شیکسپئر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ شاکر سے شاکر انسان بھی دانت کا درد برداشت نہیں کر سکتا۔ اس فقرے کی صداقت کو صرف وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جن کو شیکسپئر یا میری طرح دانت کا درد ہوا ہو۔ ورنہ عام انسان تو اس فقرے کو پڑھ کر بے اختیار مسکرا دیتا ہے اور کہتا ہے۔ یہ شیکسپئر بھی کتنا سادہ لوح آدمی تھا۔ اگر دانت کے درد کی بجائے قولنج کا درد، یا جگر کا درد لکھ دیتا تو شاید میں مان جاتا۔ مگر دانت کا درد !۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ حتیٰ کہ کسی دن اس کو اچانک رات کے گیارہ بجے دانت کا درد آ دباتا ہے۔ پہلے پہلے وہ شاکر بننے اور شیکسپئر کو جھٹلانے کی ناکام کوشش کرتا ہے اور دل کو یوں تسلی دیتا ہے کہ آخر غالب مرحوم نے بھی تو فرمایا ہے کہ ع
’’ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا ‘‘
پھر خواہ مخواہ پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر جب دو دن کے بعد یہ درد اسے رات کو مطلقاً سونے نہیں دیتا۔ اور اس کی وجہ سے وہ کھر میں کسی اور کو مطلقاً سونے نہیں دیتا۔ تو اسے شیکسپئر کی بات کا کچھ یقین ہونے لگتا ہے۔ اور تیسرے دن علی الصبح وہ اپنے آپ کو کسی دندان ساز کے ویٹنگ روم بیٹھا ہوا پاتا ہے۔
بعینہ یہی حال پچھلے ہفتہ میرا ہوا۔ ویسے تو میں تقریباً ہر درد سے آشنا ہوں۔ معلوم نہ تھا کہ دانت کے درد میں وہ تڑپ پوشیدہ ہے کہ درد دل ‘ درد گردہ ‘ درد جگر تو اس کہ مقابلہ میں ’’ عین راحت ‘‘ ہیں۔ چنانچہ جب متواتر تین رات کراہنے اور ہر ہمسائے کے تجربے سے فائدہ اٹھانے کے بعد بھی درد میں کچھ افاقہ نہ ہوا تو میں نے ڈاکٹر اندر کمار کی دکان کا رخ کیا۔ آپ دانتوں کی بیماریوں کے ماہر ہیں اور دانت بجلی سے نکلتے ہیں۔ شاید مو خر الذ کر چیز نے مجھے ان کی جانب رجوع کرنے کو اکسایا۔ کیونکہ بجلی کے سوا شاید ہی کوئی دوسری چیز مجھے بچا سکتی۔ چنانچہ میں نے ان کی دو کان میں لپکتے ہوئے کہا!
’’ میری بائیں داڑھ فوراً بجلی سے نکلا دیجئے ‘‘
ڈاکٹر صاحب نے حیرت سے میری طرف تکتے ہوئے کہا۔ آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں ؟
’’ آپ مجھ سے راہ و رسم بعد میں بڑھا سکتے ہیں۔ پہلے میری بائیں داڑھ نکالیے ‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تشریف رکھیے ‘
گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ابھی نکالے دیتا ہوں، ،۔ اس کے بعد آپ نے مجھ پر سوالات کی بمباری شروع کر دی۔ مثلاً کب سے درد ہے ؟،، کیوں درد ہے ؟ اوپر والی داڑھ میں ہے یا نیچے والی داڑھ ؟ اس سے پہلے بھی کبھی دانت نکلوایا ہے ! کیا صرف ایک ہی دانت نکلوانا چاہتے ہیں ؟‘‘
اب میں تھا کہ درد سے بیتاب ہو رہا تھا اور ہر سوال کا جواب دینے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ مگر ڈاکٹر صاحب تھے کہ برابر مسکرائے جا رہے تھے، اور جب میں درد سے کراہتا تو ان کی مسکراہٹ زیادہ دل آویز اور دل کش ہو جاتی آخر جب انہوں نے دو تین دفعہ میرے منع کرنے کے باوجود اچھی طرح داڑھ کو ہلایا اور دیکھا کہ شدت درد سے مجھ پر بے ہوشی
طاری ہوا چاہتی ہے تو انہیں یقین ہو گیا کہ واقعی دانت کا درد ہے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود دو تین اوزار کرم پانی میں ابالنے لگے۔ میں نے کہا۔ ’’ اجی حضرت جلدی کیجئے۔ بجلی سے میری داڑھ نکالیے ‘‘۔
’’ کہنے لگے ‘‘ آج بجلی خراب ہو گئی ہے اس لیے داڑھ ہاتھ سے ہی نکالنا پڑے گی ‘‘۔
جتنا عرصہ اوزار گرم ہوے رہے وہ مجھے دانت کی خرابیوں سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر لیکچر دیتے رہے۔ ان کے خیال کے مطابق دنیا کی تمام بیماریاں دانتوں ہی کے خراب ہو جانے سے پیدا ہوتی ہیں۔ بد ہضمی سے تپ دق تک جتنے امراض ہیں۔ ان کا علاج داڑھ نکلوانا ہے۔ اس لیکچر میں آپ نے اس ملک کے لوگوں کی عادات پر بھی کچھ تبصرہ کیا۔ مثلاً ‘‘۔ یہاں کے لوگ بے حد بے پرواہ واقع ہوئے ہیں۔ امریکہ اور انگلینڈ میں ہر ایک آدمی سال میں چار دفعہ دانت صاف کرواتا ہے۔
مگر یہاں لوگ اس وقت تک دندان ساز کی دکان کا رخ نہیں کرتے جب تک دانت کو کیڑا لگ کر سارا مسوڑھا تباہ نہ ہو جائے افسوس تو اس بات کا ہے کہ آپ جیسے پڑھے لکھے آدمی بھی دانتوں کی ذرا پرواہ نہیں کرتے اگر لوگ ذرا محتاط ہوں تو آج ان کی مشکلیں حل ہو جائیں۔
اس قسم کے متعدد جملے وہ ایک ہی سانس میں کہہ گئے حتیٰ کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ ہمارے ملک کے سچے خیر خواہ صرف آپ ہیں۔ اور اگر آپ نہ ہوتے تو خدا جانے ہمارے ملک کی کیا حالت ہوتی۔
جب اوزار گرم ہو چکے تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا۔ اب انجکشن ہو گا انجکشن کے نام سے مجھے روز اول ہی سے چڑ ہے۔ کیونکہ میرے خیال میں انجکشن مہذب طریقے سے ایذا پہچانے کا دوسرا نام ہے۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے یقین دلایا کہ انجکشن سے کسی قسم کا درد نہیں ہو گا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ کسی قدر مبالغہ آمیزی سے کام لے رہے تھے۔ کیونکہ انجکشن سے کافی درد ہوا۔ انجکشن کرنے کے دو تین منٹ بعد انہوں نے زنبور پکڑا۔ اور اب مجھے وہ انسان کی بجائے موت کا فرشتہ نظر آنے لگے۔ دل میں آیا کہ ہمت کر کے بھاگ نکلوں۔ میں اٹھنا ہی چاہتا تھا۔ کہ انہوں نے ذرا نرمی سے کہا۔
’’ میں آپ کو بارھویں دفعہ پھر یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو مطلقاً درد نہیں ہو گا۔ میں نے دبی زبان سے کہا۔ ’’ میں آپ کو بارہویں دفعہ یقین دلاتا ہوں کہ مجھے آپ کی بات کا یقین نہیں ‘‘۔ مگر انہوں نے معاملے کو طول نہ دیتے ہوئے مجھے منہ کھولنے کو کہا۔ وہ داڑھ کو زنبور کی گرفت میں لائے اور مجھے محسوس ہوا کہ اب وصیت کرنے اور احباب اور اقربا کو آخری تلقین کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ انہوں نے زنبور کو چھٹکا دیا اور درد حد سے گزر کر ’’ قضا‘‘ معلوم ہونے لگا۔ انہوں نے دوسرا جھٹکا دیا اور میں سمجھا کہ اب انہوں نے مجھے ضرور جان سے مارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کے بعد دانت اور زنبور میں ایک باقاعدہ کشتی شروع ہوئی۔ داڑھ اپنی جگہ پر اس طرح قائم تھی جس طرح قطب مینار ہزاروں زلزلوں کے باوجود اب تک اپنی جگہ پر جما ہوا ہے۔ مگر اس کھینچا تانی میں میں مفت میں ذبح ہو رہا تھا۔ یہ کشمکش یا کشتی کافی عرصہ تک جاری رہی اور آخر زنبور اور دانت میں یہ تصفیہ ہوا کہ آدھی داڑھ زنبور کے منہ میں اور آدھی میرے منہ میں رہے۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت پسینہ پسینہ ہو رہے تھے ان کی گھبراہٹ دیکھ کر قریب تھا کہ میں بھی ہوش و حواس کھو بیٹھوں کہ انہوں نے بناوٹی مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا۔ ’’ توبہ کتنی گہرائی میں ہے یہ داڑھ بہت کوشش کی کہ نہ ٹوٹے مگر ٹوٹ ہی گئی ‘‘۔
درد سے کراہتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’ اب کیا ہو گا ؟‘‘
’’ گھبرانے کی ضرورت نہیں ‘‘۔
اس کے بعد انہوں نے جس طرح میری باقی کی آدھی داڑھ نکالی یہ صرف وہی لوگ جان سکتے ہیں جنہیں دانت ٹوٹنے کا سانحہ کبھی پیش آیا ہو۔ بس صرف یہ سمجھ لیجئے کہ میری وہی حالت تھی۔ جو آپ کی ہو۔ اگر میں آپ کے بدن میں متعدد جگہوں سے لمبی لمبی سوئیاں چبھوتا جاؤں اور ساتھ ساتھ آپ کو تسلی دیتا رہوں کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں تقریباً آدھ گھنٹے کی پیہم کوشش کے بعد ڈاکٹر صاحب باقی داڑھ نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔
اس عرصے میں مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کئی بار اگلے جہان پہنچا ہوں اور کئی بار وہاں سے لوٹا ہوں۔ اور پھر آخر کار میں نے اپنے آپ کو نیم بسمل کی سی حالت میں ڈاکٹر صاحب کی کرسی پر بیٹھا ہوا پایا۔ جب کچھ ہوش سنبھالا تو ایسا معلوم ہوا کہ منہ سے بے تحاشا خون بہہ ریا ہے اور ڈاکٹر صاحب ایک گلاس لے کر جس میں خون سے ملتی جلتی رنگت والی کوئی دوا گھلی ہوئی ہے کرسی کے نزدیک کھڑے ہیں۔ اس کے بعد چند ثانئے نہایت عذاب کی حالت میں گزرے۔ ڈاکٹر صاحب غرارے کرنے کو کہہ رہے تھے۔ اور میں انہیں ‘ ایمبولنس کار کے لیے فون کرنے کو عرض کر رہا تھا۔ اور ساتھ ہی سوچ رہا تھا کہ نزدیک کے پولیس اسٹیشن میں جا کر اس سانحہ کی رپورٹ درج کراؤں تو شاید ضرورت کے وقت کام آئے۔ بارے کہیں پندرہ منٹ کے بعد خون بہنا بند ہوا۔ کچھ ڈھارس بند ہی مگر اب سخت درد ہونا شروع ہوا۔ اور میں نے بہتری اسی میں سمجھی کہ ڈاکٹر صاحب کی دکان میں بے گور و کفن مرنے کی نسبت گھر لوٹ چلوں۔ تانگہ میں بیٹھ کر بڑی مشکل سے گھر پہنچا۔ اور ایک گھنٹہ تک اوندھے منہ بستر میں لیٹا کراہتا رہا۔ اس کے بعد جوں جوں درد کم ہوتا گیا گال سو جتا گیا۔ حتیٰ کہ دو تین گھنٹے کے بعد مجھے ایسا معلوم ہونے لگا گویا میرے جسم پر کسی اور شخص کا چہرہ لگا ہوا ہے۔
اس وقت میں سمجھا کہ کیوں میرے ہم وطن دندان ساز کی دکان کا آسانی سے رخ نہیں کرتے۔
<http: //urdu.website/%D8%AF%D8%A7%D9%86%D8%AA-%D9%86%DA%A9%D9%84%D9%88%D8%A7%D9%86%D8%A7%DA%A9%D9%86%DB%81%DB%8C%D8%A7-%D9%84%D8%A7%D9%84-%DA%A9%D9%BE%D9%88%D8%B1
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...