نیورون ہمارے دماغ کے چھوٹے یونٹ ہیں۔ جس طرح چیونٹیوں کی کالونی میں ایک چیونٹی ہو۔ ان کے تال میل سے جو شے بنتی ہے، اسے ذہانت کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے چھیاسی ارب نیورون ہیں جو چیونٹی کی کالونی سے لاکھوں گنا زیادہ تعداد ہے۔ چیونٹی ایک وقت میں ایک چیونٹی سے کچھ دیر بعد رابطہ کرتی ہے جبکہ ہر نیورون ہر وقت ہزاروں دوسرے نیورونز سے رابطے میں ہے جو ایگزون اور ڈینڈرائٹ کے ذریعے ہیں۔
نیورونز کی تنظیم کئی تہوں میں ہے۔ سطحی طور پر دماغ ابھار اور تہوں والا یکساں قسم کا سٹرکچر لگتا ہے لیکن یہ خاص علاقوں میں تقسیم در تقسیم ہوتا ہے۔ ہمسایہ نیورون ملکر سٹرکچر بناتے ہیں جو خاص فنکشن سرانجام دیتا ہے۔ اور یہ سٹرکچر ملکر زیادہ بڑے سٹرکچر بناتے ہیں جو کہ ملکر زیادہ سٹرکچر بناتے ہیں جو کہ۔۔۔۔
سب سے بڑے سکیل پر دماغ کا باہری نیورل ٹشو کورٹیکس کہلاتا ہے۔ یہ دائیں اور بائیں نصف میں بٹا ہے اور ہر نصف مزید چار lobes میں تقسیم ہے۔ سامنے والے (frontal lobe) وہ ہیں جہاں پر انفارمیشن یکجا ہوتی ہے۔ اور یہ مزید تقسیم ہوتا ہے۔ اس میں پری فرنٹل کورٹیکس بھی ہے (جس کا اس والی سیریز میں اہم کردار ہے)۔
پری فرنٹل کورٹیکس صرف ممالیہ میں پایا جاتا ہے اور یہ سکرپٹ والے ردِ عمل سے زیادہ کام کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ سوچ کی اور فیصلہ سازی کے عمل کی نگرانی کرتا ہے۔ مقاصد کی شناخت، توجہ کی راہنمائی، منصوبہ بندی، نتائج کی نگرانی اور دوسرے علاقوں میں ہونے والے کاموں کی management کا کام یہاں پر ہوتا ہے۔
پری فرنٹل کورٹیکس کے سٹرکچر کی مزید تہیں ہیں۔ اس میں ایک اور چھوٹا سٹرکچر lateral prefrontal cortex ہے۔ اور یہ صرف پرائمیٹ میں پایا جاتا ہے۔ اس میں مزید چھوٹے سٹرکچر ہیں جیسا کہ dorsolateral prefrontal cortex اور یہ خود درجن بھر چھوٹے سٹرکچرز سے ملکر بنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر سطح پر یہ سٹرکچر آپس میں بڑے پیچیدہ طریقے سے جڑے ہوئے ہیں۔ کہیں سے اِن پُٹ لیتے ہیں اور کسی کو آؤٹ پٹ دیتے ہیں۔ اور یہ کنکشن کورٹیکس کے نیچے کے حصوں تک بھی پھیلے ہوئے ہیں، جس میں انعامی نظام سے کنکشن بھی شامل ہے۔ ہر سٹرکچر جو کام کرتا ہے وہ اپنے سے اونچے لیول کی پراسسنگ میں حصہ بنتا ہے جو کہ اپنے سے اونچے لیول کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہاں پر چیونٹیوں کی کالونی کی مثال کا محدود ہونا نظر آ جاتا ہے۔ چیونٹیوں کی کالونیوں میں پیچیدہ اور ہائیرارکی والی تنظیم نہیں ہے۔
دماغ میں ایک حد تک یہ مرکزی اور top down کنٹرول کا نظام بھی موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ کے اس ایگزیکٹو حصے کا مطلب یہ ہے کہ ہم محض عادتاً یا آٹومیٹک طریقے سے کام نہیں کرتے۔ کچھ سوچیں دبائی جا سکتی ہیں، کچھ اور کو حرکت دی جا سکتی ہے۔ اگر آپ کا باس آپ کو بلاوجہ ڈانٹ رہا ہے تو دماغ کا یہ حصہ ہے جس کی وجہ سے آپ اپنے غصے کو سنبھال رہے ہیں (بعد میں جب بالکل تنہا ہوں گے تو اسے بے نقط سنائیں گے)۔
لیکن دوسری طرف، غیرمتعلقہ یا نامناسب آئیڈیا دبانے کا یہ مطلب بھی ہے کہ ایگزیکٹو حصہ اوریجنل سوچ میں بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔
جب ہم سوچ میں اپنے جوبن پر ہوتے ہیں تو ایگزیکٹو حصہ اتنی ڈھیل دیتا ہے کہ سوچ کے دونوں طریقوں کا توازن رہے اور یہ طے کرتا ہے کہ آپ کا فوکس اور سوچ کی گہرائی کتنی ہو گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ انسانی ذہن کی خوبصورتی ہے۔
نہ صرف الگ حصے بغیر مرکزی کنٹرول کے کام کرتے ہیں بلکہ اس کے کام کرنے میں ایک اور مخالف سمت بھی ہے جہاں پر ایگزیکٹو کنٹرول راہنمائی کرتا ہے۔ ان دونوں کے باہمی رقص سے سوچ اور خیالات جنم لیتے ہیں، کلبلاتے رہتے ہیں، منظم ہوتے ہیں، کسی مسئلے کو حل کرنے کی طرف مرکوز ہو سکتے ہیں، اس حل تک پہنچنے کے لئے ہمیں ہمیشہ منطقی قدم بہ قدم راستہ درکار نہیں ہوتا۔ پھر اس کو پروگرام کیا جا سکتا ہے، نئے تصورات ڈالے جا سکتے ہیں، بنائے جا سکتے ہیں اور سب سے زبردست یہ کہ مسئلے کو حل کے لئے اپروچ بھی بدلی جا سکتی ہے۔ بغیر مرکزی کنٹرول کے، چیونٹیوں کی ذہین کالونی کے لئے ذہانت کا یہ والا حصہ ممکن نہیں ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...