جیسے ہی پلین نے لینڈ کیا میں نے بے ساختہ گھڑی پر نظر ڈالی۔ صرف دیڑھ گھنٹے کا سفر۔ دیڑھ گھنٹے کا یہ فاصلہ میں نے پورے تیس سال میں طے کیا تھا۔ ضروری اُمور کی تکمیل کے بعد سب نے منتظر چہرے تلاش کرلئے اور تیزی سے روانہ ہوگئے تھے۔ میں وقت کی جس منزل پر رُکا اس چہرے کو تلاش کررہا تھا وقت اُس سے کہیں آگے بڑھ گیا تھا۔ کچھڑی داڑھی والے شخص کے ساتھ ایک جوان خاتون بھی تھی جس کی آنکھیں بے چین سی تھیں میرے وجود میں سگنل وصول ہونے لگے میں آگے بڑھا تو اس شخص نے میرا نام پوچھا اور میرا نام سن کر مجھ سے لپٹ گیا۔ اس کے پورے بدن میں لرزش تھی۔ میرے اندر درد کی لہریں اُٹھ رہی تھیں اس درد نے مجھے یقین دلایا کہ یہی میرے بہنوائی اور بھانجی ہیں۔
’’تصویروں کے سہارے پہچاننا کتنا مشکل ہوجاتا ہے۔ تم نے آنے میں بہت دیر کردی‘‘ بہنوائی نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’پاپا کی نظر بہت کمزور ہوگئی ہے۔ شوگر بہت بڑھی ہوئی رہتی ہے۔ انسولین کے انجکشن لگتے ہیں‘‘۔ میری بھانجی نے کار ڈرائیور کرتے ہوئے بتایا۔ ’’آپ کی آمد کی اطلاع ملی تو بے چین ہوگئے کئی راتوں سے ٹھیک سے سوئے بھی نہیں۔ آج بہت سویرے سے تیاری کررہے ہیں۔ ہم وقت سے بہت پہلے ایرپورٹ پہنچ گئے‘‘۔ بھانجی نے ہنستے ہوئے کہا لیکن بہنوائی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں اس چہرے سے تہیں ہٹانے کی کوشش کرنے لگا جس کے نیچے میرے تصور والا چہرہ چھپا تھا۔ پتہ نہیں وہ چہرہ کہاں کھو گیا تھا۔ اس چہرے پر بہتے آنسوؤں نے میرے وجود کے اندر لگے ہوئے Rewind کے بٹن کو دبادیا۔ کئی منظر تیزی سے پیچھے کی طرف دوڑنے لگے۔ آنسوؤں سے تر چہرے پر منظر رُکا۔ اس چہرے پر شدید بے بسی تھی۔ ٹرین کے ڈبے سے جھانکتا ہوا وہ چہرہ میری بہن کا تھا۔ ٹرین پٹریوں پر رینگتی چلی گئی۔ پھر ایک نقطہ بن کر فضاء میں کھو گئی۔ میں نے اپنی بہن کو پھر نہیں دیکھا۔
’’تمھارا بھائی آیا ہے‘‘ میرے بہنوائی ایک قبر سے مخاطب تھے۔
میرے سامنے ایک قبر تھی۔ قبر کے کتبے پر میری بہن کا نام لکھا تھا۔ میری بھانجی مجھ سے لپٹ کر رونے لگی۔ بہنوائی بھی لپٹ گئے۔ بس انھیں لمحوں میں وہ کھوئے ہوئے چہرے مجھے مل گئے۔ میں خاموشی سے آنسو بہاتا رہا۔
گھر پہنچے تو بچے بے چین تھے۔ قمیص شلوار پہنے نوجوان ، قدرے توند نکلی ہوئی ، سر پر نسبتاً کم بال۔
’’تمھارا ماموں‘‘ میرے بہنوائی نے مجھے پیش کیا۔ بچوں کی آنکھوں میں حیرت تھی
’’اور تمھارے نانا۔‘‘ بھانجی نے اپنے بچوں سے کہا۔
’’دھت نانا ایسے تھوڑے ہی ہوتے ہیں‘‘ چھوٹے لڑکے نے کہا۔ سب ہنس دیئے۔ ماحول کا تناؤ ٹوٹا۔ بھانجی کا شوہر بھی آگیا۔ بہنوائی نے مجھ سے ایک ایک رشتہ دار کے بارے میں پوچھنے لگے۔
’’ہماری جب شادی ہوئی تھی۔ تمھارا یہ ماموں بہت چھوٹا تھا۔ میں اسے گود میں اُٹھائے بازار میں گھومنے جاتا۔ کوئی راستہ چلنے والا اس کے گال چھو لیتا تو میں ان لوگوں کو ڈانٹ دیتا۔ بہت خوبصورت تھا یہ‘‘۔ بچے ہنسنے لگے۔ میں جھینپ گیا۔
میرا بستر بہنوائی کے کمرے میں لگادیا گیا۔
میرے بہنوائی کے وجود میں جذبات کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ تیس برس سے رُکا ہوا طوفان تھا۔ جو کنارے توڑ کر دور تک پھیلنے کے لئے بے چین تھا۔
’’ہم یہاں آنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ تمھارے اَبّا نے ہمیں زبردستی بھیج دیا تھا‘‘۔ پتہ نہیں کتنے برسوں سے یہ شکایت ان پر بوجھ بنی ہوئی تھی۔ وہ بوجھ سے آزاد ہوگئے۔
’’ہم اس زمین کے ہو ہی نہیں سکے۔ مجھے ذرا سا بھی سہارا مل جاتا تو کبھی نہ آتا‘‘ وہ اور بھی کچھ کہہ رہے تھے لیکن میں بڑی تیزی سے پیچھے کی طرف جارہا تھا۔
اب میں چھوٹا سا سات برس کا لڑکا ہوں۔ گھر کا عجیب سا ماحول ہے۔ اَمّی کی آنکھیں سرخ رہتی ہیں۔ اَبّا بھی چپ چپ رہتے ہیں۔ اس فضاء نے ہمیں سہمادیا تھا۔ بہن کا سامان باندھ دیا گیا۔ اَبّا اور ماموں بھی تیار ہیں۔ بہن اَمّی سے الگ ہی نہیں ہورہی تھیں۔ اَبّا بار بار کہہ رہے تھے ’’اب چلو بیٹا۔ ٹرین کا وقت ہورہا ہے‘‘۔ لہجے میں غصہ نہیں بے بسی تھی۔ میری ننھی سی بھانجی میری کسی بہن کی گود میں دبکی بیٹھی ہے۔ بہنوائی کا چہرہ سخت پتھر جیسا ہے۔ ماموں نے بڑی مشکل سے بہن کو الگ کیا۔ انھیں رکشا پر سوار کردیا۔ اور دوسری بہنیں دروازے تک آکر رک گئیں۔ ایک کہرام اُٹھا۔ جیسے گھر سے میت جارہی ہو۔ ہم اپنی بہن کو اسی روز رولئے ۔ ابا اور ماموں دوسرے رکشا میں بیٹھ گئے۔ ماموں نے مجھے بھی گود میں بٹھا لیا۔ ٹرین آگئی بہن ٹرین میں سوار ہونے کے لئے تیار نہیں ہورہی تھیں ماموں نے بہن کو ٹرین میں سوار کروایا۔ ’’تم لوگ پہنچو ، میں بھی تمھارے پیچھے آرہا ہوں‘‘۔ ماموں کہہ رہے تھے۔ ماموں بھی بے روزگار تھے۔
’’ہاں۔ ہم سب وہاں آجائیں گے بیٹا‘‘ ابّا نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
ٹرین نے سیٹی دی تو بہن نے اچانک مجھے بھینچ لیا اور بے تحاشہ پیار کرنے لگیں۔ میرے اندر کچھ پگھلنے لگا اور میں چیخ چیخ کر رونے لگا۔ ٹرین چلنے لگی تو ماموں نے مجھے ان کی گود سے لے لیا۔ وہ چہرہ ، وہ چہرہ ، میں اسے بھول ہی نہیں سکا۔ پورے دھندلے منظر میں وہ ایک ہی چہرہ فوکس میں تھا۔ شارپ !! پھر سب کچھ آؤٹ آف فوکس ہوگیا۔
’’تم نہیں جانتے غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کرنا کتنا مشکل کام تھا۔ اس سرزمین پر پہنچے تو ملازمت تیار تھی۔ گھر بھی الاٹ ہوگیا۔ نہ ماموں آئے نہ تم لوگ!!‘‘
اّبا صبح واکنگ کے بعد لوٹے تو سینے میں درد کی شکایت کی۔ دواخانہ میں شریک ہوئے۔ دو روز بعد لوگ ایمبولنس میںاَبّا کا بے جان جسم لے آئے۔ تین بہنیں اَن بیاہی اور میں ؟ جس نے دروازے پر پہلے دستک دی اَمّی نے بہنوں کو بیاہ دیا۔ یہاں آنے کے لئے حالات سازگار ہوئے تو بتیس برس گزر گئے تھے۔
’’جب تمھارے ابا کا انتقال ہوا تھا۔ تمھاری بہن تڑپ کر رہ گئیں۔ تمھاری بہنوں کی شادیاں ہوئیں۔ وہ ترستی رہیں کہ کوئی انھیں لینے کے لئے آئے۔ کاش تم ہی آجاتے۔ وہاں دوبارہ جانے کی حسرت میں وہ چلی گئیں‘‘۔
ان کی آنکھیں بھر آئیں۔
ایک سناٹا سا چھا گیا۔ مجھے ایک جرم کا سا احساس ہوا۔ لیکن ہم دونوں ہی اچھی طرح جانتے تھے کہ کون کتنا مجبور تھا۔
’’چھوڑو‘‘ مجھے اُداس دیکھ کر اُنھوں نے کہا ’’تم آئے ہو تو ساری باتیں یاد آگئیں‘‘ ایک عجیب سے خالی پن اور بے معنویت کا احساس جاگا۔
دن بھر ہم شہر کے خوبصورت مقامات دیکھتے لوگوں سے ملتے، بچوں کو اپنے اس شہرپر بڑا فخر تھا۔ سمندر کے کنارے بسا یہ شہر تھا بھی خوبصورت ! رات ہوتے ہی بہنوائی میرا ہاتھ پکڑ کر ماضی کے اس شہر میں لے چلتے جو ایک ایسی ریاست کا دارالخلافہ تھا جس کا رقبہ اٹلی کے برابر تھا جس کی آب و ہوا ، بحیرۂ روم جیسی تھی۔ پہاڑیوں سے گھرا باغوں اور جھیلوں کا شہر جس کی بنیاد محبت کی یادگار تھی جس کی ہواؤں میں مستی تھی۔ اتنی مستی کے آدمی پر نشہ طاری رہتا۔ مخصوص بولی ، مخصوص تہذیب ان کا اپنا بادشاہ تھا جس کو اعلیٰ حضرت ، حضور ، فاتح دوراں ، نوشیروانِ زماں ، امیرالمومنین ، خلیفۃ المسلمین ، حکیم السیاست ، سلطان العلوم ، سلطان ابن سلطان ، خاقان ابن خاقان کے القاب سے بلاتے اس پر جان چھڑکتے۔ ان کی اپنی جامعہ ، اپنی ریل ، اپنا سکہ ، اپنا ٹپہ ، اپنی فیکٹریاں ، لوہے ، کوئیلے اور سونے کی کانیں تھیں۔ سمنٹ کی پختہ سڑکیں ، خوبصورت عمارتیں تھیں۔ دور دور سے تاجر یہاں آکر آباد ہوگئے تھے۔ اہل علم کی قدر افزائی ہوتی تھی۔ ملازمتوں کے حصول کے لئے لوگ آتے تو یہیں کے ہوکر رہ جاتے۔ اس شہر کا سینہ بے حد فراخ تھا۔ اس شہر سے نکل کر میں نے اپنے بہنوائی سے پوچھا کہ ’’پھر وہ شہر گم کیسے ہوگیا‘‘ اتنا وقت گزر جانے کے اب سب کچھ صاف صاف نظر آرہا ہے۔ وقت کو پہچاننے میں غلطی ہوئی تھی۔ اس رہنما کے سر میں ایک ہی سودا سوارتھا کہ اس مملکت کو آزاد رہنا ہے۔ پھر تو انتہا پسند انقلابی لیڈر کی آواز بادشاہ کی آواز سے اونچی ہوگئی۔ لوگ اس کے اشاروں پر ناچنے لگے۔ سیاست کی جگہ جذبات نے لے لی۔ حکمت کی جگہ جوشیلی تقریریں آگئیں۔ سیاسی لڑائی کو مذہبی رنگ دیا گیا۔ نیم فوجی دستے بنے۔ نوجوانوں کو خدا ، مذہب اور قرآن کے نام پر قربانی کے لیے تیار کیا گیا۔ ریڈیو سے حب الوطنی کے گیت بجائے جانے لگے۔ جب وقت آیا تو نیم فوجی دستے لڑنے نکلے۔ شاہ کے نام کے نعرے بلند ہوئے۔ جیالے نوجوان ٹینکروں کے سامنے لیٹ گئے۔ بادشاہ کا فوجی کمانڈر اپنی فوج کے ساتھ تماشہ دیکھتا رہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تیس ہزار لاشوں کو عبور کرکے وہ لوگ آگئے۔ ایک شرم ناک شکست ! سب ختم ہوگیا۔ بلند بانگ دعوؤں کے ردعمل کے خوف سے ماں باپ نے اپنی بیٹیوں کو کنویں میں چھلانگ لگانے اور زہر کھانے پر مجبور کردیا۔ فوجی کمانڈر نے آگے بڑھ کر فاتحین کا استقبال کیا۔ قربانیاں رائیگاں گئیں۔ بادشاہِ وقت نے انھیں غدار قرار دیا ، آزاد مملکت کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ خوف و ہراس کے اس ماحول میں ترکی ٹوپیاں چھپادی گئیں۔ بعض افراد نے گھبرا کر گاندھی کیپ اوڑھ لی۔ جسے ایک مضبوط قلعہ سمجھا جارہا تھا ، وہ ہوا کے ایک ہی جھونکے میں زمین بوس ہوگیا۔ پرندے گرے ہوئے درختوں پر بسیرا نہیں کرتے وہ سب پھڑ پھڑا کر ایک سمت بھاگے۔ اس بھاگ دوڑ کے بعد طوفان تھما تو پتہ چلا نہ اینٹوں کی بھٹی ہے ، نہ ریت ہے ، نہ سمنٹ کے بورے نہ ٹرکس ہیں اور نہ مزدور، ایک چٹیل میدان تھا جہاں بیروزگاری کا بھوت منہ کھولے کھڑا تھا۔ دوبارہ ٹھیکے داری کا سوال ہی نہ تھا۔ تینوں سمتوں میں اندھیرا تھا۔ ہمیں بھی اسی سمت ڈھکیل دیا گیا۔ میں سوچتا ہوں مجھے تھوڑا اور وقت مل جاتا تو یہاں کبھی نہ آتا۔ دیکھو تم تو اپنی زمین سے جڑے ہوئے ہونا۔ ہجرت کا کرب تو نہیں سہا۔ ہجرت وہی اچھی لگتی ہے جب فاتح دبے پاؤں اپنی زمینوں پر واپس آئیں۔‘‘
میں چپ رہا۔ ہم نے تو اپنے ہی شہروں میں ہجرت کا کرب سہہ لیا۔ وہ تہذیب سمٹ کر چند محلوں میں رہ گئی۔ فصیل بند شہر کے دروازوں اور دیواروں کو توڑ کر شہر دور تک پھیل گیا۔ سرخ مٹی کو سیاہ مٹی سے جدا کر دیا گیا۔ غذائیں بدل گئیں لباس بدل گئے۔ سڑکوں اور گلیوں کے اجنبی نام رکھ دیئے گئے۔ وہ جھیل جو کسی بزرگ کے نام سے موسوم ہے وہاں ایک بُت نصب ہے۔ وہاں مورتیاں ڈبوئی جاتی ہیں۔ وہ پہاڑ جہاں نوبت بجائی جاتی تھی وہاں مندر کی گھنٹیاںبجتی ہیں۔ لوگوں کا ایک ریلا یہاں آکر بس گیا۔ اُنھوں نے اپنی اپنی بستیاں اس شان سے بسا لیں کہ ہم سمٹ کر گندہ بستیوں میں آگئے ہیں۔ شہر کا بدنما حصہ جسے کوئی نہیں پوچھتا۔ نئی نئی عمارتیں زمین کے سینے میں پیوست کی جارہی ہیں۔ اب شہر کی انفرادیت باقی نہیں رہی۔ دوسرے شہروں جیسا ہوگیا۔ سڑکیں دیواروں اور صحنوں میں اتر آئی ہیں۔ شہر خوبصورت ہوگیا ہے لیکن عام شہروں جیسا ہوگیا ہے سمنٹ کا جنگل۔ شاہ کا نام بعض عمارتوں نے باقی رکھا ہے اور بس ! اب فسادات کم ہوتے ہیں لیکن ہمیں خوف ، ہراس اور احساسِ کمتری میں مبتلا کردیا گیا ہے ، ساری قوم کی پیشانی پر دہشت گردی کا نشان داغ دیا گیا ہے۔ تمھاری زمین کا سایہ ہمارے سروں پرمنڈلاتا رہتا ہے۔ لیکن میں نے کچھ نہیں کہا۔
’’ہاں ہمیں تحریر و تقریر کی آزادی ہے۔ لاؤڈ اسپیکر پر اذانیں بھی گونجتی ہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’یہاں گولیاں بہت چلتی ہیں۔ جن تیس ہزار لاشوں کو ہم نے ایک بڑا حادثہ سمجھا تھا وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ یہاں تو لاشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ نوجوان آسائشوں کی تلاش میں دور دور تک چلے گئے ہیں۔ سینکڑوں میل دور بیٹھے وہ اپنے وطن میں موجود ماں باپ کی سلامتی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ عورتیں کچھ تو اپنے شوہروں کے پاس چلی گئیں اور جو یہاں رہ گئیں وہ رات رات بھر ٹی وی کے سامنے بیٹھتی ہیں اور صبح دیر سے جاگتی ہیں۔ مرغن غذائیں کھا کھا کر موٹی ہوتی جارہی ہیں پھر جم (Gym) چلی جاتی ہیں۔ پتہ نہیں یہ سب کیا ہورہا ہے۔‘‘ بہنوائی نے کہا میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔
بچے بہت جلد گھل مل گئے۔ انھیں اپنی زمین کی برتری جتانے کا شوق تھا۔ جس کرب سے میرے بہنوائی گزر رہے تھے بچے اس کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ انھیں اپنی تہذیب اور کلچر پر فخر تھا۔ بزرگ انھیں ماضی کا مسخ شدہ چہرہ سونپنے کی کوشش میں ہانپ رہے تھے۔ نوجوانوں میں ایک جوش تھا ایک جذباتیت تھی۔ وہی جذباتیت جو زمین کے ٹکڑے کردیتی ہے۔ وہ بربریت کے خوفناک منظر میں جی رہے تھے۔ موقع ملتے ہی دولت کی تلاش میں نکل پڑتے۔
ویزا ختم ہوگیا۔ میں نے توسیع نہیں لی۔ میرا وجود بہنوائی کو حکومت کی آنکھوں میں مشتبہ بناسکتا ہے۔ میں نے یہی محسوس کیا۔ فضا صاف نہیں تھی۔ جانے کا وقت آگیا اس بار بچے بھی لپٹ کر روئے۔ بہنوائی نے وعدہ کیا کہ مرنے سے قبل وہ ایک بار سارے بچوں کے ساتھ آئیں گے۔ تمام رشتہ داروں سے ملوائیں گے۔
ایرپورٹ جاتے ہوئے قبرستان پر پھر کار رُکی۔ ہم بہن کی قبر کے پاس پہنچے۔ بہنوائی نے کہا۔ ’’دیکھو تمھارا بھائی جارہا ہے‘‘ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں بھی قبر سے لپٹ گیا۔
پلین اپنی رفتار سے چل رہا تھا۔ لیکن میں اب بھی وہیں تھا۔ میرے وجود میں قبر کی مٹی کی خوش بو بس گئی تھی۔ پتہ نہیں پھر کب ملاقات ہو۔
خوبصورت شہر کی اونچی عمارتوں نے احساس دلایا کہ میں اپنی زمین پر واپس آگیا ہوں۔ ایرپورٹ سے ہوٹل آیا۔ بہنوائی کو فون لگایا کہ بخیر و خوبی پہنچنے کی اطلاع دوں۔ بہنوائی نے فون اُٹھایا۔ میں نے پہنچنے کی اطلاع دی۔ اُنھوں نے بھرائی آواز میں کہا ’’ایرپورٹ سے واپسی پر ہم پھر قبرستان گئے۔ دل بھر آیا تھا۔ تمھاری بہن کی قبر سے لپٹ کر رونا چاہتا تھا ، لیکن سنو ، تم سن رہے ہو نا ؟ تمھاری بہن کی قبر کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ ہم نے قبرستان کا چپہ چپہ چھان مارا۔ تمھاری بہن کی قبر کہیں دکھائی نہیں دی۔‘‘
میں سناٹے میںآگیا۔ تو کیا میرے ساتھ میری بہن کی مٹی بھی آگئی؟
٭٭٭