(۱)
لاؤزی ۱ کاٹھ کا بت بنا بے حس و حرکت بیٹھا تھا۔
’’استاد محترم، کھو نگ چھیو ۲ پھر آ گیا ہے!‘‘
اس کے چیلے کنگ سانگ چھو نے کسی قدر خفگی کے ساتھ اندر آتے ہوئے کہا۔
’’اندر بلا لو‘‘
’’مزاج کیسے ہیں، استاد محترم؟‘‘ کنفیوشس نے ادب سے جھکتے ہوئے پوچھا۔
’’جیسے ہمیشہ ہوتے ہیں۔‘‘ لاؤزی نے جواب دیا، ’’تم اپنی کہو، کیا ہمارے ذخیرے کی ساری کتابیں پڑھ ڈالیں؟‘‘
’’جی ہاں، لیکن‘‘ یہ پہلا موقع تھا کہ کنفیوشس کچھ بو کھلا گیا۔ ’’میں نے چھ ادبیات عالیہ کا مطالعہ کیا:
’کتاب نغمات‘، ’کتاب تاریخ‘، ’کتاب رسوم‘، ’کتاب موسیقی‘، ’کتاب تغیر‘ اور ’بہار و خزاں کے واقعات‘ اپنی فہم کے مطابق میں نے ان تمام کتابوں میں دستگاہ حاصل کر لی ہے۔ میں نے بہتر شہزادوں سے ملاقات کی، مگر کوئی بھی میرا مشورہ قبول کرنے نہ ہوا۔ کسی کو سمجھانا واقعی بے حد دشوار ہوتا ہے۔ یا پھر شاید ہمارے سمجھانے کا انداز مشکل ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ بات دوسرے کی سمجھ میں نہیں آ پاتی؟‘‘
’’خوش نصیبی سمجھو کہ تمہیں کسی قابل حکمران سے پالا نہیں پڑا۔‘‘ لاؤزی نے جواب دیا، ’’چھ ادبیات عالیہ ماضی کے بادشاہوں کا چھوڑا ہوا فرسودہ راستہ ہیں، وہ کئی راہیں کیونکہ دکھا سکتی ہیں؟ تمہاری باتیں ایسے رستے کی مانند ہیں جسے کھڑاؤوں سے روندا گیا ہو۔ لیکن کھڑاؤیں راہ کی مثل نہیں ہو سکتیں۔‘‘ قدرے توقف کے بعد اس نے با تجاریر لکھی، ’’سفید بگلے صرف نظریں جما کر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور مادہ حاملہ ہو جاتی ہے۔ حشرات میں سے نر ہوا کی سمت رخ کر کے پکارتا ہے اور مادہ ہوا کے بر عکس رخ کر کے جواب دیتی ہے اور پیٹ سے ہو جاتی ہے۔ مخنثوں میں سے کچھ دو جنسے ہوتے ہیں اور اپنے آپ حاملہ ہو جاتے ہیں۔ فطرت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، تقدیر بدلی نہیں جا سکتی، وقت کو روکا نہیں جا سکتا، مسلک کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہیں کی جا سکتی۔ تمہارے پاس مسلک ہے تو ہر شے ممکن ہے۔ اگر مسلک کھو دو تو کچھ ممکن نہیں رہے گا۔‘‘
کنفیوشس وہاں یوں بیٹھا تھا جیسے کسی نے اس کے سر پر لٹھ مار دیا ہو اور اس کی روح جسم کا ساتھ چھوڑ گئی ہو۔ وہ کاٹھ کا بت بنا بیٹھا تھا۔
آٹھ نو منٹ گزر گئے۔ اس نے گہری سانس لی اور جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے اس درس پر حسب معمولی بڑے ادب سے استاد کا شکریہ ادا کیا۔
لاؤزی نے اسے روکنے کی کوشش نہ کی۔ وہ بھی اٹھا اور لاٹھی ٹیکتا ہوا اسے لائبریری کے دروازے تک چھوڑنے گیا۔ اور جب کنفیوشس اپنی بگھی پر سوار ہو رہا تھا۔ تو لاؤزی بڑے میکانکی انداز میں بڑبڑایا:
’’جا رہے ہو؟ چائے تو پیتے جاتے؟‘‘
’’شکریہ۔‘‘
کنفیوشس بگھی پر سوار ہو گیا اور بڑے ادب سے دونوں ہاتھ جوڑ کر خدا حافظ کہا۔ ژان یو ۳ نے چابک ہوا میں لہرا کر ٹخ ٹخ کیا اور بگھی آگے بڑھ گئی۔ وہ کوئی دس گز دور چلی گئی، تو لاؤزی اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔
’’استاد محترم، آج آپ بڑے خوش دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘ لاؤزی نے اپنی نشست سنبھالی تو کنگ سانگ چھو نے کہا جو اس کے پہلو میں مودب کھڑا تھا، ’’آپ نے تو خاص تقریر کر دی‘‘
’’ہاں۔‘‘ لاؤزی نے دھیمی سی ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے تھکن آمیز لہجے میں کہا، ’’کچھ زیادہ ہی کہہ گیا۔‘‘ پھر دفعتاً اسے کوئی خیال آ گیا۔ ’’وہ جنگلی راج ہنس کیا ہوا جو کھونگ چھیو نے مجھے دیا تھا؟ کیا اسے خشک کر کے نمک لگا دیا تھا؟ اسے پکار کر کھا لو۔ میرے تو دانت ہی نہیں۔ میں کیا کروں گا اس کا۔‘‘
کنگ سانگ چھو باہر چلا گیا۔ لاؤزی نے دو بارہ آنکھیں موند لیں۔ لائبریری میں چاروں طرف سکوت چھا گیا۔ بس اس بانس کے چھجے سے ٹکرانے کی آواز آ رہی تھی جس پر سے کنگ سانگ چھو راجہ نس اتار کر لے گیا تھا۔
تین مہینے بیت گئے۔ لاؤزی حسب معمول کاٹھ کے بت کی طرح بے حس و حرکت بیٹھا تھا۔
’’استاد محترم! کھونگ چھیو پھر آ گیا ہے!‘‘ شاگرد کنگ سانگ چھو نے قدرے حیرت آمیز لہجے میں سر گوشی کی، ’’وہ عرصے سے ادھر نہیں آیا تھا۔ جانے آج اس کی آمد کا مقصد کیا ہے؟‘‘
’’اندر بلا لاؤ‘‘ لاؤزی نے حسب معمول مختصر بات کی۔
’’کیسے مزاج ہیں، استاد محترم؟‘‘ کنفیوشس نے ادب سے جھکتے ہوئے پوچھا۔
’’جیسے ہمیشہ ہوتے ہیں۔‘‘ لاؤزی نے جواب دیا، ’’کہاں رہے اتنے دن، یقیناً گھر میں بیٹھ کر مطالعہ کرتے رہے ہو گے؟‘‘
’’نہیں، بالکل نہیں۔‘‘ کنفیوشس نے مودب لہجے میں تردید کرتے ہوئے کہا، ’’میں گھر میں بیٹھا بس سوچتا رہا۔ مجھے ادراک کی ایک کرن دکھائی دی ہے: کوے اور چڑیاں ایک دوسرے کو ٹھونگیں مارتے ہیں، مچھلیاں اپنے لعاب سے ایک دوسرے کو بھگوتی ہیں، حشرات روپ بدل لیتے ہیں۔ چھوٹا بھائی پیدا ہونے والا ہوتا ہے تو بڑا بھائی روتا ہے۔ میں جو خود مدت مد ید سے آواگون کے چکر سے الگ کیا جا چکا ہوں، دوسروں کو تبدیل کیسے کر سکتا ہوں؟‘‘
ہاں، یہ بات تو ہے۔‘‘ لاؤزی نے جواب دیا، ’’تم ادراک حاصل کر چکے ہو۔‘‘
دونوں کو چپ سی لگ گئی اور وہ کاٹھ کے بت سے بنے بیٹھے رہے۔
آٹھ نو منٹ گزر گئے۔ کنفیوشس نے گہری سانس لی اور جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے روانگی سے قبل حسب معمولی بڑے ادب کے ساتھ درس پر استاد کا شکریہ ادا کیا۔
لاؤزی نے اسے روکنے کی کوشش نہ کی۔ وہ بھی اٹھا اور لاٹھی ٹیکتا ہوا اسے خدا حافظ کہنے لائبریری کے دروازے تک آیا۔ کنفیوشس بگھی میں سوار ہونے لگا تو بوڑھا میکانکی انداز میں بڑبڑایا:
’’جا رہے ہو؟ چائے تو پیتے جاتے‘‘
’’شکریہ!‘‘
کنفیوشس بگھی میں سوار ہو گیا اور اس نے بڑے ادب سے دونوں ہاتھ جوڑ کر خدا حافظ کہا۔ ژان یونے چابک لہرا کر ٹخ ٹخ کیا اور بگھی آگے بڑھ گئی۔ وہ کوئی دس گز آگے چلی گئی تو لاؤزی اپنے کمرے میں لوٹآیا۔
’’استاد محترم، آج آپ بڑے مضمحل دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘ لاؤزی نے اپنی نشست سنبھالی تو کنگ سانگ چھو نے کہا جو اس کے پہلو میں مودب کھڑا تھا، ’’آپ نے بہت کم بات کی۔‘‘
’’ہاں،‘‘ لا ؤزی نے دھیمی سی ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے تھکن آمیز لہجے میں کہا، ’’مگرتم نہ سمجھو گے۔ سوچتا ہوں، اب مجھے چل دینا چاہیئے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ اگر اچانک بجلی گر پڑتی تو بھی کنگ سانگ چھو اتنا حیران نہ ہوتا۔
’’کھو نگ چھیو میرے خیالات کو سمجھ گیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ صرف میں ہی اس کی حقیقت جاننے کی اہلیت رکھتا ہوں۔ اور یہی بات اسے بے چین کئے رکھتی ہے۔ اگر میں نہ گیا تو معاملہ پریشان کن‘‘
’’مگر کیا وہ بھی اسی مسلک کا پیرو نہیں؟ آپ کو جانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ لاؤزی نے نفی میں ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا، ’’ہمارا مسلک ایک نہیں۔ ہماری کھڑاویں ایک سی ہو سکتی ہیں، مگر میری کھڑاویں صحراؤں کی خاک چھاننے ۴ اور اسکیدرباروں میں جانے کے لئے ہیں۔‘‘
’’پھر بھی، آپ اس کے استاد ہیں!‘‘
’’اتنے برس میرے ساتھ گزارنے کے بعد بھی تم تو نرے بدھو ہی رہے۔‘‘ لاؤزی نے مذاقاً کہا، ’’اس بات میں کس قدر سچائی ہے کہ فطرت نہیں بدلی جا سکتی، تقدیر نہیں بدلی جا سکتی۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ کھونگ چھیو تمہاری طرح نہیں ہے۔ وہ ابک بھی ادھر نہیں آئے گا اور نہ ہی مجھے استاد کہہ کر پکارے گا۔ وہ میرا ذکر ’وہ بڈھا‘ کہہ کر کیا کرے گا اور پیٹھ پیچھے برائیاں کرے گا۔‘‘
’’میں نے تو ایسا کبھی سوچا تک نہیں۔ مگر استاد محترم، آپ کی باتیں ہمیشہ صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ آپ آدمیوں کے بارے میں قیافہ لگانے‘‘
’’نہیں، شروع شروع میں میں بھی غلطیاں کر جایا کرتا تھا۔‘‘
’’خیر، یہ بات ہے تو ہم اس کا مقابلہ کریں گے‘‘ کنگ سانگ چھو نے کہا۔
لاؤزی کے چہرے پر پھر استہزائی مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’اچھا! یہ تو بتاؤ کہ میرے منہ میں کتنے دانت باقی ہیں؟‘‘
’’ایک بھی نہیں۔‘‘
’’کیا میرے منہ میں زبان ہے؟‘‘
’’ہاں وہ تو ہے۔‘‘
’’کیا تم میری بات سمجھے؟‘‘
’’استاد محترم، آپ کا مطلب یہ تو نہیں کہ آدمی سخت چیز پہلے چباتا ہے اور نرم بعد میں؟‘‘
’’بالکل۔ میری رائے یہی ہے کہ تم بھی اب سامان باند ھو اور اپنی بیوی کے پاس واپس چلے جاؤ۔ لیکن جانے سے پہلے میرے کالے بیل کو کھریرا کر دو اور کاٹھی کے کپڑے کو دھوپ دکھا دو۔ مجھے کل صبح ان چیزوں کی ضرورت پڑے گی۔‘‘
لاؤزی درہہانکو ۵ کے قریبپہنچاتوشاہراہچھوڑ کربیلکوایکبغلیراستے پرموڑ دیا۔ وہدیوارکے گردچکر لگا کرجانا چاہتا تھا۔ اسے امید تھی کہ دیوار پھلانگ جائے گا۔ دیوار زیادہ اونچی نہ تھی اور بیل کی پیٹھ پر کھڑے ہو کر وہ آسانی سے اوپر چڑھ سکتا تھا۔ لیکن ایسے میں اسے بیل چھوڑنا پڑتا، کیونکہ بیل کو دیوار کے پار لے جانے کے لئے سامان اٹھانے والی کل کی ضرورت تھی۔ مگر تب تک نہ تو لو پان ۶ پیدا ہوا تھا اور نہ ہی موتی ۷۔ اور لاؤزی ایسی کسی کل کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ قصہ مختصر، اس نے بہ تیرا فلسفہ بگھارا مگر کوئی طریقہ سجھائی نہ دیا۔
ادھر اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ ایک مخبر نے اسے بغلی سڑک پر مڑتے دیکھ لیا تھا۔ اور درے کے نگران کو اطلاع دے چکا تھا۔ چنانچہ وہ کوئی بیس گز آگے بڑھا ہو گا کہ گھڑ سواروں کے ایک دستے نے اسے آ لیا۔ آگے آگے مخبر، پیچھے درے کا نگران شی، پھر چار کانسٹیبل اور دو کسٹم افسر تھے۔
’’رک جاؤ۔‘‘ ان میں سے ایک نے چنگھاڑتے ہوئے کہا۔
لاؤزی نے فوراً کالے بیل کی راسیں کھینچ لیں اور کاٹھ کی طرح جامد ہو کر رہ گیا۔
’’ارے، ارے۔‘‘ نگران اسے دیکھ کر حیرت آمیز لہجے میں پکار اٹھا اور فوراً گھوڑے سے اتر کر اس کے استقبال کے لئے جھک گیا، ’’میں بھی سوچ رہا تھا کہ کون ہو سکتا ہے۔ تو یہ لاؤ تان ۸ ہیں، کتب خانے کے ناظم اعلیٰ۔ واقعی حیرت کی بات ہے۔‘‘
لاؤزی بھی لپک کر بیل سے اتر آیا۔ اس نے آنکھیں سکیڑ کر نگران کی طرف دیکھا اور پھر بے یقینی کے لہجے میں گویا ہوا، ’’میری یادداشت اب جواب دیتی جا رہی ہے‘‘
’’ہاں، یہ تو ایک فطری بات ہے۔ آپ مجھے پہچان نہیں سکے۔ میں نگران شی ہوں، جناب۔ کچھ عر صہ قبل میں >>کتاب محاصل کے گر<<کی تلاش میں لائبر یری میں آیا تھا تو آپ سے ملاقات ہوئی تھی‘‘
اس دوران کسٹم افسروں نے کاٹھی اور کاٹھی کا گدا کھنگالنا شروع کر دیا تھا۔ ایک نے گدے میں سوئے سے سوراخ کیا، پھر انگلی ڈال کر دیکھا اور حقارت آمیز نظروں سے دیکھتا ہوا خاموشی سے پرے ہٹ گیا۔
’’آپ دیوار کے پاس سیر کرنے نکلے ہیں کیا؟‘‘ نگران شی نے پوچھا۔
’’نہیں، میں تبدیلی آب وہوا کی غرض سے باہر جا رہا تھا‘‘
’’خوب، بہت خوب۔ آج کل ہر کوئی حفظان صحت کی بات کرنے لگا ہے۔ حفظان صحت کا معاملہ واقعی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ مگر آپ کی یہاں آمد ہمارے لئے خوش بختی کی بات ہے از راہ کرم چند روز ہمارے پاس یہاں محصول خانہ میں رہیں اور اپنے درس سے ہمیں نوازیں‘‘
’’اور اس سے پیشتر کہ لاؤزی کوئی جواب دیتا، چار کانسٹیبلوں نے اسے اٹھا کر بیل پر بٹھا دیا۔ ایک کسٹم افسر نے سوئے سے بیل کی پیٹھ میں کچوکا لگایا اور وہ دم دبا کر درے کی سمت بھاگ نکلا۔
درے میں پہنچ کر انہوں نے اس کے لئے بڑا دالان کھول دیا۔ یہ عمارت کا مرکزی کمرہ تھا اور اس کی کھڑکیوں سے زرد مٹی والی نشیبی زمین یوں دکھائی دیتی تھی، گویا افق تک ڈھلتی چلی گئی ہو۔ آسمان نیلا اور ہوا لطیف تھی، یہ پر شکوہ گڑھی ایک ڈھلوان پر تعمیر کی گئی تھی اور پھاٹک کے دونوں اطراف ایسا کھڑا نشیب تھا کہ بیچوں بیچ گزرنے والا راستہ یوں لگتا تھا جیسے دو کھڑی چٹانوں کے درمیان بل کھاتا چلا گیا ہو۔ مٹی کا ایک تودہ اس راستے کو بند کر سکتا تھا۔
انہوں نے کچھ ابلا پانی پیا اور فطیری روٹی کھائی۔ لاؤزی نے کچھ دیر آرام کیا اور پھر نگران شی نے اسے درس کی دعوت دے دی۔ انکار ممکن نہ تھا، لہذا لاؤزی نے فوراً ہامی بھر لی۔ لوگ دالان میں آئے تو ان میں جیسے بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ جو آٹھ آدمی اسے گھیر کر لائے تھے، ان کے علاوہ حاضرین میں چار اور کانسٹیبل، دو کسٹم افسر، پانچ مخبر، ایک وقائع نگار، ایک خزانچی اور ایک باورچی شامل تھے۔ ان میں سے بعض یادداشتیں لکھنے کے لئے موقلم، چاقو اور چو بی لوحیں ۹ لے کر آئے تھے۔
لاؤزی کاٹھ کے بت کی طرح دالان کے وسط میں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر گہری خاموشی چھائی رہی پھر وہ چند بار کھانسا اور سفید داڑھی کے پیچھے اس کے ہونٹ ہلنے لگے۔ تمام لوگ دم سادے اس کی باتیں سننے کے لئے تیار ہو کر بیٹھ گئے۔ پھر وہ آہستہ آہستہ بولنے لگا۔
مسلک جس کا ہم پر چار کرتے ہیں، کوئی دائمی مسلک نہیں،
نام جو ہم لیتے ہیں، کوئی دائمی نام نہیں۔
یہ عدم ہی تھا جس سے زمین و آسمان وجود میں آئے،
نام حقیقت میں ماں ہے جو دسیوں ہزار مخلوق کو جنم دیتی ہے، بالکل اپنی ہی شبیہ میں ۱۰۔
سامعین ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ کسی نے کوئی یادداشت نہ لی۔ لاؤزی نے بات جاری رکھی:
سچ تو یہ ہے کہ ’’جو ہمیشہ کے لئے نفس مار لیتا ہے وہی باطن کے اسرار تک پہنچ پاتا ہے‘‘ ۔
جو نفس کو نہیں مار پاتا، صرف ظاہر کو دیکھ سکتا ہے۔
یہ دونوں باتیں ایک ہی سانچے سے جنم لیتی ہیں، مگر مختلف نام پاتی ہیں۔
اس سانچے کو ہم اسرار قرار دیتے ہیں،
یا ’’اسرار سے بھی زیادہ تاریک،‘‘
در جہاں سے باطن کی حقیقتیں جنم لیتی ہیں ہر چہرے پر مایوسی کے آثار نمایاں ہو چکے تھے۔ کچھ ایسے تھے کہ بات کا سر پیر ہی ان کی فہم سے باہر تھا ایک کسٹم افسر نے بھر پور جماہی لی، وقائع نگار گہری نیند میں ڈوب چکا تھا اور اس کا چاقو، موقلم اور چوبی لو حیں چٹائی پر بکھری پڑی تھیں۔
لاؤزی ان تمام باتوں سے بے نیاز جزئیات بیان کرنے میں مگن تھا۔ تاہم اس کے منہ میں چونکہ دانت نہ تھے لہذا اس کا تلفظ صاف نہ تھا۔ اس کے شین شی کے لہجے نے ہونا نی لہجے میں مل کر ’’ل‘‘ کو ’’ن‘‘ بنا دیا اور وہ ہر بات ’’اڑ‘‘ پر ختم کرتا تھا۔ سامعین اس کے مفہوم کی تہہ تک ہی نہ پہنچ پاتے تھے، اور جب اس نے جزئیات بیان کرنا شروع کیں تو ان کی بیچارگی دو چند ہو گئی۔
بہر حال، منہ رکھنے کی خاطر وہ اسے سن رہے تھے۔ دھیرے دھیرے کچھ لمبے پڑ گئے، بعض ادھر ادھر کھسک کر اپنے اپنے دہندوں میں لگ گئے۔ آخر کار لاؤزی نے درس ختم کرتے ہوئے کہا:
’’دانا کا مسلک یہ ہے کہ سعی کے بنا عمل کرے۔‘‘
وہ خاموش ہو گیا، مگر حاضرین میں ہلکی سی جنبش بھی پیدا نہ ہوئی۔ لمحہ بھر کے توقف کے بعد اس نے مزید کہا، ’’بس مجھے اتنا ہی کہنا تھا۔‘‘
اس پر یوں محسوس ہوا جیسے سامعین گہری نیند سے بیدار ہو گئے ہوں۔ اتنی دیر بیٹھنے سے ان کی ٹانگیں شل ہو چکی تھیں۔ وہ بعجلت اٹھ نہ سکے، لیکن ان کے دلوں میں وہی حیرت آمیز خوشی رقصاں تھی جو قیدی معافی کا اعلان سننے پر محسوس کرتے ہیں۔
لاؤزی کو ایک بغلی کمرے میں لے جایا گیا اور اس سے درخواست کی گئی کہ وہ کچھ دیر آرام کر لے۔ ابلے پانی کے چند گھونٹ پینے کے بعد وہ کاٹھ کے بت کی طرح بھرے حس و حرکت بیٹھ گیا۔
اس اثنا میں باہر گرما گرم بحث چھڑ گئی اور تھوڑی دیر بعد چار نمائندے اس سے ملنے آ گئے۔ ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا: چونکہ وہ بہت تیز تیز بولتا رہا تھا اور اس کا لہجہ بھی معیاری نہ تھا اس لئے کوئی شخص بھی یادداشتیں قلم بند نہیں کر سکا تھا۔ اور یہ بڑے افسوس کی بات ہو گئی کہ اس کے درس کا کوئی ریکارڈ نہ ہو لہذا اس سے درخواست کی جائے گی کہ وہ درس کی موٹی موٹی باتیں قلم بند کر دے۔
’’اس نے کیا کہا؟ میرے پلے تو ایک لفظ نہیں پڑا!‘‘ خزانچی نے جس کا اپنا لہجہ گنوارو سا تھا، چلا کر کہا۔
’’مناسب تو یہی ہو گا کہ آپ سب کچھ لکھ دیں۔‘‘ وقائع نگار نے سوچو کے لہجے میں کہا، ’’آپ سارا کچھ لکھ دیں گے تو پھر آپ کو بولنے کی حاجت نہیں رہے گی۔‘‘
ان کی باتیں بھی لاؤزی کے پلے نہ پڑیں۔ لیکن انہوں نے چونکہ مو قلم، چاقو اور چوبی لوحیں اس کے سامنے رکھ دیں، اس لئے وہ جان گیا کہ وہ اس کے درس کی نقل چاہتے تھے۔ اور چونکہ انکار کی گنجائش نہ تھی، لہذا اس نے فوراً ہامی بھر لی۔ وقت خاصا بیت چکا تھا، چنانچہ جب اس نے وعدہ کیا کہ اگلی صبح کام شروع کر دے گا تو وفد بات چیت کے نتائج سے مطمئن ہو کر لوٹ گیا۔
دن چڑھا تو آسمان پر ابر چھایا ہوا تھا۔ لاؤزی کی طبیعت کسل مند تھی، پھر بھی وہ کام میں جٹ گیا۔ وہ جلد از جلد درے سے نکلنا چاہتا تھا اور یہ بات درس کی نقل تیار کئے بنا ممکن نہ تھی۔ چوبی لوحوں کا ڈھیر دیکھ کر اس کی طبیعت اور بھی خراب ہو گئی۔
تاہم کسی بیزاری کا اظہار کئے بغیر اس نے خاموشی سے لکھنا شروع کر دیا۔ اس نے گزرے دن کی باتیں سوچیں اور جو کچھ دماغ میں آتا گیا، لکھتا گیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ابھی عینک ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ اس کی بینا ئی یونہی کمزور تھی اب جو آنکھوں پر بوجھ پڑا تو سکڑ کر چیا سی ہو گئیں۔ اس نے بیچ میں رک کر ابلا ہوا پانی پیا اور فطیری روٹی کے چند نوالے لئے، پھر بھی ڈیڑھ دن میں پانچ ہزار الفاظ سے زیادہ نہ لکھ سکا۔
’’درے سے نکلنے کے لئے اتنا کافی ہو گا۔‘‘ اس سوچا۔
اس نے ایک تانت لی، ساری لوحوں کو ایک ساتھ پرویا اور اٹھا کر لاٹھی ٹیکتا ہوا نگران شی کے دفتر میں جا پہنچا۔ اس نے مسودہ اس کے حوالے کیا اور فوراً روانگی کی اجازت مانگی۔
نگران شی مسودہ دیکھ کر بے حد خوش ہوا مگر ساتھ ہی ساتھ اس بات پر دکھی بھی تھا کہ اب لاؤزی چلا جائے گا۔ اس نے لاؤزی کو روکنے کی بہت یری کوشش کی، مگر جبنا کام رہا تو بظاہر پر ملال دل سے اجازت دے دی۔ اس نے کانسٹیبلوں کو حکم دیا کہ کالے بیل پر کاٹھی کس دیں۔ پھر اپنے ہاتھوں سے الماری کے خانے سے نمک کا ایک پڑا، تلوں کا ایک پڑا اور پندرہ فطیری روٹیاں نکال کر سفید تھیلے میں ڈالیں جو قبل ازیں ضبط کیا گیا تھا، اور زاد راہ کے طور پر لاؤزی کو پیش کر دیا۔ اس نے یہ بات واضح کر دی کہ اس کے ساتھ معمر ادیبوں ایسا برتاؤ کیا جا رہا تھا ورنہ اگر کوئی نوجوان ادیب ہوتا تو اسے صرف دس فطیری روٹیاں دی جاتیں۔
لاؤزی نے بصد تشکر تھیلا قبول کر لیا اور تمام لوگوں کے ہمراہ گڑھی سے اتر آیا۔ درے کے کنارے پہنچ کر اس نے بیل کو راسوں سے تھام لیا تو نگران شی بڑے ادب سے دردخواست کرنے لگا کہ وہ بیل پر سوار ہو جائے۔ اور کئی بار بڑی انکساری کے ساتھ انکار کرنے کے بعد بالآخر وہ بیل پر سوار ہو گیا۔ اس نے ساتھ آنے والوں کو الوداع کہا، بیل کی راس کو جھٹکا دیا اور وہ دھیرے دھیرے اترائی اترنے لگا۔
جلد ہی بیل نے لمبے لمبے ڈگ بھرنے شروع کر دئے۔ سارے لوگ انہیں درے سے گزرتے دیکھ رہے تھے۔ لاؤزی سات آٹھ گز دور گیا تھا اور وہ اب بھی اس کے سفید بال، زرد گاؤن، کالا بیل اور اس کا سفید تھیلا دیکھ سکتے تھے کہ گرد و غبار کا ایک جھکڑا ٹھا جس نے لاؤزی اور اس کے بیل کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ زرد مٹیکے سوا ہر شے نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
وہ لوگ محصول خانے میں لوٹ کر آئے، تو یوں محسوس کر رہے تھے گویا کوئی بڑا بوجھ سروں سے اتر گیا ہو۔ اور یوں چٹخارے لے رہے تھے جیسے بڑا مال ہاتھ لگا ہو۔ چند ایک نگران شی کے ساتھ اس کے دفتر تک چلے آئے۔
’’تو یہ ہے مسودہ؟‘‘ خزانچی نے چوبی لوحوں کا ایک جز اٹھاتے ہوئے کہا، ’’کم از کم لکھائی تو اچھی ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ بازار میں اس کا کوئی نہ کوئی گاہک مل جائے گا۔‘‘
وقائع نگار آگے بڑھ کر ایک لوح پڑھنے لگا:
’’مسلک جس کا ہم پرچار کرتے ہیں، کوئی دائمی مسلک نہیں!‘ اونہہ! وہی پرانا راگ۔ اسے پڑھ کر تو سرمیں درد ہونے لگتا ہے۔ میں یہ سن کر ہی بیزار ہو جاتا ہوں۔‘‘
’’سر درد کی بہترین دوا نیند ہے۔‘‘ خزانچی نے لوح رکھتے ہوئے کہا۔
’’آہ! مجھے تو واقعی سو جانا چاہیئے تھا۔ در حقیقت میں توقع کر رہا تھا کہ وہ اپنا فسانہ عشق سنائے گا۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ یہ رطب و یابس سننا پڑے گا تو اتنے گھنٹے اذیت برداشت کرنے نہ جاتا‘‘
’’یہ تمہاری اپنی غلطی ہے کہ آدمی کو پہچان نہ سکے۔‘‘ نگران شی نے ہنستے ہوئے کہا، ’’اس کا فسانہ عشق کیا ہو سکتا تھا؟ وہ کبھی دام محبت میں گرفتار نہیں ہوا۔‘‘
آپ کو کیسے معلوم؟‘‘ وقائع نگار نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’تم نے اسے یہ کہتے نہیں سنا تھا کہ ’بے عملی سے ہر شے کو حرکت میں لایا جا سکتا ہے‘؟ یہ بھی تمہاری اپنی غلطی تھی کہ وہاں سونے چلے گئے۔ بڈھے کی ’خواہش آسمان جتنی اونچی اور تقدیر کاغذ کی مانند مہین ہے ‘ ، ۱۱ جب وہ ہر شے کو متحرک کرنا چاہتا ہے تو خود ’بے عمل‘ ہو جاتا ہے۔ اگر وہ کسی شے سے پیار شروع کر دیتا تو اسے ہر شے سے پیار کرنا پڑتا۔ لہذا وہ دام محبت میں کیسے گرفتار ہو سکتا تھا؟ کیا وہ یہ ہمت کر سکتا تھا؟ ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو: لڑکی حسین ہو یا بد شکل، اسے دیکھتے ہی لٹو ہو جاتے ہو۔ جب اپنے خزانچی کی طرح شادی کر لو گے تو عقل ٹھکانے آ جائے گی۔‘‘
باہر پھر ہوا کا جھکڑا ٹھا اور انہیں سردی محسوس ہونے لگی۔
’’مگر یہ بڈھا جا کہاں رہا ہے؟ آخر اس کے ارادے کیا ہیں؟‘‘ وقائع نگار نے موقع مناسب جان کر موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
’’بقول اس کے وہ صحراؤں کی طرف جا رہا ہے۔‘‘ نگران شی نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا، ’’وہ اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہ ہو سکے گا۔ اسے وہاں نمک ملے گا نہ آٹا، اور پانی بھی نایاب ہو گا۔ بھوک سے بلبلائے گا تو لوٹ آئے گا۔‘‘
’’تب تو ہم اسے ایک کتاب لکھوا لیں گے۔‘‘ خزانچی چہک اٹھا، ’’لیکن اسے صرف فطیری روٹی پر گزار کرنا پڑے گا۔ ہم اسے بتا دیں گے کہ اصول بدل گیا ہے اور اب ہم نوجوان ادیبوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ہم اسے ایسی کتاب کے لئے صرف پانچ فطیری روٹیاں دیں گے۔‘‘
’’ممکن ہے وہ منظور نہ کرے۔ وہ بڑبڑائے گایا پھر ہلہ مچادے گا۔‘‘
’’بھوکا ہوا تو مچانے کی ہمت کیسے کرے گا؟‘‘
’’مجھے تو صرف یہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ کوئی بھی یہ یادہ گوئی پڑھنے پر تیار نہ ہو گا۔‘‘ وقائع نگار نے ہاتھ نچاتے ہوئے کہا، ’’ممکن ہے اس کتاب کے عوض ہمیں پانچ روٹیوں کی قیمت کے برابر پیسے بھی نہ ملیں۔ مثال کے طور پر، جو کچھ وہ کہتا ہے اگر سچ ہے تو ہمارے سر بر اہ کودرے کی نگرانی کا کام چھوڑ دینا چاہیئے۔ صرف اسی صورت میں وہ بے عملی حاصل کر سکتا ہے اور واقعی اہم شخصیت بن سکتا ہے‘‘
’’فکر مت کرو۔‘‘ خزانچی نے دخل در معقولات کیا، ’’کچھ پڑھنے والے لوگ ضرور مل جائیں گے۔ کیا بہت سے ایسے نگران موجود نہیں جو سبکدوش ہو چکے ہیں اور ایسے گوشہ نشینوں کی بھی بہتات نہیں جو ابھی نگران نہیں بنے؟‘‘
باہر ہوا کا ایک اور جھکڑ اٹھا اور زرد دھول نے آدھے آسمان کو تاریکی میں ڈبو دیا۔ نگران نے دروازے کی طرف دیکھا تو کئی کانسٹیبل اور مخبر ہنوز وہاں کھڑے ان کی باتیں سن رہے تھے۔
’’تم لوگ کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ اس نے چلا کر کہا، ’’اندھیرا پھیل رہا ہے۔ کیا یہی وقت نہیں جب دیوار کے آر پار سے ممنوعہ اشیا چوری چھپے لائی جاتی ہیں؟ جاؤ، جا کر پہرہ دو۔‘‘
باہر کھڑے آدمی چمپت ہو گئے۔ اندر بھی سکوت چھا گیا۔ وقائع نگار اور خزانچی رخصت ہو لئے۔ نگران شی نے آستین سے میز کی گرد جھاڑی، پھر چوبی لوحیں اٹھائیں اور نمک، تلوں، کپڑوں، پھلیوں، فطیری روٹیوں اور دوسری ضبط شدہ اشیا کے ساتھ الماری کے اوپر رکھ دیں۔
٭٭
نظم
۱۴
اے میرے محبوب۔
مجھے خوب یاد ہے۔
جب میں محبت کے رموز و اسرار سے ناواقف تھا۔
جب مجھے حسن کی عشوہ طرازیوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔
جب میں تیری سنبلیں زلفوں کے پیچ وخم سے نا آشنا تھا۔
تو محبت کی بھیک مانگنے کے لئے کئی بار میری کٹیا کے دروازے پر آئی۔
تو نے بار بار کٹیا کے دروازے کی چوکھٹ کو بوسہ دیا۔
تو نے ہر بار اپنی پر خلوص محبت کا یقین دلایا۔
اور مجھے اپنے دام فریب میں پھانسنے کی کوشش کی۔
میں ترے ہر فریب سے بچتا رہا۔
لیکن۔ کب تک، اور تا بہ کے، آخر تو نے مجھے اپنی زلفوں کے تنگ حلفوں میں جکڑ لیا۔
اور بھونرے کی طرح میرا رس چوسنا شروع کر دیا۔
میں نے اپنے آپ کو تیرے حوالے کر دیا۔
تو نے مجھے اپنا قیدی بنا کر۔ قدم۔ قدم پر مجھے ٹھوکر ماری۔
اور انتقام کے ہتھوڑے سے میرے آئینہ دل کو چور چور کر دیا۔
نگاہ التفات کے بعد تری یہ کور حشم پی۔
اے حّوا کی بیٹی ۔ اگر آدم کا فرزند ترے جذبات کی یوں تذلیل و تحقیر کرتا۔
تُو تو انتقام میں کیا کچھ نہ کر گزرتی؟
کیا کیا دشنام نہ دیتی؟
میں سوچتا ہوں۔
کیا ہر دوشیزہ کا بوسہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ کہ دل کا داغ بن کر اُبھر آئے۔
نسیم سحر ۔ گدگدا کر کلی کو پھول بنا دیتی تھی۔
لیکن یہ صرف بھونرا ہی جانتا ہے۔
کہ پھول کا سینہ کیسے اور کیونکر چاک ہوا۔
٭٭٭
۱ ازمنہ قدیم کا ایک چینی فلسفی جو ’’بیکار باش‘‘ مکتب فکر کا بانی تھا۔ وہ بہار وحزاں کے زمانے کی ریاست چوکا باشندہ تھا۔
۲ کنفیوشس
۳ کنفیوشس کا ایک شاگرد۔
۴ شمال مغربی چین کے صحرا۔
۵ ایک اہم درہ تھاجس سے گزر کر قدیم زمانے کے لوگ شمال مغربی چین کا سفر کرتے تھے۔
۶ وہ کونگ شوپان کے نام سے بھی معروف تھا۔ اپنے زمانے کامشہور دستکار اور ریاست لو کا ایک نامور موجد تھا۔
۷ قدیم چینی فلسفی موہسٹ مکتب فکر کا بانی تھا۔ اس کی کتاب اس کے شاگردوں نے مرتب کی۔ یہ کہانی اس کتاب کے ایک باب پر مبنی ہے۔
۸ یعنی لاؤزی۔
۹ کاغذ کی ایجاد سے قبل ہر قسم کی تحریریں بانس یا لکڑی کی لوحوں پر لکھی جاتی تھیں اور غلطیاں چاقو سے صاف کی جاتی تھیں۔
۱۰ یہ اور موخر الذکر اقوال ’’مسلک اور اس کی قوت‘‘ سے لئے گئے ہیں۔
۱۱ مشہور کلاسیکی چینی ناول ’’لال حویلی کا خواب‘‘ سے ایک اقتباس۔
٭٭٭