دانیال جب جاگا تو اسے دعا کی باتیں یاد آنے لگیں.اس کادل چاھا کے سب کچھ تھنس نھیس کر دے.وه صرف اسکی تھی صرف دانیال کی.یا الله پلیز میں نے آپ سے آج تک کچھ نھیں مانگا لیکن میں آج آپ سے اپنی دعا مانگتا ھوپلیز مجھے میری دعا لوٹا دیں.میں اس کے بنا مر جاؤ گا.دانیال نے گڑ گرا کر سچے دل سے دعا مانگی اور سچے دل کی دعا تو عرش تک جاتی ھے.
دعا کے ذھن میں دانیال کی باتیں گھوم رھیں تھی.اس کو دانیال کے لیۓ افسوس ھوا.لیکن وه اس کے لیۓ کچھ نھیں کر سکتی تھی.ایک طرف وه تھا جو بنا کسی رشتے کے اس سے بے پنھا مھبت کرتا تھا.اور دوسری طرف وه جس کے نام پر وه بچپن سے بیٹھی ھوئ تھی.جسے کوئ فرق ھی نھیںپڑتا تھا کے وه جیۓ یا مرے.دعا صرف سوچ کر ھی ره گئ.
کیا بات ھے دعا تم مجھے کچھ پریشان لگ رھی ھو.شفا نے دعا کا پریشان چھرا دیکھ کر کھا.نھیں ایسا تو کچھ نھیں ھے.وه بس پیپرز کی وجه سے شاید.دعا نے بھانا بنایا.جب کے اسے اس بات کی پریشانی تھی کےوه دانیال کاسامناکیسے کرے گی.اسی لئے آج وه یونی نھیں آنا چا رھی تھی.لیکن اگلے ھفتے پیپرز شروع ھونے کی وجه سے آنا پڑا.اچھا یه بتاؤ زوھیب بھائ کب آرھے ھیں.شفا نے دعا کو چھیڑا.مجھے کیا پتا یار جب آنا ھوگا آجاۓ گیں.حد ھے ویسے بھئ.مھرانی صاحبه کو پتا ھی نھیں ھے کے ان کے ھونے والےوه کب آئیں گے.شفا نے افسوس سے کھا.میں تو تمھیں بتانا ھی بھول گئ کے پیپرز کے بعد لاریب کی شادی ھے.دعا نے خوشی سے بتایا.کیا لیکن پھلے تو تمھاری ھونی چاھیۓ تھی.شفانے کھا.اس سے کیا فرق پڑتا ھے.ویسے بھی اسکے سسرال والے زور دے رھے تھے.میں اسکے لیۓ مشکل پیدا نھیں کرنا چاھتی تھی.دعا نے اداسی سے کھا.اچھاچلو چھٹی ھونے والی ھے پھر پیرز کے بعد ھی ملاقات ھو گی.شفا نے دعا کو گلے لگاتے ھوۓ کھا.دعا نے شکر کیا کے دانیال سے اسکا سامنا نھیں ھوا تھا.
امی یه دیکھے یه ھے وه لڑکا جس کے بارے میں میں نے آپ کو بتایا تھا.آفتاب نام ھے اسکا.بھت اچھی پوسٹ پر ھے.آصف کے آفس میں ھی کام کرتا ھے.بھت اچھے گھرانے سے ھے.فیملی بھی ذیاده بڑی نھیں ھے.شفا جب آمنه بیگم کے کمرے میں آنے لگی تو نور کی بات سن کر وھیں رک گئ.اس نے سوچ لیا تھا کے وقت آنے پر وه نور سے دو ٹوک بات کر لے گی.لیکن قسمت کا لکھا آخر
کون بدل سکتا ھے.
**********
آج لاریب کی بارات تھی.ان کے پیپرز کے فورا بعد ھی شادی تے کر دی گئ تهی.شفا,آزر اور دانیال تینوں انوائیٹیڈ تھے.شفا اور دعا نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رھیں تھیں.جو انھیں دیکھتا بلا جھجک ماشاءالله کھتا.آزر اور دانیال بھی سب میں نمایا تھے.
سب لوگ بار بار کلثوم بیگم سے یھی پوچھ رھے تھے کے بڑی سے پھلے چھوٹی کی شادی کیوں کر دی.بڑی کا تو رشته پچپن سے تے تھا پھر کیوں.کلثوم بیگم سب کو جواب دیں دیں کر تھک گئ تهیں.دعا کا بس نھیں چل رھا تھا کے چیخ چیخ کر سب سے کھے کے آخر کیوں سب کو اتنا مسئلا ھوتا ھے دوسرے کے معملات سے.لیکن وه برداشت کر رھی تھی لوگوں کی فضول باتیں.
آزر مجھے تم سے بات کرنی ھے.شفا نے جب آزد کو اکیکے کھڑا دیکھا تو اس کے پاس آ گئ.ھاں بولو اب تو تمھیں ساری زندگی ھی سنا ھے.آزر نے شرارت سے کھا.پلیز آزر کبھی تو سیریئس ھو جایا کرو.شفا نے آنکھیں دکھائ.اچھا بولو کیا بات ھے.آزر نے مسکراتے ھوۓ کھا.آزر میں کھ رھی تھی کے پیپرز بھی ختم ھو گۓ ھیں. تم اپنے پیڑنٹس کو لے کر میرے گھر رشته لینے آجانؤ.کیوں کے امی اور آپی کو اب میری شادی کی فکر ستاۓ ھوۓ ھے.اور میں تمھارے علاوه کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نھیں سکتی.شفا نے اداسی سے کھا.
میرے بس میں ھوتا تو میں کل ھی آجاتالیکن کل مجھے گاؤں جانا ھے.میں نے تمھیں بتایا تھا ناکے بابا نے بولایا ھے.میں جلد سے جلد واپس آنے کی کوشش کروں گااور واپسی پر انھیں ساتھ لے کر ھیں آؤں گا تمھارے گھر.جب تک تم میرا انتظار کرنا.چاھے کچھ بھی ھو جاۓ شفا مجھے کبھی دھوکا مت دینا.بے پنھا محبت کرتا ھوں میں تم سے.آزر نے شفا کو دیکھ کر بھت مھبت سے کھا. آزد تم بھی مجھے کبھی دھوکا مت دینا ورنه میں سه نهیں پاؤں گی.شفابھی اداسی سے بولی.
دانیال کی نظریں بار بار دعا کے ھیں گرد گھوم رهیں تھیں.وه جانتا تھا کے وه کسی اور کی امانت ھے لکین وه اپنے دل کے ھاتھوں مجبور تھا.دانیال دعا کے بالکل پیچھے کھڑا تھا.جب اس کی ایک کزن اسکے پاس آئ اور اس کی بات کو سن کر دانیال کی رگیں تن گئ اور وه لمبے لمبے دگ بھر کر وھاں سے چلا گیا.
*************************************