(Last Updated On: )
دَم ہونٹوں پر آ کے رُکا تھا
یہ کیسا شعلہ بھڑکا تھا
تنہائی کے آتشداں میں
میں لکڑی کی طرح جلتا تھا
زرد گھروں کی دیواروں کو
کالے سانپوں نے گھیرا تھا
آگ کی محل سرا کے اندر
سونے کا بازار کھلا تھا
محل میں ہیروں کا بنجارا
آگ کی کرسی پر بیٹھا تھا
اک جادوگرنی وہاں دیکھی
اُس کی شکل سے ڈر لگتا تھا
کالے منہ پر پیلا ٹیکا
انگارے کی طرح جلتا تھا
ایک رسیلے جرم کا چہرہ
آگ کے سپنے سے نکلا تھا
پیاسی لال لہو سی آنکھیں
رنگ لبوں کا زرد ہوا تھا
بازو کھنچ کر تیر بنے تھے
جسم کماں کی طرح ہلتا تھا
ہڈی ہڈی صاف عیاں تھی
پیٹ کمر سے آن ملا تھا
وہم کی مکڑی نے چہرے پر
مایوسی کا جال بنا تھا
جلتی سانسوں کی گرمی سے
شیشۂ تن پگھلا جاتا تھا
جسم کی پگڈنڈی سے آگے
جرم و سزا کا دوراہا تھا
٭٭٭