آج ہم دردؔ کی کہانی سن رہے ہیں۔ درد نے اپنی رباعی میں سچ کہا تھا:
پیری چلی اور جوانی اپنی!
اے درد کہاں ہے زندگانی اپنی
اب اور کوئی بیان کرے گا اس کو
کہتے ہیں اب آپ ہم کہانی اپنی
لیکن اس کہانی کی تکمیل کے لیے اس ماحول کا بھی حال معلوم کرنا ضروری ہے جس میں درد نے اپنی زندگی گزاری۔
درد دلی ہی میں پیدا ہوئے اور یہیں جاں بحق ہوئے۔ اس لیے اس زمانے کی دلی کی زندگی ہی ان کا ماحول تھا۔ درد ٦٨ برس کی عمر میں ١١٩٩ھ میں فوت ہوئے، اس حساب سے ان کی پیدائش کا سنہ ١١٣٢ھ ہوا۔ اس ٦٨ برس کے عرصہ میں دلی نے بڑے بڑے تماشے دیکھے اور طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں۔ درد کا سال پیدائش فرخ سیر بادشاہ کے اپنے وزیر سید عبداللہ و سید حسین علی کے ہاتھوں ختم ہونے کا سال تھا۔ اب ایک طوائف الملوکی کا دور شروع ہوتا ہے جس میں میں وزیر بادشاہ گر بھی ہیں اور بادشاہ کش بھی!
فرخ سیر کے بعد رفیع الدرجات و رفیع الدولہ یکے بعد دیگرے تخت پر بٹھائے جاتے ہیں، مگر دونوں کی زندگی وفا نہیں کرتی۔ پھر جہاں دار شاہ کے بیٹے روشن اختر کو قید سے نکال کر تخت پر بٹھایا جاتا ہے۔ یہ بادشاہ محمد شاہ رنگیلے کے نام سے آج تک مشہور ہے۔ اس نے دونوں بادشاہ گر بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور آپ خود مختار ہو کر بادۂ شبانہ کی سرمستیوں کی دھن میں ؏:
ایں دفتر بے معنی غرقِ مئے ناب اولی
کے راگ الاپنے لگا۔ بادشاہ کی رنگ رلیوں کا دلی والوں پر ایسا اثر پڑا کہ ان کو بھی رات دن عیش و عشرت کے سوا کچھ کام ہی نہ تھا۔ آخر دلی پر قہر الٰہی نازل ہوا، نادر شاہ نے ذرا سی بات پر قتل عام ک حکم دے دیا۔ شہر میں خون کے دریا بہہ گئے اور جب تک ایک بزرگ سفید ریش نے نادر کو یہ یاد نہ دلایا کہ :
کسے نہ ماند کہ دیگر بہ تیغ ناز کشی!
مگر کہ زندہ کنی خلق را و باز کشی
تلوار میان میں نہ گئی، آخر خدا خدا کر کے یہ بلائے ناگہانی ہزاروں جانیں اور ٥٢ کروڑ زر و نقد کی بھینٹ لے کر دلی سے ٹلی اور شہر والوں نے ؏
رسیدہ بود بلائے ولے بہ خیر گزشت
کہہ کر اللہ کا شکر ادا کیا۔
محمد شاہ نے شراب سے توبہ کی، مگر پیغام اجل آ پہنچا تھا۔ خیر عاقبت درست ہو گئی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا احمد شاہ اس کا جانشین ہوا۔ ادھر نادر شاہ کی جگہ اس کے ایک سردار احمد شاہ ابدالی نے سنبھالی اور ہندوستان پر حملے شروع کر دیے۔ یہاں یہ عالم تھا کہ وزیر کی بادشاہ سے نہ بنتی تھی۔ عماد الملک غازی الدین خاں نے جن کا مزار( ) اسی عمارت میں ہے جہاں ہم آج جمع ہیں، احمد شاہ کو قید کر کے عزیز الدین عالمگیر ثانی کو بادشاہ بنایا، ١١٧٣ھ میں اسے بھی تخت سے اتارا اور کام بخش کے بیٹے کو شاہجہاں ثانی کے لقب سے تخت پر بٹھایا۔ اس بادشاہ کو احمد شاہ ابدالی نے دلی پر قبضہ کر کے بے تاج کیا اور اس کے بیٹے شاہ عالم ثانی کو بادشاہ بنایا اور ایک روہیلے سردار نجیب خاں کو نواب نجیب الدولہ کا خطاب دے کر اس کا وزیر کیا۔ شاہ عالم کا زمانہ پورا نہ ہونے پایا تھا کہ درد کا انتقال ہو گیا۔
غرضکہ درد کا شباب محمد شاہ رنگیلے کی بادشاہت میں گذرا اور عالم پیری شاہ عالم ثانی کے عہد میں اور انھیں دو بادشاہوں نے کچھ بادشاہت کی اور انھی کے عہد میں خاص کر محمد شاہ کے زمانہ میں دلی عیش و نشاط کا گہوارہ بھی بنی اور تباہ و برباد بھی ہوئی۔ لیکن جو کچھ بھی ہوا سو ہوا، مگر اس وقت کی دلی اِس وقت کی دلی سے کہیں افضل و اعلی تھی۔ وہ دلی شاہجہاں آباد تھی۔ شاہجہاں کا تخت طاؤس محمد شاہ کے زمانے تک قلعہ کی زیب و زینت میں اضافہ کر رہا تھا۔ نادر گردی سے پہلے دلی میں کئی پشتوں کا خزانہ موجود تھا۔ نادر کو جو ٥٢ کروڑ کی رقم نذرانے میں دی گئی تھی، اس میں بادشاہ کے علاوہ امرا نے بھی چار چار کروڑ کی رقم ادا کی تھی۔ معمولی سے معمولی بادشاہی افسر نے بھی دو لاکھ سے کم رقم نہ دی تھی اور اس چندے میں ہندوستان کے راجا، مہاراجا شریک نہ تھے۔ یہ رقم صرف دلی کے امرا سے جمع کی گئی تھی، جو ان کے ہاتھ کا میل تھا۔ ان حالات سے شہر دلی کی دولت مندی کا کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔ اس زمانے میں یہ مثل مشہور تھی کہ ایک مجمع میں اگر تھالی اچھالی جائے تو کسی امیر یا وزیر کے سر پر پڑے گی۔ شہر کا چپہ چپہ ان امرا کے محلات اور حویلیوں سے بھرا پڑا تھا جن میں سے بعض محلات اور حویلیوں کے کھنڈر اب بھی باقی ہیں۔
امیر الامرا اور خان دوران خاں وزیر اعظم کا خطاب ہوتا تھا۔ بلیماروں میں اب بھی ایک محلہ حویلی خان دوران خاں کے نام سے مشہور ہے۔ یہ خان دوران خاں نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے کرنال کی جنگ میں مارے گئے۔ اس زمانے کے مشہور امرا و وزرا میں سے جنھوں نے سلطنت کی بقا کے لیے بڑے بڑے کارنامے کیے یا جنھوں نے ملک کو زیر و زبر کیا، محمد شاہ کے عہد میں برہان الملک سعادت خاں نواب وزیر اودھ تھے، جن کے جانشیں منصور علی خاں صفدر جنگ ہوئے۔ برہان الملک کے مد مقابل نواب نظام الملک آصف جاہ اول تھے جن کا نام میر قمر الدین تھا۔ نواب حیدر قلی خاں میر آتش اس لیے مشہور ہوئے کہ انھوں نے حسین علی خاں قطب الملک بادشاہ گر کو قتل کیا تھا۔ ان کی حویلی کا بھی ایک محلہ بن گیا ہے جس کا دروازہ چاندنی چوک میں کھلتا ہے اور ابھی تک شکستہ حالت میں موجود ہے۔ نواب وزیر اودھ کی حویلی کا ایک دروازہ نہر سعادت خاں پر کھلتا ہے ایک حبش خاں کے پھاٹک میں، اس حویلی میں بھی ایک محلہ آباد ہے۔
محمد شاہ کے عہد میں ارباب نشاط کا بہت زور تھا۔ رحیم سین اور تان سین مشہور گویے تھے۔ حسن خاں، بابی، گھاسی رام پکھاوچی، باقر طنبورچی، شاہ درویش مسبوچہ نواز، متقی بھگت باز، شاہ دانیال عرف سرخی نقال اور معین الدین قوال بہت مقبول تھے۔ طوائفوں میں سرس روپ، خوشحالی، رام جئی، کالی کنکا، کمال بائی، اوما بائی بہت مشہور تھیں۔ نور بائی ڈومنی ہاتھی پرسوار ہوتی تھی، بڑی حاضر جواب مشہور تھی۔ چنانچہ جب نادر شاہ کے حضور میں پیش ہوئی اور نادر شاہ نے اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہا تو اس نے فی البدیہہ یہ رباعی سنائی:
من شمع جاں گدازم تو صبح دل کشائی
گریم گرت نہ بینم میرم چو رخ نمائی
تردیکت، ایں چنیں ام دوراں چناں کہ گفتم
نے تاب وصل دارم نے طاقت جدائی
اُو بیگم ایک طوائف تھی جس کے متعلق ایک روایت ہے کہ وہ برہنہ رہتی تھی مگر اپنے جسم پر ایسا رنگ کرتی تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ لباس پہنے ہوئے ہے اور وہ پینٹ اس کے ستر کا کام دیتا تھا۔
یہ سب حالات محمد شاہ کی رنگ رلیوں کے وقت کے ہیں، مگر دلی کے قتل عام اور تباہی کے بعد سب نشے ہرن ہو گئے۔ مثل مشہور ہے کہ ؏
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا!
چنانچہ خلقت دنیا کی بے ثباتی سے گھبرا کر اپنے خالق کی طرف رجوع ہوئی اور ارباب صدق و صفا، سالکین طریقت اور عارفین حقیقت کی تلاش شروع ہوئی۔ جویندہ یا بندہ!
چنانچہ اس زمانے میں دلی میں بڑے بڑے عارفین کامل قیام پذیر تھے، جن کے روحانی فیض سے دنیا متمتع ہوتی تھی۔ حضرت شاہ فرہاد نے جو خلیفہ حضرت دوست محمد قدس سرہ کے تھے، ١١٤٥ھ میں انتقال فرمایا، بادشاہ وقت اکثر آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اپنے حق میں دعائے خیر کے طالب ہوتے۔ آپ کے ممتاز خلیفہ حضرت مولانا برہان الدین خدا نما تھے جن کا مزار قرول باغ کے قریب پہاڑی پر ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی اسی عہد میں تھے۔ ان کا انتقال ١١٨٥ھ میں ہوا۔
ایک صاحب محمد شاہ کے زمانے میں مجنون نانک شاہی کہلاتے تھے۔ نہایت نازک مزاج اور مخیر تھے۔ لب دریا ان کا مکان تھا۔ سیر کے لیے مکان کے نیچے کشتیاں بندھی رہتی تھیں۔ دن رات غریب لوگوں کو مٹھائی، میوے تقسیم کرتے رہتے تھے۔ نہایت نحیف الجثہ اور نازک تھے۔ نفیس فقیرانہ لباس پہنتے تھے۔ جب چلتے تھے تو لوگ مورچھل جھلتے رہتے تھے۔ غرضکہ یہ فقیر صاحب ایک امیرانہ طرز کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اکثر ہنود بھی ان کے معتقد تھے اور ان کو نانک وقت سمجھتے تھے۔ عاشورہ کے روز ان کے ہاں بہت ازدحام ہوتا تھا اور لنگر لگتا تھا۔ جو مقام اب مجنوں کا ٹیلہ کہلاتا ہے، شاید آپ ہی کے مکان کا کھنڈر ہے۔
بزرگان دین کے بعد شعرا کی اس زمانے میں قدر ہوتی تھی اور اکثر بزرگ و ولی اللہ بھی زمرۂ شعرا میں شامل ہو جاتے تھے۔ حضرت مرزا مظہر جان جاناں اور حضرت خواجہ میر درد بڑے پائے کے لوگ تھے۔ شاہ ولی اللہ بھی اشتیاقؔ تخلص کرتے تھے، جن کی نسبت میر تقی فرماتے ہیں:
“مردے( ) بود ذی علم از اولاد شیخ الف ثانی ست، مولد اوسر ہند ست، در کوٹلۂ فیروز شاہ سکونت داشت۔ درویش متوکل گاہے فکر یختہ می کرد ۔”
یہ بزرگ بڑی آن کے لوگ ہوتے تھے۔ بادشاہ تک کی پروا نہ کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت خواجہ میر درد کی نسبت آزاد لکھتے ہیں:
“شاہ عالم( ) بادشاہ نے خود خواجہ صاحب کے ہاں آنا چاہا، مگر انھوں نے قبول نہ کیا اور جب ان کے ہاں ایک اہل تصوف کے جلسہ میں بادشاہ بے اطلاع آ گئے اور بیٹھنے میں ذرا درد کی وجہ سے پاؤں پھیلا دیے تو خواجہ صاحب نے اعتراض کیا کہ یہ امر فقیر کے آداب محفل کے خلاف ہے اور جب بادشاہ نے پاؤں میں درد کا عذر کیا تو جواب ملا کہ عارضہ تھا تو تکلیف کرنے کی کیا ضرورت تھی؟”
یہ تو خیر صوفیائے کرام کا ذکر ہے، مگر اس وقت کے شعرا بھی اپنی خود داری اور استغنا میں بادشاہ یا حاکم وقت کی پروا نہ کرتے تھے۔ چنانچہ سودا کا قصہ مشہور ہے کہ نواب شجاع الدولہ نوابِ اودھ نے برادر من مشفق و مہربان من لکھ کر دلی سے بلایا اور سفر خرچ بھیجا، تو یہ جواب میں لکھ بھیجا:
سودا پئے دنیا توبہ ہر سو کب تک
آوارہ ازیں کوچہ بہ آں کو کب تک
حاصل یہی اس سے نا کہ دنیا ہووے
بالفرض ہوا یوں بھی تو پھر کب تک
میر تقی میر کی نواب آصف الدولہ نے پرورش کے طور پر دو سو ماہوار تنخواہ کر دی۔ میر صاحب دوسرے، تیسرے دن جاتے تو نواب غزل کی فرمائش کرتے۔ آخر ایک دن جواب دے ہی دیا کہ جناب عالی مضمون غلام کی جیب میں تو بھرے ہی نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی آج حاضر کر دوں اور پھر جو غزل لے کر گئے تو نواب سنتے جاتے تھے اور حوض کے کنارے بیٹھے چھڑی سے لال سبز مچھلیوں کو چھیڑتے جاتے تھے۔ میر صاحب ایک شعر پڑھتے اور ٹھہر جاتے کہ ادھر توجہ ہو تو آگے چلوں، نواب صاحب کہے جاتے کہ ہاں آگے پڑھیے۔ چار شعر پڑھ کر میر صاحب ٹھہر گئے اور بولے پڑھوں کیا؟ آپ تو مچھلیوں سے کھیل رہے ہیں۔ نواب نے کہا: جو شعر ہو گا، آپ متوجہ کر لے گا۔ میر صاحب غزل جیب میں ڈال کر گھر چلے گئے، پھر نہ آئے۔ ایک دن بازار میں نواب کی سواری سے مٹھ بھیڑ ہو گئی۔ نواب نے کہا: آپ نے ہمیں بالکل چھوڑ دیا، کبھی تشریف نہیں لاتے۔ میر صاحب نے جواب دیا، بازار میں گفتگو کرنا آداب شرفا نہیں۔ بدستور گھر میں بیٹھے رہے اور نواب صاحب کے ہاں نہ گئے۔( ) نواب سعادت علی خاں کے زمانے میں جب ان کی بحالی ہوئی اور نواب نے ہزار روپے اور خلعت چوب دار کے ہاتھ بھجوایا تو کہلا بھیجا کہ مسجد( ) میں بھجوائیے یہ گنہگار اتنا محتاج نہیں۔ ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ ایک معمولی دس روپے کے چوب دار کے ہاتھ خلعت کیوں بھیجا؟ میری حیثیت کے موافق کسی بڑے عہدے دار کو بھیجنا چاہیے تھا۔ اب اس کو بد دماغی کہیے یا احساس خود داری، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں شرافت کا معیار دولت کو نہیں سمجھا جاتا تھا اور شرافت ہمیشہ اپنی ٹانگ دولت کے اوپر ہی رکھنا چاہتی تھی۔ نواب اور رئیس خود شریف ہوتے تھے، شریفوں کی قدر کرتے تھے اور ان کی ناز برداری کرنا اپنی شرافت کی شان سمجھتے تھے۔ شاعری بھی اس زمانے کا ایک شریفانہ شغل تھا۔ کر قسم کے صاحب فن اور اہل کمال اس میں پائے جاتے تھے۔ تذکرۂ شعرا کو پڑھیے تو معلوم ہو گا کہ کوئی سپاہی( ) عمدہ روزگار ہے، کوئی “در شمشیر( ) شناسی دستے تمام دارد ودر علم تاریخ مہارتے خوب پیدا کردہ”۔ کسی امیر زادے کی تعریف لکھی ہے کہ “نکتہ پرداز( )، بذلہ سنج، یار باش، خوش اختلاط، خنداں و شگفتہ، حریف( ) ظریف، ہشاش بشاش، ہنگامہ گرم کن مجلس ہا”۔ رائ پریم( ) ناتھ خطاط بے نظیر بہ وسیلہ( ) قصہ خوانی بسری برد”۔ میر شیر علی افسوس داروغہ تونچانہ عالیجاہ تھے۔ مہربان( ) خاں رند نواب غالب جنگ بہادر والیٔ فرخ آباد کے وزیر اہل سخن اور ہر فن کے اہل کمال سے ربط رکھتے تھے۔ موسیقی، ہندی شاعری میں مشاق تھے۔ مرتبۂ امارت اتنا بلند تھا کہ خود امرا ان کی صحبت میں رہتے۔ بہت سے راگ ان کی ایجاد تھے۔ فن تیر اندازی میں میر سوزؔ کے شاگرد تھے۔ شمشیر شناسی، ادب شناسی اور مردم شناسی میں امیر موصوف کے صحبت یافتہ( ) تھے۔
“شوق مدتے در سرکار نواب عماد الملک غازی الدین خاں بہ وسیلۂ سپہ گری بسر بردہ، در فنونِ سخن ماہر از وزرائے ہندوستان بود۔ نول رائے( ) بہ زیور علم و عمل آراستہ برادرِ خوردش راجا غلام رائے دیوان مدار المہام امیر الدولہ نواب نجیب خاں مرحوم بود ایں عزیز مصروف اکتساب و غریق مطالعہ کتاب، طلب ہر کمال دامن گیر حال۔”
ان شعرا کی اس تعریف سے اس زمانے کے لوگوں کی عموماً اور دلی والوں کی خصوصاً وہ مخصوص خوبیاں ظاہر ہوتی ہیں جن کے فقدان سے کوئی شخص شریف کہلانے کا حق نہ رکھتا تھا۔ بادشاہ و نواب، امیر و وزیر، درویش و فقیر، شمشیر زن، شمشیر شناس، اہل سخن و اہل کمال سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ایک برادری کے رکن سمجھے جاتے تھے۔ بڑے چھوٹے کا مطلقاً امتیاز نہ رہتا تھا اور ایک دوسرے کو صحیح معنوں میں بھائی بھائی سمجھتے تھے۔ یہ تھے وہ لوگ جن سے درد کی دلی بسی ہوئی تھی۔ یہ تھی وہ دلی جس کے لال قلعے میں ابھی تک اپنا راج تھا۔ جس میں پھلوں سے بھرے ہوئے باغ اور پھولوں سے لدے ہوئے چمن تھے، جس میں نہریں بہتی تھیں اور فوارے چلتے تھے۔ اگر فردوس بروئے زمیں ست الخ۔ وہ دلی جس کا کشادہ دل کشا چاندنی چوک بہ قول بر نیر رشک لندن و پیرس تھا۔ وہ چاندنی چوک جس میں ہر دیار و امصار کے تاجر انواع و اقسام کا مال فروخت کرتے تھے۔ جوہریوں کی دکانیں دیکھو تو ان میں کہیں لعل بدخشاں و یاقوت درخشاں ہے تو کہیں دُرّ عمان و لولوئے لالہ ہے۔ بزاز ہٹے کو دیکھو تو اطلس و کمخواب، و دیبائے روم و مخمل کاشانی و دیگر پارچہ جات بیش قیمت سے پر ہے۔ کہیں اشیائے اغذیہ و اشربہ و میوہ خشک و تر بک رہے ہیں، تو کہیں فیلان نام دار و اسپان باد رفتار و شتران بار بردار کا سودا ہو رہا ہے۔ ہر ملک و ہر قوم کے لوگ پھرتے نظر آتے ہیں۔ رومی و شامی، زنگی و فرنگی، انگریز و ولندیز، ہندی و سندھی، کابلی و نرابلستانی، اہل چین و اہل ختن، اہل کاشغر و اہل قلماقستان سب خرید و فروخت کے سلسلے میں منسلک ہیں۔ اور ایک چاندنی چوک ہی پر کیا منحصر ہے، بیگم کا بازار، اردو بازار و خاص بازار سب میں ایسی ہی رونق ہے۔ خریداروں سے پٹے پڑے ہیں۔ کوئی ہوادار پر سوار ہے، تو کوئی تام جھام میں چلا آتا ہے۔ کوئی پالکی میں ہے، تو کوئی میانے میں۔ کوئی عراقی پر سوار ہے، تو کوئی ہاتھی پر۔ کوئی بہلی میں نکل رہا ہے، تو کوئی رتھ میں۔ غرضکہ ہر بازار میں چہل پہل ہے، رونق ہے، زندگی ہے۔ ایک ایرانی شاعر نے اس تصویر کو یوں پیش کیا ہے:
عراقی و خراسانی زحد بیش
نہادہ پیش خود سرمایۂ خویش
فرنگی از فرنگستاں رسیدہ
نوادر از بنا در پیش چیدہ
نشتہ ہر طرف لعل درخشاں
بود در ہر دکاں لال بدخشاں
بر آمد از برائے امتحانے
متاع ہفت کشور از دکانے
یہ تھی وہ دلی جس میں درد نے اپنى زندگی کے ٦٨ سال گزارے اور یہ تھی وہ سوسائٹی جس کے وہ ایک رکن تھے۔ درد کی دلی، کناٹ پیلس، وکٹری گیٹ کی دلی نہ تھی کہ جس کے پہلو میں ہر بادشاہ کا پیر لاشہ پڑا دیکھ رہا ہے کہ ملکش با دگراں ست۔
درد کی دلی اپنی دلی تھی، اپنا شہر تھا، اپنا بادشاہ، اپنے وزیر و امیر، اپنا تمدن، اپنی تہذیب، اپنے لوگ، اپنا وطن، ہر طرف اپنے ہی اپنے نظر آتے تھے۔ دوست بھی اپنے اور دشمن بھی اپنے تھے۔ آج یہ بادشاہ کل وہ بادشاہ، آج میں وزیر کل تو وزیر، غیر کا ابھی تک دلی میں عمل دخل نہیں ہوا تھا۔ دلی میں “ملک خدا کا، حکم بادشاہ کا” ڈھنڈورہ پٹتا تھا۔ دلی خود مختار و آزاد تھی۔ ہر دلی والا اس گئے گزرے وقت میں بھی اپنے کو دوسروں سے بالا تر سمجھتا تھا۔ اغیار کو تحقیراً فرنگی کے نام سے پکارتا تھا اور اس کے لباس کو کافر کرتی کہتا تھا۔ یہ جذبۂ فضیلت اپنی حکومت کا نتیجہ تھا نہ کہ پند و نصیحت کا، ہائے کیسے لوگ تھے اور کیا تہذیب تھی۔ ایک طرف خودداری و استغنا کی بے نیازی ہے تو دوسری طرف فِروتنی و دریا دلی کی جادوگری، جس شاہ جم جاہ کے دربار میں “بادشاہ سلامت نگاہ رو برو” کے نعروں کی گونج سے کوئی آنکھ نہیں اٹھا سکتا، جو صاحب تخت و تاج ظل اللہ کے لقب سے خطاب کیا جاتا ہے، وہی بادشاہ انسانی برادری کا ایک فرد ہو کر اپنی رعایا کے جلسوں میں شریک ہوتا ہے۔ بازار میں ملتا ہے تو اپنی رعایا سے شفقت و محبت سے بات چیت کرتا ہے اور وقت پڑے پر اپنی نوازش ہائے شاہانہ سے ان کو مالا مال کرتا ہے۔ امیر غریبوں کا دل لطف و عنایت سے موہتے ہیں تو غریب امیروں پر اپنی جاں نثار کرتے ہیں۔ اس زمانے میں شرفا کی خصوصیات یہ تھیں: خوبئ اخلاق، محبت اور محبت کا نباہ، خود داری، استغنا، وضع داری، زندہ دلی، سپہ گری، علم و فن کا ذوق، خدمت خلق، عجز و انکسار اور خوف خدا؛ لوگ گناہ کرتے تھے مگر خدا سے بھی ڈرتے تھے اور گناہ کو ثواب نہیں سمجھتے تھے۔
غرض کہ وہ سوسائٹی آج کل کی سوسائٹی کی طرح بے دین نہ تھی، اس کی بنا دینی اخلاق پر تھی۔ جا بجا دینی تعلیم کے لیے درس گاہیں موجود تھیں۔ بڑے بڑے بزرگ اور صاحب علم امیر و وزیر مفت درس دیتے تھے۔ ادبی مجالس میں اہل کمال اپنے جوہر دکھلاتے تھے۔ مذہبی جلسوں اور سیر و تماشا کے موقع پر اہل فن کا مجمع ہوتا تھا۔ عام طور پر لوگ بشاش، خنداں و شگفتہ رہتے تھے۔ فکر معاش سے ایک حد تک آزاد تھے کہ کوڑیوں میں گزارہ ہوتا تھا۔ مزید برآں امرا کی سخاوت اور دریا دلی، غرضکہ باوجود ان مصائب دہر کے، جن کے اٹھانے کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے وہ اپنی زندگی موجودہ زمانے والوں کی طرح رو کر نہیں گزارتے تھے بلکہ ہنس کر گزارتے تھے اور تنگیٔ روزی کو قناعت اور توکل کی ڈھال سے روکتے تھے۔
بہرحال اب نہ وہ لوگ ہیں، نہ وہ تہذیب ہے، نہ وہ دلی ہے۔ وہ لوگ مرکھپ گئے، وہ تہذیب مٹ گئی اور وہ شاہ جہاں کی دلی نیست و نابود ہو گئی۔ اب تو فقط کتابوں میں مرحوم کے مرثیے رہ گئے ہیں جن کو پڑھنا، زخم دل کو تازہ کرنا ہے۔ حالی نے کیا خوب کہا ہے:
داستاں گل کی خزاں میں نہ سنا اے بلبل
ہنستے ہنستے ہمیں ظالم نہ رلانا ہرگز
صحبتیں اگلی مصور ہمیں یاد آئیں گی
کوئی دل چسپ مرقع نہ دکھانا ہرگز
لے کے داغ آئے گا سینے پہ بہت اے سیاح
دیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگز
چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہِ خاک
دفن ہو گا کہیں اتنا نہ خزانا ہرگز
مٹ گئے تیرے مٹانے سے نشاں بھی اب تو
اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز
کبھی اے علم و ہنر گھر تھا تمھارا دلی
ہم کو بھولے ہو تو گھر بھول نہ جانا ہرگز
بزم ماتم تو نہیں، بزم سخن ہے حالیؔ
یاں مناسب نہیں رو رو کے رلانا ہرگز
تمام شد