(Last Updated On: )
دار پر اس کی گواہی کا ہے حوالہ ہے بہت
عشق کو حسن بنا دے وہ کرشمہ ہے بہت
ناتوانی کو توانائی کا یہ معجزہ ہے
ہر ہلاکو کے لیے ایک فلوجہ ہے بہت
اے انا الوقت! محبت کے کسی روپ میں آ
خود کو برباد نہ کر لوں، مجھے خطرہ ہے بہت
حسن دریا ہے مری آنکھ میں گرنے والا
پھر بھی پیاسا ہوں اگرچہ تجھے دیکھا ہے بہت
اتنا سادہ ہوں تو کچھ وجہ بھی ہو گی شاید
ضبط میں میری انا نے مجھے رکھا ہے بہت
اور اس وہم سے بھی جا کے نمٹ لے پیارے
شہر فردا میں سنا ہے ترا چرچا ہے بہت
زندگی جیسے سبھی موسموں کا میلہ ہو
سیر کے واسطے یہ گلشن دنیا ہے بہت
٭٭٭