی خبر مل جائے۔۔۔
بلال صاحب جو کے خبرے دیکھ رہے تھے تو ٹی وی کو بند کرتے ہوئے بولے۔۔۔۔۔۔۔
یہ حنا بیگم حور بیٹا کہا ہے ابھی تک واپس نہیں آئی ۔۔۔
بلال صاحب نے حور کا خیال آنے پر کچن میں کام کرتی حنا بیگم سے ہوچھا جو چائے بنا رہی تھی۔۔۔۔
جی بلال صاحب اپنی سہلی ثناء کی طرف گئ ہے آپ فون کرکے پوچھ لے کے کہا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلال صاحب نےموبائل اٹھایا اور ثناء کا نمبر ملایا۔۔۔۔
ہیلو اسلام علیکم انکل کسے ہے۔۔ثناء نے کال اٹھاتے ہی سلام کیا۔۔
وعلیکم سلام بیٹا حور کب تک آئے گی صبح سے آئی ہے تمھاری طرف۔۔۔۔
جی انکل حور نہیں نہیں وہ تومیری طرف نہیں آئی۔۔
ثناء نے حیران ہوتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
ککیا حور تمہاری طرف نہیں آئی تو کہا گئ۔۔..
بلال صاحب نے ہریشان یوتے ہوئے کہا جس کی آواز سن کر حنا بیگم بھی بھاگتی ہوئی ہال میں آئی۔۔۔۔۔..
کیا ہوا بلال صاحب حور وہاں نہیں ہے تو کہا گئ۔۔۔.
۔میری بچی کہا جا سکتی ہے جائے بلال صاحب میری حورعین کو دھوند کر لائے اللہ جانے کس حال میں ہوگی۔۔حنا بیگم روتے ہوئے بولی۔۔۔.
تم فکر مت کرو میں پتا کرتا ہو کہا ہے اسکا فون بھی بند آرہا ہے ۔۔۔۔۔
انکل انتی وو وہ ح ح حور۔۔۔۔
جب بلال صاحب باہر جانے لگے تو ہانیہ کی روتی ہوئی آواز پر پلتے۔۔۔۔
کیا ہوا حور کو۔۔حنا بیگم نے روتے ہوئے کہا۔۔
انتی آپ یہ دیکھیے ہانیہ میں بتانے کی ہمت نہیں تھی اس لئے اس نے ٹی وی آن کیا اور اس پر خبر چل رہی تھی۔۔۔۔
تو ناظرین اپکو بتاتے چلے کےتلاشی لینے پر پتا چلا کے اس میں کوئی لڑکی موجود تھی جس کے آئی ڈی کارڈ کی دیٹل اپکو سکرین پر دیکھائی جا رہی ہے ۔۔گاڑی کے ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے ہے لیکن بادی نہیں ملی اس کی بھی چھان بین جاری ہے ۔۔۔۔۔
ن ن نہیں۔ ٹی وی پر چلتی ہوئی خبر دیکھ کر حنا بیگم گیرنے والے انداز سے صوفے پر بیٹھی۔۔۔..
نہیں یہ نہیں ہو سکتا میری بچی۔ مجھے میری بچی کے پاس لے کر چلو مجھے میری حور چاہئے۔۔۔..
حنا بیگم تھی کے بس روتی جارہی تھی اور ہانیہ انھیں چپ کروا رہی تھی اور اس کے اپنے آنسو بھی بس بہتے جا رہے تھے دوسری طرف ساخت کھڑے بلال صاحب کی بھی یہ ہی حالت تھی وہ بھی زمین پر بیٹھے رو رہے تھے ایک دم ان کے گھر میں ماتم چھا گیا تھا ان کی رونق ان کی حور ان سے دور ہوگئ تھی۔۔کتنا درد ہوتا ہے جب کوئی اپنا خود سے دور چلا جائے ۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...