ساخت کے لحاظ سے اعصابی نظام کے دو حصے ہیں۔ مرکزی اعصابی نظام جس میں دماغ اور ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اور وہ اعصاب جو اس مرکز سے باہر کو جاتے ہیں اور جسم کے تمام حصوں تک پہنچتے ہیں۔ یہ peripheral نروس سسٹم ہے۔ اضافی طور پر اس کی تقسیم اس کے فنکشن کے حساب سے ہے۔ اس میں somatic نروس سسٹم ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جو ارادی حرکات کو کنٹرول کرتا ہے (مثلاً، سر کھجانا)۔ دوسرا autonomic نروس سسٹم ہے۔ یہ ایسی چیزیں کنٹرول کرتا ہے جیسے دل کی دھڑکن۔ آپ ان کے بارے میں سوچتے نہیں کیونکہ یہ آٹومیٹک ہیں۔ آتونومک نورس سسٹم میں مزید تقسیم sympathetic اور parasynpathetic سسٹم کی ہے۔ سمپتھاٹک وہ حصہ ہے جو فوری طور پر درکار ایکشن کا ردِ عمل دیتا ہے۔ مثلاً، اچانک خطرہ دیکھ کر ہونے والا۔ جبکہ پیراسمپتھاٹک وہ ہے جو ان معاملات پر جو کہ بہت ارجنٹ نہ ہوں۔ جیسا کہ ہاضمہ اور فضلہ تلف کرنا۔ تھوک اور آنسو کی پیداوار وغیرہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعصاب میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ peripheral نروس سسٹم کے اعصاب خود کو مرمت کر لیتے ہیں اور دوبارہ آ جاتے ہیں جبکہ جو ضروری ہیں، یعنی دماغ اور ریڑھ کی ہڈی والے، وہ ایسا نہیں کرتے۔ اگر آپ کی انگلی میں گہرا زخم لگ جائے تو اعصاب واپس آ سکتے ہیں لیکن اگر ریڑھ کی ہڈی میں ایسا ہو جاے تو پھر آپ مشکل میں ہیں۔ اور بدقسمتی سے ایسی چوٹ لگ جانا عام ہے۔ امریکہ میں اس وقت دس لاکھ سے زیادہ لوگ ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ کی وجہ سے مفلوج ہیں۔ ان کی بڑی وجہ گاڑی کے حادثات ہیں یا پھر گولی لگ جانا۔ اس وجہ سے جیسا کہ آپ توقع رکھیں گے کہ مردوں میں ایسا ہونے کی شرح خواتین سے چار گنا زیادہ ہے اور سب سے زیادہ یہ سولہ سے تیس سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد کی کئی لحاظ سے اقسام بنائی جاتی ہیں۔ ایک nociceptive درد ہے۔ یہ اس وقت ہے جب آپ کا کندھا اتر جائے یا پاوں پر کوئی شے ٹکرا جائے۔ کسی محرک کی وجہ سے ہونے کے باعث اسے “اچھی” درد کہا جاتا ہے کیونکہ یہ آپ کو موقع دیتی ہے کہ متاثرہ جگہ کی دیکھ بھال کر کے بحال کرنے کی کوشش کریں۔ دوسری قسم inflammatory درد کی ہے۔ یہ اس وقت ہوتی ہے جب کوئی ٹشو سوج جائے اور سرخ ہو جائے۔ تیسری قسم dysfunctional درد کی ہے۔ یہ بظاہر کسی وجہ کے بغیر ہونے والی درد ہے۔ چوتھی neuropathic درد ہے۔ یہ اعصاب زیادہ حساس ہو جانے یا خراب ہونے کے سبب ہوتی ہے۔
پیٹرک وال درد کے موضوع پر مشہور کتاب کے مصنف ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک خاص سطح یا دورانیے سے زیادہ ہونے والی درد بالکل بے کار ہے۔ ہم اپنے زندگی کے دن اور مہینے درد میں گزار دیتے ہیں اور اس کا بڑا حصہ کوئی بے فائدہ نہیں دیتا۔
سب سے زیادہ بے معنی درد کینسر کا ہے۔ زیادہ تر کینسر اپنے ابتدائی سٹیج میں درد کا باعث نہیں بنتے۔ حالانکہ یہی وہ وقت ہے جب کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی درد اس وقت ہونے لگتی ہے جب کچھ کیا نہیں جا سکتا۔
وال کا یہ مشاہدہ ان کا ذاتی تھا اور دل سے لکھا گیا تھا۔ وہ پروسٹیٹ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور کتاب لکھنے سے دو سال بعد اسی سے ان کا انتقال ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئرین ٹریسی بیس سال سے درد کو سٹڈی کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “پیٹرک وال کے وقتوں میں لوگ درد کے مقصد پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ اکیوٹ درد کا تو واضح مقصد ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ کچھ خراب ہے اور توجہ مانگ رہا ہے۔ لیکن دائمی درد میں ایسا نہیں۔ اس کا مقصد نہیں ہے۔ یہ سسٹم کی خرابی ہے۔ ویسے ہی جیسے کینسر کا کچھ مقصد نہیں، یہ سسٹم کی خرابی ہے۔ اب ہم جانتے ہیں کہ کی اقسام کی دائمی درد خود میں ہی بیماری ہیں اور یہ اکیوٹ درد سے الگ چیز ہے”۔
درد کے بارے میں ایک تضاد ہے جو اس کی علاج دشوار بنا دیتا ہے۔ “جب جسم کا کوئی حصہ خراب ہو جائے تو عام طور پر یہ آف ہو جاتا ہے۔ لیکن جب اعصاب میں خرابی آئے تو یہ الٹ کام کرتے ہیں۔ یہ آن ہو جاتے ہیں۔ کئی بار جب یہ آف نہ ہوں تو پھر اس کا نتیجہ دائمی درد ہے۔ اور اس کے سب سے بدترین کیس وہ ہیں جب اس کی شدت کا ویلیوم بہت بلند ہو گیا ہو اور اسے دور کرنا میڈیکل سائنس کے لئے چیلنج رہا ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام طور پر ہمیں اندرونی اعضا میں درد نہیں ہوتی۔ ان سے اٹھنے والی کوئی بھی درد جسم کے کسی اور حصے میں ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اسے referred pain کہا جاتا ہے۔ مثلا، coronory heart disease کی درد گردن یا بازو یا کبھی کبھار جبڑے میں ہوتی ہے۔
دماغ میں بھی کوئی درد کا احساس نہیں۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سردرد کہاں سے آتی ہے؟ اس کا جواب کہ یہ کھوپڑی، چہرا اور سر کے بیرونی حصوں سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر کی درد کوئی ایک چیز نہیں۔ ان کو چودہ الگ کیٹگری میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ان میں سے ایک معمہ مائیگرین (آدھے سر کا درد) ہے۔ یہ پندرہ فیصد آبادی کو ہوتی ہے۔ خواتین میں مردوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ پائی جاتی ہے۔ ہر ایک کو مختلف طریقے سے ہوتی ہیں۔ اس کی سو کے قریب اقسام ہیں۔ کئی لوگوں کو یہ کئی دنوں تک بے حال کر دیتی ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...