شہر بار گرد کی ترقی اور خوش حالی کی شہرت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ دور دور سے اس کی خوب صورتی کا نظارہ کرنے آتے تھے۔شہر میں خوب صورت، بلند و بالا اور صاف ستھری عمارتیں ایستادہ تھیں جن پر سنگ مرمر کا کام خوبصورتی سے کیا گیا تھا۔
اکثر عمارتیں خوبصورت رنگوں سے مزین تھیں جن پر دیدہ زیب نقش و نگار بنے تھے۔ پرانے بادشاہوں کی تصویریں بڑی دیواروں پر جگمگاتی تھیں— کسی تصویر میں بادشاہ تخت پر جلوہ افروز تھے تو کسی میں فتح یاب جنگوں کی منظر کشی کی گئی تھی۔کسی تصویر میں بادشاہ کی سخاوت کا احوال پیش کیا گیا تھا تو کسی میں بادشاہ سے عوام کی محبت کو ظاہر کیا گیا تھا۔ کئی تصویریں ایسی بھی تھیں جن میں خوب صورت شہزادوں اور شہزادیوں کی محبت بھری کہانیوں کا احوال ظاہر تھا۔
شہر کے وسط سے ایک بڑی نہر گزرتی تھی جو دریا کو کاٹ کر بنائی گئی تھی۔ اس وجہ سے یہاں کی زمینیں بڑی زرخیز تھیں اور یہاں ہر سال وافر مقدار میں غلہ اگتا تھا۔
شہر میں جابجا خوبصورت باغوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ خوبصورت چشموں اور فواروں کی بہتات تھی۔ زیبائشی پودے اور پھول شہر کی خوب صورتی میں بے حد اضافہ کرتے تھے۔
یہ شہر وسیع میدانی علاقے میں واقع تھا، اس لیے شہر کے عین وسط میں مختلف رنگ دار پتھروں اور مٹی سے بنائی گئی مصنوعی پہاڑی قریب سے گزرنے والوں کو روک لیا کرتی تھی۔ اس پر مختلف رنگوں اور قسموں کے پھول پودے لگائے گئے تھے۔ بیلیں اور چشمے دیکھنے والوں کی آنکھیں تھام لیتے تھے۔آنے والے مسافر اس حسین نظارے کو دیکھ کر مبہوت ہو جایا کرتے تھے۔
شہر بار گرد میں غلہ اور پھل وافر مقدار میں پائے جاتے تھے۔ اس لیے کچھ ہی عرصہ میں یہ شہر اہم تجارتی منڈی کا درجہ بھی حاصل کر چکا تھا۔ دور دراز ملکوں سے لوگ یہاں تجارت کی غرض سے آیا کرتا تھے— کچھ اس شہر میں بیچ دیا کرتے تھے، کچھ یہاں سے خرید لیا کرتے تھے، اس طرح گہما گہمی کا عالم برپا رہتا تھا۔ تاجروں کی آمد اور قیام کے سبب یہاں بہت سی سرائیں موجود تھیں جہاں ہر وقت تاجروں اور مسافروں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔
اس شہر کی ایک وجہِ شہرت غلاموں کی تجارت بھی تھی۔ یہاں ہر ہفتے غلاموں کی ایک بڑی منڈی لگتی تھی جس میں خرید و فروخت کے لیے دور دراز سے لوگ آیا کرتے تھے۔ یہاں کے غلاموں کی کام کرنے کی استعداد اور وفاداری ضرب المثل تھی۔
یمنی تاجر یحییٰ نے تجارت میں نیا نیا قدم رکھا تھا۔ دوسرے تاجروں کے منہ سے بار بار شہر بار گرد کا تذکرہ سن کر اس کے دل میں بھی اس شہر کو دیکھنے کی آرزو مچل رہی تھی۔ اس نے اس شہر کی تعریف اپنے باپ کے منہ سے بھی سن رکھی تھی۔
اس کا بچپن کا دوست صالح اسی شہر میں مقیم تھا۔ اس نے ایک بہترین سرائے بنا رکھی تھی جس کی وجہ سے وہ خاصا خوشحال ہو گیا تھا۔
یحییٰ کافی دنوں سے انتظار میں تھا کہ کوئی تجارتی قافلہ شہر بار گرد کو جائے تو وہ بھی قافلے کے ساتھ ہو جائے۔ اس سلسلے میں سن گن لینے کے لیے وہ عمومی طور پر شہر کا چکر لگایا کرتا تھا۔
ایک دن اسے پتہ چلا کہ یہاں سے ایک تجارتی قافلہ شہربار گرد کو جانے والاہے۔ وہ بھی اپنا مختصر تجارتی سامان لے کر قافلے میں شامل ہو گیا۔ اس کے ہمراہ اس کا نو خرید غلام بھی تھا جو اس نے چند دن قبل خریدا تھا۔ بظاہر توانا اور مضبوط دکھائی دینے والایہ غلام نہایت سست، کاہل اور ہڈ حرام واقع ہوا تھا۔ یحییٰ چند دنوں میں ہی اس غلام سے اکتا گیا تھا۔ وہ غلام نہ تو تندہی سے کام کرتا تھا، نہ آقا کا حکم پوری طرح بجا لاتا تھا — اس پر کسی ڈانٹ ڈپٹ کا اثر بھی نہیں ہوتا تھا۔ یحییٰ نے اس پر سختی کر کے دیکھ لیا تھالیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک وہ اپنا نام بھی نہ بتاتا تھا۔ نام پوچھنے پر پوری ڈھٹائی سے کندھے اچکا کر کہتا تھا، ’’مجھے سائیں کہہ لیا کرو۔‘‘
یحییٰ نے اپنے ساتھ اس لیے غلام کو بھی لے لیا تھا کہ شہر بار گرد کی مشہور غلاموں کی منڈی میں اس کے اچھے دام مل جائیں گے۔ وہ ہر حال میں اس سائیں سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کو فروخت کر کے وہاں سے کوئی اچھا سا غلام خرید لائے جو اس کے کام دھندے میں اس کی بھرپور معاونت کرے ۔ اسے یقین تھا کہ وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو جائے گا کیونکہ شہر بار گرد کی غلاموں کی منڈی سے خریدے جانے والے غلام تمام قریبی علاقوں میں مضبوط اور صاف نیت مشہور تھے۔
تاجر یحییٰ نے نے روانہ ہونے سے پہلے سائیں سے کہا، ’’کل میں تجارتی قافلے کے ساتھ شہر بار گرد جا رہا ہوں۔ تم بھی میرے ساتھ چلو گے۔ تمہیں پہلے بتا رہا ہوں تاکہ تم تیاری کر رکھو۔ میں وہاں کی منڈی میں تمہیں فروخت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
سائیں خاموش بیٹھا اپنے مالک کی بات سن رہا تھا۔ وہ کسی گہری سوچ میں مستغرق تھا۔
یہ سنتے ہی اس کے ہونٹوں پر پھیکی اور بے جان سی مسکراہٹ پھیل گئی، ’’آقا! ابھی سے تنگ آ گئے ہو مجھ سے؟ کچھ دن اور آزما لو۔‘‘
یحییٰ غصے سے بولا، ’’بہت آزما لیا تمہیں۔ بہت نافرمان اور احسان فراموش ہو تم۔ تمہیں اچھا کھانا ، اچھا لباس اور آرام کیلئے اچھی جگہ دی لیکن تم اپنے آقا کی مسلسل نافرمانی کرتے رہے— میرا کام چستی اور نیک نیتی سے نہیں کیا مگر خیر، میں پھر بھی چاہتا ہوں کہ تمہیں اس کے ہاتھ بیچوں جو تم سے زیادہ شفقت کرے۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہیں مجھ سے بہتر مالک ملے۔‘‘
سائیں تھوڑی دیر خاموش رہا جیسے کسی گہری سوچ میں غرق ہو۔ اس دوران وہ مسلسل زمین کو گھورے جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور لمبی سانس حلق میں اُتار کر بولا، ’’میرے آقا! میں مانتا ہوں کہ میں ایک کچے گھر میں رہتا تھا، پھٹے پرانے کپڑے پہنتا تھا، لیکن تم نے مجھے اپنے محل میں رکھا۔ پہننے کو اچھی پوشاک دی لیکن میرے آقا! تم غلامی کی اذیت کو نہیں جانتے ہو۔ غلامی انسان سے اس کی روح چھین کر اسے ایک بے جان جسم بنا دیتی ہے — بے جان جسم کے لیے کسی چیز میں لذت نہیں ہوتی۔ چاہے وہ محل ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
یحییٰ کو اس کی باتوں پر بہت غصہ آ رہا تھا لیکن وہ صبر کے گھونٹ پی گیا۔ اس نے سوچا، ’’جس کو کچھ دن بعد بیچ دینا ہے، اس پر وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘ بجائے تلخی کے، وہ کمال تحمل سے بولا، ‘‘میرے پاس اور بھی غلام رہے ہیں۔ میں انہیں اچھا کھانا اور اچھے کپڑے دیا کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ مجھ سے خوش رہے۔‘‘
یحییٰ کی بات پر سائیں نے کہا، ’’آقا! ان غلاموں کا آپ نے جسم اور روح دونوں خریدے ہوں گے لیکن میرا آپ نے جسم خریدا ہے ، روح نہیں۔ جس انسان کے اندر روح زندہ ہو، وہ غلامی کو قبول نہیں کرسکتا۔ یہ محل، یہ زرق برق لباس، یہ ست رنگے دسترخوان اس آزادی کا نعم البدل نہیں ہو سکتے ۔‘‘
یحییٰ اس کی باتوں سے بہت تنگ ہو رہا تھا۔ اضطراب اس کے چہرے پر نمایاں تھا۔
وہ بولا، ’’اگرچہ تم بہت نافرمان ہو، لیکن میں پھر بھی چاہتا ہوں کہ تمہیں کسی اچھے بندے کے ہاتھ بیچوں — تمہیں کوئی رحم دل آقا ملے۔‘‘
خاموش اور اداس رہنے والاسائیں اس بات پر ہنس پڑا، ’’میں آپ کی اخلاقیات سمجھ نہیں سکا— کبھی انسانوں کو غلام بنانے والابھی رحم دل ہوسکتا ہے؟ دوسروں کی روح اور جسم کو بیچ کر اپنے لیے آسانیاں پیدا کرنے والاانسان اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟ ہر آقا اپنے غلاموں کا سارا خون نچوڑ لیتا ہے اور پھر چند قطرے اس کے جسم میں لوٹا کر رحمدلی اور سخاوت کی داد حاصل کرتا ہے۔ میرے آقا! میں سمجھتا ہوں کہ اپنے جیسے انسانوں کو غلام بنانے والااور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والاانسان ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
اس کی باتیں سن کر یحییٰ کے تن بدن میں آ گ لگ گئی ۔ اس نے بے قابو ہو کر اسے ایک تھپڑ جڑ دیا، ’’بند کرو یہ بکواس!‘‘
اس زوردارتھپڑ کا سائیں پر خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔ اس کے چہرے پر لمحہ بھر کو برہمی کا تاثر ابھرا جو فوراً معدوم ہو گیا۔ چہرہ پہلے کی طرح اسپاٹ تھا —ایک بے جان مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی۔
چند لمحے لاتعلق سا رہ کر اپنے آقا سے مخاطب ہوا، ’’کسی آقا کے پاس انسان کو غلام بنانے کی کوئی دلیل نہیں ہوتی— کوئی جواز نہیں ہوتا— اس لیے وہ تشدد پر اتر آتا ہے۔‘‘
یحییٰ کا غصہ فزوں تر ہو گیا۔ اس نے سائیں کو گلے سے پکڑ کر تھپڑوں کی بارش کر دی۔ جاتے جاتے اس پر نفرت سے تھوک دیا۔ کہا، ’’حرامی کے بچے! تیار رہنا۔ ہم کل صبح سویرے ہی شہر بار گرد کے لیے نکل جائیں گے۔‘‘
سائیں نے سرد، بے تاثر اور لاتعلق نظروں سے اسے دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔
سائیں اداس تھا۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی لیکن اسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ اسے پھر ایک سفر درپیش تھا۔ غلامی سے غلامی تک کا سفر۔ ایک آقا سے دوسرے آقا کے ہاتھ تک کا سفر۔ وہ اپنے آپ ہی ہنسا، ’’ہا ہا! رحم دل آقا کی تلاش میں آزادی کا سفر—‘‘ کمرے میں اس کا یکبارگی دم گھٹنے لگا تو وہ باہر آ گیا۔ ہر طرف چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ لیکن اس کے دل میں گھپ اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ اس کا ماضی اس کے سامنے گھومنے لگا تھا۔
سائیں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے باپ نے اس کی اچھی تعلیم و تربیت کی تھی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ شاہی فوج میں بھرتی ہو گیا اور اپنی محنت سے تھوڑے ہی عرصے میں اہم عہدے پر فائز ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
اس نے کئی جنگیں کامیابی کے ساتھ لڑیں لیکن پھر ایک جنگ میں شاہی فوج کو شکست ہو گئی۔ وہ دشمن کے نرغے میں آ گیا— بہادری سے لڑا۔ وہ لڑتے لڑتے مر جانا چاہتا تھا کیونکہ اسے علم تھا کہ اس کی فوج کو شکست ہو چکی ہے اور گرفتاری کے بعد اسے غلام بنا لیا جائے گا۔وہ غلامی پر موت کو ترجیح دیتا تھا۔ چونکہ دشمن کو اس کی قدر و قیمت کا اندازہ تھا، اس لیے سپاہیوں نے اسے زخمی کر کے زندہ گرفتار کر لیا۔ وہ کچھ عرصہ پابہ زنجیر رہا، پھر زخموں کے بھرنے پر غلاموں کی منڈی میں اچھے داموں بیچ دیا گیا۔
یحییٰ سائیں کو لیے علی الصباح تجارتی قافلے میں شریک ہو کر شہر بار گرد کی طرف روانہ ہو گیا۔ سائیں اپنی روایتی خاموشی کے ساتھ اس کے ہمراہ چل رہا تھا۔ باقی تاجروں نے بھی اپنے اپنے غلام ساتھ لیے ہوئے تھے جو سفر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ آپس میں بات چیت بھی کر رہے تھے اور اپنے آقائوں کی باتیں بھی توجہ سے سن کر ان پر عمل کر رہے تھے۔
لیکن سائیں خاموش تھا۔ اس کا چہرہ تاثرات سے یکسر آزاد تھا۔
اس قافلے میں شامل کچھ تاجر جن میں اس کا آقا بھی شامل تھا، پہلی مرتبہ شہر بار گرد جا رہے تھے۔ انہیں منزل پر جلدی سے جلدی پہنچنے کا اشتیاق تھا۔ قافلے میں شامل پرانے تاجر کئی دفعہ شہر بار گرد جا چکے تھے — وہ نوجوان تاجروں کو شہر کے دلچسپ قصے سنا رہے تھے— کوئی شہر کے خوب صورت باغوں اور پھولوں کا تذکرہ کر رہا تھا تو کوئی خوبصورت ندی نالوں کا۔ اکثر غلام بھی اس شہر کی یاترا پہلے سے کر چکے تھے۔وہ وہاں کے غلاموں اور غلاموں کی منڈی کی بڑی تعریفیں کر رہے تھے، ’’ہم تو اپنے آقا کی اتنی نمک حلالی نہیں کرتے جتنی شہر بار گرد کے غلام کرتے ہیں۔ وہ بہت محنتی اور ایماندار ہیں۔‘‘
سائیں ان ساری باتوں سے بے نیاز سر جھکائے چل رہا تھا۔ اس کے لیے سارے راستے اور سارے لوگ اجنبی تھے۔ اس کے لیے نہ منزل آشنا تھی نہ راستے۔
شام ہونے سے پہلے ہی قافلہ شہر میں داخل ہو چکا تھا۔ شہر کی ترقی دیکھنے کے لائق تھی— ہر طرف خوب صورت چشمے، فوارے، روشنیاں، ندی نالے اور بلند و بالاعمارات ایستادہ تھیں۔ ڈوبتے سورج کی زرد روشنی نے شہر کے حسن میں اضافہ کر دیا تھا۔ ہر طرف نوجوان خوش گپیاں کرتے ہوئے چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔ قافلے نے شہر کے مضافات میں پڑائو کیا۔
یحییٰ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اپنے دوست صالح کی سرائے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اس کی سرائے شہر کی بڑی سرائوں میں شمار کی جاتی تھی۔ اس لیے یحییٰ کو آسانی سے مل گئی۔
صالح اپنے پرانے دوست سے مل کر بہت خوش ہوا۔ یحییٰ سرائے کی رونق دیکھ کر بہت متاثر ہواتھا۔ ادھر اُدھر نوجوان کے جتھے گپیں لگا رہے تھے۔ چائے اور قہوے کے دور چل رہے تھے۔ کچھ لوگ کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ چراغوں کی روشنی اور ہلکے دھوئیں نے ماحول کو سحر زدہ بنا دیا تھا۔ یحییٰ نے صالح سے کہا، ’’ماشاء اللہ — تمہاری سرائے بہت اچھی ہے۔ لوگوں کا رش دیکھ کر لگتا ہے کہ تم خوب کمائی کر رہے ہو۔‘‘
صالح نے جواب دیا، ’’اللہ کا شکر ہے۔ بہت اچھی گزر بسر ہو رہی ہے۔ میری اپنی ذاتی بڑی حویلی ہے— سواری کے لیے میں نے خوبصورت گھوڑے بھی رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
یحییٰ کے ذہن میںبہت زیادہ سوال مچل رہے تھے۔ اس نے پوچھا، ’’صالح! شہر کی ترقی دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں کے لوگ بہت محنتی ،ہنر منداوربہت باکمال ہیں۔‘‘
صالح نے اس کی بات سن کر ایک بلند قہقہہ لگایا اور کہا، ’’یہاں کے لوگ تو بہت نکمے اور نااہل ہیں۔ ان کو کوئی ہنر بھی نہیں آتا ہے— یہ لوگ کاشتکاری اور باغبانی بھی نہیں کر سکتے۔ یہاں کے نوجوان دن چڑھے اٹھتے ہیں اور پھر شام تک باغوں اورسرائوں میں آوارہ گردی کرتے رہتے ہیں— چائے قہوہ پیتے ہیں۔ کوئی کام نہیں کرتے۔‘‘
یحییٰ نے حیرانی سے کہا، ’’تم مذاق تو نہیں کر رہے ہو؟ لوگ اتنے نکمے ہیں تو پھر شہر نے ترقی کیسے کی؟‘‘
صالح نے جواب دیا، ’’یہاں کے غلام بہت محنتی، فرمانبردار اور ہنر مند ہیں۔ یہ بے چارے دن رات آقائوں کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔ تمہیں تو پتا ہو گا کہ شہر بار گرد پوری دنیا میں اچھے غلاموں کیلئے مشہور ہے۔‘‘
وہ دونوں باتیں بھی کر رہے تھے اور کھانا بھی کھا رہے تھے۔ اسی دوران سرائے والا لڑکاچائے لے آیا تھا۔ یحییٰ نے ایک گھونٹ چائے حلق میں اُتارتے ہوئے کہا، ’’غلام تو ہمارے ہاں بھی بہت ہیں۔ ہم ان پر سختی بھی کرتے ہیں۔ بوقتِ ضرورت جسمانی تشدد بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ نہ تو اتنا کام کرتے ہیں اور نہ ہی فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ عجیب سی ہڈ حرامی اور سرکشی ان غلاموں میں پائی جاتی ہے۔‘‘
صالح اس کی باتیں سن کر زیرِ لب مسکرا رہا تھا۔ اس نے چائے کا گھونٹ بھرا اور کہا، ’’یہاں کے لوگوں نے چند دانشور پالے ہوئے ہیں جو ہنر تو کوئی نہیں جانتے، لیکن چکنی چپڑی باتیں کرنے کے ماہر ہیں۔ یہاں مذہبی پیشوائوں کا بھی ایک گروپ ہے جو چالاکی میں اپنی مثال آپ ہے۔ ان دانش وروں اور مذہبی پیشوائوں نے مکر و فریب کا ایک جال بن رکھا ہے جس سے یہ غلام نہیں نکل سکتے۔‘‘
یحییٰ کو اس کی باتوں میں دلچسپی محسوس ہو رہی تھی۔ ابھی بھی اس کے ذہن میں یہ سوال مچل رہا تھا، ’’سختی کیے بغیر بھی غلاموں سے کام لیا جا سکتا ہے؟‘‘
صالح نے بھی اس کے ہونٹوں پر مچلتا ہوا سوال پڑھ لیا اور بولا، ’’سختی کرنے سے آپ غلاموں سے کچھ وقت کے لیے تو کام لے سکتے ہیں، لیکن مستقل طور پر کام لینے کے لیے مکر و فریب بہت ضروری ہے۔‘‘
سرائے میں لوگوں کا رش بڑھ چکا تھا۔ ہر طرف سے بھانت بھانت کی آوازیں آ رہیں تھیں۔ وہ دونوں اُٹھ کر سرائے کے عقبی طرف والے باغیچے میں آ گئے تھے۔ یہاں تنہائی اور مدھم چاندنی میں وہ دونوں سکون سے باتیں کر سکتے تھے— صالح نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’یہاں کے دانشور بہت چالاک ہیں۔ انہوں نے غلاموں کو بے وقوف بنانے کے لیے جھوٹے فلسفے بنائے ہوئے ہیں۔ خود محنت نہیں کرتے لیکن غلاموں کو محنت کی عظمت کے جھوٹے قصے سناتے ہیں۔ آقا کی فرمانبرداری اور اطاعت کے قصے مسلسل غلاموں کے ذہن میں ڈالتے رہتے ہیں۔ آقا کی فرمانبرداری پر غلاموں کو ملنے والے انعامات کے ہزاروں قصے ان کو ازبر ہیں جبکہ دوسری طرف محنت، مشقت سے دور مذہبی پیشوا ان سے بھی زیادہ چالاک ہیں۔‘‘
یحییٰ نے ایسی باتیں پہلی دفعہ سنی تھیں۔ اس نے تجسس سے پوچھا، ’’مذہبی پیشوا کیسے چالاکی کرتے ہیں؟‘‘
صالح نے ایک زیرِ لب تبسم سے اسے دیکھا اور بولا، ’’وہ آقا کی اطاعت اور فرمانبرداری کو اوپر والے کا حکم بتاتے ہیں— آقا کی نافرمانی کو اوپر والے کی نافرمانی کہتے ہیں۔ آقا کی فرماں برداری کو وہ ثواب کا درجہ دیتے ہیں۔ آقا کی فرمانبرداری اور اطاعت پر ملنے والے انعامات کا ذکر وہ تواتر سے کرتے رہتے ہیں۔‘‘
باہر باغیچے میں فرحت بخش ہوا چل رہی تھی۔ پھولوں کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر میں ایک ملازم ان کے لیے قہوہ لے آیا تھا۔ یحییٰ نے قہوہ کی چسکی لیتے ہوئے کہا، ’’لیکن ان غلاموں میں کوئی تو اس مکر و فریب کو سمجھتا ہو گا؟‘‘
صالح نے جواب دیا، ’’ہاں! کچھ ایسے غلام ہوتے ہیں۔ وہ آواز اٹھاتے بھی ہیں لیکن مذہبی پیشوا ایسے غلاموں کو اوپر والے کا نافرمان کہہ کر سزا دیتے ہیں۔ جب ایک کو عبرت ناک سزا ملتی ہے تو پھر کئی کئی سال شہر میں کوئی آواز نہیں اٹھتی۔‘‘
دونوں کوباتیں کرتے ہوئے وقت کے گزرنے کا مطلق احساس نہیں ہواتھا۔ رات کافی بیت چکی تھی۔ اکثر لوگ سرائے سے اُٹھ کر واپس گھروں کو جا رہے تھے۔ یحییٰ اصل بات زبان پر لے آیا، ’’میں بھی ایک سرکش اور نافرمان غلام فروخت کرنے کے لیے ساتھ لایا ہوں تاکہ یہاں سے کوئی اچھا اور فرمانبردار غلام خرید سکوں۔ اسی سلسلے میں تمہارا مشورہ بھی مجھے درکار ہے۔‘‘
صالح کسی گہری سوچ میں تھا۔ بولا، ’’میں فرمانبردار اور محنتی غلام تو تمہیں خرید دوں گا لیکن یہی غلام تمہارے ہاں جا کر کچھ عرصے بعد سرکش ہو جائے گا — تمہارے پاس ایسے چالاک اور مکر و فریب دینے والے دانشور اور مذہبی پیشوا نہیں ہیں۔‘‘
یحییٰ نے اثبات میں سر ہلایا جیسے اس کی بات سے متفق ہو۔ رات کافی گزر چکی تھی — وہ دونوں سرائے کے ساتھ متصل کمرے میں باتیں کرتے کرتے سو گئے تھے۔
اگلے دن وہ سائیں کو لے کر غلاموں کی منڈی میں پہنچ گیا۔ ہر طرف بکنے والے اور خریدے جانے والے غلاموں کا ہجوم تھا۔ کچھ دیر کے لیے اسے اس کام سے گھن آنے لگی — اسے غلاموں پر ترس آنے لگا لیکن تھوڑی دیر بعد ہی اس کے اندر کا تاجر اس کے ضمیر پر غالب آ گیا تھا۔ اس کے ذہن میں اس کے مرحوم باپ کے الفاظ گونجنے لگے، ’’منافع کمانے کے لیے انسانوں پر رحم کرنے کی نہیں بلکہ مکر و فریب کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
اس نے منڈی میں سائیں کو اچھے داموں کے عوض فروخت کردیا ۔ سائیں کے نئے آقا نے یحییٰ سے کہا، ’’مجھے یہ غلام سرکش اور باغی لگتا ہے۔ مگر کوئی بات نہیں ہے۔میں ایسے لوگوں کو فرماں بردار بنانے میں مہارت رکھتا ہوں۔ میں اسے سیدھا کر لوں گا۔‘‘
سائیں نئے آقا کے پہلو میں کھڑ ا اس کی باتیں سن رہا تھا۔وہ خاموشی سے سر جھکائے کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نہ کوئی چمک تھی اور نہ چہرے پر کوئی ملال— وہ دور خلائوں میں ایک چڑیا کو آزادی سے اُڑتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔
وہاں سے روانہ ہوتے وقت یحییٰ بھی اداس تھا۔ اس نے سائیں سے کہا، ’’زندگی موت کا کوئی پتہ نہیں۔ کوئی غلطی ہو تو معاف کر دینا۔ میری دعا ہے کہ تم نئے آقا کے ساتھ خوش رہو۔‘‘
سائیں کی آنکھ سے آنسو ٹپکا اور بے رحم مٹی میں جذب ہو گیا۔ ایک پھیکی مسکراہٹ سے اس نے کہا، ’’میرے آقا! مجھے کسی سے گلہ نہیں۔ بس اپنے آپ سے گلہ ہے۔ آپ اپنے گھر، اپنی منزل کو جا رہے ہیں، اللہ خیریت سے آپ کو پہنچائے— ہم غلاموں کی تو کوئی منزل نہیں ہوتی۔ ساری زندگی سفر اور راستوں میں طے ہوتی ہے— ایک اذیت ناک سفر ۔پھر ایک دن ہم جیسے غلام کسی تاریک غلام گردش میں مارے جاتے ہیں اور ایک بے نام قبر میں دفن ہو جاتے ہیں— نہ کوئی نام ہوتا ہے اور نہ نشان۔ مزار تو آقائوں کے بنتے ہیں۔ چراغاں تو انہی کی قبروں پر ہوتا ہے۔‘‘
اس کی آنکھوں میں رکے آنسو ٹپ ٹپ نیچے گرنے لگے تھے۔ آنسوئوں سے مٹی نم ہو گئی لیکن کوئی آگ نہیں لگی تھی کیونکہ یہ ایک غلام کے آنسو تھے، کسی آقا کے نہیں۔ کسی آقا کے آنسو ہوتے تو ہر طرف ہلچل مچ جاتی۔
سائیں کی زندگی کا نیا دور شروع ہو گیا تھا۔ بس صرف آقا بدلا تھا۔ باقی شب و روز وہی تھے۔ وہی زنجیریں۔ وہی غلامی کی اذیت۔
پرندوں کو آزاد فضائوں میں اُڑتے ہوئے دیکھ کر اس کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔ بلبل کی چہچہاہٹ اسے اداس کر دیتی تھی۔
زندگی ایک ڈگر پر چل رہی تھی۔ روزانہ محنت، مشقت، آقا کی خدمت، تین وقت کا کھانا اور رات کو سو جانا۔ بس پہلے سے صرف فرق اتنا تھا کہ کام کےدوران کچھ دیر غلاموں کو آرام دیا جاتا تھا جس میں چند واعظ درس دیتے تھے۔ چکنی چپڑی باتیں کرنے والے چند دانش ور جو تھوڑی دیر بھی دھوپ برداشت نہیں کر سکتے تھے، وہ غلاموں کو محنت کی عظمت پر درس دیتے تھے۔ خوبصورت زندگی کے خواب دکھاتے تھے۔ وہ چالاک لوگ سیاہ کو سفید دکھانے کے ماہر تھے۔
آقا کے کارندے غلاموں کی نگرانی کرتے تھے جبکہ آقا کبھی کبھی خود آتا تھا۔ وہ بھی انتہائی چالاک تھا۔کسی دن وہ ایک غلام کو معمولی انعام دیتا اور کہتا، ’’تم میرے لیے انتہائی قیمتی ہو۔ تمہاری محنت اور فرمانبرداری پر مجھے فخر ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ باقی لوگ بھی اسی طرح کام کریں اور انعام لیں۔‘‘
بس پھر کیا ہوتا تھا، اس انعام کے لالچ اور آقا کی خوشنودی کے حصول میں باقی غلام اپنی محنت و مشقت بڑھا دیا کرتے تھے۔
سائیں کوئی پیدائشی غلام نہیں تھا بلکہ اسے حالات کی ستم ظریفی نے غلام بنایا تھا۔ وہ تو بادشاہوں کے ساتھ رہا تھا۔ اس نے آزادی دیکھ رکھی تھی۔ وہ آقا، دانش وروں اور مذہبی پیشوائوں کی ساری چالاکیوں کو سمجھتا تھا جبکہ اس کے ساتھی غلام نسلوں سے غلام چلے آ رہے تھے۔ انہوں نے آزادی کبھی دیکھی ہی نہیں تھی اور نہ ہی وہ آزادی کا مطلب سمجھتے تھے۔ وہ آقا کی باتوں اور خوابوں پر بڑے خوش ہوتے اور پھر انہی باتوں پر بحث و مباحثہ کرتے تھے۔ نئی سوچ اور نئی باتیں ان کے ذہن میں آتی ہی نہیں تھیں۔
مذہبی پیشوا بھی باقاعدگی سے واعظ کرنے آیا کرتے تھے— وہ آقا کی نافرمانی پر ملنے والی سزائوں کا ذکرکرتے جس سے غلاموں کے چہرے خوف سے زرد ہو جاتے جبکہ سائیں ان باتوں پر مسکراتا رہتا۔ آقا کے نافرمانوں کو وہ خدا کے عذاب سے بھی ڈراتے تھے، ’’اپنے آقا کی نافرمانی کرنے والوں کے جسموں میں اللہ قیامت کے دن تیز کیل ٹھونکے گا۔ ان پر نہ ختم ہونے والاعذاب ہو گا۔‘‘
ایسی باتوں پر غلاموں کے چہروں پر خوف سے پسینہ چمکنے لگتا تھا۔
سائیں بہت ہی کم بولتا تھا البتہ وہ ساتھی غلاموں کی سوچ اور باتوں پر کڑھتا رہتا تھا۔ جب کوئی اس سے نام پوچھتا تھا تو وہ کہتا، ’’غلاموں کا کوئی نام و نسب نہیں ہوتا۔ ان کی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔ وہ بس غلام ابن غلام ابن غلام ہوتے ہیں۔‘‘
سائیں اپنی دنیا میں مگن رہتا تھا۔ اس نے بال کٹوانے بھی چھوڑ دیے تھے۔ اسی وجہ سے کانوں کے نیچے تک اس کے بڑے بڑے بال تھے جو ہمیشہ الجھے رہتے تھے۔ اس کی سمندر جیسی گہری نیلگوں آنکھوں میں ہمیشہ اداسی ثبت رہتی تھی۔
شام کو جب کام کاج کے بعد سارے غلام اکٹھے ہوتے تو آپس میں بہت خوش گپیاں کرتے لیکن سائیں ان کی باتوں میں کم ہی دلچسپی لیا کرتا تھا۔ ان غلاموں کی ساری باتیں آقا اور ان کے زر خرید دانشوروں کے فلسفے کے گرد گھومتی تھیں جن کو وہ جھوٹ اور فریب کے علاوہ کچھ نہیں سمجھتا تھا۔
کبھی کبھار وہ اپنے ساتھیوں کو آزادی کا سبق سمجھانے کی کوشش ضرور کرتا تھا جس پر وہ سب مل کر اس کا خوب مذاق اڑایا کرتے تھے۔
کافی عرصہ گزر گیا تھا کہ وہ ہنسا ہی نہیں تھا۔ یہی سوال ایک ساتھی نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا، ’’آزادی کی تڑپ مجھے بے چین اور اداس رکھتی ہے۔ میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک آزاد نہیں ہوتا تب تک ہنسوں گا نہیں۔‘‘
ایک ساتھی نے از راہِ مذاق کہا، ’’جب آزادی ملے تو ہمیں اپنے ساتھ ضرور لے جانا۔‘‘
پورے کمرے میں اس بات پر سب کے قہقہے گونج اٹھے۔ وہ سارے آزادی اور غلامی کے فلسفے سے ہی ناآشنا تھے۔ آقا اور اس کے دانشوروں نے ان کے ذہنوں میں آقا کی محبت اور فرماں برداری کے وہ سبق بھر دیے تھے جو کسی اور سوچ کو جگہ ہی نہیں دیتے تھے۔
ایک بوڑھے غلام نے کہا، ’’سائیں نیا آیا ہے، اس لیے ایسی باتیں کرتا ہے۔ اسے دنیا کی سمجھ ہی نہیں ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم آزاد ہیں۔ ہمارا آقا بہت اچھا ہے۔ ہم اچھا کھانا کھاتے ہیں ۔ اچھا لباس پہنتے ہیں۔ آقا نے ہمیں رہنے کو بہترین جگہ دی ہوئی ہے۔ جب کوئی اچھا کام کرے تو انعام بھی دیتا ہے۔ ہاں! اگر کوئی نافرمانی کرے تو سزا تو اسے ملنی ہی چاہیے۔‘‘
اس بات پر سائیں سر پیٹ کر رہ گیا۔ اس نے دل میں سوچا، ’’یہ لوگ کپڑے، جوتے، انعام اور روٹی ملنے کو ہی آزادی سمجھتے ہیں۔ لعنت ہے ان کی سوچ پر۔‘‘
اکثر ساتھی غلام اس کی باتوں کا کم ہی اثر لیا کرتے تھے بلکہ جہاں تک ہو سکتا، اسے مذاق کا نشانہ ہی بنایا کرتے تھے— وہ اس کی تضحیک کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ وہ ان کے ردعمل کو دیکھ کر اکثر سوچا کرتا ، ’’بے شعوری اور لاعلمی بھی کتنی بڑی نعمت ہے۔ ان لوگوں کو آزادی اور غلامی کے فرق کا سرے سے علم ہی نہیں ہے، اس لیے ہر وقت خوش رہتے ہیں۔‘‘
بس زندگی ایک ڈگر پر چل رہی تھی۔ کولہو کے بیل کی طرح — صبح سے شام تک— آقا کی خدمت اور اس کی نازبرداریاں اٹھانا ، پھر رات کو تھکے ہارے سو جانا— کچھ دنوں سے تو رات کا سکون بھی ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ اکثر آقا کی نازک اندام بیٹی رات کو ٹھنڈی ہوا میں بگھی کی سیر کو نکلا کرتی تھی۔کچھ غلاموں کو نیند سے بیدار کر دیا جاتا تھا۔ یہ غلام بگھی کے ساتھ شہر میں آقا زادی کو سیر کرانے جایا کرتے تھے۔ غلام اس پر بہت خوش تھے۔ رات کو جب یہ غلام خدمت بجا لانے کے بعد واپس اپنے مستقر میں آتے تو فخر سے کہتے ، ’’آقا زادی نے خوش ہو کر ہمیں شاباش دی۔‘‘
غلاموں کو کھانا اور کپڑے آقا کے مقابلے میں معمولی ملا کرتے تھے لیکن پھر بھی وہ بہت فخر سے کہتے، ’’یہ تو خدا کی تقسیم ہے۔ آقا اور غلام کبھی برابر نہیں ہو سکتے ۔ نہ غلام آقا جیسے کپڑے پہن سکتا ہے اور نہ اس جیسا کھانا کھا سکتا ہے۔ آخر احترامِ انسانیت بھی کوئی چیز ہے۔‘‘
وہ غلاموں کو سمجھا سمجھا کر تھک گیا تھا لیکن ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔پھر بھی وہ اپنی سی کوشش کرتا رہتا تھا۔ وہ سمجھاتا، ’’آقا کی یہ ساری عیاشیاں ہماری محنت کی وجہ سے ہیں۔ہمیں محنت کا صلہ کچھ بھی نہیں ملتا — ہماری محنت کا پھل تو آقا کھا جاتا ہے۔‘‘
اس کا سمجھایا بے کار جاتا تھا کیونکہ ساتھی غلاموں کی سوچ ٹس سے مس نہیں ہوتی تھی۔
سائیں اکثر افسردہ رہا کرتا تھا۔ کوئی بھی اس کی بات سمجھنے والانہیں تھا۔ سوائے ایک نوجوان غلام ارجمند کے جس میں آزادی کی تڑپ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔
ایک دن ارجمند نے اس سے پوچھا، ’’سائیں! ہم کبھی آزادی حاصل کر بھی سکتے ہیں؟‘‘
سائیں اس کے سوال پر گہری سوچ سے چونکا تھا۔ ایک لحظہ توقف کے بعد اس سے مخاطب ہوا، ’’آقائوں اور کارندوں کی تعداد تو تھوڑی سی ہے جبکہ ہم سیکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ طاقت کے زور پر تو وہ ہمیں اپنا ماتحت نہیں رکھ سکتا۔ ہم پر قابو نہیں پا سکتا۔ اگر ہم بپھر جائیں، باغی ہو جائیں تو اس کے بازوئوں میں اتنا دم نہیں ہے کہ وہ ہمیں جانے سے روک لے کیونکہ ہم طاقت میں ان سے کہیں زیادہ ہیں۔‘‘
ارجمند نے پوچھا، ’’پھر ہم ان کو زیر کیوں نہیں کرتے؟‘‘
سائیں بولا، ’’آقا بڑا چالاک ہے۔ وہ ہم غلاموں کو اکٹھا نہیں ہونے دیتا بلکہ تقسیم کرتا رہتا ہے۔ شہر کے سب آقا ہماری سوچوں کو اپنا غلام رکھتے ہیں۔‘‘
ارجمند نے ایک آہ بھری اور کہا، ’’پھر ہم آقا کے فریب سے کیسے نکل سکتے ہیں؟‘‘
ایک دلفریب مسکراہٹ سائیں کے چہرے پر پھیل گئی۔ وہ بولا، ’’ہم وہی سوچتے ہیں جو آقا ہمیں کہتا ہے۔ روز اس کے قصیدے گاتے ہیں اور اس کی اچھائیوں کی تعریف کرتے ہیں۔ ہم اس کی سوچ کے دائرے میں قید رہتے ہیں۔ یہ سارے فلسفے، گانے، ترانے، ہمارے آقا نے ہمیں بے وقوف بنانے کیلئے بنا رکھے ہیں۔ یاد رکھو! جب تک ہم آقا سے مختلف نہیں سوچتے، آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘
ارجمند کی صورت میں سائیں کو ایک اچھا دوست اور ہم خیال ساتھی مل گیا تھا۔ وہ اس کی باتوں کو سمجھتا تھا جبکہ دیگر غلام اپنی سوچ اور ڈگر سے ہٹنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے تھے۔
یہ سوچ، گانے، ترانے، فلسفے تو صدیوں کا سفر طے کر چکے تھے۔ یہ نسل در نسل ایک آقا سے دوسرے آقا کو منتقل ہو رہے تھے — چالاک آقا یہی فلسفے، وفاداری کے ترانے، انعام و اکرام کی بخششیں اور تقسیم کے فارمولے ان کے محکوم ذہنوں میں انڈیل دیتے تھے۔
غلام مرتے دم تک اس فریب اور سحر سے نکل نہیں پاتے تھے اور کولہو کے بیل کی طرح چکراتے ہوئے کسی تاریک غلام گردش میں مارے جاتے تھے— کچھ بوڑھے غلام آخری عمر میں آقا کے اس فریب کو ضرور سمجھ جاتے تھے لیکن اس وقت وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتے تھے۔ ان کی ہمتیں جواب دے چکی ہوتی تھیں۔
سائیں کی نیند کافی کم ہو چکی تھی ۔ اس کا وزن بھی دن بدن کم ہوتا جا رہا تھا۔ وہ آنکھیں بند کیے ایک کونے میں پڑا رہتا تھا۔
اکثر غلام رات کو آنکھیں بند کر کے مسکراتے رہتے تھے۔ ایک دن سائیں نے ایک غلام سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ مسکرا کر بولا، ’’آقا جو خواب دکھاتا ہے، میں اس کو آنکھوں میں بسائے رکھتا ہوں۔ تم نے بھی سنا ہو گا کہ آقا نے انعام کا اعلان کیا ہے۔ میں بھی اس انعام کا خواب آنکھوں میں سجائے پھرتا ہوں۔ اس خواب کو جاگتی آنکھوں دیکھ کر مسکرانے لگتا ہوں۔‘‘
سائیں نے اس پر ایک ترحم آمیز نگاہ ڈالی اور خاموش ہو گیا—
اس کی آزادی کیلئے تڑپ بڑھ رہی تھی لیکن کوئی شخص اس کا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھا۔ سب آقا، شہزادے اور شہزادیوں کی مدح سرائی پر ہمہ وقت لگے ہوئے تھے— کوئی کسی شہزادی کا پرستار تھا تو کسی کی آنکھوں میں کوئی شہزادہ بسا ہوا تھا۔ وہ ان کی باتیں دہراتے رہتے تھے اور ان کی تعریف کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔
سائیں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں کڑھ رہا تھا۔ اس کا اضطراب بہت بڑھ گیا تھا۔ اس کے کان دوسرے غلاموں کی باتوں پر لگے رہتے تھے۔ وہ ان کی سوچ میں تبدیلی کے انتظار میں تھا لیکن غلام ابھی تک وہی سوچ رہے تھے جو آقا انہیں کہتا تھا۔ آزادی ابھی کوسوں دور تھی—
سائیں اب بہت مایوس رہنے لگا تھا۔ وہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ بس ایک کونے میں خاموش پڑا رہتا تھا۔ اکثر آدھی رات کو جب سارے بے خبر نیند کے مزے لوٹ رہے ہوتے تو اس کی مدھم مدھم سسکیاں رات کے سناٹے کی چھاتی پر دستک دیا کرتی تھیں—
لیکن دستکیں بیدار ذہنوں پر تاثر ثبت کیا کرتی ہیں—
خوابیدہ مسکراہٹوں پر نہیں ۔