جان عالم(مانسہرہ)
الائی سے اُوپر سات گھنٹے مسلسل پیدل سفر اور پیٹھ پر لدے سامان نے ہم چاروں کو تقریباً نڈھال کر دیا تھا۔سردی اور گھٹن ہمارے ساتھ ساتھ بڑھ رہی تھی۔ہم نہ چاہتے ہوئے بھی آگے بڑھنے پر مجبور تھے۔الائی سے نکلتے وقت ہمیں لوگوں نے یہی بتایا تھا کہ اس طرف سے آگے جانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔سردی اور بلندی کی وجہ سے یہاں شکار بھی کم ملتا ہے اور پھر اس راستے میں صرف ایک ہی ریسٹ ہاؤس ہے۔اور وہ ریسٹ ہاؤس بہت دُور ہے۔
اس علاقے سے عجیب عجیب روایات منسوب تھیں ۔بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ کوہستان کے اس ویران علاقے میں ابوجہل کے بیٹے کو ایک بڑے پرندے نے آکر اتارا تھا ۔پھر اس نے ایک پری سے شادی کی اور یہاں کی آبادی اسی کی نسل ہے۔بعض لوگ کہتے کہ یہ علاقہ دیو پریوں کا علاقہ ہے۔اس طرف آنے والوں کو عجیب قسم کے حالات و واقعات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
میں نے اس علاقے کی اسی الف لیلوی پراسراریت سے متاثرہو کر اپنے دوستوں کو آمادہ کیا تھا کہ اس دفعہ ہم اس علاقے کی سیر کو جائیں گے۔اور اب اُن سے زیادہ میں خود پشیمان تھا۔
عجیب خاموش سی فضا تھی۔ہم چاروں تقریباًایک گھنٹے سے بغیر کچھ کہے سنے چل رہے تھے۔ہمارے درمیان ایسی خاموشی صرف اسی وقت حائل رہا کرتی جب کسی موضوع پر دو دوست آپس میں لڑ پڑتے اور باقی دو کھل کر کسی کی طرفداری نہ کر سکتے ۔ورنہ اتنی دیر کی خاموشی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔لیکن اُس دن نجانے ایسا کیا تھا کہ ہم ایک گھنٹے سے چل رہے تھے اور کوئی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا۔
سورج پہاڑ کی چوٹی سے دوسری طرف اترا تو شام کے سائے ہماری طرف بڑھنے لگے۔ہم ایک دوسرے کو عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ایک انجانا سا خوف تھا۔جب انسان ایک دوسرے سے ڈرنے لگے تو ڈر کتنا طاقتور ہو جاتا ہے۔ہمارے چاروں طرف ڈر نے مضبوط گھیرا ڈال رکھا تھا۔جیسے کوئی ہمیں گن پوائنٹ پر آگے بڑھنے پر مجبور کر رہا تھا۔
’’کیا بات ہے؟اگر تھک گئے ہو تو تھوڑا بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘میں نے اچانک پیچھے مڑ کر اُن پر آواز پھینکی تو وہ تینوں ڈری ہوئی بکریوں کی طرح میری آواز سے بچے اور کوئی جواب دئے بغیر آگے بڑھنے لگے۔
ٹارچ سب سے پیچھے والے کے ہاتھ میں تھی اور میں سب سے آگے تھا۔درخت عجیب عجیب شکلیں بنا رہے تھے۔اور میرے دوستوں کے ہیولے بھی جیسے مجھ پر جھپٹ رہے تھے۔میں نے اچانک مڑ کر سب کو روک دیا؛
’’ٹھیک ہے․․․․ٹھیک ہے۔سب میری غلطی ہے۔میری ضد تھی کہ اس طرف جائیں گے۔میری ہی ضد تھی کہ راستے میں نہیں رکیں گے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم لوگ احتجاجاً چلتے ہی رہو۔اگر تم رکنا چاہتے ہو تو بتاؤ․․․․․․․!‘‘کچھ دیر خاموشی رہی ۔پھر تیمور نے ناراض سے لہجے میں کہا ؛
’’نہ تو ہمیں ریسٹ ہاؤس کا پتا ہے اور نہ ہی یہ کہ ابھی اور کتنا چلنا پڑے گا۔‘‘
’’شاہ ! تم بھی کچھ کہو۔‘‘میں نے نصیر شاہ کو بھی گفتگو کے الاؤ میں پھینک دیا ۔تاکہ کچھ آگ بھڑکے اور ڈر جلے۔نصیر شاہ درویش بندہ تھا۔اُس نے کبھی کچھ کہا ہی نہیں۔بس جہاں جانا ہے تو جاناہے ،جو کرنا ہے تو کرنا ہے ․․․دوستوں کے لئے اُس نے ہمیشہ اپنی رائے اور وقت کی قربانی دی ہے۔
’’اگر رکنا ہے تو رک لیتے ہیں۔ویسے ابھی چل سکتے ہیں ہم۔‘‘شاہ نے گویا آگے چلنے کا مشورہ بھی دے دیا۔دوسرے دونوں ساتھی خاموشی سے چلتے رہے۔ڈر اب بھی ساتھ تھالیکن ہماری پیٹھ پر لدے سامان سے اتر گیا تھا۔ہم بڑے بڑے قدم اٹھاتے آگے بڑھ رہے تھے۔
’’نو بج چکے ہیں ۔تھوڑا رکتے ہیں اور کچھ کھا لیتے ہیں۔‘‘تیمور نے اچانک رک کر فیصلہ کن انداز میں اپنی پیٹھ سے ڈر سمیت سامان اتار پھینکا۔ہم سب بھی بیٹھ گئے ۔ہوا چیخ رہی تھی۔ہم نے کچھ سینڈوچ وغیرہ لئے ، پانی پیا اور سامان اٹھا کر دوبارہ آگے بڑھنے لگے۔ہوا کی نمی اور کہر میں رات بھیگنے لگی ۔
’’وہ․․․․․․․․․!وہ سامنے دیکھو․․․․․․․!!‘‘چوتھے کی آواز پہلی دفعہ سنائی دی۔وہ تقریباً چیخا تھا۔
پہاڑ کی چوٹی پر لکڑی کابنا ہوا چھوٹا سا ہٹ دیکھ کر سب کی آنکھیں حیرت اور خوشی سے پھیل گئیں۔
’’یہ ․․․․․․․․․!!یہ․․․․․․․․․ریسٹ ہاؤس ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں !ریسٹ ہاؤس ہی ہو گا۔‘‘
’’یہاں کون ہو گا؟‘‘
’’چلو دیکھتے ہیں جا کر۔اگر کوئی نہ ہوا تو بھی ہم یہیں رہیں گے۔‘‘میں نے اُن کے سوالوں کا ایک ہی جواب دیا ۔ اور ہم سب ریسٹ ہاؤس کی جانب بڑھنے لگے۔
دروازے پر دستک دیتے ہوئے مجھے عجیب سا خوف محسوس ہوا۔کہیں اندر سے میری آواز نکلی اور بند دروازے کے اندر دھنستی چلی گئی۔
’’کوئی ہے․․․․!!کوئی ہے․․․․؟ہے․․․․ہے․․․․!!دروازہ کھولو․․․!!کھولو ․․کھولو․․․!‘‘پہلے روشنی دروازے کی درزوں سے جھانکی اور پھر ایک کراہ کے ساتھ بوڑھا دروازہ کھلا ۔سب کی سانسیں رک گئیں۔دروازے میں ڈر کھڑا تھا۔
میلی شاڑھی میں اُس کی سفید داڑھی پر جب چراغ کی روشنی کے چھینٹے پڑے تو اُس کی ایک آنکھ نے ہم چاروں کو ایک ساتھ دیکھا۔
’’کون ہوتم․․․․․؟کہاں سے آئے ہو․․․؟اور یہ کوئی وقت ہے آنے کا؟‘‘
’’مسافر․․․․․․!‘‘
’’یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
’’بابا! ہم تھک گئے ہیں ۔رات گزارنی ہے ۔کیاجگہ مل جائے گی؟‘‘
میں نے اس کے سوالوں پر اپنے سوال کا عصا پھینکا۔
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے ․․․آجاؤ۔لیکن رات جاگ کر گزارنی ہو گی ۔میرے پاس صرف ایک چارپائی ہے اور وہ میری ہے۔‘‘اُس کا لہجہ عجیب سا تھا۔
’’یہ ریسٹ ہاؤس ہے کیا؟‘‘تیمور نے بابا سے جھجکتے ہوئے پوچھا ۔
’’ہاں ․․․․․!لیکن یہاں ریسٹ نہیں ملتا۔‘‘بابا کے معنی خیز لہجے نے سب کو ڈرا دیا۔
ہم نے اپنا سامان رکھا ،جوتے اتارے اور لپٹے ہوئے ٹاٹ کو زمین پر بچھا دیا۔ہم سردی سے کانپ رہے تھے۔
’’ آگ جلادوبابا! ․․․․․․اورکیا چائے ملے گی․․․؟صبح ہم تمہیں خوش․․․․․․․․․․․!!‘‘
’’تم مجھے کیا خوش کرو گے؟تمہارے پاس ہے ہی کیا۔اگر میں تمہیں جگہ نہ دیتا؟‘‘وہ اچانک مسکرایااورہماری جان میں جان آئی۔وہ اٹھ کر اکلوتے کمرے کے عقبی دروازے میں غائب ہو گیا۔ہم چاروں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔لیکن کوئی بولا نہیں۔وہ واپس آیا تو اُس کے ہاتھوں میں لکڑیوں کا ایک گٹھا تھا۔اُسے دیکھ کر مجھے وہ کہانی یاد آنے لگی جس میں بوڑھا باپ اپنے چاروں بیٹوں کو بلا کر لکڑی کا گٹھا دیتا ہے اور کہتا ہے اسے توڑو۔پھر وہ جب نہیں توڑ سکتے تو وہ لکڑی کے گٹھے کو کھول کر ایک ایک لکڑی توڑنے کا کہتا ہے ․․․تو وہ آسانی سے توڑ دیتے ہیں․․․․․․․!!
بابا انگیٹھی میں ایک ایک لکڑی ڈال کر انہیں جلانے کی کوشش کرنے لگا۔کمرے میں دھواں بھر گیا۔آنکھیں جلنے لگیں اور ․․․․․․․․․․․․․پھر سارا کمرہ روشن ہو گیا۔سب کو آگ نے اپنی طرف کھینچ لیا ۔بابا کاچہرہ اب اجنبی نہ رہا۔اور نہ ہی اُس کی اکلوتی آنکھ سے اب ڈر لگتا تھا۔چائے پیتے ہوئے میں نے بابا سے بے تکلف ہوتے ہوئے پوچھا؛’’بابا ! آپ کی عمر کیا ہے اور آپ کب سے ادھر ہیں؟‘‘
’’پتا نہیں ۔تاریخ تو یاد نہیں لیکن میں ایک زمانے سے ادھر ہی ہوں ۔تم اس طرف کیوں آئے ہوکیا لینا ہے تمہیں؟ادھر تو کچھ بھی نہیں ہے․․․․․․․تمہیں کسی نے روکا نہیں تھا کہ اس طرف آنا ٹھیک نہیں؟‘‘
’’بابا! تم اکیلے اس جگہ رہ سکتے ہو تو ہمارا آنا کیوں ٹھیک نہیں؟‘‘تیمور نے اپنی وکالت جھاڑی ۔
بابا مسکرایا ․․․․․․․․․’’ہاں ٹھیک کہتے ہو۔تمہیں اس طرف آنا چاہیے تھا۔تم بے چین روحوں کو ایسی جگہ سے کچھ نہ کچھ مل سکتا ہے۔میں بھی تمہاری ہی طرح کا جوان تھا․․․․․!‘‘
’’بابا! اپنی زندگی کے بارے میں کچھ سناؤ۔رات کا باقی حصہ ہمارے ساتھ تم بھی جاگ کر گزارو۔‘‘میں نے بابا کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے تھوڑی بے تکلفی سے کہا تو بابا کی جھریوں نے اُس کے چہرے پر اور لکیریں مار دیں ۔ بابامسکرا رہا تھا۔
’’میں الائی گاؤں میں رہتا تھا۔میرے باپ نے اپنے باپ کی دشمنی نبھاتے ہوئے تین قتل کئے تھے ۔اور میرا باپ خود بھی اسی دشمنی میں مارا گیا۔مجھے اپنے باپ کے قاتلوں کو مارنا تھااور خود کواُن سے بچانا بھی تھا۔اس لئے میں بہت محتاط رہا کرتا تھا۔اسلحہ تو ویسے بھی اس علاقے والوں کا زیور ہے۔میرے پاس ہر وقت بھرا ہوا طمنچہ رہتا۔‘‘بابا سانس لینے کے لئے رکا تو چوتھے نے بے چین ہو کر پوچھا؛’’پھر کیا ہوا بابا!‘‘
’’میں اُن دنوں بے روزگار تھا ۔آٹھ جماعت تک پڑھایا تھا مجھے میرے باپ نے ۔گاؤں میں مجھ سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی نہ تھا۔دشمنوں کے ڈر کی وجہ سے میرے باپ نے مجھے مانسہرہ بھجوا دیا ۔اور مجھے ایک کوہستانی مہاجر خاندان کے ہاں رہنا پڑا ۔میں بھی اُن دنوں تمہاری طرح ہر اُس چیز کی کھوج میں لگا رہتا تھا جو عجیب ہوتی یا جسے ذہن تسلیم نہ کرتا۔ ‘‘
’’پھر․․․؟‘‘چوتھے ساتھی کی بے قراری دوبارہ اُبلی۔
’’بتاتا ہوں ۔مجھے ایک سگریٹ دو۔‘‘میں نے دہکتے ہوئے انگارے سے سگریٹ سلگایا اور دھویں کے بھبکے کے ساتھ اُسے دیا تو وہ ایک گہرا کش لگا کر بولا۔
’’وہ تمہاری ہی طرح چار تھے ۔الائی میں جب اُن کی ملاقات مجھ سے ہوئی تو انہوں نے کہا کہ وہ اوپر جانا چاہتے ہیں اور انہیں اس علاقے کا کو ئی بندہ گائیڈ چاہیے۔ انہوں نے بھی مجھے تمہاری ہی طرح خوش کرنے کا لالچ دیا تھا‘‘
’’پھر۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
پھر میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ راستے میں انہوں نے بہت سی جگہ پڑاؤ ڈالا۔ وہ جہاں رُکتے کام کرتے۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔؟‘‘ تیمور بے صبری سے بولا۔
ان میں سے ایک شخص کسی سفوف کو جلاتا ۔ ایک عجیب سی بو پھیلتی اور پھر۔۔۔ پھر۔۔۔‘‘
’’پھر کیا۔۔۔۔؟‘‘
’’پھر ہر طرف سانپ نکل آتے۔ حالانکہ اس علاقے میں سانپ نہیں پائے جاتے ۔‘‘
’’وہ ان سانپوں کو پکڑتے تھے؟‘‘ تیمور نے پوچھا۔
’’نہیں۔ وہ صرف ایک خاص قسم کے نیلے سانپ کو ہی پکڑتے تھے۔ اس کی آنکھیں بھی نیلی ہوتی تھیں۔ وہ اسی راستے میں سفوف جلاتے اور نیلے سانپ کو پکڑتے ۔پھر وہ اس سانپ کی آنکھیں نکال کر اس کا سُرما بناتے اور پھر اپنی آنکھوں میں لگاتے ۔ میں نے کئی بار انہیں ایسا کرتے دیکھا تو تجسس پیدا ہوا کہ یہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔میرے استفسار پر انہوں نے کہا کہ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ پھر ایک دن مجھے غصہ آیا اور میں نے اُن پر پستول تان لیا اور انہیں کہا کہ میری آنکھ میں یہ سرمہ لگاؤ۔ انہوں نے مجبوراً میری ایک آنکھ میں سلائی پھیر دی۔ مجھے اس آنکھ سے زمین کے اندر بھی سب کچھ نظر آنے لگا۔‘‘
’’پھر۔۔۔۔۔۔؟؟‘‘
’’پھر۔۔۔۔بابا! پھر کیا ہوا۔۔۔۔؟؟‘‘
’’پھر جب صبح اُٹھا تو وہاں وہ چاروں نہیں تھے اور میری وہ آنکھ بھی نہیں تھی جس میں سرمہ لگایا تھا۔‘‘
تیزہوا کے جھونکے نے اچانک آگ بجھا دی۔ کمرے میں اندھیرا بھر گیا۔ میں نے اوور کوٹ کی جیب سے ٹارچ نکال کر جلائی تو حیرت سے چاروں کی آنکھیں اُبل پڑیں۔ پہاڑ کی چوٹی پر ہم چاروں بیٹھے تھے۔ وہاں ریسٹ ہاؤس تھا ،نہ ایک آنکھ والا بابا۔ ٭٭٭
بیاکل من اور دُکھی آتما کے ساتھ وہ دیر تک آنکھیں موندے گم سم بیٹھا رہا۔اس سمے جنم کے دھیان نے اسے
بہت دکھی اور بیاکل کردیا تھا۔دھیرے دھیرے اس کا دھیان پچھلے جنموں کی اور ہو گیا۔دھیرے دھیرے اسے لگا کہ لاکھ برس سامنے آکھڑے ہوئے ہیں،اپنے ان گنت جنموں کے سنگ ،دھیان ہی دھیان میں وہ الٹے پاؤں چلنے لگا۔اس جنم سے پچھلے جنم میں،پچھلے جنم سے اور پچھلے جنم میں،پھر اور پچھلے جنم میں۔دھیان ہی دھیان میں اس پر سارے جنم بیت گئے اور اس نے دیکھا کہ وہ بنارس کے مرگھٹ کی چوکھٹ پہ کھڑا ہے۔وہ چونک پڑا۔
(انتظار حسین کے افسانہ واپس سے اقتباس)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھٹی پر گھر آیا تو تایا جان کہنے لگے بیٹے تمہارے پھوپھا نے تمہیں کہاں جھونک دیا۔وہ تو سارا ہندوؤں کا علاقہ ہے۔اوپر سے گونڈ بھیل اور جنگل کی نوکری۔تمہیں ڈر نہیں لگتا۔میں نے کہا کہ نہیں۔واقعی اُن دنوں مجھے ڈر نہیں لگتا تھا۔اس کے باوجود کہ میں وہاں اکیلا مسلمان تھا،یقین جانو مجھے بالکل ڈر نہیں لگتا تھا۔مگر اب لگتا ہے۔۔۔۔۔اور
مسلمانوں سے ۔
چپ ہوئے، ٹھنڈا سانس بھرا’’کیا زمانہ آیا ہے،مسلمان ۔مسلمان سے ڈرتا ہے‘‘۔
(انتظار حسین کے افسانہ گونڈوں کا جنگل سے اقتباس)