اُففف۔۔۔۔دیکھو ذرا اس مست کو کس طرح دیوانوں کی طرح بھنگڑا ڈال رہا ہے۔
وہ دونوں اس وقت لاہور کی مشہور شہراہ پہ سخت بارش سے بچنے کے لیے ایک بڑےسے درخت کی چھتری کے نیچے کھڑی ایک سٹوڈنٹ کو بارش میں ناچتے ہوئے دیکھ کر ہنس رہی تھیں ۔
تمہاری طرح کا کوئی منچلا لگ رہا ہے۔ماہ نور نے ہنستے ہوئے ۔فرح کے پہلو میں چٹکی کاٹی تھی۔ اوراس منچلےکے ‘ع ‘عجیب و غیرب ڈانس سے شغف اُٹھاتی فرح نے نہایت غضب میں ماہ نور کو دو ہتھڑلگائے تھے۔وہ اس آفت پہ محض کندہ سہلا کر رہ گئ تھی
گوری موٹی بھینس ۔اب کی با ر وہ منہ میں بڑبڑائی تھی۔
کیامصیبت ہے ماہا۔آخر کب تک اس طرح یہاں کھڑے رہیں گے یار۔وہ دونوں درخت کے نیچے کھڑی ہونے کے باوجود بھی بارش کے منہ زور قطروں سے بچ نہیں پائیں تھیں۔اور اب بالکل بھیگی کھڑی تھیں۔
اب میں کیا کروں بتاوٴ مجھے۔اس میں میرا کیا قصور اگر ڈرائیور انکل کی کار خراب ہو گئ تو۔اس نے اپنے چاروں اور لپٹی گیلی سیاہ چادر کے بڑےسے پلّو کو نچوڑتے ہوئے اپنے ڈرائیور کو منہ میں ہزاروں کوسنے دیتے ہوئے کہا تھا۔
یار کہو کچھ نہیں بس اللّٰھ کا واسطہ ہے۔کوئی ٹیکسی‘رکشہ یا بس پکڑلو۔۔۔پندرہ منٹ سے کھڑی ہوں اب اور ایک منٹ بھی کھڑی ہوئی تو امان سے گر جاوٴں گی۔
گر نہیں جاوٴں گی بولو ڈیھے جاٴوں گی۔کندھے کے درد میں ابھی بھی کو کمی نہیں آئی تھی۔اس لئے جل کر جواب دیا تھا۔وہ اب بس خاموشی سے ٹانگے سہلاتی رہی۔
ساری غلطی میری ہے۔جو سودا کے دیوانوں کی طرح ۔تمھارے کہنے پہ کار گھرہی چھوڑ آئی۔اتنی جو تمہیں پڑھائی کی فکر کھائے جا رہی تھی۔تو کل اساٴینمنٹ جمع کروا دیتی۔اب مرو اس بارش میں ساتھ مجھ بےوقوف کو بھی مارو جو تمہارے کہنے پہ چل پڑی غصے سے اس کا منہ پھول چکا تھا۔اور اب رہ رہ کر اسے موٹی فرح پہ غصہ آ رہا تھا۔اوپر سے کوئی سواری مل کے نہیں دے رہی تھی۔جو گزر رہی تھیں وہ سب بھری ہوئی تھیں۔
بسسس۔۔۔غضب خدا کا جیسے ساری غلطی ہی میری ہے۔میرا کام تو تھا ہی پندرہ منٹ کا۔بعد میں تم ہی تھی جو کینٹین کے سموسے کھانے بیٹھ گئی تھی۔اور اب سارا نزلہ مجھ غریب پہ نکال رہی ہو۔نفرت ہے مجھے ایسے لوگوں سے۔وہ بھی کہاں چپ رہنے والی ہڈی تھی۔
ہاں تم نے بیچاری نے کونسا کبی سموسے کھا کر دیکھے ہیں ۔خیبرپختونخواہ کی گوری بھینس۔اسے جب بھی اس پہ غصہ یا پیار آتا تو وہ ہمیشہ اسے ایسے ہی لفظوں سے پکارتی تھی۔ سخت بارش میں بھیگنے کے باوجود بھی وہ دونو چونچ لڑانے سے بعض نہیں آ رہی تھیں۔کجا کہ کوءی حل نکالنا۔
________
اللّٰھ تمہارابھلا کرے۔بچے جو تم مجھے لے آئے۔اللّٰھ پاک میرے بچے کو ہزاروں کامیاباں دے آمین۔محبت سے انہوں نے اس کے دائیں کندھے کا بوسہ لے کر چھرڑا تھا۔۔۔ان کے اس پوتے میں تو ان کی جان بستی تھی۔جو ان کی خاطر اپنے قیمتی وقت کی بھی پروا نیں کرتا تھا۔آج بھی وہ اپنی ضروری میٹنگ چھڑ کر انہیں ماہ وار چیک اپ کے لئے لے آیا تھا۔
دادی جان میری تو جان بھی آپ پہ قربان وقت نکالنا تو پھر معمولی بات ٹھری۔اس نے کار کا سٹیرنگ گھماتے ساتھ ان کے گرد بازو ہمائل کیا تھا۔
اللّٰھ میرے بیٹے کو سلامت رکھے۔ارے بچے آرام سے دیکھو ذرا کتنی تیز بارش ہو رہی ہے۔اُنہوں نے ایک فکر بھری نظر شیشے سے باہر ڈال کر اسے تاکید کی۔اور پھر کچھ یاد آ جانے پہ سیدھی اس کی طر ف گھوم کر دیکھنے لگیں۔
ذریت۔۔۔ ان کی تھکن زدہ آواز پہ وہ چونکا ۔
جی۔۔۔ ایک نظر ان کی طرف دیکھ کر اس نے اپنی نظروں کو واپس سڑک کی طرف گھما لیا تھا۔
تم آذر کی امی سے دوبارہ ملے تھے۔ان کی بات پہ اس کے چہرے کے تاثرات تن گئے تھے۔نہیں۔۔۔۔
دادی نے افسردگی سے اپنے وجیہہ سے پوتے کو دیکھا تھا۔
تمہیں ان کے پاس جانا چایہے بیٹے۔۔۔
میں اس کی ماں کی سسکیاں نہیں سن سکتا۔مجھے لگتا میرا دل پھٹ جائے گا۔اس کے سپاٹ لہجے میں بھی دکھ ہلکورے لے رہا تھا۔
ہاں ٹھیک کہتے ہو۔تھا بھی تو بہت پیارا وہ۔ایک سرد سی آہ نکلی تھی ان کے دل سے۔
انہوں نے اس کو اپنے دانتوں کو بھنچتے دیکھ کر دکھ سے چھرا ونڈو کی طرف موڑ لیا۔ان کے اس پوتے نے زندگی کو بہت بے رحمی سے جیا تھا۔وہ کبھی بھی عام بچوں جیسا نہیں رہا تھا۔اس کی سنجیدگی بچپن سے لڑکپن تک اور پھر جوانی تک ساتھ ساتھ رہی تھی۔اور اب تو یہ حال تھا کہ وہ مسکراتا بھی جیسے عید کے عید تھا۔اور اب یہ واقع جس نے اسے گم سم سا کر دیا تھا۔
ان کی آنکھیں نم ہوءیں تھیں۔انہوں نے اپنی سفید چادر سے آنکھیں رگڑتے یوں ہی سڑک کے گرد جھنڈ کی طرف دیکھا۔اور بے اختیار انہوں نے کار رکوا دی۔
کیا ہوا ؟۔۔۔ آپ ٹھیک تو ہیں؟ ان کے اس طرح کار رکوانے پہ وہ پریشان ہوا تھا۔وہ کھڑکی سے باہر دیکھتے اس کی سمت ہلکا سا موڑی تھیں۔
ارے۔۔۔ میری تعبیت تو ٹھیک ہے۔ جاوٴ تم ان بیچاری بچیوں کو بلا لاوٴ۔دیکھو بیچاری کیسے بھیگی کھڑی ہیں۔ہم انہیں لفٹ دے دیتے ہیں۔اس نے ذرا آگے جھک کر اس جانب دیکھا جہاٴں وہ سیاہ سکارفس اور سیاہ ہی چادروں والی لڑکیاں کھڑی بارش میں بھیگ رہی تھیں۔
رہنے دیں دادی خود ہی چلی جائیں گی۔اور اگر اتنی ہی بیچاری تھیں تو آرام سے گھر میں بیٹھتیں۔اس نے سپاٹ سے انداز میں کہہ کر کار آگے بڑھانی چاہی تھی۔جب وہ ان کی ڈانٹ سن کر محض گہری سانس لے کر رہ گیا تھا۔
ذریت حسن اب اگر تم نے ایک لفظ بھی اور بولا تو۔میں تمہیں گاڑی سے باہر نال دوں گی۔اور یاد رکھنا میں ایسا کر بھی سکتی ہوں۔چلو جاٴو اب۔اور ہاں یہ بولنا کہ آپ دونوں کو میری دادی جان بلا رہی ہیں زرا بات سُن لیں۔پھر وہ آ جائیں گی۔
جی۔۔۔ وہ کوفت ذدہ سا باہر نکلاتھا۔دادی جان مسکرا کر ان دونوں لڑکیوں کو دیکھنے لگی ۔جو عمر میں ۱۹ سے بمشکل زیادہ لگ رہی تھیں۔
بات سنو ۔۔۔ وہ دونو اس کی طرف مڑی تھیں۔تم دونو کو میری دادی جان ادھر گاڑی میں بلا رہی ہیں۔جاٴو بات سن لو۔کیا لٹھ مارتا انداز تھا۔وہ دونوں اس کے انداز کودیکھ کر رہ گئی تھیں۔
یہ ہمیں حکم دے رہا ہے۔ماہ نور کو بُرا لگا ۔مگر پھر وہ جو ان کا جواب سنے بغیر مڑ گیا تھا۔اس کے پیچھے چل پڑی۔ کہ کیا پتہ جاننے والے نہ ہوں۔
اس نے سخت ناگواری سےاپنے سوٹ پہ پڑے بارش کے قطروں کو دیکھا اور پھر دروازہ کھول کر بیٹھ گیا۔اسے سخت نفرت تھی بارش سے۔یعنی اسے برسات کا موسم ہی سخت بُرا لگتا تھا۔جب ہر چیز گیلی اور نم سی ہو جاتی ہے۔
اسلام علیکم ۔۔وہ دونو حیرانی سےاس بوڑھی عورت کو پہچاننے کی کوشش میں کھڑکی کے قریب ہوئیں۔چہرہ غیر شناسا تھا۔مگر اس عورت کے چہرے کی نرمی اور لہجے کی نرمی خاصی متاثر کن تھی۔
ارے بچو بارش میں اب اور مت کھڑے ہو آوٴ بیٹھ جاوٴ میں تمہیں چھوڑ دیتی ہوں۔آوٴ بیٹھ جاوٴ۔ذریت نے دادی کے اشارے پہ پیچھلا دروازہ بھی کھول دیا تھا۔
نہیں آنٹی جی شکریہ ہم چلے جائیں گے۔وہ دونوں یک زوبان بولی تھیں۔اب چہرے کی نرمی سے متاثر ہو کر وہ کسی کی گاڑی میں بیٹھنےسے تو رہیں۔
ارے بچے تم لوگ مجھے اپنی دادی جان ہی سمجھو۔اور بے فکر ہو کر بیٹھ جاوٴ۔چلو شاباش۔انہیں ان کا اس طرح احتیاط کرنا اچھا لگا تھا۔
ذریت نے سخت ناگواری سے ان دونوں کو دیکھاتھا۔جو نہ جانے کیا سوچ رہی تھیں۔
ماہ نور نے اس عورت کے چہرے کو غور سے دیکھا۔جہاں محبت اور نرمی واضح دیکھائی دے رہی تھی۔اور پھر فرح کا ہاتھ پکڑ کر پیچھلے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔مگر بیٹھی وہ اب بھی نہیں تھیں۔
کیا کریں بیٹھ جائیں۔اس نے مڑ کرفرح سے پوچھا تھا۔جس کے چہرے سے تھکاوٹ ٹپک رہی تھی۔
بیٹھ جاوٴ یار۔میں نے صبح آیت الکرسی پڑھلی تھی۔تم بھی پڑھلینا۔ماہ نور اس کی بات سن کے دل سے مسکائی تھی۔اور پھر دونو آگے پیچھے گاڑی میں سوار ہوگئیں ۔
شکریہ آنٹی جی۔بیٹھتے ہی ٹانگوں کو سکون ملا تھا۔وہ دونو کہیے بنا نہ رہ سکی ۔
ارے بچو شکریہ کیسا۔تم لوگ تو میری مریم جیسی ہو۔ذریت نے چونک کر ان کو دیکھا تھا۔وہ کیسے کسی کو مریم آپی سے کمپیر کر سکتی تھیں۔
مریم کون؟۔۔۔فرح کے منہ سے بےساختا نکلا تھا۔
دادی نے مڑکر ان دونوں معصوم اور شفاف سے گیلے چہرے والی لڑکیوں کو دیکھا تھا۔جو بالکل بھی نروس نہیں دکھ رہیں تھیں۔
وہ میری بڑی پوتی ہے۔آجکل وہ فرانس میں اپنے شوہر کے پاس ہوتی ہے۔ان کے لہجے میں افسردگی عود آئی تھی۔
اچھا۔۔۔وہ دونو سر ہلا گئیں ۔اب وہ اور کیا بولتیں۔
آپ دونوں کا کیا نام ہے۔؟انہیں وہ دونو پُرعتماد سی اچھی لگی تھیں۔
میرا نام ماہ نور ابتسام اور یہ فرح خان ۔ماہ نور نے اپنا اور فرح کا تعارف کروا یا تھا۔
ماشاءللّٰھ بہت پیارے نام ہیں۔
کس کلاس میں ہیں میری بچیاں؟ان کا محبت سے بھرا انداز دیکھ کے وہ دونوں حیران اور متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پائیں تھیں۔ایسی خالص محبت کہاں ملتی ہے آجکل۔۔۔
ایکچلی آنٹی میں اور فرح بی۔اے کی سٹوڈنٹ ھیں ۔اور آجکل اگزمز کی فکر میں ہلکان ہیں۔وہ مسکرائیں تھیں۔
ہاں میں سمجھ سکتی ہوں۔جب بھی ذریت اور مریم کے امتحانات ہوتے تھے۔تب مجھے ان سے زیادہ ٹنشن میں ہوتی تھی۔لیکن شکر اللّٰہ کا اچھا وقت گزرا۔۔۔آنٹی اپنے ڈرائیورسے بولیں یہاں سے لیفٹ لے لے۔۔۔ وہ اس قدر تیزی سے بولی تھی۔کہ پہلے تو خاموشی چھاءگئی۔اور پھر دادی جان کا ایک بےساختہ قہقہ تھا۔جس نے فرح کو تو شرمندہ کر دیا تھا۔البتہ وہ ڈھیٹ بنی دیھتی رہی تھی۔جیسے پتا نہیں کیوں ہنسی ہیں۔اور زریت محض کھول کر رہ گیا تھا۔اس چھٹانک بھر کی لڑکی کی زبان کتنی لمبی تھی۔سر میں درد کر دیا تھا۔سخت زہر لگی تھی اسے یہ لڑکی۔
اور پھر فرح نے باقی کا رستہ اسے چٹکیاں کاٹیں تھیں۔اور اترتے وقت بھی گھور کہ اتری کہ تمہیں تو میں پوچھوں گی۔
دادی کو وہ کوسِ قضاء سی لڑکی بہت دلچپ لگی تھی۔
اور پھر اس کو گھر اتارتے وقت اس سفید اور سبز ٹائلوں والی بڑی سی کوٹھی کو ذہین کی یاداشت پہ نقش کر لیا تھا۔کیا پتہ قسمت ساتھ دے جائے۔ان کی نظریں پُرسوچ تھیں۔پہلو میں بیٹھے ذریت حسن نے غور نہیں کیا تھا۔وہ اب بس گھر جا کہ سردرد کی دوا کھانا چاہتا تھا۔
______
آج آپ گاڑی گھر چھوڑ گئں تھیں۔بابا نے کوفی کا گھونٹ لے کر اس سے پوچھا تھا۔
جی۔۔۔وہ ٹانگ پہ ٹانگ جمائے اس وقت پاٴوں جہلاتے ہوئے ڈرامہ دیکھنے میں خاصی مگن تھی۔اس لیئے مختصر جواب دیا۔
اور ڈرائیور بتا رہیے تھےکہ گاڑی بھی خراب ہو گئ تھی۔تو پھر آپ واپس کیسے آئیں؟انہونے ایک اور کافی کا گھونٹ لے کر اس سے پوچھا تھا۔وہ بھی فواًرسیدھی ہوئی تھی۔اور ٹی وی کی آواز بھی کم کر دی۔
وہ بابا جب ہم کالج سے نکلےتو خاصی تیز بارش ہو رہی تھی۔ہم نے سوچا کہ کوئی سواری لے لیتے ھیں ٗ۔لیکن آدھا گھنٹا کھڑے رہنے پہ بھی ہمیں کوئی سواری نہیں ملی تو۔۔۔وہ رکی۔۔۔
تو؟وہ کوفی پیتے اسی کی طرف متوجہ تھے۔
تو بابا ایک آنٹی سے ہم نے۔۔۔لیفٹ لی ۔۔۔تو انہوں نے ہی فرح کو ہوسٹل اور مجھے گھر ڈراپ کیا تھا۔اس نے بات خاصی تمہید کے بعد پوری کی تھی۔وہ کافی پی چکے تھے۔انہوں نے ذرا جھک کر سیاہ مگ شیشے کی شفاف میز پہ نرمی سے رکھا اور پھر سیدھے ہوئے۔
ان کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔ویسا ہی نرم انداز
جی تھا۔ان کا ڈرائیور۔۔۔۔یہاں اس نے کچھ ملاوٹ کی تھی۔
ہہم۔۔۔انہوں نے گلا صاف کیا تھا۔
نیکسٹ ٹائم بیٹا آپ ایسے نہیں کریں گی۔۔۔
وہ بابا وہ آنٹی بہت اچھی تھیں۔وہ منمنائی۔
اور اسی لیئے آپ بیٹھ گئیں۔دیکھو بیٹا کسی کے چہرے پہ نہیں لکھا ہوتا وہ کیساہے۔خاص طور پہ جس سے ہم ملے ہی پہلی بار ہوں۔اور پھر دیکھں آجکل حالات کتنے سیریس چل رہیے ہیں۔بس ہم خود کو جتنا بچا لیں بہتر ہے۔
ان کا انداز بہت پیارا تھا۔وہ ان کے پہلو کے سنگل صوفے سے اُٹھ کر ان کے برابر انکے کندھے پہ سر رکھ کر بیٹھ گئی ۔
سمجھ گئی بابا۔۔۔نیکسٹ ٹائم ایسا نہیں ہوگا۔۔۔اسنے ان کے کندھے پہ بوسہ لیا تھا۔ابتسام فاروق نے بھی مسکرا کر اپنی بیٹی کے گرد بازو ہمائل کر لیے ۔ان کی تین اولادیں تھیں۔بڑا بیٹا ابرار پھر اس سے چھوٹازبابراور سب سے چھوٹی انکی جان انکی گڑیا ماہ نور۔جس کو ہمیشہ انہوں نے سرد گرم سے بچائے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔اس لیئے نصحیت کرتے تھے۔
بابا۔۔۔ مجھے لگتا میں اس دفعہ فعیل ہو جانا۔وہ اس کی بات سن کہ مسکرائے تھے۔آپ ہمیشہ ایسے ہی بولتی ہو۔پھر اے پلیس گریڈ لے لیتی ہو۔
ماہا بیٹی آپ کا فون۔۔۔کافی دیر سے کیچن میں بج رہا تھا۔ملازمہ آنٹی نے فون اس کی طرف بڑہا دیا۔وہ بھی فوراًسے سیدھی ہوئی۔بھائی ہوں گے۔۔۔۔لیکن پھر فرح کی کال نےساتھ ہی ٹھنڈابھی کر دیا تھا۔
اس موٹی کو اب کیا مسّلہ ہے۔اس نے منھ بگاڑکرکہا تھا۔بابا سن چکے تھے اس لیئے ٹوکے بغیر نہ رہ سکے
بہت بری بات ہے بیٹا۔۔۔
۔وہ سوری بابا کہہ کہ بھگتی سیڑھیاں چڑھ گئ۔۔۔
کیامسّلہ ہے۔جب سےتم نے فون لیا ہے ۔میری تو ناک میں دم کر دیا ہے۔لگتا بتانا ہی پڑے گا انکل کو۔۔۔اینڈ کی بات اس نے مزاق میں کی تھی۔کہ جانتی تھی کہ اس نے فون چھپ کر لیا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...