اس سے قبل کہ میں دربار مغلیہ کے لباس کے متعلق کچھ لکھوں، ہندوستان کے لباس کی ایک بالکل مختصر تاریخ لکھ دینا چاہتا ہوں۔ ہندوستان کے لباس کی تاریخ نہایت تاریک ہے۔ مسلمانوں کے آنے سے پیشتر ہندوستان میں جہاں تک پتہ لگایا جائے اور قدیم مورتیوں وغیرہ کی تصویروں پر غور کیا جائے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے آنے سے پیشتر یہاں سئے ہوئے کپڑوں کا رواج نہیں تھا۔ مرد اور عورت دونوں بے سی ہوئی چادروں، ساڑیوں اور دھوتیوں سے بدن ڈھانکتے تھے۔ عرب سیاح جو فاتحانِ اسلام سے پہلے یہاں پہنچ گئے تھے، انہوں نے سندھ سے لے کر بنگالے تک ہر ساحلی شہر اور قریب کے اندرونی علاقوں میں یہاں کے لوگوں کو اسی وضع میں پایا۔
پہلے عرب مسلمان جو یہاں پہنچے وہ اگرچہ کرتے، تہمت اور عبائیں پہنتے تھے؛ مگر لباس و وضع میں انہیں یہاں کے لوگوں پر کچھ زیادہ فوقیت حاصل نہ تھی۔ لباس میں ترقی اس وقت سے شروع ہوئی جب ساسانی معاشرت اختیار کر کے بغداد کے عباسی دربار نے شرفائے عرب کے پائجامے، عبا و قبا اور خوش قطع عمامے ایجاد کیے، جو لباس کہ کلیۃً یا زیادہ تر ساسانی دربار کے امرا و اعیان کی وضع سے ماخوذ تھا۔ چند روز میں یہی لباس ان تمام مسلمانوں کا ہوگیا جو مصر سے دریائے سندھ کے کنارے تک پھیلے ہوئے تھے اور آخر وہ اس لباس کو لیے ہوئے ہندوستان میں آئے۔ تصویروں میں جو لباس عہد اوّلین کے مسلمان تاجداران ہند کا نظر آتا ہے، وہ قریب قریب وہی ہے جو عجمی و عباسی امرا و فرماں رواؤں کا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں کے سلاطین راجاؤں کی تقلید میں جواہرات بہت زیادہ پہنا کرتے تھے۔
دہلی میں دربار مغلیہ کا آخری لباس جو ہمیں معلوم ہو سکا یہ ہے کہ سر پہ پگڑی، بدن پر نیمہ جامہ، ٹانگوں میں ٹخنوں سے اونچا تنگ مہری کا پاجامہ، پاؤں میں اونچی ایڑی کا کفش نما جوتہ اور کمر میں جامے کے اوپر پٹکا۔ بس یہی دہلی کے قدیم شرفا کی وضع تھی، جس میں محمد شاہ رنگیلے کے زمانے تک کسی قسم کا رد و بدل نہیں ہوا تھا اور اگر ہوا بھی ہو تو اتنا نہ تھا کہ ہم کو نظر آسکے۔
اس لباس میں نیمے سے مراد کہنیوں تک کا آدھی آستینوں کا شلوکا تھا اور سینے پر سامنے اس میں گھنڈیاں لگائی جاتی تھیں۔ اس کو نیچے پہن کے اس کے اوپر جامہ پہنا جاتا تھا جو عجمی قبا میں ترمیم کرکے بنایا گیا تھا۔ اس میں گریبان نہ ہوتا تھا، بلکہ دونوں جانب کے کنارے جو “پردہ” کہلاتے تھے، ترچھے ایک دوسرے پر آ کے سینے کو ڈھانک لیتے تھے۔ سینے کا بالائی حصہ جو گلے کے نیچے ہوتا ہے اسی طرح کھلا رہتا تھا، جیسے آج کل انگریزی کوٹوں میں کھلا رہتا ہے اور جس طرح فی الحال قمیص سینے کے اوپر والے حصے کو چھپاتی ہے، اسی طرح اُن دنوں نیمہ اس کو ڈھانکے رکھتا تھا۔ سینے پر جامہ کا وہ پردہ جو بائیں طرف سے آتا ہے، نیچے رہتا تھا اور داہنے پہلو پر بندوں سے باندھ دیا جاتا تھا اور اس پر داہنی طرف کا پردہ رہتا تھا جو اوپر بائیں پہلو میں باندھا جاتا تھا۔ پھر اس میں کمر کے پاس سے دامنوں کے عوض ایک اسکرٹ سی جوڑ دی جاتی تھی جو ٹخنوں کے اوپر تک لٹکی رہتی تھی۔ اس میں بہت سی چنّٹ دی جاتی تھی اور اس کا گھیر بہت بڑا ہوتا تھا۔ جامے کی آستینیں آدھی کلائی تک بے سی ہوئی اور کھلی رہتی تھیں اور دونوں جانب لٹکا کرتی تھیں۔ اس کے نیچے سیدھی سادھی تنگ مہریوں کا پائجامہ ہوتا تھا، جو امرا میں مشروع اور اور گلبدن کا ہوا کرتا تھا۔ پھر جامہ کے اوپر پٹکا باندھ لیا جاتا تھا۔
دو تین صدی پیشتر ہمارے بزرگوں اور ہندوستان کے امیروں اور تمام شریفوں کا یہی لباس تھا۔ اب پہلے مَیں درمیانی حصۂ جسم کے لباس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں؛ کیونکہ یہی اصل لباس ہے اور اسی سے انسان کی وضع قطع مشخص ومعیّن ہوتی ہے۔ یہی دور مغلیہ کا درباری لباس تھا اور اسی لباس کو پہنے ہوئے نواب برہان الملک منصور جنگ اور شجاع الدولہ دہلی سے اودھ میں آئے تھے۔ جامہ عموماً باریک ململ کا ہوتا تھا جو ہندوستان کے مختلف شہروں میں نہایت نفیس، باریک اور سبک بنا کرتی تھی اور ساری دنیا میں مشہور تھی۔ ڈھاکہ کی ململ اور جامدانی عالی مرتبہ امیروں اور بادشاہوں کے لیے مخصوص تھی۔
اس کے بعد ایرانی قبا سے ماخوذ کرکے بالابر ایجاد ہوا، جس میں گول گریبان بالکل کھلا رہتا تھا، اس لیے کہ سینے کے ڈھانکنے کے لیے نیمہ کافی تھا جو اس کے نیچے بھی پہنا جاتا تھا، جو چنٹ اور گھیر اس میں نکال دیا گیا تھا اور اس ضرورت سے کہ دامن آگے کی طرف نہ کھلیں، داہنے دامن میں ایک چوڑی کلی لگا دی جاتی تھی۔ یہی کلی اس کلی کا نقشہ اولین ہے جو فی الحال شیروانیوں میں بائیں جانب نیچے لے جا کے بند سے باندھی یا ہُک سے اٹکائی جاتی ہے۔
اسی بالابر پر ترقی کرکے دہلی میں انگرکھا ایجاد کیا گیا، جس میں دراصل جامہ اور بالابر دونوں کو ملا کر ایک نئی قطع پیدا کی گئی۔ اس میں سینے پر چولی قبا سے لی گئی، مگر سینہ کو کھلا رکھنے کی جگہ ایک گول اور لمبوترا گریبان بڑھایا گیا، جس کے اوپر گلے کے نیچے ایک ہلال نما کنٹھا لگایا جاتا اور وہ بائیں طرف گردن کے پاس گھنڈی تکمے سے اٹکا دیا جاتا تھا۔ چولی نیچے رہتی تھی جس میں پہلے داہنی طرف کا پردہ نیچے بغل میں بندوں سے باندھا جاتا تھا اور پھر اوپر بند ہوتے تھے جس سے دونوں طرف کے پردے سینے کے نیچے بیچوں بیچ میں لا کے باندھ دیے جاتے تھے۔ اس میں بائیں جانب تھوڑا سا سینہ کھلا رہتا تھا، چولی نیچی رہتی تھی اور نیچے دامن اگرچہ قبا کے سے ہوتے تھے مگر پرانے جامے کی یادگار میں دونوں پہلوؤں پر بغلوں کے نیچے چنٹ ضرور رکھی جاتی تھی۔