شاہ موصوف الصدر کے محلات تو صدہا تھے مگر ان میں سے چند خصوصیت کے ساتھ ذکر کے قابل ہیں۔
1) نواب سلطان بہو صاحبہ۔ یہ ملکہ خوش صفات صاحب عالم مرزا سلیمان شکوہ خلف سوئمی حضرت شاہ عالم ثانی بادشاہِ ہند کی دختر نیک اختر اور حضرت اکبر شاہ ثانی کی حقیقی بھتیجی تھیں۔ ان کے والد بزرگوار دہلی سے آصف الدولہ وزیر الممالک کے عہد میں لکھنؤ آئے اور یہیں اقامت پذیر ہوئے۔ نواب آصف الدولہ، سعادت علی خاں مرحوم اور غازی الدین حیدر یکے بعد دیگرے مسند نشین وِسادۂ وزارت ہوئے اور شاہزادہ موصوف الصدر بڑے اعزاز و احترام سے لکھنؤ میں رونق افروز رہے۔ عیدین پر نواب وزیر بلحاظ اپنے منصبِ آبائی بروقت سواری خواص میں مورچھل ہاتھ میں لے کر بیٹھتے تھے اور دربار میں نذر دیتے تھے۔ جب مارکوئیس ہیسٹنگز کی تحریک سے غازی الدین حیدر نے خطاب شاہی اختیار کیا، صاحب عالم کو نہایت ناگوار گزرامگر مصلحت وقت سمجھ کر خاموشی اختیار کی اور ملاقات سے اجتناب کیا۔ کچھ عرصہ بعد شاہِ زمن غازی الدین حیدر نے اپنے ولی عہد نصیرالدین حیدر کی شادی کا پیغام صاحب عالم کے پاس بھیجا، یہاں سے بصد اکراہ انکارِ کلّی ہونے پر نواب وزیر الممالک نے بعض محلات و رفیق الدولہ و گلزار علی خاں وغیرہ مصاحبینِ صاحب عالم کو طمع دنیاوی دے کر وہ سبز باغ دکھایا کہ نوازش محل محبوبۂ صاحب عالم نے اس اہم کام کا بیڑا اٹھایا اور کئی ماہ کی کوشش کے بعد صاحب عالم کو اس امر پر راضی کردیا۔ چنانچہ 18٢5ء میں بہ تجمل و احتشامِ شاہانہ سلطان بہو کی شادی مرزا نصیر الدین حیدر سے ہوگئی اور شاہِ اودھ کی دلی مراد بر آئی۔ شاہزادی کا مہر پانچ کروڑ مقرر ہوا اور ان کے والد کے لیے جو پیشتر سے چھ ہزار روپیہ ماہوار برائے میوہ خوری مقرر تھا، اس میں چھ ہزار اور اضافہ کا اقرار ہوا؛ مگر بعد مطلب براری ایفائے وعدہ نہ ہوا اور انجام کار صاحب عالم کو جون 1828ء میں بدرجۂ مجبوری لکھنؤ کی اقامت ترک کرکے آگرہ میں سکونت اختیار کرنی پڑی۔ مشہور ہے کہ اس شاہزادی کو اپنے باپ کی بے بسی اور سوتیلی والدہ کی خود غرضانہ کارروائی کا ایسا سخت صدمہ ہوا کہ اس نے اپنی تمام زندگی یاد خدا میں بسر کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا اور شادی کے بعد کبھی اپنے شوہر نصیرالدین حیدر کو اپنی استراحت گاہ میں قدم رکھنے نہ دیا، کیونکہ وہ اس کو بہ سبب نقصِ حسب و نسب قابل نہیں سمجھتی تھیں۔ انھیں اسباب سے ان کے ساتھ ہمیشہ نہایت برا سلوک خود بادشاہ اور ان کے اہالیانِ خاندان کی طرف سے ہوتا رہا۔ شروع شروع میں اخراجات محل کےلیے صرف بیس روپیہ یومیہ مقرر تھا، بعد ازاں ہزار روپیہ ماہوار مقرر ہوا۔ یہ اپنے محل میں بطور قیدی کے نظر بند رہتی تھیں اور دیگر بیگمات اور اپنے عزیزوں سے ملنے کی ان کومطلق اجازت نہ تھی۔ پیش خدمتیں اور ملازم جو آپ کے میکے سے ان کے ہمراہ آئے تھے، یکے بعد دیگرے ذلیل و خوار کرکے نکالے گئے۔ رزیڈنٹ لکھنؤ کی بیوی نے مسٹر فینی پارکس سے 1830ء میں بیان کیا تھا کہ “سلطان کی بہو ایسی حسین عورت ہے کہ میں نے اپنی تمام زندگی میں اس سے زیادہ حسینہ و جمیلہ نہیں دیکھی”۔ 1830ء میں ان کا سن 16 یا 17 برس کا تھا اور شادی کو پانچ برس گزرے تھے۔ فینی پارکس لکھتی ہیں کہ چونکہ میں نے ان کی بہن کو دیکھا ہے، اس لیے میری رائے ہے کہ رزیڈنٹ کی بیوی کا خیال مبالغہ پر مبنی نہیں۔ تاریخ اودھ میں صرف ایک موقع پر ان کا ذکر اور آیا ہے، نصیرالدین حیدر کے انتقال کے بعد جب بادشاہ بیگم صاحبہ زوجہ غازی الدین حیدر نے فریدوں بخت منّا جان مصنوعی فرزند شاہ مرحوم کو مسند نشین کرنا چاہا تو اس کے دعوے کی تقویت اور استحکام کےلیے سلطان بہو کی امداد چاہی؛ چنانچہ ان کو محل سے کشاں کشاں اپنے ہمراہ لے کر بارہ دری میں جہاں شاہی تخت تھا، لے گئیں اور فریدوں بخت کو ان کی موجودگی میں تخت نشین کردیا۔ مگر دو ہی ساعت بعد سپاہ باغی کو جو بادشاہ بیگم صاحبہ کے ساتھ تھی، نواب نصیر الدین شاہ متوفی کے چچا نے باعانت رزیڈنٹ بارہ دری سے نکال کر بخطاب محمد علی شاہ تخت سلطنت پر جلوس فرمایا۔ بعد انتزاع سلطنت سلطان بہو صاحبہ کربلائے معلیٰ چلی گئیں اور وہیں کچھ عرصہ بعد انتقال کیا۔
٢) نواب ملکہ زمانیہ : اصلی نام اور حسب و نسب کی نسبت تاریخ سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ کسی ادنی طبقہ سے تھیں، سن بلوغ پر پہنچ کر رمضانی چرکٹے سے شادی ہوئی مگر دونوں میں نا اتفاقی رہی۔ انھیں ایام میں کچھ عرصہ ایک سرا میں دانہ پیس کر ایام گزاری کی، یہیں ان کا لڑکا مسمی ٹلوا پیدا ہوا۔ بعد ازاں مرزا جواد علی بیگ کی محل سرا میں 8؍ آنہ ماہوار پر ماما گری اختیار کی، یہیں ایک لڑکی بھی ہوئی۔ اُسی زمانہ میں مرزا ولی عہد نصیر الدین حیدر کے محل میں فریدوں بخت منّا جان پیدا ہوئے جن کےلیے انّا کی تلاش ہوئی، خوش قسمتی سے انھیں یہ ملازمت مل گئی اور یہی وسیلۂ عروج ہوا۔ اس وقت ان کی عمر چالیس سال کے قریب تھی، رنگ سیاہ، بدن فربہ اور بہت بھدّا تھا، لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں اپنی چرب زبانی اور ہوشیاری سے انھوں نے بھولے بھالے ولی عہد کو موہ لیا اور یہ اقتدار حاصل کیا کہ داخلِ محلات ہوئی۔ غازی الدین حیدر کے انتقال پر جب مرزا ولی عہد بادشاہ ہوئے تو حسبِ قراردادِ سابق انھیں خطاب ملکہ زمانی عطا کیا اور ان کے بیٹے ٹلوا کو جو بروقت ملازمت شاہی تین برس کا ہوچکا تھا، بادشاہ نے اپنا بیٹا اور ولی عہد بنایا اور خطاب کیوان جاہ عنایت کیا۔ اسی طرح اس کی شیر خوار بہن نواب سلطان عالیہ کے لقب سے مشہور ہوئی اور اس کا شمار شاہزادیوں میں ہوا۔ نواب فتح علی خاں، وارث علی خاں دو بھائی بنارس سے پریشان ہو کر آئے، وہ نواب ملکہ زمانی کے بھائی مشہور ہوئے۔ پرگنہ ہڑپہ پروا چھ لاکھ کے محاصل کا، جاگیر میں ملا اور خزانہ شاہی سے چھ لاکھ سالانہ برائے اخراجاتِ محل مقرر ہوا۔ علاوہ ازیں جواہرات و پشمینہ و دیگر سامانِ امارت لکھو کھا روپیہ کا عنایت کیا اور دس ہزار ماہوار ان کا اور چار ہزار نواب سلطان عالیہ کا وثیقہ معرفت سرکار انگریزی مقرر فرمایا۔ نواب سلطان عالیہ کی شادی نواب نصیر الدولہ (جو بعد میں محمد علی شاہ ہوئے) کے پوتے نواب ناصر الدولہ اصغر علی خاں کے بیٹے نواب ممتاز الدولہ سے بہ شکوہ شاہانہ عمل میں آئی۔ ملکہ زمانی کا یہ دور دورہ ہوا کہ ایک روز تمام اقربائے شاہی حکم بادشاہ سے انھیں نذر دینے آئے۔ طوعاً کرہاً نذر دی، نواب نصیر الدولہ کی جب نوبت آئی، آنکھوں سے مسلسل اشک جاری تھے، قدرت خدا کو دیکھتے تھے۔ پھر اسی خدا نے یہ دن دکھایا کہ خود بادشاہ ہوئے، ملکہ زمانیہ کو سمدھن سمجھ کر باربار بلایا مگر یہ بھی بڑی نکتہ فہم تھیں، ہمیشہ عذرِ علالت کہلا بھیجا۔ سیر چشمی، سخاوت، خوش نیتی اور عالی حوصلگی میں بے مثل تھیں اور تمام بیگمات پر فوق رکھتی تھیں۔
٣) نواب مخدرۂ علیا: والٹر سوداگر کی بیٹی تھیں، بخش علی خاں ان کے باپ مشہور ہوئے۔ میاں گنج رسول آباد اوناؤ چھ لاکھ کی جاگیر ملی۔ بخش علی خاں بخطاب نواب ناظم جاگیر و داروغۂ ڈیوڑھی ہوئے۔ سرکار شاہی سے مواجب بیش قرار کے علاوہ ٦ ہزار ماہوار کا وثیقہ معرفت سرکار انگریزی مقرر ہوا۔
٤) نواب خورشید محل: جن کا بعد میں تاج محل خطاب ہوا، حسن پور بندھوا کی رہنے والی تھیں۔ حسن و جمال میں اکثر بیگمات پر فوق رکھتی تھیں، بادشاہ کی نظر عنایت ان پر بہت تھی اور اکثر مے نوشی کی محفل انھیں کے محل میں ہوا کرتی تھی۔ جب داخل محل ہوئیں، مرزا حسین بیگ جو سواروں میں ملازم تھے ان کے باپ مشہور ہوئے۔ نواب گنج جاگیر میں ملا اور ٦ ہزار کا وثیقہ معرفت سرکار انگریزی مقرر ہوا۔ عملداریٔ سرکار میں کربلا جا کر انتقال کیا۔