(Last Updated On: )
“اور اے نبی! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کہ حفاظت کریں” (النور ٣١)
“کل ہم نے بات کی تھی مردوں کے بارے میں۔ آج ہم دیکھیں گے کہ عورتوں کے لیۓ غضِ بصر کے احکامات کیا ہیں۔ یہ احکامات مردوں کے مقابلے میں تھوڑے سے مختلف ہیں۔ ہمیں یہ پتا ہونا چاہیۓ کہ عورتوں کو غیر مردوں کو نہیں دیکھنا چاہیۓ اور اگر نگاہ پڑ جاۓ تو ان کو چاہیۓ کہ وہ اپنی نظر ہٹا لیں۔۔ اسی طرح ایک مجلس میں آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کو دیکھنا ممنوع ہے۔۔ اکثر راہ چلتے ہوۓ مردوں پر نظر پڑ جاتی ہے تو اس صورت میں وہ معاف ہے لیکن کشش محسوس ہوتے ہوۓ دوبارہ دیکھنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئ ضرورت پڑ جاۓ یا مجبوری ہو تو ایک گھر میں رہتے ہوۓ دیکھنا کچھ غلط نہیں۔۔۔
دوسری چیز جو اس آیت میں بیان ہے وہ ستر کا چھپانا ہے۔ مردوں کے لیۓ عورتوں کا ستر ہاتھ اور منہ کو چھوڑ کر اس کا پورا جسم ہے۔۔ ایک عورت کو چاہیۓ کہ وہ اپنے ستر کو شوہر کے علاوہ کسے کے سامنے بھی کھلا نہیں چھوڑے۔ اپنے محرم رشتوں کے سامنے ایک عورت اپنے جسم کا اتنا حصہ کھول سکتی ہے جتنا گھر کے کام کاج کرتے ہوۓ ضرورت پڑے۔۔ جیسا کہ ہم سب کو آٹا گھوندتے ہوۓ اپنی آستینیں اوپر چڑھانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔۔۔ اسی طرح گھر کی صفائ ستھرائ کے لیۓ بھی اکثر پائینچے اوپر کرنے پڑ سکتے ہیں۔۔ اسلام نے اتنی رعایت ایک عورت کو دی ہوئ ہے لیکن اس سے تجاوز ممکن نہیں۔
ایک عورت کے لیۓ عورت کا ستر وہی ہے جو مرد کا مرد کے لیۓ ہے, یعنی ناف سے گھٹنے تک ۔۔ لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ کسی عورت کے سامنے نیم برہنہ رہا جاۓ۔۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اس حصے کو ڈھانپنا فرض ہے اور باقی حصے کو ڈھانپنا فرض نہیں۔۔ شرم کا تقاضہ یہی ہے کہ اپنے جسم کو ڈھانپ کر رکھا جاۓ۔۔”
میڈم جویریہ کی کہی ہر بات رانیہ کے دل میں اُتر رہی تھی۔۔ اُن سے رانیہ پچھلے ایک سال سے بہت کچھ سیکھ چکی تھی اور اسے وہ اپنی عملی ذندگی میں اپلائ بھی کر رہی تھی۔۔ مہرین اپنے کالج کی وجہ سے نہیں آ سکتی تھی اسی لیۓ اس کو رانیہ ہر لیکچر کے نوٹس دے دیتی تھی۔۔
*————————–*
ٹھہر جاؤ تو نہیں ہے بستیوں میں راستہ
چل پڑو تو پانیوں میں راہ گزر موجود ہے
شہریار آفریدی آج کل ایک بہت اہم کیس میں مصروف تھا۔ تانیہ سندھ کے ایک آبائ گاؤں سے تعلق رکھتی تھی۔ بچپن میں ہی اس کے امی ابو اللہ کو پیارے ہو گۓ تو وہ بھائ کے رحم و کرم پر ہو گئ۔ سولہ سال کی عمر میں اس کے بھائ غلام فرید نے گاؤں کے چوہدری سے اس کا سودا کر دیا۔ چوہدری دلاور جہانگیر اسے اپنے ساتھ اسلام آباد والے گھر لے آیا جہاں کئ مہینوں تک وہ اسے مالِ غنیمت کی طرح لوٹتا رہا۔ پھر ایک این- جی- او کی مدد سے تانیہ وہاں سے بھاگ نکلی۔۔ اسی این- جی- او نے اسے شہریار تک پہنچایا تھا۔۔۔۔
ایک گواہ تو شہریار نے ڈھونڈ لیا تھا جو چوہدری دلاور جہانگیر کا خاص ڈرائیور تھا۔ اس نے عدالت میں گواہی دی تھی کہ جب چوہدری دلاور جہانگیر تانیہ کو شہر لایا تھا تو گاڑی وہی چلا رہا تھا مگر اس سے یہ نہیں ثابت ہو سکا کہ تانیہ کو خریدا گیا ہے۔۔ شہریار کا ذہہن بہت الجھا ہوا تھا۔۔۔ چوہدری دلاور نے اسے بہت سی دھمکیاں دے دی تھیں۔۔۔ انصاف کا سفر بہت کٹھن ہوتا جا رہا تھا لیکن اس نے سوچ لیا تھا کہ کسی بھی قیمت پر اسے چوہدری دلاور اور غلام فرید کو سزا دلوانی ہے۔۔
*————————-*
اتنے چُپ چاپ کہ رستے بھی رہیں گے لاعلم
چھوڑ جائیں گے کسی روز شہر شام کے بعد
رامش نواذ نے جامعہ بحریہ سے پروجیکٹ مینجمنٹ کیا ہوا تھا۔۔ وہ ایک دراز قد و قامت مرد تھا۔ اس کی ستواں ناک تھی اور بالوں کو وہ ہمیشہ جیل لگا کر رکھتا۔۔ چہرے پر ہلکی ہلکی دھاڑی اس کی شخصیت کو مزید وقار بخشتی تھی۔۔ پروقار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ذہین بھی تھا۔۔ اس کی قابلیت کو ہر ایک سراہتا ھا۔۔ رمشا اسے دل و جان سے عزیز تھی۔۔۔ بچپن میں رمشا کے ساتھ اس کہ بہت انڈر سٹینڈنگ تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ رمشا اس سے دور ہونے لگی۔۔
“رامش کیا سوچا پھر آپ نے اپنے اور رمشا کے بارے میں۔۔؟؟” لاؤنج میں کھانے کی میز پر مسز فرمان نے رامش سے سوال کیا۔۔
“مما آپ میری فیلنگز اچھے سے جانتی ہیں۔۔ پھر کیوں پوچھ رہی ہیں۔۔۔” رامش نے آئس کریم کی چمچ منہ میں لے جاتے ہوۓ بتایا۔۔۔
“لیکن ہم رمشا کو بھی اچھے سے جانتے ہیں۔۔ وہ بہت اکھڑ ہوتی جا رہی ہے۔۔ دیکھا تھا اُس دن کس طرح سے وہ ہم سب کو اوائیڈ کر رہی تھی۔” مسز فرمان نے پارٹی والی رات کا ذکر چھیڑا۔۔
“دردانہ بیگم آپ بھی کیا ہر وقت روایتی ساس کی طرح اس بیچاری کی برائیاں کرتی رہتی ہیں۔ ہمیں تو ایسا کچھ نہیں لگا۔۔ یہ سب آپ کے دماغ کا فتور ہے۔۔۔” فرمان نواز نے رمشا کی حمایت کی۔
“مما یہ آپ کا وہم ہے۔۔۔ پاپا بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔۔” رامش نے بھی اطمینان سے بتایا۔
“فرمان صاحب بیچاری تو میں ہی رہ گئ ہوں اس گھر میں۔۔۔ ابھی وہ آئ نہیں تو میرے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے۔۔ اس کے آنے کے بعد پتا نہیں کیا کیا دیکھنا پڑے گا مجھے۔۔” رمشا کی اس قدر سائیڈ لینا مسز نواذ کو بالکل پسند نہیں آئ۔۔
“دردانہ بیگم میری ذندگی ختم ہو گئ ہے لیکن آپ کے شکوے وہیں کے وہیں ہیں۔۔۔۔” فرمان نواذ پیر پٹختے ہوۓ لاؤنج سے نکل گۓ۔۔۔
“تم ہی میری بات سمجھو رامش۔۔۔ رمشا میں کچھ بھی نہیں ہے ایسا۔۔۔” مسز فرمان نے دو آنسو گرا کر آخری حربہ اپنایا جو ہر ماں اچھے سے جانتی ہے۔۔۔۔
“سب ٹھیک ہو جاۓ گا مما۔۔۔ مجھے سب سنبھالنے آتا ہے۔۔۔۔” رامش اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔۔۔ مسز نواز نے سوچ لیا تھا کہ وہ رامش کا فیصلہ ضرور تبدیل کروائیں گی۔۔۔
*———————
“رمشا آج میرے گھر میلاد ہے اور تُم نے ضرور آنا ہے۔” رانیہ نے رمشا کو فون پر بتایا۔
“لیکن میں نے آج ایک غزل نائیٹ پر جانا ہے۔۔ تمہیں تو پتا ہے میرا ٹیسٹ الگ ہے۔۔” رمشا نے دوٹوک جواب دیا۔
“بس کچھ دیر کے لیۓ آ جانا پلیز۔ میں چاہتی ہوں تم ایک مرتبہ میڈم جویریہ سے مل لو۔۔” رانیہ نے منت کی۔۔
“تم کیا ہر ٹائم میڈم جویریہ کرتی رہتی ہو۔ نہ مجھے کسی میلاد کا حصہ بننا ہے اور نہ ہی کسی میڈم سے ملنا ہے۔۔” رانیہ کو غصہ آنے لگا۔
“ایسے نہ بولو یار۔ میری کتنی بےعزتی ہو جاۓ گی ایسے۔۔ مہرین بھی پوچھ رہی تھی تمہارا۔۔۔” رانیہ نے ایک آخری کوشش کی۔
“گڈ باۓ رانیہ اور اب مجھے میلاد کے لیۓ دوبارہ فون مت کرنا۔۔۔” رمشا نے فون پٹخ دیا۔۔
“میری کوئ لائف ہے بھی یا نہیں۔۔ رانیہ بھی یا تو قران کا ٹاپک لے کر بیٹھ جاتی ہے یا پھر اپنی میڈم کا۔۔” رمشا دل ہی دل میں رانیہ کو کوس رہی تھی۔۔۔
*—————————*
ہم نے ایک دوسرے کے عکس کو جب قتل کیا
آئینہ دیکھ رہا تھا ______ حیرانی سے ہمیں
شہریار آفریدی آئینے میں اپنے بال سیٹ کر رہا تھا جب ایک عکس آئینے میں ابھرا۔ اپنے کام کی وجہ سے وہ اس عکس کو کافی دنوں سے بھلا بیٹھا تھا مگر دل کہاں تک سمجھتا یے۔
“کب تک اس چہرے کو فراموش کرو گے۔ ایک بار دیکھ کیوں نہیں آتے اس چہرے کو۔۔” دل نے فریاد کی۔۔
“نہیں نہیں یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔۔۔” شہریار آفریدی نے دل کو سمجھایا۔
“دیکھنا ہی تو ہے۔۔ دیکھ آؤ جا کر۔۔۔ ٹھیک غلط کا کیا سوال۔۔۔” دل نے توجیہ پیش کی۔۔
“اگر وہ میرا مقدر نہ بنی تو۔۔۔۔؟؟” شہریار آفریدی کو وسوسوں نے ڈرایا۔۔
“اس سفر پر چل پڑا ہے تو سوال کیسے۔۔۔ خسارہ بھی اٹھانا پڑے تو اٹھا لے۔۔۔”
“قسمت نے ساتھ چھوڑ دیا تو۔۔۔؟؟” شہریار آفریدی نے ایک اور سوال کیا۔۔
“تو بھی عشق کرنے والے امر ہو جاتے ہیں۔۔۔”
شہریار آفریدی نے ان خیالوں کو جھٹکا اور آفس کے لیۓ نکل گیا۔
*————————*
اس آس پے جیتا ہوں کہہ دے مجھے کوئی آ کر
چل تجھ کو مدينے میں سرکار ؐ بلاتے ہیں
“آپی میں نے اسٹیج بنا لیا ہے اور سفید چادریں بھی بچھا لی ہیں۔ آپ ایک مرتبہ آ کر دیکھ لیں۔۔” رانیہ اپنے کمرے میں قران پاک پڑھ رہی تھی جب مہرین وہاں آ گئ۔۔
“تم نے سب دیکھ لیا ہے ناں میری جان تو میرے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔۔۔” رانیہ نے قران پاک غلاف میں ڈالا اور مہرین کے گال سہلاۓ۔
“آپی رمشا باجی آئیں گی یا نہیں۔۔۔؟” مہرین نے وہی سوال کیا جس کا رانیہ کو ڈر تھا۔
“اس نے تو منع کر دیا ہے لیکن میرا دل گواہی دے رہا ہے کہ آج رمشا ضرور آۓ گی آج۔” رانیہ نے بہت اطمینان سے جواب دیا۔۔
“آپ کا دل کبھی غلط نہیں کہتا آپی۔۔ اس کا مطلب یے وہ آئیں گی۔۔” مہرین ہلکے سے مسکراہی۔۔۔
*—————————-*
مرے خیال نے جتنے بھی لفظ سوچے ہیں
سب تیرے مقام اور مرتبے سے چھوٹے ہیں
رامش نواذ اسٹڈی میں بیٹھا کچھ کام کر رہا تھا جب فرمان نواذ خان نے درواذے کو ناک کیا۔۔ رامش نے گردن گھمائی تو فرمان نواذ خان کو دیکھ کر کھڑا ہوا۔۔
“کوئ ضروری کام تھا پاپا تو آپ مجھے بلا لیتے۔۔”
“ہاں بیٹا کام تو ضروری ہے اسی لیۓ میں خود آ گیا ورنہ ادھر بلاتا تو دردانہ کا بکھیڑا شروع ہو جاتا۔۔۔” فرمان نواذ وہیں ایک کرسی پر بیٹھ گۓ۔۔ رامش نواذ بھی ان کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔
“جی پاپا بولیں۔۔۔۔” رامش نواذ بہت آہستگی سے بولا۔ اس کا لہجہ سب کے ساتھ ایسا ہی دھیما ہوتا تھا۔۔۔۔
“آپ کو تو پتا ہے دردانہ کو رمشا بالکل بھی پسند نہیں ہے۔ انھیں اپنی اس پھوہڑ بہن کی بیٹی پسند ہے۔۔”
“جی پاپا مجھے پتا ہے۔۔ آپ کیا چاہتے ہیں۔۔” رامش نواذ نے گردن جھکا لی۔۔ کوئ کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ دفتر میں گردن اٹھا کر چلنے والا وجیہہ مرد باپ کے سامنے اس قدر نظریں جھا لیتا تھا۔۔
میں چاہتا ہوں کہ ہم کل ہی علی احمد آفندی کی طرف چلیں۔۔۔” فرمان نواذ نے سگار کا کش لگاتے ہوۓ بتایا۔۔۔۔
“جیسا آپ کو ٹھیک لگے پاپا لیکن مما کو آپ خود سنبھال لینا پھر۔۔ ” رامش کو دردانہ ببگم کی بہت فکر تھی, وہ جانتا تھا کہ وہ چین سے نہیں بیٹھیں گی۔۔
“ان کی آپ فکر نہ کریں۔۔ میں بات کر لوں گا ان سے۔۔۔” فرمان نواذ بیٹے کا کاندھا تھپک کر کمرے سے نکل گۓ ۔۔۔
*————————–*
دمِ اضطرب مجھ کو جو خیالِ یار آۓ
میرے دل میں چین آۓ تو اسے قرار آۓ
نہ حبیب سے محب کا کہیں ایسا پیار دیکھا
وہ بنے خدا کا پیارا تمہیں جس پے پیار آۓ
سفید لباس پہنے اور سرخ حجاب میں اپنا گندمی چہرہ چھپاۓ رانیہ نعت پڑھتے وقت بہت معصوم لگ رہی تھی۔۔۔ اس کی آواذ میں بلا کی تاثیر تھی۔ ہر کوئ نظریں جھکاۓ بیٹھا تھا۔۔ اچانک ہی درواذے سے رمشا اندر داخل ہوئ۔۔ وہ وہیں کونے میں بیٹھ گئ۔۔ اس نے بھی اپنا سر جھکا لیا۔۔
تیرے صدقے, تیرا صدقہ ہے وہ شاندار صدقہ
وہ وقار لے کے جاۓ جو ذلیل و خوار آۓ
حسن ان کا نام لے کر تُو پکار دیکھ غم میں
کہ یہ وہ نہیں جو غافل پس انتظار آۓ
رانیہ نعت پڑھ کر اسٹیج پر ہی سائیڈ پر بیٹھ گئ۔۔ رمشا کو دیکھ کر اسے بہت خوشی ہوئ۔۔ اس نے رمشا کو ہلکے سے سمائل پاس کی۔۔ وہ اٹھی اور رمشا کو بھی اپنے ساتھ اسٹیج پر لے آئ۔
میلاد ختم ہونے کے بعد سب لڑکیاں جانے لگیں تو میڈم جویریہ کو رانیہ نے وہیں روک دیا۔
“میڈم! یہ میری فرینڈ رمشا ہے اور رمشا یہ ہیں میری میڈم جویریہ۔۔۔” رانیہ نے دونوں کا تعارف کروایا۔۔
“ہیلو میڈم! میں نے آپ کی نعت سنی۔۔ بہت اچھی آواذ ہے آپ کی۔۔۔” رمشا نے اپنا دائیاں ہاتھ ان کے سامنے کیا۔
“بہت شکریہ آپ کا بیٹا۔ جب بندہ اللہ کے محبوب کی تعریف کرنے لگتا ہے تو اللہ اس کی آواذ کو نکھار دیتا ہے۔۔۔” میڈم جویریہ نے ہاتھ ملاتے ہوۓ بتایا۔
“آپ نے کہیں سے تربیت لی ہے یا اپنے آپ ہی یہ ہنر مل گیا آپ کو۔۔۔ ؟؟ ایکچیولی میں جتنے بھی میوذیشنز سے ملی ہوں سب نے ہی کہیں سے سیکھا ہوتا ہے؟؟ رمشا نے ویسے انفارمیشن کے لیۓ پوچھ لیا۔۔۔
“بہت محنت کرنی پڑی تھی مجھے اس سب کے لیۓ۔ پہلے میں سنگنگ کرتی تھی تو میری آواذ بہت پر کشش تھی۔۔ ہر کوئ میرا اسیر ہو جاتا۔۔۔” میڈم جویریہ نے بہت نرم لہجے میں بتایا۔۔
“ہاں مجھے پتا ہے جب آپ نے نعت شروع کی ہو گی تو آپ سے سب لوگ کٹ کے رہ گۓ ہوں گے۔۔۔ کتنا ڈی گریڈ کیا ہو گا سب نے آپ کو۔ ایسا ہی ہو تا ہے۔۔۔” رمشا کو اب سچ میں افسوس ہو رہا تھا۔۔
“نہیں بیٹا ایسا تو کچھ نہیں ہوا۔ ہماری فیملی میں سب نے مجھے سپورٹ کیا۔ میرے اس قدم کو سراہا۔۔ ضروری نہیں کہ ہر کوئ آپ کو گانا گاتے ہوۓ سننا چاہتا ہو۔۔ کتنے لوگ اللہ کے کلام کو بھی تو پسند کرتے ہیں۔۔۔” میڈم جویریہ نے اپنا حجاب ٹھیک کرتے ہوۓ بہت ٹھہر ٹھہر کر بتایا۔۔
“آپ کو مشکل نہیں ہوئ ایک دم سے اس طرف آتے ہوۓ۔؟؟” رمشا کو اب میڈم جویریہ انٹرسٹنگ لگ رہی تھیں۔
“مشکل تو ہوئ تھی۔ مجھے اپنی آواذ پر بہت محنت کرنی پڑی تھی۔ چھ مہینے۔۔۔ ہاں سنگنگ چھوڑنے کے چھ مہینے بعد میں نے پبلک میں پہلی دفعہ نعت پڑھی تھی اور اس کا اتنا اچھا رسپانس ملا تھا کہ میں اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔۔۔”
“واؤ آپ کی لائف تو بہت امیزنگ ہے۔۔۔ پہلے بھی فینز اور بعد میں بھی فینز۔۔۔ نائس ٹو میٹ یو میڈم جویریہ۔۔۔۔” میڈم جویریہ نے بس مسکرانے پر ہی اکتفا کیا۔۔۔
“اوکے رانیہ میں چلتی ہوں اب۔۔۔ کل تم نے ضرور آنا ہے مجھے ضروری کام ہے تم سے۔۔۔” کہہ کر رمشا دروازے کی طرف چلی گئ۔۔۔۔
“بہت پیاری ہے رمشا۔۔۔ مجھے تو بہت اپنائیت محسوس ہو رہی تھی اس سے بات کر کے۔۔ اگر یہ اللہ کے راستے پر چلی تو دیکھنا کتنا آگے جاۓ گی۔۔۔” میڈم جویریہ بھی اب جانے کے لیۓ کھڑی ہو گئیں۔۔
*—————————*