سکھیوں نے اسے خاک سے اٹھا، ہاتھ منہ دھلا، بہت دلاسا تسلی دے کر کہا: سب آرزوئیں خاطر خواہ تیری ابھی بر آتی ہیں۔ اچھے وقت تو نے اپنے راز دل سے آگاہ کیا۔ وہ راجا، بن کا رکھوالا، جس کی چاہت سے تیری یہ حالت بنی ہے، اسے نگہبانی کے لیے رکھیوں نے بلوایا ہے۔ پھر وہ اس تپ بن میں آیا ہے اور اسے ہم نے دیکھا ہے کہ آثار تیرے عشق کے اس کے حالات سے ظاہر ہیں، راہ گھر کی بھولا ہے، وحشت زدہ پھرتا ہے، نہ وہ رنگ و روپ، نہ وہ طرح طور ہے، سوکھ کر کانٹا ہوگیا ہے۔
یہاں یہ باتیں ہوتیاں تھیں کہ وہ چھپا کھڑا سنتا تھا۔ دیدۂ حسرت سے دیکھ رہا تھا کہ وہ معشوق عاشق مزاج اس طرح ناشاد خاطر بیٹھی ہے کہ اس کے مہتابی مکھڑے پر آہ کی ہوائیاں چھٹ رہی ہیں۔ سکھیاں اسے بہلا بہلا کہتیاں ہیں کہ ہمیں یہ تدبیر سوجھتی ہے کہ تم اسے اپنے ہاتھ سے خط لکھو، سب اپنے دل کی حالت جو گذرتی ہے، زبان قلم پر لاؤ۔ دیکھتے ہی خط کو اور مطلع ہو کر اس کے مضمون سراپا درد سے یہاں آوے گا۔ کام تغافل کو نہ فرماوے گا، اب ڈھیل اس میں مت کرو۔
بہ ظاہر وہ شرمائی اور باطن میں خوش ہوئی۔ پھر سکھیوں سے کہا: یہ بات بہت اچھی ہے، میرا بھی دل گواہی دیتا ہے، یہی کیا چاہیے، پر یہ ڈر ہے کہ اگر خط کو پڑھ کر تغافل کرے اور نہ آوے تو ہمیں حسرت سے اور اس غیرت سے جان ہی دینی پڑے۔ تب انسویا نے جواب دیا: سکنتلا! تو کیوں دیوانی ہوئی ہے جو ایسا خیال کرتی ہے۔ گھر میں کوئی دولت آئی ہوئی نہیں لیتا اور دروازہ بند کر دیتا ہے؟ جسے ایک چاہے اسے دوسرا کیوں کر نہ چاہے۔ تمھاری محبت کا جو راجا کو یقین ہووے گا تو اپنی قسمت سراہے گا۔ وہ عاشق زار پھر کہنے لگی: یہاں کاغذ و دوات و قلم کہاں ہے جو میں نامہ لکھوں۔ تب سکھیوں نے کہا: کنول کی پنکھڑیوں پر خون دل سے لکھ کر پیک صبا کے ہاتھ جلدی روانہ کر۔
کنول کی پاتی اس نے لکھ کر بنائی اور سکھیوں کو پڑھ سنائی۔ انھوں نے جی لگا کر سنی، لکھا تھا:
ہم کیا علاج کریں، مہر تمھارے دل میں ذرا نہیں، دل ہمارا نظروں ہی نظروں میں چرا لے گئے، پھر دکھائی نہ دیے؛ سراپا تمھارا برگ گل سے بھی نازک تر برہما نے بنایا ہے، ایسے بے درد اور سنگ دل ہو!
یہ احوال سكنتلا نے سکھیوں کو سنایا اور راجا درختوں سے نکل آیا۔ جلوہ اپنا دکھا کر سکنتلا سے بولا: جنگل میں رات دن وحشی سا پھرتا ہوں، تمھاری محبت سے گھر بار تج کر بن باسی بنا ہوں۔
جوں راجا ان کے پاس آ کر یہ باتیں کرنے لگا، وے سب شاد ہوئیں۔ سكنتلا تعظیم کو اٹھنے لگی، دبلاپے سے نا طاقت دیکھ کر راجا بولے: یہ جو حالت نظر آئی تمھاری، معاف تمھیں تعظیم ہماری، دیکھ کر یہ جلنا تمھارا، سلگ گیا سب کلیجا ہمارا۔ ہاتھ لاؤ! تمھاری نبض دیکھیں، مرض دریافت کرکے تدبیر کریں۔
پریم ودا بولى: اچھی ساعت تم آئے، تم نے ہمارے سب دکھ بھلائے، سکنتلا کا بھی کوئی درد نہ رہے گا؛ دیکھو نبض اس کی اور جو علاج چاہو کرو، دیکھیں ہم حکمت تمھاری۔
راجا مسکرا کر پاس جا بیٹھا اور سکنتلا بھی شرمائی۔ دونوں کی ایک سی محبت دیکھ انسویا راجا سے بولی: گو کہ آج تمھیں اس کی چاہ ہے لیکن اس کا تمھارے ہاتھ نباہ ہے۔ تم راجا ہو، عورتیں تمھارے یہاں ان گنت ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی الفت دل سے بھلا دو، اور یہ جان واحد رکھتی ہے، کوئی اس کا اتنا مونس و غم خوار نہیں۔ جو کبھی تم اس سے غافل ہوگے اور اس کی خاطر نہ کرو گے، پھر اس کا کیا حال ہوگا؟ کیوں کر اس کی زندگی ہوگی؟
اتنا کہہ کر وہ چپ ہو رہی۔
راجا نے کہا: افسوس کہ میں نے اس کی خاطر یہ حالت اپنی بنائی لیکن تمھیں میری چاہت باور نہیں آئی۔ تم بدگمانی سے میرے حق میں یہ باتیں کہتی ہو۔ ابیات:
نہ ہو گی کبھی کوئی مجھ سے وہ بات
جو کوئی کہے گا یہ کی اس نے گھات
کروں گا دل و جان اس پر فدا
رہے یاد تم کو یہ میرا کہا
میں اس کے ہاتھ جب آپ بک گیا، سب اس کی چیریاں ہوں گی۔ جب سے میں نے اسے دیکھا ہے ہوش و قرار یک لخت جاتا رہا ہے۔ گھر چھوڑ کر جنگل میں پھرتا ہوں، اسی کا دھیان آٹھ پہر رہتا ہے۔ میں اس کا دل و جان سے عاشق زار ہوں اور آن آن اس کے حسن و ادا پر نثار ہوں۔ غلام اس کا جانو، میری اس بات کو یقین مانو۔
انسویا بولی: راجا! تم نے ہمارے دل کی اب دبدھا مٹا دی، ہماری خاطر جمع ہوئى۔
بہت خوش ہوئیاں، پھر ہنس کر انسویا نے پریم ودا سے کہا: ہرن کے بچے بھوکے ہوں گے اور اپنی ماؤں کی طرف حسرت سے تكتے ہوں گے۔ اٹھ چل جلدی اے سکھی! جو انھوں کی ماؤں سے انھیں ملا دیں۔
یہ چہل کر کے دونوں سکھیاں چلیں؛ تب خوف کھا کر سكنتلا بولی: تم خدا سے نہیں ڈرتیاں جو مجھے اکیلا چھوڑ کر جاتیاں ہو۔
وے کہنے لگیں: تم ایک گھڑی اپنے پی کے پاس اکیلی رہو اور اپنے اپنے من کی باتیں کہو۔ یہ کہہ کر دونوں ٹل گیاں، پھر سکنتلا وہاں سے گھبرا کر اٹھی۔ راجا نے مسکرا کر اس کی بانہہ گہہ کر کہا: اس دوپہر کی گرمی میں سورج ایسا تپتا ہے جو پرند پر نہیں مار سکتے اور چرند بھی رکھوں کی چھاؤں میں سے باہر نہیں نکلتے۔ تم اٹھ کر یہاں سے کہاں چلی ہو۔ تمھیں میرے پاس سونپ گئیں ہیں جو تمھاری پیاری سکھیاں ہیں۔ جو وے کاج کرتی تھیں مجھے فرماؤ۔ کہو تو صندل گھس لاؤں۔ تمھاری پیشانی پر لگاؤں، کہو تو پنکھا ہلاؤں۔
یہ کہہ کر راجا نے ڈھٹائی کی اور ہاتھ پکڑ کر سکنتلا کو بٹھایا۔ چھاتی اس کی دھک دھک کرنے لگی، ہاتھ لگانے سے اس کے بہت ڈری:
خفا ہو کچھ اک پھر یہ باتیں کہیں
مہاراج یہ تم کو لازم نہیں
مجھے مت چھوو دیکھو مانو کہا
نہیں خوب یہ اختلاط آپ کا
پاپ ہمارا گھر نہیں اور اب تلک بیاہی بھی نہیں گئی۔ آنچل بھی نہیں گہا کسی نے میرا، تمھیں آ کر اب کس خیال نے گھیرا۔ بیت:
کرو در گزر ایسی باتوں سے تم
نہ پیش آؤ اس طرح گھاتوں سے تم
باپ میرا جب گھر آوے گا، تم سے میرا بیاہ کر دے گا۔ كلنک مجھے مت لگاؤ، میری بدنامی دھیان میں لاؤ۔ نہ کروں گی سوا تمھارے شادی۔ تمھیں میں پہلے ہی قبول کر چکی اور تمھارے عشق کی آگ میں سراسر پُھکی۔ جلدی کیوں کرتے ہو، لوگوں کے طعنوں سے کیوں نہیں ڈرتے۔
وہ بولا: راجوں کی کتنی کنواری لڑکیاں برپا کر گندھرو¹ بیواہ کر بیاہی گئیں، دنیا میں ان کی تعریف ہوتی ہے۔
پھر اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ لے کر کہا: آج سے ہم تمھارے ہو چکے اور تم ہماری ہو چکیں۔ ہمارا گندھرو بیواہ ہوا۔ کن منی کی دہشت دل میں کچھ مت کرو؛ وہ بہت اچھا نپٹ سیانا ہے۔ تیرتھ کر کے جب آوے گا، یہ بات سن کر دل اس کا بہت سکھ پاوے گا۔
جب کام دیو نے راجا کو بے کل کیا، کام کی باتوں سے اس کی حالت اور ہونے لگی۔ سكنتلا شرمائی، تب اس نے اسے بھینچ کر ایسا گلے لگایا، گویا وہ ایک جان اور ایک ہی قالب تھے۔ حجاب کا پردہ درمیان سے اٹھا اور کام دل حاصل ہوا۔ ادهر سے نیاز ادھر سے طرز دشنام، ادھر سے سوال بوسہ اور دل کا کام، ادهر سے ادا و ناز سے ہر آن سسکیاں، ادھر سے اختلاط کی گرمیاں۔ اس نے گلے میں ہاتھ ڈالا، اس نے جھڑک کر چھڑا دیا۔
وہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اور درختوں کی گہری گہری چھائیں کہ جہاں یہ چکور سا اس چاند سے مکھڑے پر والہ تھا، وہ کوئل سی کوک رہی تھی، خوشیاں باہم ہو رہی تھیں۔
اس رنگ رس میں شام ہونے کو آئی، گوتمی ڈھوںڈتے ڈھونڈتے وہاں وارد ہوئی۔ آواز اس کی سن کر سکھیاں دوڑی آئیں۔ کہا راجا کو جلد رخصت کرو۔ شکنتلا نہایت ڈری، راجا سے کہا: کہیں تم ان درختوں میں چھپو۔ بوا ہماری گوتمی یہاں اب آوے گی، یہاں سے مجھے گھر کو لے جاوے گی۔ مجھے پھر کب دیدار دکھاؤ گے؟ اب کچھ نشانی اپنی دیتے جاؤ جو اسے ہم دیکھ کر تسلی دل کو دیں۔
جب یہ سکنتلا نے بات کہی، راجا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، نشانی اسے اپنی انگوٹھی دی۔ اتنے میں گوتمی پاس آئی۔ آواز اس کے پاؤں کی سن کر راجا درختوں کی آڑ میں ہو گیا۔ سکنتلا بہت رک کر سر منہ لپیٹ لیٹ رہی۔
گوتمی نے اسے اٹھایا اور یہ پوچھنے لگی کہ تیرے دل کی گھبراہٹ گھٹی یا نہیں؟ تب اس نے یہ بات کہی کچھ درد اور بڑھا۔ ہاتھ پکڑ کر اس کا استھان کو لے چلی۔ جب سکنتلا اپنے مکان میں گئی، راجا کو دکھ کے سمندر میں تھاہ نہ ملی۔ جس جگہ سکنتلا کے ساتھ مزے اٹھائے تھے، وہ پھر وہاں آیا اور خالی سیج کنول کی پتیوں کی دیکھ خار جدائی دل میں کھٹکنے لگے۔ برہ کی تپ سے جلنے لگا اور دل ہی دل میں یوں کہنے لگا: کیا کروں، کدھر جاؤں، کیوں کر کل پڑے مجھے، یہ دکھ اپنا کسے سناؤں، پھر کس شکل سے اسے دیکھنے پاؤں۔ جیوں جیوں وہ سیج سونی دیکھتا تھا تیوں تیوں نیا درد دل دونا بڑھتا تھا۔ ادھر راجا کے دل میں محبت نے غم بڑھایا ادھر سے منیوں نے یوں شور مچایا: مہاراج نے کیوں ہماری سدھ بھلائی، جدھر تدھر سے دیو دیتے ہیں دکھائی اور دیکھنے سے انھوں کی پرچھائیں ہمارے جگیہ میں خلل پڑتا ہے۔
منیوں نے منت و زاری سے جب یہ بات کہی، وہ بروگی جو راجا تھا، سن کر وہاں دوڑا گیا۔ پھر اس بن میں رکھوالی کرنے لگا۔
اور احوال سكنتلا کا سنو:
گوتمی اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تو مکان میں لائی پر اس سے برہ کا درد بھاری نہ اٹھایا گیا۔ سدھ بدھ اپنی بھلا دی، سکھیوں کا ساتھ خوش نہ آیا، اکیلی بیٹھ کر آنسوؤں کا مینہ برسایا اور بنا دیکھے اپنے پیتم کے ذرا بھی کل نہ پڑی۔ ایک ایک گھڑی اس کو ایک ایک برس تھی۔ از بس کہ وہ اس کی نظروں میں سمایا تھا، تمام جہان آنکھوں میں سونا نظر آتا تھا۔ جب کچھ ہوش میں آتی، راجا کی انگوٹھی دیکھ کر پھر بے حواس ہو جاتی۔ سونے مکان میں سر جھکائے ہوئے سوچ میں بیٹھی اور مانند نقش پا کے حیرت زدہ ہو کر نہ جاگہ سے ہلتی نہ کہیں اٹھتی۔ اس نے پہاڑ دکھ سر پر اٹھایا، جس طرح جان سے بدن خالی ہو ویسا حال بنایا۔ شعر:
کروں اور کیا اس کی حالت رقم
کہ عاجز ہوئی یاں زبان قلم
وہ اسی تصور میں اپنی جان لگائے بیٹھی تھی کہ درباسا ایک رکھی وہاں آیا۔ دیکھا اس نے کہ یہ من مارے کسی کے دھیان میں مردے کی حالت بنائے بیٹھی ہے۔ شعر:
خبر دین و دنیا کی رکھتی نہیں
ہوا کیا خدا جانے اس کے تئیں
تحقیق کہ اس کی یہی صورت تھی۔ نہ رکھی کے آنے سے اسے آگہی ہوئی، نہ آنکھ اٹھا کر اسے دیکھا کہ یہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ نہ بستر بیٹھنے کو دیا، نہ کچھ تعظیم و تواضع کی۔ وہ دل میں اپنے بہت رکا اور خفا ہو كر ہاتھ اٹھا کر یوں سراپا کہ سراپا تیرا آتش عشق سے جلے گا اور جس کے دھیان میں تو بیٹھی ہے، وہ تیری خبر نہ لے گا۔
یہ سراپ دے کر رکھی تو وہاں سے چلا، پر اس محو خیال جاناں نے نہ جانا کہ وہ کب آیا تھا اور کب گیا۔ بد دعا اس کی سن کر دونوں سکھیاں دوڑیاں اور جلد درباسا منی کے پاس آئیاں۔ انھوں کے دل میں اس کے سراپنے سے بڑا ڈر ہوا۔
از بس کہ انھوں کو سکنتلا سے محبت نہایت تھی، سمجھ بوجھ کر منت و زاری بہت کی، پاؤں پر گر پڑیاں۔ ہاتھوں کو جوڑ کر بولیاں: اتنا غصہ تمھارے لائق نہیں، اور یہ جو اس کی تقصیر ہے اسے معاف کرو۔ تم دریا کرم کے ہو، اس پر مہربانی کرو۔ اسے بد دعا جو کی ہے، بدلے اس کے نیک دعا دو۔ یہ عاجزی ہماری قبول ہو، جیسی یہ کن کی بیٹی ہے ویسی تمھاری ہے۔
دونوں سکھیوں نے جب یہ باتیں کہیں، درباسا کو ان کی منت کرنے سے رحم آیا۔ كہا کہ جو انگوٹھی راجا اسے دے گیا ہے، جب وہ اسے دیکھے گا تب اسے یاد کرے گا۔
یہ کہہ کر اس دعائے بد کو رد کر کے وہ چلا گیا۔ سکھیاں خوش ہوئیاں، پھر آپس میں بولیاں: جو کچھ منی نے اس کے حال سے خبر دی ہے جھوٹ نہ ہوگی۔ اس سے کسی طرح انگوٹھی لیا چاہیے کہ کہیں کھو نہ دے۔ وہ راجا کی یاد میں بے اختیار ہوگی، تب اسے ہم دکھا دیں گے۔ اس بھید سے ہمیں تمھیں واقف ہیں، اسے ظاہر مت کرو، اسے اور غم ہوگا، کسی طرح جیتی نہ رہے گی۔
یہ آپس میں باتیں کر کے سکنتلا کے پاس آئیں، دیکھا کہ فراق نے اس کی یہ صورت بنائی ہے، نہ کچھ آنکھوں سے سوجھتا ہے، نہ کچھ کانوں سے سنتی ہے، بے خود تصویر کی شکل ہو گئی ہے؛ اس طرح سے اس کی اوقات گزرتی ہے۔ اشعار:
نہ وہ نور سے دن کے آگاہ ہے
تصور میں اس کے وہی ماہ ہے
نہ کچھ شب کی تاریکی پر ہے نظر
وہی شكل ہے دھیان میں جلوہ گر
اگرچہ اس نے اپنی یہ حالت بنائی پر راجا کو اس کی کچھ یاد بھی نہ آئی۔ منیوں نے اسے رخصت گھر کو کر دیا تھا۔ وہ اپنے راج میں مشغول تھا۔ درباسا رکھی کی بد دعا نے ایسی تاثیر کی تھی کہ راجا نے اس کی سرت بھلا دی۔
کئی دنوں سکنتلا نے اسی طرح مصیبت کاٹی، پھر حمل نمود ہوا، نہ اسے کچھ بھاتا تھا نہ کچھ خوش آتا تھا، دن بدن سوکھی جاتی تھی، بدن سارا زرد ہوا جاتا تھا، نقاہت اور سستی غالب ہوتی تھی۔ پچھلی باتیں یاد کر کے رو رو کہتی تھی کہ راجا تو نے ہماری الفت بھلائی، جا کر اور کسی سے آنکھ لگائی۔
اس حالت میں یکایک تیرتھ نہا کر کن منی آن پہنچے اور وہ انھیں دیکھ کر حمل کے سبب نہایت شرمائی۔ اور منی جب ہوم کرنے لگا، آگ میں سے تب یہ آواز آئی کہ یہاں راجا دشمنت آیا، سکنتلا سے گندھرو بيواہ کر لیا، اسی دن سے اسے پیٹ رہا۔ آگ سے یہ صدا سن کے منی دل میں بہت خوش ہوا اور وہ جب ہوم کر چکا، سکنتلا کو بلایا۔ سر سے پاؤں تلک لجائے ہوئے اور نہوڑائی ہوئی وہ آئی۔ منی نے اپنے پہلو میں بٹھایا اور بہت سراہا؛ پھر کہنے لگا: تو نے مجھے اس سے بہت خوش کیا اور بڑی فراغت بخشی کہ جہاں میں تیری شادی کیا چاہتا تھا وہیں تو نے گندھرو بيواہ کیا، اب بن میں اکیلا رہوں گا۔ صبح تجھے سسرال بھیجوں گا۔
وہ شرمائی اور سکھیاں بہت اداس ہوئیں۔ سکنتلا سکھیوں کے چہرے اس غم سے اترے ہوئے دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لائی۔
اتنے میں رات تمام ہوئی اور دن نکلا۔ اسے نہلایا دھلايا اور جتنی رکھیوں کی عورتیں تھیں ملنے کو آئیاں، گھیرے ہوئے بیٹھیاں، اسیس اسے دیتی تھیں کہ تم اپنے دولہے کی پیاری رہو، دیکھ دیکھ سوتیں تمھاری ڈاہ کی آگ میں جلتی رہیں، تم سکھ کے مندر میں ہمیشہ بسیو!
ایسی ایسی پیاری اخلاص کی باتیں کہہ، دعائیں دے اور بلائیں لے کر رخصت ہو ہو اپنے اپنے مکان کو گئیاں۔ سوا ان دونوں سکھیوں کے سکنتلا کے پاس اور کوئی نہ رہا۔ گوتمی اور وہی دو سکھیاں کام خدمت اس کی بجا لاتیاں تھیں۔
جدائی کی کوئی دم میں جو گھڑی ہوا چاہتی تھی، یہ سوچ کر سکنتلا کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ تب گوتمی نے پیار محبت سے اپنی گود میں بٹھا، کنگھی کر، مانگ نکال، زلفیں بنا، چوٹی گوندھی اور سکھیوں نے پھولوں کے ہار ڈال، بدی پہنائی اور کہنے لگیاں کس سے کہیں، کہاں سے لاویں، جو بنا سنوار گہنا اسے سر سے پاؤں تلک پہنا دیں۔ اس ناداری سے آنسو آنکھوں میں بھر آئے۔
سکھیوں پر یہ حالت تھی کہ دو لڑکے کسی منی کے آئے۔ کہا کہ ہم خاصے خاصے اور اچھے اچھے گہنے اور سنگھار کی چیزیں لائے۔ اور آگے رکھ کر کہا کہ کچھ سوچ مت کرو، اسے پہناؤ۔
سکھیاں بہت خوش ہوئياں۔ كہا کہ یہ کہاں سے آیا۔ ان کو اچنبھے میں دیکھ کر چیلوں نے ظاہر کیا: ہمیں کن منی نے بھیجا تھا کہ تم بن میں جا کر سکنتلا کے لیے پھول پھل توڑ لاؤ۔ ہم جو گئے تو وہاں اور ہی گت دیکھی۔ معلوم ہوا کہ یہ گرو کا تصرف ہے کہ کہیں سندور، کہیں کاجل پایا، کہیں مہاوڑ اور پان پائے اور بن ديوتوں نے درختوں سے ہاتھ نکال گہنا کپڑے ہمیں دیے۔
گوتمی نے شگون نیک ٹھہرا، وے سوہے سوہے چٹکیلے کپڑے اور گہنا پہنایا۔ سکھیوں نے مانگ میں سیندور بھر، کاجل آنکھوں میں دے، پاؤں میں مہاوڑ لگا، پان کھلائے۔ اس رنگ سے بنی بنائی۔
جب تلک اور سنگھار سکھیوں نے کیا تب تلک کن منی آیا، سکنتلا جدائی کے غم سے جو بے تابی و بے قراری کر رہی تھی، دیکھ کر اسے بہت گھبرایا۔ جی رندھ گیا، آنکھوں میں آنسو بھر لایا۔ خاطر ناشاد سے کہنے لگا: تن من بے چین ہے، یہ دکھ سہا جاتا نہیں اور اب بغیر اس کے بن میں رہا جاتا نہیں۔ اسے بھی میری مفارقت سے تاب نہیں، شرم سے کچھ بول نہیں سکتی، عجب سوچ میں ششدر کھڑی ہے، جی نہیں سنبھلتا، آنسو آنکھوں سے جاری ہیں، اس طرح سسرال کو چلی ہے۔ اس کی جدائی سے میرے بن باسیوں کو یہ غم ہوا ہے جیسے دنیاداروں کو مصیبت ہوتی ہے۔
منی اس کی الفت سے یہ باتیں کر رہا تھا کہ سکنتلا باپ کا یہ حال دیکھ کر بے اختیار ہو رونے لگی۔
منی نے پیار سے آنسو پونچھ کر اسے گلے سے لگایا اور اتنی بات زبان پر لایا: بس اب مت رو، جی کو اپنے بے تاب ہو کر مت کھو۔ تیرا اس دم رونا ٹھیک نہیں۔ پھر کہا: گوتمی تو اسے کیوں نہیں سمجھاتی؟ یہ جو رو رہی ہے اسے منع کر، یہ اچھی ساعت ہے، ابھی اسے ساتھ لے کر جا۔ پھر اپنے دو چیلوں کو بھی بلا، سکنتلا کے ساتھ جانے کو مقرر کیا۔
گوتمی نے دلاسا دلبری سے سمجھایا اور آپ بھی ساتھ ہوئی آنسو آنکھوں سے پونچھتی اور ہچکیاں لیتی ہوئی سسرال کو چلی۔
تب سب جنگل کے درختوں اور جانوروں سے منی نے پکار پکار كہا: تمھارے پھولنے سے یہ خوش ہوتی تھی اور بے کلی سب جاتی رہتی تھی۔ جب تلک تمھیں یہ نہ سینچتی تھی، پانی بھی نہ پیتی، کیاریاں اور تھالے دن بھر بناتی۔ جو اس طرح تمھاری خدمت کرتی تھی، سنو! اب وہ سسرال چلی ہے۔
جب منی نے درختوں سے یہ بات کہی، تب درختوں پر کوئلوں نے کوک مچائی۔ وے جو کوکتی تھیں گویا درخت نالہ و زاری کرتے تھے۔ یہ شورش اور اپنے ان درختوں کو دیکھ دیکھ وہ آنسو بھر لاتی تھی اور سکھیوں سے کہتی چلی جاتی تھی: اگرچہ راجا کی الفت میرے دل میں ہے پر اس بن کی بھی ہوا میرے جی سے جاتی نہیں۔ اپنے ہاتھوں کے درخت لگائے ہوئے دیکھ کر چھاتی بھری آتی ہے۔ میں تو چلی پر انہيں تمھیں سونپے جاتی ہوں۔
رو رو کر سکھیاں بول اٹھیاں: تو ہمیں کس لیے سونپے جاتی ہے۔ ان درختوں کو بن تیرے کون دیکھے گا اور کسے حواس آویں گے۔ نالہ و زاری آپس میں ہوتی تھی اور سکھیوں کی چاہت سے رو رو کر جان اپنی کھوتی تھی کہ منی نے پھر اسے سمجھايا۔ تب سکنتلا نے آگے پاؤں بڑھایا۔
جدائی سے اس کی بن نے خاک اڑائی۔ مور ناچنا بھولے، ہرنوں نے سبزے کا پھرنا چرنا چھوڑا، چکاروں نے ادهر سے منہ موڑا، پرندوں کے ہوش اڑے، بھونرے گونجنا بھولے اور جتنے جانور تھے، سبھوں پر اس بن میں اداسی چھا گئی، جنگل کے رہنے ہاروں کو بے حواسی آگئی۔
جب وہ کوس ایک وہاں سے آگے بڑھی، تب منی نے یہ بات کہی: دن بہت چڑھ گیا ہے، اب یہاں سے اسے رخصت کرو اور تم اپنے اپنے گھر پھر چلو۔ جو کچھ سمجھانا ہے اب یہیں سمجھاؤ، آگے جانا مناسب نہیں۔ شعر:
کسی کو جدائی گوارا نہ تھی
قلق سے ہر اک کا نكلتا تھا جی
منی نے سنبھال سنبھال سبھوں کو وہاں رکھا۔ پھر اپنے چیلوں سے کہا: راجا دشمنت کو سمجھا کر ہمارا سندیسا ديجيو۔ ہم تمھارے پوجنے کے لائق ہیں اور تم ہمارے سیوک ہو۔ سکنتلا ہماری بیٹی ہے، اسے جی سے پیاری جاننا۔ ہمیں تم نے مکان میں نہ آنے دیا، آپ ہی شادی کر لی۔ اب ایسا کیجیو جو سكنتلا آرام سے رہے، کیوں کہ اس کی بے چینی سے ہمیں چین نہ ہوگا۔
راجا کو یہ پیغام دے کر سکنتلا کے تئیں نصیحت کرنے لگا: ساس نند کی خدمت کرنا، خاوند کے اخلاص میں ان کی فرماں برداری نہ بھولنا، سوتوں میں ہلى ملى رہنا، اپنا بھید کبھی نہ کہنا، اپنی قسمت پر مغرور نہ ہو جيو، خاوند کے حکم میں رہيو، ایسا کام کیجیو جو گھر باہر کے لوگ تجھے نیک بخت کہیں۔ میں نے جو یہ نصیحت کی ہے اسے دل سے یاد رکھنا۔ ہمیں اب رخصت دے، ہم اپنے بن کو جاویں اور سکھیوں کو بھی وداع کر، گوتمی کو ساتھ لے۔
وہ اتنا سن کر منی کے گلے سے لگ رونے لگی، تب اس نے دلاسا دے رخصت کیا۔ پھر سکھیوں سے مل کر روئی۔ تب انھیں سراپ درباسا منی کا یاد آیا۔ انسويا نے چترائی سے کہا: راجوں کو راج کاج کے سبب یاد بہت کم رہتی ہے اور مدت بھی گذری، شاید وہ یاد تیری بھول گیا ہو۔ انگوٹھی جو تجھے دے گیا ہے، اسی کو تو راجا کو دکھانا، وہ اپنی نشانی دیکھ کر بھولی الفت یاد کرے گا، پر اس انگوٹھی کی بہت سی خبرداری کرنا ایسا نہ ہو کہیں گر جائے۔
یہ سن کر سکنتلا سن ہو گئی۔ پھر سکھیوں سے کہا تم نے جو مجھے یہ بات سنائی اس کا بھید میں نہیں پاتی۔ تم نے بات بہت بے ڈھب کہی، میرا دل دھڑکتا ہے۔
سکھیوں نے کہا: دیکھ دوپہر دن آیا ہے، ہمیں رخصت کر، تو بھی آگے پاؤں دھر۔
گوتمی اور وے دونوں چیلے رکھی کے ساتھ ساتھ گئے، يہ سب گھر کو پھر آئے، پیچھے پھر پھر دونوں طرف سے آپس میں دیکھتے جاتے تھے۔
سکھیاں کہتی آئیاں: ہمیں اس بنا بن سونا دکھائی دیتا ہے۔ ہاتھوں کو مل کر پھر یوں بولیں: اب سکنتلا دکھائی نہیں دیتی۔
اس طرح منی تو سکھیوں کو لے مکان میں آیا اور سکنتلا جب آگے گئی، ایک تالاب راہ میں دیکھا؛ پیاس کی شدت سے تالاب کے کنارے گئی، پانی پی کر پیاس بجھائی، پر ایک پل میں بڑا غضب ہوا کہ انگوٹھی انگلی میں سے نکل کر پانی میں گر پڑی اور اسے کچھ سدھ نہ رہی۔
وہاں سے اٹھ کر دونوں چیلوں کے ساتھ ساتھ راجا کے یہاں پہنچی۔ وہ خلوت میں تھا، ڈیوڑھی پر جا کر چیلوں نے خبر دی۔ خوجوں نے ان کی زبانی عرض کی کہ مہاراج! كن منی نے دو چیلے بھیجے ہیں اور ساتھ ان کے دو عورتیں کر دیں ہیں۔ ایک جو ان میں جوان ہے، سو آپ کے لیے نذر ہے۔
نام عورتوں کا سن کے راجا کو اچنبھا آیا۔ بہت فکر و اندیشے میں گیا اور دیوان عام میں نکل آیا۔ منی کے چیلوں کو بلایا۔ آگے چیلے پیچھے گوتمی، تس پیچھے سکنتلا۔ اس طرح سب کے سب آئے۔ راجا نے بڑی عزت سے پاس بلایا۔ اور سکنتلا شرم سے گویا زمین میں گڑی جا رہی تھی، پر گھونگھٹ کیے کھڑی تھی۔ کم بختی جو آئی تو دہنی آنکھ اس کی پھڑکنے لگی۔ وسواس اس کے دل میں ہوا کہ خدا خیر کرے، دیکھوں کیا ہوتا ہے۔ اس بد شگونی سے اس کا دل بہت کڑھا ۔
جب غور کر کے سکنتلا کو راجا دیکھنے لگا، ایک تعجب سا اسے ہوا۔ اپنے دل میں کہا: یہ کون ہے اور کہاں سے آئی! منیوں نے بن میں کیوں کر پائی! سمجھا نہیں جاتا! اسے یہاں کیوں لائے!
یہ بچار راجا نے جب اپنے دل میں کیا، تب منی کے چیلوں نے آشیر باد دیا۔ راجا نے مسند سے اتر کر انھیں ڈنڈوت کی اور سب کام اپنے چھوڑ کر انھوں سے خیر و عافیت پوچھی۔ کہا: تمھارے بن باسیوں کی کیا خبر ہے؟ تمھارے گرو بھلے چنگے ہیں؟
وے چترائی کر کے بولے: مہاراج کے راج میں ایسا دکھ کا نام نہ رہا جیسے سورج کی روشنی سے اندھیرا جاتا رہے۔ جن کی دعا سے لوگ ہمیشہ سلامت رہیں، ان رکھیوں کی کھیم کسل ہم کیا کہیں۔ مہاراج کے پاس ہم آئے ہیں، یہ سندیسا گرو کا لائے ہیں! جانی ہم نے سب محبت تمھاری، اور سکنتلا ہے یہ بیٹی ہماری۔ جو گندھرو بیواہ تم نے یہاں کیا، یہ سن کر ہم نے برا نہیں مانا۔ مہاراج میں جتنے گن ہیں اتنے ہی سکنتلا میں بھی ہیں۔ ہمارا جی بہت سکھ پایا، خدا نے بھلا سنجوگ بنایا۔ اور یہ پیٹ سے ہے، سن کر جلد یہاں بھیجا۔ سکنتلا کو اپنے پاس رکھیو۔ ہم نے منی کا سندیسا کہہ دیا، سکنتلا کو ہم نے یہاں پہنچایا، ہمیں اب رخصت کرو۔
درباسا منی کے سراپ سے راجا تو اس کی طرف سے غافل تھا، کہنے لگا: تم منی کے چیلے بڑے چترے، یے کیا باتیں کہتے ہو۔ سکنتلا سے کس نے شادی کی ہے، میں اسے نہیں جانتا۔
یہ باتیں اس سے سن کر چیلے تو بہت خفا ہوئے اور سکنتلا بے حواس ہو دل میں کانپنے لگی۔ راجا کی بے دھرمی سے دونوں چیلے رک کر بولے: مہاراج! کچھ تم دھرم کو جانو، ایسا خیال فاسد دل میں مت لاؤ؛ تب تو بیاہ کیا، چھل کی کر گھاتیں، اب تم کہنے لگے یہ باتیں۔ سچ ہے کہ راجا وہی کرتے ہیں کہ جو ان کے جی میں آتا ہے، اور کسی کا درد نہیں جانتے۔
یہ کہہ کر چیلے چپ رہے اور گوتمی گھبرا کر سکنتلا کو سمجھانے لگی: ایک دم شرم کو چھوڑ راجا کو منہ دکھا، تیرا منہ دیکھ کر اسے سدھ آوے گی۔
یہ کہہ کر سکنتلا کا گھونگھٹ کھلوایا، راجا کو اس کا منہ دکھایا۔ دیکھ کر تب بھی اس نے ہاں ناہ کچھ نہ کی، حیرت زدہ سا رہ گیا۔ تب منی کے چیلوں نے جھنجھلا کر کہا: مہاراج! کچھ دل میں سوچو، سمجھ بوجھ کر ہمیں جواب دو۔
راجا بولے: میں نے بہت دیر تک غور سے نظر کی۔ جاگتے تو معلوم مگر خواب میں بھی کبھی شکل اس کی نہیں دیکھی۔ میرے اس کے جو تم لگن لگاتے ہو کیوں ناحق کلنک چڑھاتے ہو؟ حمل سے یہ عورت کسی اور کے ہے، اپنے گھر میں رانی بنا کر کیوں کر رکھوں؟
وے دونوں چیلے آتش غضب میں جلے۔ پھر راجا سے یوں کہنے لگے: ایسی باتیں جو تم زبان پر لاتے ہو، منی لوگوں کا خوف دل میں نہیں کرتے؟ کن مہا منی جب خفا ہوگا، تمھارا احوال کیا ہوگا۔ ان باتوں سے راجا کو ڈرا کر بہت غصہ کر کے سکنتلا سے بولے: تب کسی سے تو نے نہ پوچھا، آپ ہی گندھرو بیواہ کیا، جیسا کیا اس کا ویسا مزہ چکھا، منہ اپنا کھول، راجا سے کچھ بول۔
شرم کا پردہ رخ سے اٹھا کر وہ بولی: مہاراج! یہ ریت کیا ہے، اس میں بڑا ظلم ہوتا ہے، تمھارے ہاتھ کیا آوے گا؟ کس لیے مجھے عیب لگاتے ہو؟ تب تو پہلے ہم نے تمھیں ایسا نہ جانا تھا، جو کچھ تم نے کہا سب ہم نے مانا۔ تب ویسی چھل کی کر گھاتیں اب تم کہتے ہو کیا یہ باتیں۔ رخصت ہوتے تم نے دی تھی انگوٹھی، اس سے میں نہیں ہوں تمھارے آگے جھوٹی۔ اور آگے کیا بھید بتاؤں، کہو تو وہی انگوٹھی دکھاؤں۔
سکنتلا یہ کہہ کر چپ رہی۔
راجا نے پھر یوں بات کہی: یہ تم نے بات بناؤ کی کی، اب تک کیوں نہ انگوٹھی دی۔ جو میں انگوٹھی اپنی دیکھوں تو تمھیں سچا جانوں۔
تب اس نے گھبرا کر نگاہ کی، انگوٹھی ہاتھ میں نہ پائی، رنگ چہرے کا زرد ہوا، بے قرار ہو کر ہائے ہائے مچائی۔ وہ حیرت سے گوتمی کی طرف دیکھنے لگا، سكنتلا تب شرمندہ ہوئی۔
راجا نے ہنس کر یہ بات کہی: تریا چرتر ہم کانوں سے سنتے تھے سو آنکھوں دیکھا۔ میں نے تجھے کب دی تھی انگوٹھی؟ ایسی بات کیوں کہتی ہے جھوٹھی۔ غیر رنڈی سے ہم نے کبھی ملاقات نہیں کی، تمھارا فن یہاں نہ چلے گا۔
جب وہ راجا کے دل سے یوں بھولی تب جھنجھلا کر یوں بولی کہ قسمت نے مجھ کو برا دن دکھایا، جس طرح سے چاہا ناچ نچایا۔ نہیں ہے انگوٹھی کیا میں دکھاؤں، کہو تو کچھ اور بھید بتاؤں۔ ہم تم جو بن میں باتیں چاہت کی کر رہے تھے اور کیا کیا آہیں دل میں بھر رہے تھے۔ جو ایک ہرن کا بچہ وہاں آیا، تم نے اسے کس کس پیار سے بلایا۔ جب وہ وحشی بھاگا رم کر کے، پاس نہ آیا پھر وہاں ڈر کے۔ جب میں نے اسے بلایا تب وہ دوڑا آیا۔ تم نے ہنس کر کہا مجھ کو، تم دونوں بن باسی ہو۔ ہرن کا بچہ رہتا ہے ساتھ تمھارے، بھاگے ہے یہ سائے سے ہمارے۔ یہ کہہ کر تم نے ہنسی مچائی، اب وہ سدھ بدھ سب بھلائی۔
یہ سن کر بھی اسے کچھ یاد نہ آیا۔ ایسی ہی باتیں پھر وہ زبان پر لایا کہ دغا سے میٹھی میٹھی باتیں کر کے رنڈی دل مردوں کا چھین لیتی ہے۔ ایسی باتیں کر رہی ہے گویا جھوٹ کہیں چھو نہیں گیا۔ تب خفا ہو کر گوتمی نے کہا: مہاراج! تم ٹھٹھول ہو، ہم بن باسی ہیں، باتیں بنا کیا جانیں۔ کپٹ کہاں سیکھی ہم نے بن میں، دغا ہوتی ہے راجوں کے من میں۔
یہ کہہ کر گوتمی چپ رہی۔ پھر راجا بولا: عقل سبھاؤ سے ہوتی ہے۔ کوئل چترائی کر کے انڈے کوے کی جھونجھ میں دے آتی ہے۔ جب وہ سیتا ہے اور بچے نکل کر بڑے ہوتے ہیں، تب اپنے ساتھ ساتھ لیے پھرتی ہے۔
راجا نے جب ایسی کڑی بات کہی، سکنتلا خفا ہو بولی ارے بے انصاف! تو کیا کہتا ہے۔ تو نے مجھ سے کی ٹھگی، تب میں نے تجھے ٹھگ نہ جانا، جو تو نے کہا سو میں نے مانا۔
یہ کہا اور سر نیچے کر لیا۔ آنکھوں سے ایسی جھڑی لگائی، پل مارتے میں اس نے ندی بہائی۔
تب خفا ہو کر دونوں چیلے اس سے کہنے لگے: شروع الفت میں تو نے کسو کو نہ جتایا، جیسا کیا ویسا اس کا پھل پایا؛ بغیر امتحان کیے کی آخر یہی سزا ہوتی ہے۔
سکنتلا سے کہہ کر پھر راجا سے کہا: سن تو اب یوں بات ہماری، بھلی بری یہ عورت ہے تمھاری؛ چاہو اسے رکھو، چاہو اسے نکال دو، ہم سے کچھ مت کہو۔
پھر ہاتھ پکڑ گوتمی کا دونوں چیلے گھر کو پھر چلے۔ سکنتلا بھی روتی ہوئی ان کے پیچھے یہ کہتی چلی: تم نے بھی چھوڑا اور راجا نے بھی۔ اب میں بے شرم بے کس کہاں جاؤں۔ مجھے تم چھوڑ کر جو اب چلے ہو، میں دوں گی جان اپنی غم سے رو رو۔ شعر:
نہ کوئی مونس و غم خور مرا ہے
ہے اک دل سو بلا میں مبتلا ہے
وے خفا ہو کر بولے: اے کم بخت! تو ادھر کہاں آتی ہے، اب کر جو تیرے دل کو اچھا لگے۔ جیسا راجا کہتا ہے اگر تو ویسی ہی ہے تو منی ایسی لڑکی کو کیا کرے گا، اور جو سچ ہے تیرا کہنا تو لازم ہے تجھے پی کے گھر رہنا ۔ منی کے یہاں تو جا کر رہے گی تو تجھے ساری دنیا کلنک لگاوے گی۔ جو خاوند کی لونڈی بھی ہو کر رہے گی تو بھی تجھ پر ہنسی نہ ہوگی۔
یہ کہہ کر چیلے چلے۔ تب راجا نے انھوں کو پکارا: کہاں اسے چھوڑے جاتے ہو؟ اس کے باپ کو لے جا کر سونپو۔
چیلوں نے پھر کر جواب نہ دیا۔ وے چلے گئے، یہ باہر روتی رہ گئی۔
یہ اس کی بپت دیکھ کر سوم راج پروہت نے ترس کھا، راجا کے پاس آ کر کہا: لڑکا جب تلک اس سے ہووے، تب تلک یہ رہے۔ اگر تمھارا بیٹا ہوگا تو سب راجوں کا راجا ہوگا۔ تمام پنڈت پکارے کہتے ہیں، جب یہ لڑکا جنے گی اور لچھن راجوں کے اس میں پائے جاویں گے تو اسے سچا جاننا اور اپنے محل میں داخل کرنا۔ جو اس میں جوہر ذاتی پائے نہ جائیں تو کن منی کے گھر بھیج دینا۔ منی اور رکھی لوگوں کی بد دعا سے لوگ بے ہوش ہو جاتے ہیں اور سراپ مٹنے سے سدھ میں آتے ہیں، تب پیچھے پچھتاتے ہیں۔
یہ سن کر راجا نے کہا: کرو جو تمھارے دل میں آوے۔ یہ حکم راجا سے لے کر سکنتلا سے کہا: تو ہمارے گھر چل۔
چیلے تو اس طرح چھوڑ گئے، راجا نے یوں چھوڑا، سکنتلا روتی ہوئی سوم راج کے ساتھ چلی۔ اتنے میں ایک آگ کا شعلہ پیدا ہوا اور سکنتلا سے لپٹ کر اٹھا۔ زمین سے آسمان پر لیے گیا۔ وہ شعلہ اس کی ماں تھی کہ جس کا نام منیکا پری کہتے ہیں وہ ان باتوں سے جل بل کر اسے یوں لے گئی۔
جب وہ بجلی سی چمک کر نظروں سے غائب ہوئی، تب پروہت راجا پاس دوڑا آیا۔ کہا: مہاراج! تعجب کی بات ہے! ایک اچنبھا دیکھا میں نے اپنی آنکھوں سے۔ آنسوؤں کی مالا پروتی ہوئی جب وہ میرے ساتھ چلی اور بے اختیار ہو کہنے لگی میں بے کس ہوں، میرا کوئی نہیں تب ایک آگ کا شعلہ سا آیا اور اسے آسمان پر لے گیا۔
یہ سن کر راجا نے خوش ہو کر کہا: ہم نے پہلے ہی اسے پہچانا تھا، خدا نے اچھی بات کی۔
یہ کہہ کر پروہت اپنے گھر کو آیا، راجا اٹھ کر اپنے سونے کے مکان میں گیا۔ تب بھی اسے سرت نہ آئی لیکن دل میں فکر مند ہوا۔ رات کی نیند، دن کی بھوک جاتی رہی، نہایت اداس رہنے لگا۔
اور جو انگوٹھی سکنتلا نے تالاب میں گرا دی تھی، اسے کسی دھینور نے پایا اور بازار میں بیچنے لے گیا ۔ جوہریوں نے راجا کا نام کھدا دیکھ کر اسے چور جان کر پکڑا، کوتوال کے یہاں لے جا کر قید کروا دیا۔
کوتوال نے اسے مارا باندھا اور پوچھا: تو نے یہ انگوٹھی کیوں کر چرائی اور کہاں سے پائی اور کس طرح تیرے ہاتھ آئی؟
اس نے کہا: صاحب! میں نے نہیں چرائی مگر تالاب میں سے پائی؛ جال میں نے تالاب میں ڈالا تھا، اس میں لگ آئی۔
یہ سن کر انگوٹھی لے کوتوال نے چھوڑ دیا اور راجا کے پاس آ، انگوٹھی دکھائی؛ تب اس کو سکنتلا کی یاد آئی۔ انگوٹھی ہاتھ میں لیتے ہی درد نے دل میں گھر کیا، آرام چین یک لخت جاتا رہا، رونے لگا، سر پر دونوں ہاتھ مار ہائے ہائے کر پکارا، خوشی نام کو نہ رہی۔ دل میں سوچنے لگا: کس سے کہوں، یہ میں نے کیا کیا، اپنے گلے پر چھری دی۔ وہ دوست میرے پاس آئی تھی، میں نے دشمنی کی، مجھ سے رکھی نہ گئی۔ تب تو بھول گیا تھا، اب وہ سب باتیں یاد آئیں۔ اس نے تو حجاب کا پردہ درمیان سے اٹھا کر سب بھید بتایا، تب بھی میرے دل میں کچھ نہ آیا۔ ادھر سے میں نے اس نازنین کو چھوڑا، ادهر سے وہ چیلے اسے چھوڑ گئے۔ شور کر کے وہ راہ میں رونے لگی، تب بھی محبت میرے دل میں نہ آئی۔ اب کانٹا جدائی کا دل میں کھٹکے ہے، چھاتی پھٹتی ہے، سانس دم بہ دم اٹکے ہے۔
جب سے کوتوال نے لا انگوٹھی دی، تب سے عجیب حالت اس فراموش کار پر ہونے لگی۔ دل میں درد، رنگ زرد، نہ دن کو بھوک، نہ رات کو نیند؛ زاری اور بے قراری سے سروکار۔ بیراگ سے راگ بھی خوش نہ آتا، آٹھ پہر درد دل سے کڑھتا تھا۔ اگر جوں توں دن کاٹتا تو رات نہ کٹتی اور رات کاٹتا تو دن نہ کٹتا۔
راجا کے اس غم سے شادی شہریوں کے دلوں سے ایسی جاتی رہی کہ کوئی خوشی کا خیال بھی نہ لاتا۔ لڑکوں نے کھیلنا بھلا دیا، جوانوں کی حالتیں بوڑھوں سے بدتر ہو گئی تھیں۔ کسی کے لب سے ہنسی آشنا نہ تھی، ہر ایک کے منہ پر اداسی چھا رہی تھی۔ وہ جو سکھ کا دینے والا راجا سكنتلا کے دکھ کے دریا میں ڈوب گیا تھا، عورت و مرد کے دلوں سے آرام رم کر گیا تھا۔ بدلی غم کی تمام شہر میں چھا رہی تھی، خوشی بے کار تھی۔ فراق زدہ مہاراج کے راج میں بسنت رت کی آمد ذرا بھی کہیں نظر نہ آتی تھی۔ کوئل کو بولنے نہ دیتے بلكہ درختوں سے مار مار اڑاتے تھے۔ خوشبو بازار میں بکنے نہ پاتی۔ رنگین کپڑوں کا پہننا تو معلوم، اگر بندھے بندھائے پاتے تو انھیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے۔ پھولوں کا تو مذکور کیا، کچی کلیاں جو ٹہنیوں پر دیکھتا توڑ توڑ کر خاک پر پھینک دیتا۔
یہ احوال تو شہر کے لوگوں کا تھا، اور راجا بیمار سا دن بدن زرد ہوا جاتا تھا۔ من مارے ہوئے بے کل رہتا، بار بار چھاتی بھر آتی اور آنکھ آنسوؤں کی جھڑیاں لگاتی۔ راج کاج سے دل اٹھائے اکیلا بیٹھا رہتا۔ بھرا جہان اسے خالی معلوم ہوتا، کچھ اچھا نہ لگتا۔ دل میں خیال اس کا کر کے آنکھیں بند کر لیتا اور اس کے دھیان میں پہروں باتیں کر کے دل بے تاب کو تسلی دیتا۔ کبھی اس کو خیال میں سامنے کر کے کہتا: تم سختی دل سے دور کرو، ظاہر ہو، مجھ غمگین کو دکھائی دو، تب مجھے تمھاری یاد نہ آئی، جیسی کی ویسی میں نے اب سزا پائی۔ کدورت اپنے دل سے صاف کرو، خدا کے واسطے ایک تقصیر میری معاف کرو۔ میں جیسا ہوں ویسی ہی مجھ سے بن آئی، تم اپنی بھلائی نہ چھوڑو غصہ جانے دو، دل میں رحم کر کے ادهر منہ موڑو۔
یہ کہہ کر راجا کو غش آ گیا، منہ پر زردی چھا گئی، بدن پسینا پسینا ہو گیا، ہاتھ پاؤں سے حرکت جاتی رہی۔ اتنے میں چتری نام ایک چیری راجا کے پاس دوڑی آئی۔ یہ حالت دیکھ کر بے اختیار روئی اور پنکھا جھلنے لگی۔ جب کچھ ہوش اسے آیا، غفلت سے آنکھ کھول دی۔ سر پر لونڈی کو روتے دیکھ آہ کر کے بولا: تجھے کیا کام تھا جو تو ادھر آئی؟ میں کس آرام میں تھا، کیوں مجھے جگا کر بے چین کیا؟ پھر تو نے نئے سر سے یاد دلائی۔
غم کی ایک کتاب جب اس نے کھولی تب وہ چتری لونڈی بولی: مہاراج! معلوم نہ ہوا کہ سکنتلا کو یک بیک راہ میں سے کوئی چھلاوہ تھا جو یوں چھل کر لے گیا، پھر ظاہر نہ ہوا کہ کیا ہو گئی؟
تب راجا نے کہا: منیکا پری جو اس کی ماں تھی، اڑا کر لے گئی۔ جب اس نے اسے اس حالت سے دیکھا کہ ادهر میں نے منہ نہ لگایا اور بے مروتی سے پیش آیا۔ ہر چند وہ منت و زاری سے کس کس طرح جتا جتا کر اور یاد دلا دلا کر کہتی رہی، آنسوؤں کی ہر ایک آنکھ سے اس کی ندیاں بہتی رہیں، تب بھی میں نے غفلت سے کچھ پروا اس کے احوال پر نہ کی۔ ادھر منی کے دونوں چیلوں نے یہ حالت دیکھ، چھوڑ کر گھر کی راہ لی، مہر مادری سے اس ماہ لقا کو اس کی ماں نے اس بلا سے نجات دی۔
چیری اس بھید سے آگاہ ہو کر بولی: اختیار کی باگ ہاتھ سے نہ دیجیے اور تھوڑے دنوں صبر کیجیے۔ امید قوی ہے کہ تمھارا اس کا ملاپ ہوگا۔ وہ تمھاری عاشق زار ہے اور تمھارے دام الفت میں گرفتار ہے۔ جس کی یہ حالت بیان کی، کیوں کر اسے بغیر تمھارے کل پڑے گی۔ جب تمھارے عشق میں اس کی بے قراری اور نالہ و زاری اس کی ماں دیکھے گی کب اسے گوارا ہوگا کہ وہ بسمل تیغ عشق کی تڑپ تڑپ کر یوں جان دے۔ علاج اس جاں بلب آمدہ کا تمھارے لب جاں بخش سے کرے گی۔ خاطر پریشان کو جمع کیجیے اور جو میں نے خدمت عالی میں عرض کی ہے، وہ شدنی ہے، ہو جانیے۔
وہ کہنے لگا: ایسی قسمت میری نہیں! میں یہاں خاک پر وہ وہاں افلاک پر۔ میرے اس کے زمین و آسمان در میان ہے، ملاپ ممکن نہیں کہ ہوگا۔ قطعہ:
درد میرے دل سے کب یہ جائے گا
چین یک دم مجھ کو کیوں کر آئے گا
کاش تو جلدی نکل جا تن سے جی
ورنہ اب ایذائیں کیا کیا پائے گا
پھر چیری نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی: میں نہیں کہتی تم سے بات جھوٹھی، یہ کیوں کر مل گئی انگوٹھی، کب یہ پانی میں گری تھی؟ کس وقت ملاح نے پائی، پھر کہاں سے مہاراج کے ہاتھ میں آئی؟
اسے چترائی سے اس نے یوں سمجھایا اور اس الفت کے دیوانے نے یہ بھید انگوٹھی کا سن پایا۔ وہ جو برہ کے دریا میں ڈوبا ہوا تھا، اسی انگوٹھی سے یوں کہنے لگا: میں سمجھا تھا دنیا میں ایک میں ہی کم بخت ہوں پر تو بھی بڑی بے نصیب ہے۔ تجھے وہ معشوقیت سے ہاتھ میں رکھتی تھی، تو چھوٹ اس سے جدا ہوئی اور میں بھی ڈھونڈتا ہوں کہ وہ میری آرام جاں کیا ہوئی؟ ہم دونوں کو پچھتاوا ہے۔ مجھے اس کی دوری نے مرنے کے نزدیک پہنچایا اور تیرے لیے یہ حلقہ تیرا بس گرداب ہے۔ کہاں مجھے ویسی صورت نظر آوے گی اور کب تو ویسا ہاتھ پاوے گی؟
وہ بے حواسی میں دیوانہ سا بے کل رہتا تھا اور جی میں جو آتا تھا سو کہتا تھا۔
اب سکنتلا کا احوال سنو!
جب مینکا اسے وہاں سے اٹھا کر لے گئی، کشیپ منی کے استھان میں جا کر اتارا، بود و باش اس کی وہیں مقرر کی، رات دن وہاں رہنے لگی۔ جب حمل کے دن پورے ہوئے، ایک لڑکا صاحب جمال پیدا ہوا اور اس کے سوتے طالع جاگے۔ بھرت نام اس لڑکے کا رکھا اور پرورش پانے لگا۔
جب کچھ ایک بڑا ہوا، منی نے ایک گنڈا بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا۔ گن اس میں یہ تھا کہ اس کے ماں باپ سوا کوئی اسے چھوئے، کالا سانپ ہو کر اسے ڈسے۔
یہاں کا تو یہ ماجرا، اور کتنے ایک دنوں کے بعد منیکا پری نے راجا اندر سے جا کر کہا: تم راجا دشمنت کو یہاں بلا بھیجو۔ وقت ملاقات کے سمجھا، سکنتلا کے احوال کی یاد دہی کر، ہاتھ پکڑ ملاؤ۔ آپ کی توجہ سے آپس میں ان دونوں کا ملاپ یوں نظر آتا ہے۔
راجا نے قبول کر اس کے بلانے کے لیے ماتل رتھ بان کو حکم کیا کہ تخت لے جا اور دشمنت کو ہماری طرف سے پیغام دے کر جلد سوار کر کے لے آ۔
ماتل بہ موجب امر کے روانہ ہوا۔ جب وہاں سے راجا کی ڈیوڑھی پر پہنچا، وہ تو دکھ میں تھا کہ رتھ بان نے اہل کاروں اور عرض بیگیوں سے ظاہر کیا: مجھے راجا اندر نے بھیجا ہے، خبر کرو۔
چوب داروں نے سنتے ہی راجا سے عرض کی: مہاراج! راجا اندر نے ماتل رتھ بان کو بھیجا ہے اور ایک خوبصورت تخت واسطے آپ کی سواری کے لیے آیا ہے۔
راجا نے وہیں بلا لیا۔ ماتل نے سلام کیا، تب راجا نے یہ پوچھا: کہو سب کے سکھ دینے والے راجا اندر خیر و عافیت سے رہتے ہیں؟ اس نے صحت و سلامتی بیان کرکے عرض کی کہ مجھے مہاراج نے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ دیو ہم سے لڑتے ہیں، ہماری کمک کو آئیے اور انھیں سزا کو پہنچائیے۔
راجا نے اس کی خیر و عافیت پوچھی۔ پھر راجا اندر کی تعریف کرنے لگا: زہے نصیب ہمارے کہ راجوں کا راجا مہاراج ہمیں اس مہربانی سے یاد فرماوے! یہ محض بندہ نوازی ہے، وگرنہ ہماری کمک کے کب محتاج ہیں۔ جس بندے کو حکم کریں، ایک آن میں ان کا کام تمام کر دے۔
پھر اچھی اچھی پوشاک پہن کر، تمام ہتھیار بدن پر سج کر تخت پر بیٹھ، خدمت میں راجا اندر کی روانہ ہوا۔ جب آدھی راہ طے کر کے نصف آسمان تک پہنچا، ایک پہاڑ اچھا نظر پڑا۔ رتھ بان سے پوچھا: یہ کوہ بہ ایں شکوہ کون سا ہے اور کیا نام اس کا ہے؟ اس نے عرض کی: ہیم کوٹ ایسے کہتے ہیں۔ اس میں کشیپ منی رہتے ہیں۔
راجا نے کشیپ منی کا نام سن کر اس سے کہا: تخت کو اس طرف پھیر، ہم ان کا درشن کریں گے۔
وہ تخت اس طرف چلا۔ جب نزدیک جا پہنچا، تخت سے اتر وہاں کی سیر کرنے لگا۔ پھول رنگ بہ رنگ کے تمام اس پر کھلے ہوئے دیکھے، پانی چشموں سے جاری، درخت سب میوہ دار، ہر ایک ٹہنی پر جانور بول رہے اور چہچہے کر رہے۔
اس کے سوا اور ایک تماشا دیکھا کہ ایک لڑکا خوبصورت چھوٹی سی عمر کا، شجاعت کے تمام آثار اس کی پیشانی سے روشن ہیں، شیر کے بچے سے کھیل رہا ہے۔ گردن و بازو اس کا پکڑ کر زور کرتا ہے۔ اور دو تپشنیں اس کے ساتھ ساتھ ہیں، ہر چند وے منع کرتی ہیں وہ نہیں مانتا، کلا جبڑا اس کا چیر چیر کر دانت گنتا ہے۔
راجا کو اس کی بہادری سے تعجب ہوا اور جی میں محبت پیدا ہوئی۔ اپنے دل میں کہنے لگا: جیسے اپنے لڑکے کو دیکھ کر پیار آتا ہے، ویسی ہی اس لڑکے کی مجھے الفت ہوئی۔ اللہ نے مجھے بے اولاد رکھا، پرائے بیٹے کو حسرت سے دیکھتا ہوں۔
پھر ان تپشنوں سے پوچھنے لگا کہ چھوٹی سی عمر اس کی اور یہ جرأت و دلاری! کس کا یہ بیٹا ہے؟ اس کے باپ کا کیا نام ہے؟
بولیں: کیا کہیں اور کیا بتاویں۔ اس کے باپ کم بخت کا یہاں کوئی نام نہیں لیتا۔ ماں اس کی خوبصورت اور خوش سیرت، سر سے پاؤں تلک شرم و حیا! سو اس بے تقصیر کو اس کے باپ نے حمل سے بھی گھر میں نہ رکھا، بے عزتی سے نکال دیا۔
یہ سن کر راجا کے جی میں شک ہوا اور فکر کے دریا میں ڈوب گیا۔ پوچھنے لگا کہ باپ تو اس کا گنہ گار ہے لیکن اس کی ماں کون ہے؟ اس کا احوال ظاہر کرو۔
راجا نے جب یوں پوچھا، تپشنوں نے جواب دیا: اس بہادر کی ماں کا نام سکنتلا ہے۔ جب راجا نے اسے نکال دیا تب اس کی ماں منیکا پری اسے اس احوال میں دیکھ کر وہاں سے یہاں لے آئی۔
سنتے ہی جتنا شک جی میں تھا جاتا رہا۔ چھاتی بھر آئی اور جی میں کہنے لگا کہ منزل مقصود کو ہم پہنچے۔ بے اختیار ہو کر لڑکے کو گود میں اٹھا لیا اور چھاتی سے لگا کر تپشنوں سے کہا: جس کا نام زبان پر نہیں لاتیں وہ گنہ کار میں ہی ہوں۔ جو کچھ قصور ہوا مجھ سے ہوا، اس بے تقصیر کا تقصیر وار میں ہوں۔ اب میری تقصیریں معاف کرو اور میرا آنا جا سناؤ اور اس آرام جان کو مجھ سے ملاؤ۔
لڑکے کو گلے سے لگائے وہ یہ کہتا تھا۔ اور گنڈے کی تاثیر سے ظاہر تھا کہ کوئی غیر ایسے اگر ہاتھ لگاتا تو وہ گنڈا اسے سانپ ہو کر ڈستا۔ اس سبب سے انھیں بھی یقین ہوا کہ یہ اس کا باپ ہے۔ وہ دوڑ کر سکنتلا کے پاس گئیں اور سارا وہ احوال بیان کیا اور ساتھ لائیں۔ ہر چند اس نے سن کر تغافل کی لیکن کشش محبت کی کھینچ لائی۔
راجا نے خجالت سے اس حجاب زدی کو دیکھا کہ درد فراق اس کے دل میں کارگر ہے اور احوال اس کا نوع دگر ہے؛ منہ اترا ہوا، بال سر کے چکٹے ہوئے، کپڑے بدن کے میلے۔
وہ جو اس صورت سے نظر آئی، زار زار رونے لگا اور وہ شرم سے سر نہوڑائے ہوئے پاس آ کھڑی ہوئی۔ اس وقت راجا کو اور بات کچھ بن نہ آئی، پاؤں پر گر پڑا۔ سکنتلا بولی: کیوں مجھے گنہ کار کرتے ہو؟ آپ بھی رونے لگی اور سر کو پاؤں پر سے اٹھا کر کہا: مہاراج! اب تمھیں کیوں کر ہوش آیا؟
راجا نے کہا: تقصیر میری معاف ہو! کچھ مجھے معلوم نہیں کہ مجھے کیا ہو گیا تھا جو میں نے بے نالائق باتیں کیں، لیکن اتنا دریافت ہوتا ہے کہ یہ انگوٹھی جب میں نے پائی تب مجھے سدھ بھولی ہوئی یاد آئی۔ تب سے جان وبالِ تن ہے، ایک دم کی دوری ہزار طرح کا رنج و محن ہے۔ جو کچھ مجھ سے گنہ ہوا ہے، معلوم نہیں ہوتا کیا اسرار تھا! خفگی جانے دو، میں اپنے گناہ کا آپ اقرار کرتا ہوں، اس سے در گزرو، جو جو بے مروتیاں اور سختیاں میں نے کیں ہیں، لطف و مہربانی سے انھیں بھول جاؤ، خاطر میں ہر گز نہ لاؤ۔ مجھے سخت پشیمانی حاصل ہوئی ہے۔ پس اب رنجیدگی دور کرو، میرے دل غمگین کو مسرور کرو۔ یہ كہا اور ہزار ہزار منت و سماجت کی۔
سکنتلا نے کہا: مہاراج! گناہ تمھارا کچھ نہیں، یہ میری قسمت کی برائی ہے۔ آپس میں وے دونوں عاشق و معشوق یے باتیں کر رہے تھے جو کشیپ منی نے راجا کے آنے کی خبر سن کر بلایا۔ وہ لڑکے کو اپنے گلے سے لگائے ہوئے جب پاس گیا، پہلے ڈنڈوت کر کے قدم لیے، پھر ہاتھ باندھ کر گناہ گاروں کی طرح آگے کھڑا رہا۔ سکنتلا بھی سر نیچے کیے ہوئے حاضر ہوئی۔ انھوں کی طرف غور و تامل سے دیکھ کر منی نے کہا کہ راجا! یہ اپنے خاندان کی بہت نیک ہے اور یہ بیٹا اس کے یہاں اچھی ساعت میں پیدا ہوا ہے۔ لچھن اس میں سب خوب ہیں اور تم بھی نیک ذات اور نیک صفات ہو، سنجوگ تمھارا نیک ہوا ہے۔ جب اس نے یہ خوبیاں بیان کیں، تب راجا نے ہاتھ جوڑ کر کہا: میرے دل میں جو گمان بد اور خیال ہوا تھا سبب اس کا مجھے کچھ دریافت نہیں ہوتا، اس سے مجھے آگاہ کرو، کیا باعث اس کا تھا؟ اور تم سے کچھ چھپا نہیں، گذشتہ و حال و آئندہ کا سب احوال تم پر روشن ہے۔ اور میں تم سے اس لیے پوچھتا ہوں کہ میں نے گندھرو بیواہ کر کے سر رشتہ الفت کا بڑھایا کہ کبھی تار دوستی کا نہ ٹوٹے۔ کیا سبب ہے کہ برعکس اس کے مجھ سے عمل میں آیا؟ خبر کچھ نہ رہی، اپنے قول و اقرار پر میں نہ رہا۔ جب یہ یار وفادار میرے گھر میں آئی، سوز و گداز اپنا شمع کی مانند زبان پر لائی، تب بھی مجھے کچھ پروا نہ ہوئی اور اس کے جدا ہونے سے بھی کچھ خیال نہ گذرا کہ یہ کون ہے اور کہاں سے آئی تھی اور کدھر گئی؟ پھر دیکھتے ہی انگوٹھی کے کیوں کر یاد آئی؟ یہ بڑا تعجب ہے؟
راجا نے جب اپنے دل کا یہ شبہ بیان کیا، تب منی نے ہنس کر جواب دیا: سكنتلا کو منیکا جس وقت یہاں لائی تھی، اسی آن سوچ کر میں نے دھیان کیا تو پردہ اس راز کا تمام مجھ پر کھل گیا۔ دربارسا منی نے غصے سے سکنتلا کو سراپا تھا کہ راجا کو تیری طرف سے ایسی غفلت ہووے گی کہ تجھے بھول جاوے گا، بہت دنوں تک روئے گی۔ غرض جو کچھ اس کے حق میں بد دعا دی تھی، اس کے آثار سب کچھ نظر آئے۔ اس میں تقصیر تمھاری کچھ نہیں۔ اور وہ سراپ سکھیوں نے سنا تھا، سکنتلا کو اس سے خبر نہ تھی اور انھوں نے بھی مناسب وقت نہ جانا جو کہتیں۔ مگر درباسا رکھی کے ہاتھ پاؤں پڑ کے انھوں نے بہت عاجزی اور منت و زاری کی، تب اس منی کے جی میں کچھ رحم آیا اور یہ بھید بتایا کہ راجا اس کی طرف سے غفلت کرے گا۔ جب انگوٹھی اپنی پاوے گا تب اس کو سکنتلا کی بھولی ہوئی یاد پھر آوے گی لیکن کتنی مدت یہ ایذائیں اٹھائے گی۔ یہ کہہ کر وہ منی چلا گیا تھا اور اس کی بد دعا نے یہ اثر کیا تھا کہ تم نے دل سے اس کی یاد بھلائی تھی اور انگوٹھی لیتے ہی سدھ آئی۔ کچھ اور تم دل میں اندیشہ نہ کرو، میری بات یقین جانو۔ اور کن منی نے بھی بد سلوکی تمھاری چیلوں کی زبانی سن کر تمھیں تقصیر وار نہ ٹھہرایا، سراپ درباسا منی کا دھیان میں لایا۔ تمھاری بدسلوکی کی باتیں منیکا سے سن کر راجا اندر نے تمھیں بلایا ہے۔ منیکا نے عرض کی تھی، تم راجا دشمنت کو بلا کر سکنتلا کو ملا دو۔ سو یوں اتفاق ہوا، اب سکنتلا کو اور اپنے بیٹے کو لے کر گھر پھر جاؤ۔ خوشی و خرمی سے عیش و عشرت کرو۔
یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک وکیل راجا اندر کا وہاں آ پہنچا۔ اظہار کیا کہ راجا اندر نے کہا ہے جو ہمیں منظور تھا وہ مقصد راہ میں پورا ہوا، اب تم اپنے مکان کی طرف پھر جاؤ۔
یہ سنتے ہی ڈنڈوت کر کے اور تخت پر سکنتلا اور لڑکے کو بیٹھا کے آپ سوار ہوا اور ساتھ لے کر انھیں گھر آیا۔
اس طور ان مشتاقوں کی آپس میں ملاقات ہوئی، طالع سوتے ہوئے دونوں کے جاگے، دکھ درد ان کے دلوں سے یک لخت بھاگے، دونوں خوش و خرم ہوئے۔ سکنتلا رانی ہوئی اور راجا اپنے راج میں حکمرانی کرنے لگا، تمام رعیت ان کی خوشی سے شاد ہوئی، وہ نگری پھر سر نو آباد ہوئی۔ سب مطالب و مقاصد ان کے دلوں کے بر آئے، اپنے حسن و جوانی کے خوب مزے اٹھائے۔
اب یہ کہانی یہاں تمام ہوئی، لفظ و معنی سے بخوبی سر انجام ہوئی۔ از بس کہ زبان ریختہ میں لکھی، سال ہجری کے موافق ریختہ تاریخ ہوئی۔ بیت:
سکنتلا کا ہے احوال اس میں بس مذکور
سکنتلا کے اسے نام سے کیا مشہور