درد کام کیسے کرتی ہے؟ یہ سوال ابھی حل شدہ سوال نہیں۔ دماغ میں درد کا کوئی مرکز نہیں۔ کوئی ایک ایسی جگہ نہیں جہاں درد کے سگنل اکٹھے ہوتے ہیں۔ ایک سوچ کو ہیپوکیمپس سے گزرنا ہے تا کہ وہ یادداشت بن سکے لیکن درد کہیں بھی سر اٹھا لیتی ہے۔ اپنے پیر کا انگوٹھا کہیں ٹکرا دیں تو ہونے والا احساس دماغ کے کسی حصوں میں ہو گا۔ جبکہ انگوٹھے پر ہتھوڑا مار دیں تو یہ حصے مختلف ہوں گے۔ اسی کو دوبارہ دہرائیں تو ہو سکتا ہے کہ یہ پیٹرن پھر بدل جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور عجیب چیز یہ ہے کہ دماغ میں خود درد کیلئے ریسپٹر نہیں۔ خود اس میں کچھ بھی ہو جائے، درد نہیں ہو گا۔ لیکن یہ وہ جگہ ہے جہاں درد کا “احساس” جنم لیتا ہے۔ درد صرف اسی وقت شروع ہوتی ہے جب اعصاب سے سگنل یہاں پہنچتے ہیں۔ پیر کے انگوٹھے سے یہ عمل شروع ہو سکتا ہے لیکن اُف اس وقت کریں گے جب یہ سگنل دماغ کو روشن کر دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد پرائیویٹ ہے اور بالکل ذاتی چیز ہے۔ اس کی کوئی بھی بامعنی تعریف کرنا ممکن نہیں۔ درد کی تحقیق کی عالمی ایسوسی ایشن کے مطابق، “یہ وہ ناگوار احساس اور جذباتی تجربہ ہے جس کا تعلق اصل یا ممکنہ ٹشو کے ضرر سے کسی طرح ہو سکتا ہے”۔ تعلق کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز جہاں چوٹ ہو، یا چوٹ ہو سکتی ہو، یا ایسا لگے کہ چوٹ لگ سکتی ہے، یا ایسا احساس ہو جیسے چوٹ لگ گئی ہے۔ اصل میں بھی اور استعاراً بھی۔ اور یہ تعریف ہر شے کا احاطہ کر لیتی ہے۔ گولی کے زخم سے لے کر محبوب کی بے وفائی تک۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درد کا تجربہ جلد کے بالکل نیچے خاص اعصابی کناروں سے شروع ہوتا ہے۔ یہ نوسیسپٹر ہیں۔ یہ تین قسم کی چیزوں پر ردِعمل دیتے ہیں۔ تھرمل، کیمیکل اور میکینیکل۔ (یا کم از کم یہی سمجھا جاتا ہے)۔ حیرت انگیز طور پر سائنسدان ابھی تک مکینیکل نوسیسپٹر تلاش نہیں کر سکے۔ اگر آپ کے انگوٹھے پر ہتھوڑا لگتا ہے یا کانٹا چبھتا ہے تو یہ میکینیکل سٹیمولس ہے لیکن ہم ابھی یہ تلاش نہیں کر پائے کہ جلد کے نیچے اس صورت میں ہوتا کیا ہے۔ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر قسم کی درد کے سگنل ریڑھ کی ہڈی اور دماغ تک دو قسم کے ریشوں کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں۔ تیزرفتار A-delta فائبر اور سست رفتار C فائبر۔ اگر آپ کو ہتھوڑا لگا ہے تو فوری طور پر ہونے والا احساس جس پر آپ چلا اٹھیں گے، A-delta فائبر کی وجہ سے ہے، جبکہ اس کے بعد ہونے والی دھڑکتی درد کی وجہ سی فائبر ہے۔ جبکہ چھونے کے نارمل سگنل، جیسا کہ پیر کے نیچے گھاس کا احساس یا ہاتھ پر دروازے کا ہینڈل پکڑنے کا یا گال کے نیچے تکیے کا لمس۔۔۔ یہ ایک الگ قسم کے ریسپٹرز کے ذریعے ہوتا ہے جو A- beta فائبر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اعصاب کے سگنل کی رفتار 120 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار ہے یعنی 430 کلومیٹر فی گھنٹہ۔ انسان کے چھوٹے سے سائز کیلئے یہ ترسیل فوری ہے۔ لیکن پھر بھی، زیادہ تیز ردِعمل دینے کیلئے ہمارے پاس reflexes ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اعصابی نظام دماغ تک بھیجے بغیر خود فیصلہ لے لیتا ہے تاکہ اہم فیصلہ لینے میں وقت ضائع نہ ہو۔ گرم چیز کو ہاتھ لگ جانے پر ہاتھ پیچھے کر لینے والا فوری ردِ عمل اس کی مثال ہے۔ ریڑھ کی ہڈی صرف جسم اور دماغ کے درمیان پیغام رسانی کی تاروں کیلئے ہی نہیں۔ یہ حسیاتی نظام کا فیصلہ لینے والا حصہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی نوسیسپیٹر polymodal ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مختلف قسم کے محرکات پر فعال ہو سکتے ہیں۔ ایک مثال یہ کہ مرچوں والا کھانا منہ میں کیمیائی نوسیسپٹر فعال کرتا ہے۔ یہی والے ریسپٹر گرم چیز پر تھرمل طریقے سے بھی فعال ہو جاتے ہیں۔ زبان فرق نہیں بتا پاتی۔ دماغ بھی کچھ کنفیوز ہو جاتا ہے۔ اسے یہ تو پتا لگ جاتا ہے کہ زبان پر آگ نہیں لگی ہوئی لیکن احساس کچھ ملتا جلتا ہی ہوتا ہے۔ اور اس سے عجیب بات یہ کہ کسی طریقے سے نوسیسپٹر لطف کا احساس بھی دے دیتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...