آج برطانیہ کے شہر لیورپول میں مرسی سائیڈ میوزیم میں اس شہر کے تعارف پر ایک فقرہ لکھا ہوا ہے۔
Liverpool is a city built on cotton
یہ درست ہے لیکن کپاس نے اس شہر کو ہی نہیں بنایا۔ انیسویں صدی کے وسط میں یہ شہر دنیا کا مرکز تھا۔ اور اس کی وجہ کپاس تھی۔ یہاں کے تاجر بے تحاشا دولت کما چکے تھے۔ یہ شہر دنیا کا عجوبہ تھا لیکن سیاحوں کے لئے اس شہر میں کوئی کشش نہیں تھی۔ اس کی میلوں پر پھیلی بندرگاہ تھی جس میں بادبانوں کا جنگل دکھائی دیتا تھا۔ ہزاروں جہازوں میں خوب پیک ہوئی کپاس کی کانٹھیں ہر سال یہاں آتی۔ ہزاروں مزدور جہازوں سے سامان اتارتے۔ گانٹھوں کو وئیرہاوس لے کر جاتے۔ 1830 میں ٹرین کی پٹری بچھائی گئی جو ان کو بیس سے پچاس میل دور لنکاشائر کے کارخانوں پر لے جاتیں۔ لیورپول کے بارش والے موسم میں علی الصبح سورج نکلنے سے پہلے مزدروں کی قطاریں لگی ہوتیں کہ انہیں کپاس کی گانٹھیں لادنے کی دیہاڑی مل جائے۔ یہ کم اجرت پر کیا جانے والا خطرناک کام تھا۔
یہ شہر دنیا پر پھیلی کپاس کی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ یہاں کے تاجر دنیا بھر میں جہاز بھیجتے۔ پہلے بادبانی اور پھر بھاپ سے چلنے والے۔ ان کے کپتان خطرناک سمندروں، باغی عملے، موذی بیماریوں اور اقتصادی اتار چڑھاوٗ کا مقابلہ کرتے جہازرانی کرتے۔
جہازرانی میں بھی سخت مقابلہ تھا۔ ان کے کرایوں میں اتار چڑھاوٗ آتا رہتا۔ لیورپول کی مارکیٹ کی خبریں کپاس کے عالمی داموں پر اثر انداز ہوتیں۔ “فلاں جہاز کا عملہ فرار ہو گیا”۔ “بحری طوفان” جیسی خبروں پر کان رکھے جاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شہر کا اعصابی نظام کاٹن ایکسچینج تھی۔ سردی، بارش، گرمی، دھوپ میں روز یہاں تاجر ملتے۔ 1809 میں اس کی عمارت بنی جہاں خریداروں اور بیچنے والوں کے شور میں سودے ہوتے۔
اور یہ تاجر دنیا کے کپاس کے سرکس کے کرتا دھرتا تھے۔ ممبئی کی اپالو وہارف پر تاجر لیورپول کی خبروں کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہوتے۔ “لیورپول کے دام” اہم ترین خبر تھی۔ روزانہ چھاپی جاتیں۔ ایلن ہوٹن اور ان جیسے لاکھوں فیکٹری مزدوروں کی قسمت کا فیصلہ ان خبروں پر ہوتا۔ کتنے بے روزگار ہوں گے اور کس کو کام ملے گا؟ امریکہ میں غلاموں کے ماسٹرز کو اس خبر کا پتا لگانے کا جنون رہتا۔ جب دام چڑھتے تو نئی زمینیں حاصل کرنا پرکشش ہو جاتا۔ نئے تازہ دم جوان غلام منگوانا منافع بخش ہو جاتا۔ یہاں کی خبر مقامی امریکیوں کو زمین سے بے دخل کر سکتی تھی۔ انڈیا میں ریلوے نیٹورک بنوا سکتی تھی۔ سوئٹزرلینڈ یا گجرات میں کسی جولاہے کا پیشہ ختم کروا سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے شہروں کے برعکس لیورپول کے تاجر کپاس کے ہر فنکشن سے تعلق رکھتے تھے۔
لیورپول کاٹن ایکسچینج کی کھڑکی سے دنیا کاٹن کی پیداوار اور اصراف کی کامپلیکس نظر آتی تھی۔ کپاس پر بنے اس شہر میں سوداگروں کے شور میں ہوتے سودے دنیا کو ہلا دیتے تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...