درد عجیب ہے کہ یہ متغیر رہتی ہے۔ صورتحال کے مطابق بڑھ جاتی ہے یا کم ہو جاتی ہے یا نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ اور کسی انتہا کی حالت میں دماغ اسے محسوس ہی نہیں کر پاتا۔ اس کا ایک مشہور واقعہ نپولین کی جنگ میں آسٹرین کرنل کا تھا جو گھوڑے پر بیٹھ کر آپریشن کی قیادت کر رہے تھے۔ انہیں کسی نے بتایا کہ ان کی دائیں ٹانگ گولے سے اڑ چکی ہے تو ان کا جواب تھا، “اوہو، اس کا پتا ہی نہیں لگا” اور پھر اپنے کام میں مگن رہے۔
۔۔۔۔۔
پریشانی اور ڈیپریشن ہمیشہ درد محسوس ہونے کی سطح میں اضافہ کرتا ہے۔ اور اچھی خوشبو، اچھی تصاویر، سریلی آواز، اچھا کھانا اس میں کمی لاتے ہیں۔ ایک اچھے ہمدرد ساتھی کا پاس ہونا انجائنا کی تکلیف کو نصف کر دیتا ہے۔
توقع کا بھی اہم کردار ہے۔ ٹریسی اور ان کی ٹیم کے تجربات میں سے ایک میں تکلیف میں مبتلا مریضوں کو مارفین دی گئی لیکن اس کا انہیں بتایا نہیں گیا۔ اس کا اثر بہت کم رہا۔ درد کے احساس میں درد ہونے کی توقع کا بڑا ہاتھ ہے۔
دنیا میں بہت سے لوگ ہیں جو کسی درد کا شکار ہیں جس سے نکل نہیں سکتے۔ امریکی ادارہ ادویات کے مطابق دس کروڑ لوگ دائمی درد کا شکار ہیں اور ان میں سے بیس فیصد وہ ہیں جو اگلے بیس سال تک اس کا شکار رہیں گے۔ ان میں کینسر، دل کی بیماری اور ذیابیطس سے ہونے والی تکالیف بھی آ جاتی ہیں۔ اور یہ زندگی کا معیار بہت کم کر دیتی ہیں۔
میڈیکل سائنس کے پاس محفوظ اور دیر تک اس سے چھٹکارا پانے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ اور اب بھی زیادہ ترقی نہیں ہو سکی۔ اینڈریو رائس امپریل کالج لندن میں درد کے محقق ہیں۔ انہوں نے نیچر جریدے کو 2016 میں بتایا، “ہمارے پاس جو ادویات ہیں، وہ پندرہ سے پچیس فیصد مریضوں میں نصف کو سکون فراہم کر دیتی ہیں۔ اور یہ ہماری بہترین ادوایت ہیں۔ یعنی پچھتر سے پچاسی فیصد افراد کے لئے ہمارے پاس کچھ خاص نہیں”۔ ٹریسی کا کہنا ہے کہ درد سے آرام ادویات بنانے والی کمپنیوں کے لئے قبرستان ہیں۔ اربوں ڈالر اس تحقیق میں خرچ ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک کچھ بھی ایسا نہیں جو موثر طریقہ سے درد کو کنٹرول کر لے اور اس کی لت نہ لگے۔
اس کا ایک نتیجہ opioid crisis ہے۔ اوپیئیڈ تکلیف رفع کرنے والی اشیا ہیں جو ہیروئن کی طرح کام کرتی ہیں اور اسی سورس سے آتی ہیں۔ طویل مدت تک انہیں بہت کم استعمال کیا جاتا رہا۔ سرجری کے بعد مختصر مدت کے لئے آرام دینے کیلئے یا پھر کینسر کے علاج کے دوران۔ لیکن پھر بیسویں صدی کے اختتام پر ادویات بنانے والے اداروں نے انہیں درد کے مسئلے کے طویل مدتی حل کے طور پر مشتہر کرنا شروع کر دیا۔ پرڈو فارما کی ایک ویڈیو بہت مشہور ہوئی۔ یہ کمپنی آکسی کونٹن کے نام سے دوا بیچتی تھی۔ اس اشتہار میں ایک ڈاکٹر کیمرے کی طرف دیکھ کر بتاتے ہیں کہ اوپیئڈ بالکل محفوظ ہیں اور کچھ نشہ نہیں دیتے۔ ڈاکٹرز اس بارے میں غلط تھے۔ انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے”۔
حقیقت یہ نہیں تھی۔ لوگ اس کے نشے کے عادی ہونے لگے اور مرنے لگے۔ اس وقت بیس لاکھ امریکی اس کے نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادویات میں علاج کی مایوسی کا ایک اور حل جو آئرین ٹریسی تجویز کرتی ہیں، وہ یہ سمجھنا ہے کہ لوگ ورزش اور کوگنیٹو تھراپی کی مدد سے درد سے کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں۔
دماغ کی امیجنگ اس بارے میں مدد کر رہی ہے کہ درد کیسے قابلِ برداشت بنائے جا سکتے ہیں۔
ہم بہت جلد تجاویز کا اثر قبول کر لیتے ہیں (جیسا کہ پلاسیبو ایفکٹ میں دیکھا جا سکتا ہے)اور یہ درد کی مینجمنٹ کے لئے بہت مفید ہے۔
پلاسیبو ایفیکٹ کا تصور پرانا ہے۔ نفسیاتی اثر جسم پر اثر فائدہ دے سکتا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ کام کیسے کرتا ہے۔ لیکن اثر اصل ہے۔
ایک تجربے میں جن لوگوں کی عقل داڑھ کو نکالا گیا، ان کے چہرے پر الٹراساونڈ کا مساج کیا گیا اور تقریبا سب نے کہا کہ اس کی وجہ سے بہت اچھا اثر ہوا اور وہ بہتر محسوس کر رہے ہیں۔ اس میں دلچسپ بات یہ تھی کہ مشین آن ہو یا آف، اثر ایک ہی جتنا تھا۔
ایک اور تحقیق میں چمٹے سے دی جانے والی دوا کا اثر ہاتھ سے دی گئی دوا سے زیادہ تھا (چمٹے سے دی گئی دوا زیادہ “طاقتور” لگتی ہے”۔
پلاسیبو ایفیکٹ کے بے شمار اور حیران کن اثرات ہیں۔ لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ پلاسیبو ان مسائل پر اثر نہیں کر پاتا جو شعور سے زیریں ہیں۔ یہ ٹیومر کم نہیں کر سکتا۔ بند شریان نہیں کھول سکتا۔ ٹوٹی ہڈی نہیں جوڑ سکتا۔
لیکن پھر بھی ۔۔۔ کم از کم پلاسیبو نے کم از کم کبھی کسی کو جلد قبر تک نہیں پہنچایا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...