(Last Updated On: )
دم، ہوا کے سوا کچھ اور نہیں
بُت، خدا کے سوا کچھ اور نہیں
شعر فہمی کہاں، کہ اب لب پر
مرحبا کے سوا کچھ اور نہیں
آدمی ہے مگر ادھورا ہے
پا رسا کے سوا کچھ اور نہیں
راہِ ہستی کی منزل موہوم
نقشِ پا کے سوا کچھ اور نہیں
ابتدا دردِ دل کی کیا کہیے
انتہا کے سوا کچھ اور نہیں
دل وحشی کی کفر سامانی
کربلا کے سوا کچھ اور نہیں
اپنی پہچان آپ پیدا کر
تُو ضیا کے سوا کچھ اور نہیں
٭٭٭