’’ہیلو— ہیلو— آپ کون؟‘‘ ارے! فون رکھ دیا۔ فرحین نے فون کی طرف دیکھا۔ فون بند ہوچکا تھا۔ اس نے جلدی سے قلم اور ڈائری اٹھائی اور ابھی فون پر جو کچھ بات چیت ہوئی وہ لکھنے لگی۔ اے 61 ، مگریہ کالونی….. اس کا نام تو پہلے کبھی نہیں سنا، کالونی کا نام لکھتے ہوئے وہ سوچنے لگی، ’’خیر!‘‘ یہ کہہ کر اس شخص کی مزید Information وہ ڈائری میںدرج کرنے لگی۔
یہ جو کچھ اس شخص نے بتایا کیا یہ سب سچ ہے، یا پھر….. فرحین اس فون کال پر کافی دیر تک غور کرتی رہی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے احسن کا نمبر ملایا۔
’’احسن کیا کر رہے ہو؟ کیا تم ابھی آسکتے ہو؟ کچھ ضرو ری کام ہے۔‘‘
’’کیوں کیا پھر کسی مہم پر نکلنا ہے؟‘‘ احسن نے ناگواری کے ساتھ پوچھا۔
’’پہلے تم آجا ئو پھر بات ہوگی، کیمرا وغیرہ سب ساتھ لانا۔‘‘ یہ کہہ کر فرحین نے فون رکھ دیا اور گہری فکر میں ڈوب گئی۔
’’کبھی کبھی تو چھٹی نصیب ہوتی ہے وہ بھی تمھیں پسند نہیں آتی۔‘‘ احسن کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔
’’میرے پاس ابھی ابھی ایک فون کال آئی تھی، فون پر میری اس شخص سے جو بات ہوئی اور جو Information حاصل ہوئیں، میں نے سب ڈائری میں درج کرلی ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر فرحین نے احسن کی طرف ڈائری بڑھا دی۔
’’یہ کالونی تو بہت دور ہے، تقریباً ایک گھنٹے کی ڈرائیو۔‘‘ احسن نے ایڈریس دیکھ کر کہا۔
’’شکر ہے تم سے یہ تو پتا چل گیا کہ ایسی کوئی کالونی موجود ہے، ورنہ میں نے تو سو چا تھا…..‘‘ فر حین تھوڑی مطمئن ہوئی۔
’’یہ فون کال کسی سازش کا پیش خیمہ بھی ہوسکتی ہے۔ تم نے اخبار میں جو تازہ آرٹیکل چھپوایا ہے، اس میں بڑے بڑے پردہ داروں کی جانب اشارے ملتے ہیں۔‘‘ احسن نے خدشہ ظاہر کیا۔
’’اس شخص نے میرے اس آر ٹیکل کا حوالہ بھی دیا تھا۔ کہہ رہا تھا میں پڑھ کر بہت متأثر ہوا ہوں۔ اگر آپ جیسے لوگ اس طرح چہروں کو بے نقاب کرتے رہے تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن جائے گا۔‘‘
فرحین ایک فری لانس صحافی تھی۔ اس کا اپنا ایک انداز تھا، ایک سوچ تھی، ایک مشن تھا، وہ ایمان داری اور محنت میں یقین رکھتی تھی۔ احسن اس کا دوست تھا، کیمرا مین تھا، اور شاید باڈی گارڈ بھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ فرحین کسی مصیبت میں پھنس جائے۔چند روز قبل دونوں ایک مشکوک شہرت زمیں دار کا انٹر ویو لینے گئے، وقت مقرر کیا جاچکا تھا، جب وہ زمیں دار کی حویلی پہنچے، گیٹ پر چار مسلح گارڈز تعینات تھے۔ فرحین نے کارڈ دکھایا اور بتایا کہ ہم لوگوں نے وقت لیا ہے زمیں دار صا حب سے ملنے کے لیے۔
ایک گارڈ نے فون پر زمیں دار صا حب سے پوچھا، پھر گیٹ کھولا گیا اور ان کی گاڑی کو اندر لے جانے کی اجازت ملی۔ گاڑی کو پارکنگ شیڈ میں کھڑی کرنے کے بعد وہ دونوں حویلی کے اندر داخل ہونے کا راستہ تلاش کرنے لگے۔ حویلی چاروں اور با غات سے گھری ہوئی تھی۔ پھولوں کی بھینی بھینی مہک تمام ماحول کو سرشار کیے ہوئے تھی۔ احسن حویلی اور اس کے ماحول کو کیمرے میں محفوظ کر رہا تھا۔ فرحین اس کے ساتھ ساتھ تھی۔ چلتے چلتے ان کی نظر پڑی، انھوں نے دیکھا درختوں کے ایک جھنڈ کے درمیان نیچے جانے کے لیے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ وہ ان سیڑھیوں سے نیچے اتر گئے۔ وہاں دیکھا ایک بڑ ا سا ہال تھا، دونوں کو اس ہال کا دروازہ جیل کے دروازوں کی طرح لگا۔ دونوں نے اس ہال کے اندر سے ایسا شور سنا جیسے کچھ لوگ نالہ و فریاد کر رہے تھے۔ ابھی فرحین اور ا حسن ہال کے نز دیک پہنچے ہی تھے کہ دو آ دمیوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ احسن کو جو اس ہال کے اندر قید خواتین کی تصویریں لے رہا تھا، بری طرح مارا پیٹا، بڑی مشکلوں سے اس نے اپنا کیمرا بچایا۔ پھر وہ فرحین کو اوپر گھسیٹتے ہوئے لے جانے لگے، احسن بھی فرحین کے پیچھے لگا چلا گیا۔ وہ لوگ فرحین کو ایک گاڑی میں ڈالنا چاہتے تھے، فرحین اور احسن چیخ چیخ کر ان لوگوں کو بتا رہے تھے کہ خود زمیں دار صاحب نے انھیں ملنے کے لیے وقت دیا ہے، بلایا ہے، مگر وہ لوگ بے حد مشتعل تھے، کچھ کہنے سننے کے روا دار نہیں لگتے تھے۔
’’ارے بابا! یہ شور کیسا ہے، یہ سب کیا ہو رہا ہے؟‘‘ زمیں دار کی آواز آئی۔ زمیں دار صاحب مو قعے پر پہنچ گئے تھے۔ وہ دونوں آدمی باادب کھڑے ہوگئے۔فرحین اور احسن کی اگرچہ بری حالت تھی پھر بھی ہمت کرکے فر حین نے اپنا کارڈ دکھایا اور بولی، ’’سائیں آپ سے وقت لیا تھا۔‘‘
زمیں دار صاحب نے کارڈ لے کر ایک نظر کارڈ پر ڈالی پھر ان دونوں کو دیکھا اور اپنے آدمیوں سے بولے، ’’بابا یہ ہمارے مہمان ہیں، تم لوگوں نے کیا حالت بنائی ہے ان کی۔ ان کو مہمان خانے میں لے جائو، فوراً ڈاکٹر کو بلا کر ان کی مرہم پٹی کرائو اور ان کی خاطر تواضع کرو۔‘‘
اب جو فرحین نے کسی نئی مہم پر جانے کا سلسلہ کیا تو زمیں دار والا واقعہ احسن کی آنکھوں کے سامنے آگیا وہ سوچ میں پڑگیا۔
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ فر حین نے کہا ۔
’’یہی کہ کیا کرنا چاہیے؟‘‘ احسن نے جواب دیا۔
’’فرحین نے اپنی ڈائری اور دوسری ضروری چیزیں پرس میں رکھیں اور کہنے لگی، ’’ہمیں چلنا چاہیے— دیر ہو رہی ہے۔‘‘
’’تم نے فیصلہ کرلیا!‘‘ احسن حیرانی سے بولا۔
’’ہاں بھئی، اب اُٹھ جائو۔‘‘ فرحین یہ کہتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھ گئی۔
’’تم اپنی موٹر بائیک یہیں چھوڑدو۔ ہم گاڑی میں چل رہے ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے فرحین گاڑی میں بیٹھ گئی۔ احسن دوسری طرف سے آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
’’تو! آج گاڑی میں چلا رہا ہوں۔‘‘ احسن ہنستے ہوئے بولا، کیوں کہ وہ جانتا تھا فرحین اپنی گاڑی کسی کو چلانے نہیں دیتی۔
’’راستہ جو تمھیں معلوم ہے۔‘‘ فرحین نے کہا۔
’’ارے واہ! موسم کتنا اچھا ہوگیا ہے۔ ہلکی بوندا باندی، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، کیوں نہ ہم سمندر کی سیر کو چلیں۔‘‘ احسن موسم کی خوب صورتی دیکھ کر خوش ہوتے ہوئے بولا۔
’’موسم کے مزے لینا چھوڑو گاڑی تیز چلائو۔ اگر بارش تیز ہوگئی تو گھر ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘ فرحین بولی۔
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد یہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچے۔
’’کالونی کا پتا تو صحیح بتایا تھا اس شخص نے۔ اب گھر بھی مل جائے۔‘‘ احسن نے گاڑی سے اُتر کر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ آبادی بہت کم تھی، مکانات دور دور تھے۔ جگہ کافی سنسان تھی۔ جلد ہی یہ لوگ اس مکان تک پہنچ گئے جس کا پتا فون کال کرنے والے نے بتایا تھا۔ ایک خوب صورت تختی گیٹ کے برابر آ ویزاں تھی۔ جس پر ’’A-61‘‘ لکھا تھا۔
فرحین نے گھنٹی بجائی، پچیس چھبیس سال کے ایک شخص نے گیٹ کھولا، فرحین اور احسن کو کھڑا دیکھ کر فوراً ہی گیٹ بند کرنے لگا۔ اسے شاید کسی اور کا انتظار تھا، لیکن احسن ایک جھٹکے سے گیٹ کے اندر ہوگیا اور فرحین اس کے پیچھے پیچھے۔
’’آپ لوگ کون ہیں، اور اس زبردستی کا کیا مطلب ہے؟‘‘ اس شخص نے درشت لہجے میں پوچھا۔
’’ہم لوگ میڈیا سے ہیں۔‘‘ فرحین نے جواب دیا۔
وہ شخص گھبرا سا گیا لیکن اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے بولا، ’’یہ شریف لوگوں کا گھر ہے آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟‘‘
احسن نے پیچھے سے اس کا کالر مضبوطی سے پکڑا، اس کو دھکا دیتے ہوئے آگے کی طرف بڑھتا چلاگیا، فر حین اس کے قدم بہ قدم چل رہی تھی۔ سب سے پہلے ایک بڑا سا کمرہ پڑا جو شاید ڈرائنگ روم تھا، خوب صورت قیمتی فرنیچر سے آراستہ، اس کے بعد لابی سے گزرتے ہوئے کمروں تک پہنچے، تین بیڈ رومز جو بہت نفاست سے سجائے گئے تھے۔ آخری کمرے میں ایک لڑکی بیڈ پر گائو تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز تھی۔ احسن ابھی تک اس کے کالر کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا۔ لڑکی ان لوگوں کو دیکھ کر گھبر اگئی۔ تیزی سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور جھٹ پٹ اپنے دوپٹے سے ا پنے پورے چہرے کو ڈھانپ لیا سوائے آنکھوں کے اور بولی، ’’ارشد یہ کون لوگ ہیں ؟‘‘
’’ہم لوگوں کا تعلق میڈیاسے ہے۔ غلط کاموں کی نشان دہی کرنا، انھیں دنیا کے سامنے لانا ہمارا کام ہے، تاکہ ایسے تمام غلط کاموں کے راستے بند ہوجائیں۔‘‘ فرحین نے پُراعتماد لہجے میں کہا۔
یہ سن کر لڑکی نے رونا شروع کر دیا۔
’’رونے سے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ فرحین نے اسے تسلی دیتے ہو ئے کہا، تمھیں میرے سوالات کا جواب دینا ہوگا۔
تم کون ہو اور یہاں تک کیسے پہنچی ہو؟
’’میرا نام سارہ ہے، میری ایک دوست نے یہ کہہ کر کہ تمھیں ایک اسٹیج شو میں ایکٹنگ کرنا ہے۔ اور ایکٹنگ بھی وہ لوگ خود ہی سکھاتے ہیں، مجھے اس آدمی کے ساتھ جانے کو کہا تھا۔ میں پیسوں کی لالچ میں اسٹیج شو میں کام کرنے کے لیے تیار ہوگئی اور ارشد کے ساتھ ہوگئی۔ وہ مجھے اس جگہ لے آیا جہاں میں آج ہوں۔ یہاں پہنچ کر مجھے پتا چلا کہ میں تو گناہوں کی دلدل میں دھکیلی جارہی ہوں، مگر میں اپنے آپ کو بچا نہ سکی۔ ایک سال سے میں یہی کچھ کر رہی ہوں۔‘‘ لڑکی نے پھر رونا شروع کر دیا۔
’’پولیس!‘‘ پولیس موبائل کی آواز سن کر ارشد گھبرا کر بولا۔
’’ میں نے پولیس بلائی ہے۔‘‘ احسن نے درشت آ واز میں کہا۔
ارشد نے احسن کے ہاتھ سے اپنے آپ کو چھڑا کر بھاگنا چاہا، لیکن پولیس کے سپاہیوں نے اسے دبوچ لیا۔
’’آپ لوگ ارشد کو لے کرپولیس اسٹیشن چلیں۔ ہم بھی اس لڑکی کو لے کر پہنچتے ہیں۔ وہیں اس کا بیان قلم بند ہو جائے گا۔‘‘ احسن نے اے ایس آئی سے کہاجو پولیس پارٹی کو کنٹرول کر رہا تھا۔
لڑکی فرحین اور ارشد کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی، تھوڑی تھوڑی دیر سے رونا شروع کر دیتی۔ فرحین نے لڑکی سے کہا، ’’سب سے پہلے تم رونا بند کرو اور مجھے یہ بتائو کیا تم یہ سب کچھ چھوڑ کر نیک زندگی کی طرف آ نا چاہتی ہو۔‘‘
لڑکی نے اپنے دوپٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے سر کے اشارے سے ’’ہاں‘‘ کہا۔
پولیس اسٹیشن پہنچ کر ان لوگوں نے سارہ (لڑکی) کا بیان قلم بندکروایا۔ ارشد کو لاک اپ میں بند کر دیا۔
’’فی ا لحال ہم تمھیں گھر چھوڑتے ہیں۔ ہو سکتا ہے تمھیں ایک آ دھ مرتبہ کیس کے سلسلے میں کورٹ آنا پڑے۔ میں کوشش کروں گی کہ تمھیں کوئی کام دلوا سکوں تاکہ تمھیں کوئی ماہانہ آمدنی ملنے لگے۔ میں تم سے رابطے میں رہوں گی۔‘‘ فرحین نے سارہ سے اس کا موبائل نمبر بھی لے لیا۔
راستے میں سارہ نے فرحین کو اپنی پوری کہانی سنائی۔ اس نے بتایا، ’’کوثر میری بچپن کی سہیلی تھی، ہم ایک ہی اسکول، ایک ہی کلاس میں پڑھتے تھے۔ گھر بھی ہمارے نزدیک تھے، صرف ایک گلی کا فاصلہ تھا۔ یہ دوستی ہم دونوں تک ہی محدود نہیں تھی، ہمارے والدین بھی ایک دوسرے کے اچھے دوست تھے۔ میٹرک کے بعد میری پڑھائی چھڑا دی گئی، کوثر نے کالج میں داخلہ لے لیا۔ ہم دونوں کی دوستی قائم تھی، ہفتے میں ایک مرتبہ ہر اتوار کو ہم ایک دوسرے سے ملتے۔ کبھی وہ میرے گھر آتی توکبھی میں اس کے گھر چلی جاتی۔ وہ مجھے اپنے کالج کے مزے مزے کے قصے سناتی۔ کبھی کبھی میں سوچتی کاش! میں بھی کالج جا سکتی۔
پھر اچانک کوثرسے ملاقاتوں کا سلسلہ بہت کم ہوگیا۔ وہ بہت مصروف رہنے لگی تھی۔ کافی عرصے تک ہماری ملاقات نہیں ہوئی۔ ایک دن میں اس کے گھر گئی اتفاق سے وہ گھر پر موجود تھی، میں اس کا گھر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ جس گھر میں جدید الیکٹرانک کی کوئی چیز نہیں تھی۔ آج وہ گھر نہ صرف ضروریاتِ زندگی بلکہ تعیشات سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے والدیہ سب سامان مہیا کرنے کی استعداد نہیں رکھتے تھے، گھر میں کوئی دوسرا کمانے والا بھی نہیں تھا۔ ’میںکسی اور گھر میں تو نہیں آگئی۔‘ ہنستے ہوئے، تعجب سے میں نے کو ثر سے کہا۔
وہ مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گئی۔
’کیا زبردست فرنشڈ کیا ہے تونے اپنے کمرے کو۔‘ میں نے حیرت سے کمرے کے چاروں طرف نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔ ’تجھے یا کریم چاچا کو الٰہ دین کا چراغ ہاتھ لگ گیا ہے کیا؟‘‘ یہ کہتے ہوئے میں اس کے بیڈ پر جو بہت مزے دار لگ رہا تھا، پیر اوپر کرکے بیٹھ گئی۔ وہ بھی میرے سامنے بیٹھ گئی اور کہنے لگی، ’میں ایک اسٹیج شو میں کام کرنے لگی ہوں۔ تو کرے گی؟‘
’امی، بابا نے اجازت دے دی تو ضرور کروں گی۔‘ میں نے جواب دیا۔
’لیکن کوثر میں تو یہ کام جانتی ہی نہیں ہوں۔ کروں گی کیسے؟‘ میں نے کو ثر سے یہ نارمل سوال پوچھا۔
’ تم فکر نہ کرو وہ لوگ سکھا دیں گے۔‘ کوثر نے مجھے کہا۔
’اور پھر ایک دن کوثرنے مجھے ارشد کے ساتھ بھیج دیا۔ وہ مجھے اس گھر میں لایا۔‘
’یہ تم مجھے کہاں لے کر آئے ہو؟ تم تو مجھے اسٹیج شو میں لے جانے والے تھے۔‘ میں نے ارشدسے سوال کیا۔
ارشد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اور مجھے بٹھا کر وہاں سے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک شخص آیا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس کو دیکھ کر میں خوف سے کانپنے لگی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ بھاگ جائوں، مگر کیسے؟
’ارشد کہاں ہے؟‘ میں نے اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے پوچھا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تھوڑی دیر بعد اُٹھا اور دروازے کی کنڈی بند کر دی۔ میں بہت روئی، دھوئی، منتیں کیں— سب بے کار— بس اس دن سے میری زندگی بدل گئی۔ مجھے بھی اچھے خاصے پیسے ملنے لگے۔ دھیرے دھیرے میرے گھر میں اور مجھ میں تبدیلی آتی گئی۔ ہمارا Standard of living بلند ہو تا چلا گیا۔ والدین یہی سمجھتے ہیں کہ میں کسی اسٹیج شو میں کام کرتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر سارہ خاموش ہوگئی۔
’’ میں جلد ہی تمھیں کوئی جاب دلوانے کی کوشش کروں گی، اور تم ارشد یاکسی سے بھی فون پر بات مت کرنا۔ فون ہی نہیں اٹھانا۔ اور کچھ دن گھر سے باہر بالکل نہیں جانا۔ میں تم سے رابطے میں رہوں گی۔ جہاں بھی جانا ہوگا ہم خود لے کر چلیں گے اور خود تم کو گھر چھوڑیں گے۔ پولیس اسٹیشن میں تمھارا ایڈریس بھی نہیں لکھوایا ہے۔‘‘ فرحین نے سارہ سے اس کے گھر کا ایڈریس بھی لے لیا۔
سارہ، فرحین کی ہر بات بہت غور سے سن رہی تھی، اس کا چہرہ بتا رہاتھا کہ وہ پولیس میں پکڑی نہ جانے سے ایک دم خوش ہوگئی تھی اور فرحین کی ہر بات پر عمل کرنے کو تیار تھی۔
’’بس آپ مجھے یہیں اتار دیجیے۔ کوئی مجھے گاڑی سے اُترتے ہوئے دیکھ لے گا تو بہت برا ہوگا۔‘‘ سارہ نے گلی کے نکڑ پر گاڑی رکوالی۔ ایک گھر پر پہنچ کر اس نے ہاتھ ہلا کر اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھاکہ یہ اس کا گھر ہے۔
دوسرے دن جب احسن اور فرحین پولیس اسٹیشن پہنچے اور ایس ایچ او سے کیس کے متعلق بات کی تو اس نے کہا، ’’اس آ دمی پر کوئی کیس نہیں بنتا تھا اس لیے اسے چھوڑنا پڑا۔‘‘
’’اور وہ بیان جو لڑکی نے قلم بند کروایا تھا؟‘‘ احسن بولا۔
’’آپ کہاں اتنے طاقت ور لوگوں سے پنگا لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس لڑکی نے اپنا نام اپنے باپ کا نام سب جھوٹا بتایا ہے۔‘‘ ایس ایچ او نے کہا۔
’’یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘ فر حین ا پنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے بولی۔
’’میڈم! آپ ایسے لوگوں کو جانتی نہیں ہیں۔ ہمارا تو آئے دن واسطہ پڑتا رہتا ہے۔‘‘
’’یہ ناممکن ہے۔ چلو احسن۔‘‘ یہ کہہ کر فر حین پولیس اسٹیشن سے نکلی اور گاڑی میں بیٹھ گئی۔
’’ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ احسن نے پو چھا ۔
’’سارہ کے گھر۔ ان جیسے لو گوں کی مو جودگی میں معاشرے کی گندگی کیسے صاف کی جاسکتی ہے۔‘‘ فرحین بہت غصے میں تھی۔
گلی کے نکڑ پر پہنچ کر فرحین گاڑی سے اتری اور اس گھر پر پہنچ کر گھنٹی بجائی جس کی نشان د ہی سارہ نے کی تھی۔
دروازہ ایک بڑی عمر کی خاتون نے کھولا۔
’’مجھے سارہ سے ملنا ہے۔‘‘ فرحین، ان بزرگ خاتون سے مخاطب ہوئی۔
’’بیٹا! میں تو اس گھر میں بہت عر صے سے اکیلی ہی رہتی ہوں۔ یہاں پر تو سارہ نام کی کوئی خاتون نہیں رہتیں میرے ساتھ۔‘‘ انھوں نے جواب دیا۔
فرحین تھوڑی دیر کے لیے سکتے میں آگئی۔ خاتون نے فرحین کی طرف دیکھا اور بولیں، ’’اگر آپ کو یقین نہیں آ رہا ہے تو آپ اندر آکر بھی دیکھ سکتی ہیں۔ ‘‘
’’ نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں شاید مجھے غلط پتا بتایا گیا تھا۔‘‘ وہ بوجھل قدموں سے چلتی ہوئی گاڑی میں آکر بیٹھ گئی۔
’’چلو۔‘‘ احسن کی خاموش سوالیہ نظروں کے جواب میں کہا۔ جب گاڑی چلنے لگی تو اس کے منہ سے نکلا، ’’افسوس! ہم سارہ کو ا س دلدل سے نہیں نکال پائے۔‘‘