دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث کے تحفظ کی مقدور بھر کوشش کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس دور میں ادب، فنون لطیفہ اور تہذیب و ثقافت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت لوگوں کے دِلوں میں رچ بس گئی تھی اور یہ ان کے جبلی انعکاس کی صورت میں منصۂ شہود پر آ رہی تھی۔ تخلیق فن کے لمحوں میں اس عہد کے تخلیق کاروں نے قلبی، روحانی اور ذہنی سکون اور مقبولیت کی جستجومیں خونِ بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی سعی کی۔ تخلیق فن کی یہ لگن افکارِ معیشت کے جھنجھٹ سے نجات اور پرورشِ لوح و قلم کے ارفع معائر تک رسائی کی تمنا قابلِ ادراک صورتوں میں ان کے اسلوب میں جلوہ گر دکھائی دیتی ہے۔ حالات و واقعات کی مرقع نگاری میں تخیل کی تونگری اور اظہار و ابلاغ کے لیے منتخب اسالیب کے شعور میں پنہاں وفورِ شوق کی ثروت ان کا امتیازی وصف ہے۔ انھوں نے اپنے دِل کی بات بیان کرنے کے لیے ہر وہ التزام کیا جو اِس مقصد کے لیے نا گزیر تھا۔
جہاں تک دکھنی نثر کا تعلق ہے اس کا آغاز خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی تصانیف ’’معراج العاشقین‘‘ اور ’’ہدایت نامہ‘‘ سے ہوا۔ دکن میں تخلیق کاروں نے سب سے پہلے نثر کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا اور اس کے بعد شاعری پر توجہ دی۔ دکن میں نثر اور نظم کی تخلیق کے سلسلے میں نصیر الدین ہاشمی نے لکھا ہے:
’’دنیا میں عربوں کے سامنے کوئی قوم خلقی شاعر ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ اسی طرح فارسی زبان میں شاعری سے بڑے بڑے کام لیے گئے اور شاعری کو بادشاہوں کی خلوت، جلوت، رزم، بزم سے خاص تعلق رہا۔ شاعروں کی کافی طور سے عزت افزائی کی گئی اور انھیں ملک الشعرا کا خطاب دیا جانے لگا۔ مگر دکھنی زبان میں ایسا نہیں ہوا۔ یہاں نظم کی ابتدا نثر کے بعد ہوئی۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ تحریر کی ابتدا چونکہ ترجمہ سے ہوئی اور نظم کی بہ نسبت نثر میں ترجمہ کرنا آسان اور سہل تھا اس لیے غالباً نظم کی ابتدا نہیں ہوئی بل کہ نثر سے ابتدا کی گئی۔‘‘ (12)
جہاں تک قدیم شاعری کے ارتقا کا تعلق ہے، بر صغیر میں اس کے سوتے دکن سے ہی سے پھُوٹے۔ محمد تغلق (عرصہ حکومت: 1325-1351) کے زمانے میں مشرقی پنجاب کے باشندے فوجی مہم جوئی کے باعث بہت بڑی تعداد میں دکن پہنچے۔ اس طرح لسانی تغیر و تبدل کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو گیا۔ سب رس میں نثر کے جو نمونے ملتے ہیں، ان سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ طویل عرصہ قبل لسانی انجذاب کی جن مساعی کا آغاز ہوا تھا وہ ثمر بار ہوئیں۔ ملا وجہی (اسداللہ)کی نثر گہری معنویت کی حامل ہے جس کے مطالعہ سے لسانی ارتقا کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
۱۔ ’’رقیب بے نصیب، بے روش بے ترتیب سُنے کا طالب تھا۔ (13)
۲۔ عشق دیدار تی پکڑیا زور، عشق کوں دیدار نی لذت ہے کجھ ہور (14)
۳۔ عشق کدھیں صاحب کدھیں غلام، ایک شخص کے دو دو نام۔ (15)
اسی بنا پر یہ گمان گزرتا ہے کہ دکن کی اردو اور پنجابی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ (16)
لسانیات میں گہری دلچسپی رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ قدیم دکنی اردو نے اپنے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کرنے کی خاطر پنجابی زبان سے خوشہ چینی میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ پنجابی زبان سے بھر پور استفادہ کرنے کے نتیجے میں دکنی زبان کا دامن پنجابی زبان کے نئے الفاظ سے معمور ہو گیا۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ قدیم دکنی اردو نے اپنے ذخیرہ الفاظ میں اضافے کی خاطر پنجابی زبان سے بھر پور استفادہ کیا۔ اس طرح تہذیبی و ثقافتی سطح پر دُور رس تبدیلیاں رُو نما ہوئیں۔ لسانی تغیر و تبدل کا یہ غیر مختتم سلسلہ صدیوں پر محیط ہے۔ دکنی زبان میں شاعری کی تخلیق سے یہاں کے باشندوں کے ذوق سلیم کو صیقل کرنے میں بہت مدد ملی۔ ولی دکنی کی دہلی آمد کے بعد دکنی شاعری کو وسیع آفاق تک رسائی مِل گئی اور یوں لسانی تجربات نے ایک نیا رُخ اختیار کر لیا۔ یہی وہ دور ہے جب دہلی کے تخلیق کاروں نے ایہام گوئی کو شعار بنایا۔ تخلیق فن کے لمحوں میں ایہام کا نمو پانا در اصل تخلیقی اعتبار سے ایک غیر متعین نوعیت کے فیصلے کا غماز ہے۔ فکر و خیال کی دنیا میں ایک تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تو اپنے مافی الضمیر کے اظہار کے لیے اس کے سامنے موضوعات اور مواد کی کمی نہیں ہوتی۔ ترک و انتخاب کے سخت مقام پر پہنچ کر وہ عجیب شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ آئینۂ ایام میں اپنی ادا کو دیکھتا ہے تو کبھی سوز و ساز رومی اور کبھی پیچ و تاب رازی کی کیفیت اُسے کسی بڑے فیصلے سے روکتی ہے۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتا ہے مگر بے شمار حکایتیں نا گفتہ رہ جاتی ہیں، کئی شکایتیں بیان نہیں کی جا سکتیں اور صبر کی روایت میں کئی ضروری باتیں لب پر نہیں لائی جاتیں۔ تخلیق کے لا شعوری محرکات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تذبذب اور گو مگو کی ایسی ہی کیفیات ایہام کی محرک بن جاتی ہیں۔ ایک زیرک، فعال اور مستعد تخلیق کار اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھاتے وقت صریر خامہ کو نوائے سروش سے تعبیر کرتا ہے۔ ان لمحات میں جذبات عجب گُل کھِلاتے ہیں جب تخلیق کار زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کا ثبوت دیتے ہوئے دو مختلف مطالب و مفاہیم کو بہ یک جنبش قلم اس تخلیقی مہارت سے پیرایۂ اظہار عطا کرتا ہے کہ تخلیقی تحریر کا ہر لفظ گنجینۂ معانی کا طلسم بن جائے۔ گُل دستۂ معانی کو منفرد ڈھنگ اور دِل کش آہنگ سے مزین کرنا اور ایک گُلِ تر کا مضمون سو رنگ سے باندھنا تخلیق کار کا کمالٖن سمجھا جاتا تھا۔ اس طرح ایک سخن چار چار سمتوں کا حامل بن جاتا اور ایک جملہ اپنے دامن میں کئی مطالب رکھتا تھا۔ الفاظ اور ان کے دامن میں نہاں متعدد معانی کی اس کرشمہ سازی کو ایہام گو شعرا کی ایسی تخلیقی قلابازی سے تعبیر کیا گیا جس کے نتیجے میں تخلیق فن کے لمحوں میں خلوص اور دردمندی کے متلاشی سرابوں میں سرگرداں رہنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت جلد ایہام گو شعرا نے اپنے اسلوب کو ترک کر دیا۔ دکن میں سراجؔ، داؤدؔ اور عزلتؔ کی شاعری میں ایہام موجود ہے جب کہ دہلی میں آبروؔ، مضمونؔ اور یک رنگؔ نے ایہام گوئی کو شعار بنایا۔ مضمونؔ کا شمار ایہام کوئی کے بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ مثالیں:
دِل غم سے کر کے لو ہو لوہو سے کر کے پانی
آنکھوں ستی بہایا تب آبروؔ کہا ہے (آبروؔ)
ہوا ہے جگ میں مضمونؔ اپنا شہرہ
طرح ایہام کی جب سے نکالی (مضمونؔ)
جلنا لگن میں شمع صفت سخت کام ہے
پروانہ جوں شتاب عبث جی دیا تو کیا (حاتمؔ)
ہاتھ اپنا اُٹھا جو جور سے تُو
یہی گویا سلام ہے تیرا (یک رنگؔ)
لبِ شیریں سے تلخ کاموں کو
بولنا تلخ کام ہے تیرا (یک رنگؔ)
یہی مضمونِ خط ہے احسن اللہ
کہ حُسن خوباں عارضی ہے (احسن اللہ)
آج تو ناجیؔ سجن سے کر تُو اپنا عرضِ حال
مرنے جینے کا نہ کر وسواس، ہوتی ہے سو ہو (سید محمد شاکر ناجیؔ)
نمکین حُسن دیکھ کر پی کا
رنگ گُل کا مجھے لگا پھیکا (ناجیؔ)
اس کے بعد دہلی میں مقیم فارسی گو شعرا نے سرکاری زبان (فارسی) کے بجائے ولیؔ دکنی کے شعری اسلوب میں استعمال ہونے والی زبان کے علاوہ دیگر زبانوں (دکنی، گجراتی اور مراٹھی) سے متاثر ہو کر اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرنا شروع کر دیں۔
اِس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنے عہد کے مقبول شعرا شاہ حاتم (1699-1781) اور سراج الدین علی خان آرزوؔ (1689-1756) بھی اردو کی جانب مائل ہوئے۔ (16)
لسانی ارتقا کا سلسلہ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کی طرح سدا جاری رہتا ہے۔ دنیا کے کسی خطے کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی حالات جہاں ماحول پر اثر انداز ہوتے ہیں وہاں لسانیات، ادب اور فنون لطیفہ بھی ان سے گہرے اثرات قبول کرتے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ دکن سے آنے والے تخلیق کاروں کے اسلوب کو دہلی میں مقیم ادیبوں نے رشک کی نگاہ سے دیکھا اور شاہ حاتم کی تحریک پر اپنی زبان کو نیا رنگ اور منفرد آہنگ عطا کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ ملا وجہی کی مقبول تصنیف ’’سب رس‘‘ میں شامل اس قسم کے اشعار میں پند و نصائح کا دِل کو چھُو لینے والا انداز اپنی مثال آپ ہے:
وہی ہے صافی کہ جس صافی تے صفا کوئی پاوے
وہی ہے کام کہ جس کام تے نفا کوئی پاوے
سب کسی کوں خدا مراد دیوے
اس کے محنت کی اس کوں داددیوے
زباں یک تھی دونوں کا دِل جُدا تھا
سمجتا حال اُن کا سو خدا تھا
اگر کوئی مرد ہے یا استری ہے
دنیا سب دغا بازی بھری ہے
جدھر تدھر بھی حسن ہے جو دِل کو بھاتا ہے
کدھر کدھر کی بلا عاشقاں پہ لاتا ہے
ابراہیم عادل شاہ (1556-1627) کے دور میں بیجاپور سمیت دکن میں شاہی سر پرستی کے نتیجے میں تخلیقی سرگرمیوں میں قابل قدر اضافہ ہوا۔ اس عرصے میں لسانی ارتقا کا سلسلہ پیہم جاری رہا۔
ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ بر صغیر کی اکثر جدید مقامی زبانیں اپ بھرنش کی اولا دہیں۔ (18)
قدیم زمانے میں سر زمیں دکن میں جن مختلف زبانوں کا ایک ملغوبہ سا تیار ہو رہا تھا اُن میں متعدد مقامی بولیوں کے علاوہ کھڑی بولی، برج بھاشا، اودھی، سرائیکی، پنجابی، راجستھانی، سنسکرت اور گوجری شامل ہیں۔ دکن میں ایک سے زیادہ زبانوں کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا جا رہا تھا۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے رومیلا ٹھاپر نے لکھا ہے۔:
“A period of bilingualism has been suggested when more than one language was used in the communication between various communities. Alternatively, the non Indo -Aryan languages could have been substratum languages, elements from which were absorbed into Indo -Aryan.”(19)
نہ صرف دکن میں فارسی کو سرکاری سر پرستی حاصل تھی بل کہ شمالی ہندوستان میں بھی اس کی پذیرائی کی جاتی تھی۔ برج بھاشا نے بھی ادبی زبان کی حیثیت سے اپنے وجود کا اثبات کیا اور یہ بھی دکن میں نشو و نما پانے لگی۔ یہاں تک کہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے دست راست عبدالر حیم خان خاناں نے برج بھاشا کو اپنی شاعری میں اظہار کا وسیلہ بنایا۔ (20)
تاریخ ادب کے مطالعہ سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ دکن میں جس تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی اور لسانی تبدیلی کا آغاز ہوا وہ پیہم تین سو برس جاری رہا۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے نتیجے میں دکن کی سر زمین میں جو زبان پروان چڑھتی رہی وہ دکنی کے نام سے مشہور ہوئی۔ مورخین کا خیال ہے کہ اردو زبان کو جدید دور کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں دکنی نے کلیدی کردار ادا کیا۔ دکنی کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں بدلتے ہوئے سیاسی حالات نے اہم کردار ادا کیا۔ شمالی ہند سے آنے والی زبان نے دکن میں اظہار و ابلاغ کے لیے ایک مشترکہ زبان کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کر لی۔ اس طرح دکنی کو اس خطے میں مروّج تین اہم زبانوں تلنگی، کنٹری اور مر ہٹی پر ترجیح دی جانے لگی۔ مسلمانوں نے جب دکن کو مسخر کر لیا تو صدیوں پرانا فرسودہ معاشرتی ڈھانچہ مکمل طور پر بدل گیا۔ مسلمان فاتحین نے ہر قسم کی عصبیتوں، منافرتوں اور امتیازات کو بیخ و بن سے اُکھاڑ پھینکنے کی مقدور بھر سعی کی۔
قدیم دکنی زبان نے تاریخ کے مختلف ادوار میں جس انداز اپنائے ان کا اندازہ درج ذیل امور سے لگایا جا سکتا ہے:
۱۔ قدیم دکنی زبان میں املا کے یکساں متفقہ معائر عنقا ہیں۔ دکنی میں درج ذیل الفاظ دونوں صورتوں میں مروّج تھے:
جوسا۔۔ جثہ، خطرا۔۔ خطرہ، زمیر۔۔ ضمیر، مشور۔۔ مشہور، مرشید۔۔ مرشد، نفا۔۔ نفع، وضا۔۔ وضع، ہوکم۔۔ حکم
دکنی میں عربی الفاظ کوسادہ کرنے کا رجحان تھا مثلاً طما (طمع)، نفا (نفع) وغیرہ
۲۔ ’’ڑ، ڈ،ٹ‘‘ کو بالعموم ’’ر، د،ت‘‘ لکھنا معمول بن گیا تھا۔ بعض اوقات چار نقطے لگا کر ’’ڑ، ڈ،ٹ‘‘ کو ظاہر کیا جاتا تھا۔
۳۔ قدیم دکنی میں ’’ک‘‘ اور ’’گ‘‘ کے فرق کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا تھا
۴۔ یائے معروف (جس ’ی‘ سے پہلے ’زیر‘ ہو اور وہ خوب ظاہر پڑھی جا سکے جیسے امِیر، فقِیر، عجِیب، غرِیب) اور یائے مجہول (جس ’ی‘ سے پہلے ’زیر‘ ہو اور وہ خوب ظاہر نہ پڑھی جا سکے جیسے سیر، شیر، دلیر) کا انداز تحریر بھی یکساں تھا۔
۵۔ دکنی میں ’’ہ‘‘اور ’’ھ‘‘ میں کوئی امتیاز نہ تھا۔ دکنی میں اُردو کے بر عکس ہکار آوازیں حذف کرنے کا رواج تھا جیسے سورکھ کو سورک، ہاتھ کو ہت، کچھ کو کچ، مجھ کو مج، اور بھی کو بی لکھا جاتا تھا۔
۶۔ شعری تخلیقات میں قوافی کے انتخاب کسی مسلمہ قاعدے یا عروضی ضابطے کو اپنانے کے بجائے کسی مانوس قریبی آواز کو پیش نظر رکھ کر کام چلایا جاتا تھا۔ اس قسم کے قوافی کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
روح کا قافیہ شروع، اخص الخاص کا قافیہ یاس، حوس (حواس) کا قافیہ نفس، اولیا کا قافیہ رو سیاہ۔
لسانی تجزیے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے اپنے ارتقائی مراحل میں دکنی زبان مختلف ادوار میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی تھیں:
۱۔ اسم سے فعل سازی کا عمل عام تھا جیسے چِتر (تصویر) سے چِترانا اور دِیپ سے دِیپنا وغیرہ۔
۲۔ الفاظ سے حرف علت کو منہا کر دیا جاتا تھاجیسے سُرج (سُورج)، اُپر (اُوپر)، سار (سوار)، بِچ (بِیچ)، سُنا (سونا) وغیرہ۔ دکنی میں یہ بھی دیکھا گیا کہ جن لفظوں کا پہلا مصوتہ طویل ہوتا تھا اُسے حذف کر دیا جاتا تھا مثلاً آدمی کو ادمی، آسمان کو اسمان، آنکھ کو انکھ لکھنا معمول تھا۔ اس کے علاوہ دکنی میں درمیان میں آنے والی ہ‘ بھی غائب کر دی جاتی تھی جیسے گھبراہٹ کے بجائے گھبراٹ، تمتماہٹ کے بجائے تمتاٹ لکھا جاتا تھا۔ دکنی میں ’ں‘ کا استعمال عام تھا دکنی اہل قلم نے کوں (کو) سوں (سے)نوں (نے)، نِت (روزانہ) کثرت سے استعمال کیا۔
۳۔ اُردو نے بہت سے ہند آریائی الفاظ کو سہل بنا لیا لیکن دکنی میں ان کی پرانی وضع برقرار رہی۔ دکنی میں مشدّد حروف کو مخف لکھنے کا رواج تھا جیسے اول (اوّل)، چھجا (چھجّا)، غُصا(غُصّہ)، ہتّی (ہاتھی)، سُتّا(سوتا) وغیرہ۔
۴۔ قدیم دکنی میں تاریخ کے مختلف ادوار میں فاعل بناتے وقت ’’ہار‘‘ کے اضافے کو نا گزیر سمجھا جاتا تھاجیسے کرن ہار، سرجن ہار، رہن ہار، دیکھلان ہار، انپڑن ہار، چاکھن ہار وغیرہ۔ مرکبات کی تشکیل کے لیے ’پَن‘ کا استعمال عام تھا جیسے میں پَن (انانیت)، ایک پَن (وحدت)، ذات پَن، توں پن وغیرہ۔
۵۔ قدیم دکنی میں اگر فاعل جمع مونث ہوتا تو فعل بھی جمع مونث کی صورت میں استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کی مثال درج ذیل ہے:
خوشی خرّمی میں او بلتیاں چلیاں
اکھرتیاں و پھرتیاں اوچھلتاں چلیاں (میزبانی نامہ: حسن شوقی)
دکنی میں مونث اسما کی جمع ’یں‘ لگانے سے بنتی تھی مثلاً رات سے راتیں، بیل سے بیلیں وغیرہ۔ شمالی اردو میں ایک سے زیادہ طریقے رہے مثلاً رات سے راتوں وغیرہ۔
۶۔ علامت فاعل ’’نے‘‘ کا استعمال قدیم دکنی میں بہت کم ملتا ہے۔ دکنی میں علامت فاعل نہیں ہے۔ ضمیر غائب میں ’’نے‘‘ کا استعمال کہیں کہیں موجود ہے۔ اس کی چند مثالیں پیش ہیں:
ع: جہاندار نے میزبانی کریا (حسن شوقی)
ع: جو بہرام نے سنواریا صلا (حسن شوقی)
ع: مُکھ موڑ چلی ہے چنچل نے گمان کر (شاہی)
۷۔ قدیم دکنی میں افعالِ معاون کی درج ذیل صورتیں پائی جاتی ہیں:
ہے۔ ا ہے۔ اہیں۔
تھا۔ ا تھا۔ اتھے۔ ا تھار۔
تھا۔ تھیا۔ تھیاں۔
اچھو۔ اچھے۔ اچھیں۔
۸۔ دکنی اور اردو میں ضمائر کی مختلف شکلیں ان زبانوں کے ارتقا کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ دکنی اور اُردو میں مندرجہ ذیل ضمائر مستعمل رہی ہیں:
منج (مجھ)، ہمن (ہم)، تُوں (تُو)، تم کا (تیرا)، تُمن(تُم)، تُمنا (تُم)، اُنن(اُن)، مَیں، مُجہ، مُجھے، میرا، ہَوں، ہم، ہَمن، ہَمنا، تُوں، تُجہ، تُجے ، تیرا، تُمن، تمنا، تہیں، تُس، تم، اپے، ، اپیں، وو، وہ، اوس، اُلن، اُنوں وغیرہ۔
۹۔ دکنی زبان کے ارتقائی مدارج پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم، ضمیر، فعل کے آخر میں ’’چ‘‘ کا اضافہ کرنے سے ’’ہی‘‘ کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔ تاکیدی حرف ’ہی‘ کے بجائے ’چ‘ کا استعمال مر ہٹی کا اثر معلوم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر دیناچ (دینا ہی)، تونچ(تو ہی)، اُسیچ (اُسے ہی)، کاچ (کا ہی) وغیرہ۔
۱۰۔ قدیم دکنی میں درج ذیل الفاظ کثرت سے استعمال ہوتے تھے:
آنجھو، انجھو (آنسو)۔ ابھال (بادل)، اچھر (حرف)، اچیل (چنچل تیز گھوڑا)، بھوئیں (زمین)،
بھوتیک (بہت سے)، پر گٹ (ظاہر)، پنکھ، پنکھی (پرندا)، پونگڑا (لڑکا)، دھرتری (دھرتی)، دسن
(دانت)، ڈونگر (پہاڑ)، رُکھ (درخت)رکت (خون)، سرس (سر)، سور (سُورج)، کالوا(نالا)، ناد
(آواز)، نس دِن (رات دِن) نانو (نام)۔ (21)
کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جو اردو، دکنی اور پنجابی میں آج بھی کثرت سے مستعمل ہیں۔ مثال کے طور پر نِت (ہر روز)، کُلی (کٹیا)، آوازہ (پکار)، دم (زندگی) اور میری میری وغیرہ۔ دریائے جہلم اور دریائے چناب کے دوآبے کے وسیع علاقے میں پنجابی زبان بولنے والے والے لوگ آج بھی جھونپڑی کو ’کُلی‘ کہتے ہیں۔ کئی لوک گیتوں میں لفظ ’کُلی‘ جھونپڑی کے معنوں میں مروّج ہے۔ محمد نصرت نصرتی کا شمار دکنی زبان کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ اس نے لفظ ’نِت‘ کو نہایت خوب صورت انداز میں ایک شعر میں شامل کیا ہے:
دھر نہار اکثر اثر مہر کی
رکھیا مجھ طرف نِت نظر مہر کی
پنجابی زبان میں بھی اس قسم کے الفاظ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں۔
اللہ ہُو دا آوازہ آوے کُلی نی فقیر دی وچوں
نہ کر بندیا میری میری دم دا وساہ کوئی نہ
ترجمہ: اللہ ہوُ کی آواز فقیر کی جھونپڑی میں سے آ رہی ہے
اے انسان دنیاوی حرص و ہوس سے بچ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں
آج بھی پنجاب میں مقیم مقامی زبان کے اکثر شاعر اپنے کلام میں لفظ ’کُلی‘ کو جھونپڑی کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ جھنگ میں مقیم پنجابی زبان کے ممتاز شاعر مہر ریاض سیال نے بھی اپنے ایک پنجابی دوہڑے میں لفظ ’کُلی‘ کو جھونپڑی، نِت کو (روزانہ) اور ککھ (تنکا) کے معنوں میں استعمال کیا ہے:
نِت اپنی بال کے سیکی کر، توں آس کسے دی رکھ نئیں
جَداں سَیتنوں آ اُگھلا ویندائے، کوئی پرت کے ویدھا اَکھ نئیں
جِتھے عزت دا یار سوال ہووے، کائی چیز بچا کے رکھ نئیں
ککھ ریاضؔ شریکاں اِچ رہ جاوِن، بھاویں رہے کُلی دا ککھ نئیں
ترجمہ:
روزانہ اپنی محنت شاقہ سے رزق حلال کماؤ کسی غیر پر انحصار نہ کرو
مشکل وقت میں سبھی طوطا چشمی کرتے ہیں کسی کا اعتبار نہ کرو
حریت ضمیر کا مسئلہ ہو جہاں کوئی چیز بچانے پر دِل کو تیار نہ کرو
گھر لُٹ گیا مگر رقیبوں میں عزت رہی اس پر دُکھ کا اظہار نہ کرو
دکنی زبان کے ارتقا کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد جو حقائق سامنےا ٓتے ہیں ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اُردو زبان نے تاریخ کے ہر دور میں فکر و خیال کی انجمن سجانے کی خاطر بر صغیر کی ہر زبان سے لسانی استفادہ کا سلسلہ جاری رکھا۔ اپنے ذخیر ۂ الفاظ میں اضافہ کرنے کے لیے اردو زبان نے ہر زبان کے ادب سے خوشہ چینی کو شعار بنایا۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ گیسوئے اردو کا نکھار مقامی زبانوں سے بھرپور استفادہ کا ثمر ہے۔ اردو زبان میں جو صد رنگی جول گر ہے وہ صدیوں کے اُس لسانی عمل کا ثمر ہے جس کے معجز نما اثر سے یہ زبان نہ صرف اس خطے کی تمام زبانوں بل کہ دنیا کی مشہور زبانوں کی خصوصیات کا دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتی ہے۔ تاریخی حقائق سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ دہلی کے قدیم شعرا نے تخلیق فن کے لمحوں میں بالعموم دکنی اسالیب کو پیش نظر رکھا۔ قدیم دور کی اردو شاعری کا عمیق مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی کے شعرا نے دکنی زبان کے متعدد الفاظ استعمال کیے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ دکنی زبان نے اپنی ہمہ گیر اثر آفرینی سے فکر و خیال کی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ دہلی میں بولی جانے والی اردو میں دکنی کے بعض حروف اور ضمائر کی موجودگی اس حقیقت کی شاہد ہے کہ دونوں زبانوں میں گہرا ربط تھا۔ مثال کے طور پر ’’سیں‘‘ ’’منجے‘‘ اور ’’سستی‘‘ وغیرہ۔ دہلی کے شعرا نے دکنی کے مندرجہ ذیل الفاظ کا کثرت سے استعمال کیے:
انکھیاں، ادھر، دستا، نپٹ، مُکھ، انا، بچن، کپت، لگ، پیا، من ہرن، پگ، سار، بھیتراور نت وغیرہ۔ (22)
دہلی کے اردو شعرا کے کلام میں دکنی حروف لسانیات کے ارتقا کی تاریخ کی تفہیم میں جس طرح معاون ثابت ہوتے ہیں، اس کی چند مثالیں پیش ہیں:
میرے ملنے سیں پیارے کیوں عبث تُو جی کھپاتا ہے
اِن ہی باتوں سے اے بے خبر اخلاص جاتا ہے (نجم الدین شاہ مبارک آبروؔ: 1683-1733)
تیرا بر جستہ قد ہے منتخب مصرع نظامی کا
کہ چشمِ مست اُوپر صیاد جوں دستا ہے جانی کا (آبروؔ)
بے رحم و بے وفا و تُنک رنج و تُند خُو
تُجھ کوں ہزارنام سجن دھر گئے ہیں ہم (آبروؔ)
مرگ سی چُک سوں کھینچ ہرن کی کھال
پگ تلیں بیٹھی مرگ چھالا ڈال (فائزؔ)
جوں جھڑی ہر سُو ہے پِچکاری کی دھار
دوڑتی ہیں ناریاں بجلی کی سار (فائزؔ)
بہت سا جگ میں حاتمؔ ڈھونڈ آیا
پھِر ایسا دُوسرا ہمدم نہ پایا (شیخ ظہور الدین حاتمؔ : 1699-1733)
مئے پرستوں پر قیامت آن ہے ساقی نہیں
بزم لے اُس کے نِپٹ ویران ہے ساقی نہیں (حاتمؔ)
نہ بولے آپ سیں جب لگ نہ بولو
کھُلے نہ بِیچ جب تب لگ نہ کھولو (حاتمؔ)
جب تک رہے قفس میں یہی شغل نِت رہا
سر کو جھُکا جھُکا کر پر و بال دیکھنا (اشرف علی فغاں:ؔ 1726-1772)
نِپٹ سخت ہے ماجرا درد کا
دِل سرد کا اور رُخ زرد کا (فغاںؔ)
برصغیر میں بولی جانے و الی ہر زبان کے لیے ہندی نام بالعموم تمام آریائی زبانوں کے لیے مستعمل رہا ہے۔ دکنی زبان کو نربدا یا جنوبی سرحد تک محدود کرنا درست نہیں۔ نربدا بھوپال سے کچھ نیچے ہو شنگ آباد کے نزدیک سے جو سرحد گزرتی ہے اس کے جنوب میں مدھیہ پردیش کا وسیع علاقہ ہے وہاں موجود اصطلاح کے لحاظ سے ہندی زبان مستعمل ہے۔ (23)
ان حقائق سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اورنگ زیب کے عہد حکومت میں شمالی ہند کے وسیع علاقے میں دکنی زبان بولی اور بولی جاتی تھی۔ شمالی ہند میں دکنی زبان کے بہت سے محاورات کا استعمال عام تھا جیسے گریباں پھاڑنا، دِل باندھنا، زندگی بھاری لگنا، دِل ہارنا، جی نکل جانا، جی جلانا، جی قربان کرنا، جی ہارنا اور جی نکلنا وغیرہ۔
گریباں عاشق از غم پھاڑتا ہے
خمار عشق میں دِل ہارتا ہے
ایسی نگاہ کی کہ میرا جی نکل گیا
قضیہ مِٹا عذاب سے چھُوٹے خلل گیا
دکنی اور اردو زبان کے ارتقا پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فائزؔ، فغاںؔ ، اور حاتمؔ جسے ممتاز شعرا نے دہلی میں رہتے ہوئے دکن کے شعرا ولیؔ، غواصیؔ اور سراجؔ کی زمینوں میں غزل گوئی کو شعار بنا کر دکنی اسلوب کی دل کشی کو تسلیم کیا۔ سراج الدین علی خان آرزوؔ (1687-1756) کا شماردہلی کے ممتاز اور مقبول شعرا میں ہوتا تھا۔ شاہ مبارک، مضمون، یک رنگ، آنند رام، مخلص اور ٹیک چند بہار جیسے شاعر اپنے عہد کے پُرگو شاعر سراج الدین علی خان آرزوؔ کے شاگرد تھے۔ آرزوؔ کی شاعری میں دکنی کے متعدد الفاظ کے استعمال اور سراپا نگاری سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس تخلیق کار نے بھی دکنی سے اکتساب فیض کیا۔ ولیؔ دکنی کے زمانے میں محبوب کو ’’پی‘‘، ’’پیا‘‘، ’’صنم‘‘، ’’یارِ بے پروا‘‘ ’’پیتم‘‘، ’’سریجن‘‘، ’’موہن‘‘، ’’من ہرن‘‘ یا ’’سجن‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا جب کہ بعد میں اس کے بجائے معشوق، محبوب یا پیارا کو ترجیح دی گئی۔ ولیؔ کے معاصرین اور سراج الدین علی خان آرزوؔ کی شاعری میں بھی محبوب کے لیے اسی قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں:
ولیؔ مجھ دِل میں یوں آتی ہے یادِ یارِ بے پرواہ
کہ جوں انکھیاں منیں آتا ہے خواب آہستہ آہستہ (ولیؔ دکنی)
برنگِ قطرۂ سیماب میرے دِل کی جنبش سوں
ہوا ہے دِل صنم کا بے قرار آہستہ آہستہ (ولیؔ دکنی)
جس وقت اے سریجن تُو بے حجاب ہو گا
ہرذرہ تجھ جھلک سوں جوں آفتاب ہو گا (ولیؔ دکنی)
ہر گز نظر نہ آیا ہم کو سجن ہمارا
گویا کہ تھا چھلاوہ وہ مَن ہرن ہمارا (آرزوؔ)
تیرے دہن کے آگے دم مارنا غلط ہے
غنچے نے گانٹھ باندھا آخر سجن ہمارا (آرزوؔ)
زندگی دردِ سر ہوئی حاتمؔ
کب مِلے گا مُجھے پِیامیرا (حاتمؔ)
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج اِک تِل جیا جائے نا (قلی قطب شاہ)
دہلی میں مطلق العنان بادشاہوں اور سلاطین کے دور (1211 -1526) میں اس خطے میں جس زبان کو فروغ ملا اسے کھڑی بولی اور دہلوی کا نام دیا گیا۔ مسلمان فاتحین، ان کے ساتھ آنے والے فوجی دستے مقامی آبادی، ادب اور فنون لطیفہ سے وابستہ لوگ، صوفی شعرا اور مبلغین سب نے بالعموم کھڑی بولی کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو بہا لے جاتے ہیں مگر تہذیب و ثقافت اس سے محفوظ رہتے ہیں۔ کھڑی بولی جو پنجابی سے قریب تھی سال 1327میں جنوبی ہند میں نمو پانے لگی۔ محمد تغلق کے عہد میں جب دہلی سے اورنگ آباد اور دکن کی جانب نقل مکانی کا سلسلہ شروع ہوا تولسانی تغیر و تبدل بھی شروع ہو گیا۔ پندرہویں صدی عیسوی میں دکنی زبان نے اس خطے میں کوب رنگ جمایا اور اسی میں ادب کی تخلیق پر توجہ دی گئی۔ گو لکنڈہ اور بیجا پورکی دکنی ریاستوں میں دکنی ہی کو اردو کی قدیم صورت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ممتاز جرمن ماہر لسانیات پروفیسر ڈاکٹر ہیلمٹ ارنسٹ رابرٹ نسپیٹل (Prof. Dr. Helmet Ernst Robert Nespital) نے زندگی بھر ہندوستانی لسانیات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ ماہر لسانیات رابرٹ نسپیٹل (1936-2001) نے ہندوستان میں اردو زبان کے لسانی ارتقا کو مندرجہ ذیل پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے:
۱۔ ریختہ اور تصوف کی شاعری کا دور (1648-170)
۲۔ اورنگ آباد سے ولی دکنی کی دہلی آمد کے بعد کا عرصہ (1700-1720)
۳۔ اردو گرامر پر توجہ (1720-1740)
۴۔ عہد زریں میر تقی میر، سوداؔ اور دردؔ کا دور (1740-1780)
۵۔ زبان کو معیار کی رفعت عطا کرنے کا تکمیلی مرحلہ (1780-1810) (24)
لسانیات اور ادب کی تاریخ ماضی کے واقعات پر پڑنے والی ابلقِ ایام کے سموں کی گردکو صاف کرتی ہے۔ اس طرح جب طاقِ نسیاں کی زینت بن جانے والے حقائق منکشف ہوتے ہیں تو اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر اہتمام ہوتا ہے۔ اسی معجز نما کیفیت کو تاریخی شعور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مطالعۂ ادب کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخی شعور کے ثمر بار ہونے سے دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے، اخوت و محبت کی فراوانی اور خلوص و درد مندی کے جذبات کو مہمیز کیا جا سکتا ہے۔ اسی کے وسیلے سے ہر قسم کی منافرت، عصبیت، تنگ نظری، جہالت اور انصاف کُشی کو بیخ و بُن سے اُکھاڑنے کی مساعی رنگ لاتی ہیں۔ اُرد واور دکنی زبان کی تاریخ کے دامن میں ماضی کے واقعات اور سیاسی زندگی کے نشیب و فراز کے مظہر متعدد حقائق موجود ہیں۔ ان کا مطالعہ جہانِ تازہ کے متلاشی فکر و خیال کی دنیا کے رہ نوردوں کو جہان تازہ کی نوید سناتا ہے اور افکارِ تازہ کی ایسی مشعل فروزاں ہوتی ہے جو سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کرتا ہے۔ فکر و خیال کی یہ ضیا پاشیاں اقوام اور تہذیبوں کے ارتقا سے وابستہ اقدار و روایات اور ان سے منسلک رازوں کی گرہ کشائی کو یقینی بناتی ہیں۔ دکن کے وسیع علاقوں بالخصوص گولکنڈہ اور بیجا پور کی دکنی ریاستوں میں بولی جانے والی زبان ’’دکنی‘‘ کے بارے میں یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ اردو کی قدیم صورت ہے۔ دکنی کے اردو کے ساتھ گہرے میلانات اور مشابہتیں اس کا بنیادی سبب ہیں۔ اردو زبان کا قدیم دکنی زبان سے ایک الگ مزاج ہے مگر اسے دکنی کی ایک ایسی منفرد صورت سمجھا جاتا ہے جس میں دونوں زبانوں کے کئی مشترک رنگ جلوہ گر ہیں۔ ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ جہاں تک علم الاصوات اور گرامر کے قواعد کا تعلق ہے قدیم زمانے میں دکنی اور اردو میں گہری قرابت اور مشا بہت پائی جاتی تھی مگر جدید دور میں یہ عنقا ہے۔ ان زبانوں میں پائے جانے والے اختلافات کا تعلق قواعدی صوتیات، شکل و صورت، صرف و نحو اور لغت سے ہے۔ معاصر لسانی تصورات کی روشنی میں دیکھا جائے تو دکنی زبان کو اپنی نوعیت کے اعتبار سے اُردو کی ایک ایسی الگ صورت سمجھا جاتا ہے جو جدید دور میں تخلیق ادب کے لیے کم کم استعمال ہوتی ہے۔ زمانہ قدیم کے تخلیق کار لسانیات کے بارے میں یقیناً اس قدر با شعور اور سنجیدہ تھے کہ انھوں نے سیلِ زماں کے تھپیڑوں پر کڑی نظر رکھی اور زندگی کی برق رفتاریوں کو محسوس کرتے ہوئے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ اپنے جذبات واحساسات کی لفظی مرقع نگاری اور پیکر تراشی کرتے وقت اصلاح زبان پرتوجہ مرکوز رکھنا بِلا شبہ ایک کٹھن مر حلہ تھا مگر قدیم تخلیق کاروں نے زبان و بیان پر اپنی خلاقانہ دسترس کو ثابت کر دیا۔ دکنی کے کئی الفاظ جو قدیم اردو میں مستعمل رہے اب وہ متروک ہو کر تاریخ کے طوماروں میں دب چکے ہیں۔ ذیل میں قدیم دکنی کے چند الفاظ درج کیے جاتے ہیں جن کا موجودہ زمانے میں استعمال تحریر کو پشتارۂ اغلاط بنانے کاسبب بن سکتا ہے۔ زبانیں جب نئے علاقوں میں پہنچتی ہیں تو مقامی زبانوں کا ان سے متاثر ہونا نا گزیر ہے۔ اس طرح لسانی سطح پر تغیر و تبدل کا ایک غیر مختتم سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کے لسانی ارتقا پر دُور رس اثرات مرتب ہوئے۔ دکنی زبان سے اس خطے کی ارضی و ثقافتی اقدار و روایات کی جو مہک آتی ہے اس سے قارئین ادب کا قریۂ جاں معطر ہو جاتا ہے۔ دکن کے تخلیق کاروں نے بر صغیر کے طول و عرض میں بولی جانے والی مختلف زبانوں سے خوشہ چینی کرتے ہوئے الفاظ کے گل ہائے رنگ رنگ سے جو جو حسین و عنبر فشاں گل دستہ مرتب کیا ہے اس کی رنگینی و رعنائی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ خاص طور پر تلگو اور پنجابی الفاظ کا اپنا منفرد رنگ اور آہنگ ہے۔ دکنی شعرا کے کلام میں بھی اس قسم کے نا مانوس الفاظ موجود ہیں جو مقامی زبانوں سے مستعار لیے گئے ہیں۔ ذوق سلیم سے متمتع قارئینِ ادب لسانیات کی اس قوسِ قزح کے حسین رنگ دیکھ کرمسحور ہو جاتے ہیں۔ سال 1327 میں محمد بن تغلق کی مہم جوئی کے نتیجے میں اس خطے میں جس لسانی عمل کا آغاز ہوا اور دکنی زبان کی جو خشتِ اول رکھی گئی اسی کی اساس پر دکنی زبان و ادب کا قصر عالی شان تعمیر ہوا۔ خواجہ بندہ نواز (1321-1422)کی معراج العاشقین جو اس خطے میں تصوف کی اولین تخلیق ہے اور فخرالدین نظامی کی تخلیق ’کدم راؤ پدم راؤ (عرصہ تخلیق: 1420-1430) سے روشنی کے جس سفر کا آغاز ہوا وہ اب بھی جاری ہے۔ دکن میں تلنگانہ اور آندھرا کے علاقوں میں تلگو کے اثرات نمایاں رہے ہیں جب کہ بہمنی سلطنت کے ٹوٹنے کے بعد احمد نگر (1460-1633)، بیجاپور (1460-1686)، بیدار (1487-1619) اور گول کنڈہ (1512-1687) کے علاقوں میں پنجابی الفاظ کا استعمال زیادہ ہے۔
لفظ ’نسنا‘ پنجابی زبان میں بھاگ جانے یا راہِ فرار اختیار کرنے کے معنی دیتا ہے۔ یہ لفظ دکنی شعرا کے کلام میں منفرد انداز میں موجود ہے:
جو لیدان آئے فقیراں وراس
چلی سب فقیری جگت چھوڑ نھاس (احمد دکنی)
بُلا کر لائے چاکر شاہ کے پاس
کہا مایا چُرا کر جاتے ہیں ناس (محمد امین دکنی)
دونوں ہاتاں آپس کے کھو گیا او
نسنگ نھاس لگا ہے سگ بچہ او (ولیؔ دکنی)
قدیم دکنی میں دو طرفہ کے لیے ’دولاں‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا تھا جو پنجابی لفظ ’ول‘ سے لیا گیا ہے۔
دِسے فانوس کے درمیانے تھوں یوں جوت دیوے کا
سو تیوں دِستا دولاں میں تھے ہیویاں کا برن سارا (محمد قلی قطب شاہ)
نمک کی کان تو مشہور ہے مگر پنجابی میں لفظ ’کان‘ کا مطلب ’واسطے‘ یا ’لیے‘ ہے۔ دکنی شعرا نے اس لفظ کو اپنے کلام میں اس خوش اسلوبی سے برتا ہے کہ کلام کی تاثیر کو چار چاند لگ ہیں۔
سو کچھ مان مانس کوکیتا عطا
جو سب کو اِسی کان پیدا کیتا (احمد دکنی)
جب میں سدا برہ کا دکھ دکھوں
میرے کان جھکڑاروا کیوں رکھوں (احمد دکنی)
کچی مٹی کے پتلے گارے اور کیچڑ کو پنجابی میں ’چِکڑ‘ کہتے ہیں دکنی زبان میں بھی یہ اسی طرح مستعمل ہے۔
بڈھے جو رکت ہو چکڑ میں پڑے
پنکھی جو سٹے کات سوتر پڑے (احمد دکنی)
دودھ کو پنجابی میں ’کھِیر‘ کہتے ہیں اسی کی تقلید میں دکنی زبان کے تخلیق کار بھی دودھ کے لیے لفظ ’کھِیر‘ ہی استعمال کرتے ہیں۔
تھاں دیکھنے لاگا بالک لکھ نہ آوے کھِیر
جِس کے انگو بھرم نہ جاوے اُس کیوں کہنا پِیر (میراں جی شمس العشاق)
شمالی ہند اور جنوبی ہند کے باشندے بر صغیر کی اقوام کی ایک مخلوط اور مرکب نوعیت کی تہذیب و ثقافت کی پہچان خیال کیا جاتا ہے۔ اس کی ہمہ گیر وسعت اور جامعیت کا ایک عالم معترف ہے۔ دکن کی تہذیب و ثقافت اور لسانیات کی تاریخی جہات کے کرشمے دہلی اور اس کے مضافات میں صدیوں سے توجہ کا مرکز چلے آ رہے ہیں۔ ادب اور فنون لطیفہ ہوں یا علوم سب کی ایک خطے سے دوسرے خطے کے باشندوں تک منتقلی انسانوں ہی کی مرہون منت رہی ہے۔ ذوق سلیم سے متمتع انسانوں کا وسیلہ علمی و ادبی میراث کی منتقلی کے لیے نا گزیر سمجھا جاتا ہے اس کے بغیر علوم و فنون کے ارتقا سے وابستہ تاریخی تسلسل کا جاری رہنا بعید از قیاس ہے۔ رخشِ حیات کی طرح لسانیات کی یہ برق رفتاریاں سدا جاری رہتی ہیں اور خوب سے خوب تر کی جانب سفر جاری رہتا ہے اور مرحلۂ شوق کبھی طے نہیں ہوتا۔ بادی النظر میں لسانی ارتقا بھی ایک حرکی عمل ہے جو اس عالمِ آب و گِل میں اپنا فعال کردار ادا کرنے والے متعدد زندہ مظاہر کے مانند ہر لحظہ نیا طُور نئی برقِ تجلی کے کرشمے دکھا کر اپنی ہمہ گیر اہمیت کی دھاک بٹھا دیتا ہے۔ لسانی ارتقا کا معاشرے اور ماحول کے تغیر و تبدل کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ دکن کے قدیم باشندوں نے اپنے عہد کے سیاسی حالات کو قریب سے دیکھا اور وہ اس تجربے کا حصہ رہے جو عسکری مہم جوئی کے نتیجے میں سامنے آئے۔ فوجی مہمات کے نتیجے میں مختلف علاقوں سے بڑے پیمانے پر انتقال آبادی کے مسائل و مضمرات ان کی تخلیقی فعالیت پر بھی اثر انداز ہوئے۔ مطلق العنان بادشاہوں کے دور میں معاشرتی زندگی کے معمولات مکمل طور پر بدل جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ جوہرِ قابل کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا مگر جاہل غاسب اپنی جہالت کا انعام ہتھیا لیتے ہیں۔ معاشرتی زندگی میں انصاف کُشی اس قدر عام ہو جاتی ہے کہ با صلاحیت اور نا اہل کا امتیاز کیے بغیر ہر آمر اپنی ساری رعایا کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتا ہے۔ مسلسل شکستِ دل کے باعث معاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈ لانے لگا ہے۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے اقوام کے جاہ و جلال، سطوت و ہیبت کو تو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں مگر تہذیب ان سے محفوظ رہتی ہے۔ ادب اور فنون لطیفہ کی تعلیم کے وسیلے سے تہذیبی میراث کو نئی نسل کومنتقل کیا جا سکتا ہے۔ سقراط (Socrates) ہو یا جیور ڈانو برونو (Giordano Bruno)، ڈک ٹرپن (Dick Turpin)ہو یا ہورتیا بوٹملے (Horatio Bottomley) سب کے سب شامت اعمال یا فطرت کی سخت تعزیروں کی زد میں آ کر فسطائی جبر کے مہیب پاٹوں میں پِس جاتے ہیں مگر کوئی آنکھ ان کے دلِ شکستہ پر نَم نہیں ہوتی۔ تہذیبی میراث کے حصول کے لیے نئی نسل کو سخت محنت کو شعار بنانا پڑتا ہے۔ معاشرتی زندگی میں لسانیات کی دنیا کا بھی کچھ ایسا ہی دستور ہے جہاں ترک و انتخاب کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے اور ماضی کے کئی حقائق خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ دکن میں ادب، فنون لطیفہ اور لسانیات سے وابستہ فعالیتیں جو ابتدائی ادوار میں تہذیب و تمدن کے فروغ کے سلسلے میں معمولی زاد راہ سمجھی جاتی تھیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہی فعالیتیں معاشرتی زندگی کے لیے ناگزیر ضرورت بن گئیں۔ لسانیات میں سُود و زیاں کا کوئی تصور ہی نہیں کسی زبان کی پذیرائی ہی کو اس زبان کی حقیقی فیض رسانی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ افراد کی معاشرتی زندگی میں اظہار و ابلاغ میں تجریدی پیرایۂ اظہار کے بجائے اس سے وابستہ حرکت و حرارت اور مزاج و کیفیات کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں وہ اقدار جن کا تعلق معاشرے کی اجتماعی زندگی تھا پیہم تغیر و تبدل کی زد میں رہی ہیں لسانی ارتقا بھی اس عمل سے بے نیاز نہ رہ سکا۔ لسانی حوالے سے ادب محض اُن تجربات، احساسات، واقعات اور ان سے متعلق تفصیلات پر انحصار نہیں کرتا جو تخلیق فن کے لمحوں میں پیش نظر رہے بل کہ ایک اجتماعی جذبِ دروں کی دھنک رنگ کیفیت اس کے پسِ پردہ کارفرما رہتی ہے۔ اس طرح تخلیق کار جس نوائے سروش سے سرشار ہو کر اپنی گُل افشانی ٔ گفتار کے جوہر دکھاتا ہے اس کے حرکیاتی کردار سے معاشرتی زندگی میں نکھار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں رہنے والے انسانوں کی اجتماعی زندگی میں رو نما ہونے والے واقعات، سانحات، نشیب و فراز، تغیر و تبدل اور ارتعاشات کو محض اتفاقات یا حادثات سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے حالات از خود پیدا نہیں ہو جاتے بل کہ یہ ایک نظام کے تحت منصۂ شہود پر آتے ہیں جس کے پس پردہ متعدد عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ معاشرتی زندگی کے قواعد و ضوابط کچھ اس نوعیت کے ہیں کہ وہ انسانوں کو خاص حدود میں رہتے ہوئے اجتماعی زندگی بسر کرنے پر مائل کرتے ہیں۔ انسانیت کی بقا، وقار اور سر بلندی اس امر کی متقاضی ہے کہ بے لوث محبت، خلوص، دردمندی، تعاون اور ایثار کو شعار بنایا جائے۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل جُل کر زندگی بسر کی جائے اور سب کے ساتھ ہمدردی کو شعار بنایا جائے۔ مِل جُل کر رہنا، ایثار اور غم گساری انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ تاریخی حقائق اس امر کے شاہد ہیں کہ انسانی ذہن و ذکاوت اور قلب و روحانیت کے اعجاز سے نمو پانے والے تصورات کا اظہار الفاظ کا مرہونِ منت ہے۔ ادبیات اور لسانیات کا ارتقا الفاظ کی صد رنگی کا مظہر ہے جسے تاریخی تناظر میں دیکھنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ دکن میں رونما ہونے والے لسانی تغیرات کا تاریخی پس منظر متعدد چشم کشا صداقتوں کا امین ہے۔
تیرہویں صدی عیسوی میں بر صغیر میں خلجی سلطنت کے بانی جلال الدین فیروز خلجی (عہد حکومت: 1290-1296) کے بعد علاؤ الدین خلجی (عہد حکومت: 1296-1316) مسند اقتدار پر فائز ہوا۔ اسی بادشاہ کے عہد میں مسلمان افواج دکن پہنچیں۔ اس یلغار کے نتیجے میں جو نقل مکانی ہوئی لسانی عمل بھی اس سے متاثر ہوا۔ اس نئی زبان میں پنجابی، ہریانی اور کھڑی بولی کے امتزاج سے اظہار و ابلاغ کے نئے امکانات سامنے آئے۔ اِس نئی زبان نے جہاں برج بھاشا سے اثرات قبول کیے وہاں عربی اورفارسی زبان سے بھی بے نیاز نہ رہ سکی۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس نئی زبان کو جن ناموں سے پکارا گیا ان میں ہندی، ہندوستانی اور دکنی شامل ہیں۔ دکنی زبان کے ارتقا میں ایک اور اہم واقعہ محمد بن تغلق (عہد حکومت: 1325-1351) کی وہ مہم جوئی ہے جو اس نے مہاراشٹر کے شہر دیو گری کو دولت آباد کا نام دیا اور اسے اپنا دار الحکومت بنایا۔ اسکےس اتھ ہی قصر شاہی سے رعایا کو نئے دار الحکومت کی جانب ہجرت کرنے کا حکم صادر ہوا۔ محمد بن تغلق کے اس حکم کی تعمیل کرنے والوں کو سفر خرچ اور قیام و طعام کی تمام سہولیات فراہم کی گئیں۔ محمد بن تغلق کے احکام کے نتیجے میں دہلی اور اس کے مضافات میں مقیم لوگوں نے بڑے پیمانے دولت آباد کی جانب ہجرت کی۔ مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آمد کے بعد اس علاقے میں لسانی تغیرات کو تقویت ملی اور مہاراشٹر میں بولی جانے والی زبان نے فارسی زبان سے گہرے اثرات قبول کیے۔ شمالی ہند میں مروج زبان جس کا دامن معیاری ادبی تخلیقات سے تہی تھا اس نقل مکانی کے بعد مہاراشٹری اور دراوڑی زبانوں کے درمیان معیاری ادبی زبان کی صورت میں سامنے آ رہی تھی۔ چودھویں صدی کے وسط میں تغلق بادشاہوں کا جاہ و جلال جب سیل زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آیا اور تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے قصۂ پارینہ بننے لگے تو جنوبی ہند میں سیاسی حالات کا رخ بدل گیا۔ یہ علاقہ مرکزی حکومت کے اثر سے نکل گیا اور یہاں دہلی کی مرکزی حکومت سے بغاوت کرنے والے سلطان علاؤالدین حسن بہمن شاہ کی قائم کردہ بہمنی سلطنت (عہد حکومت: 1347-1527) قائم ہو گئی۔ اس اقدام کے بعد دکن کا شمالی ہند کے ساتھ رابطہ ٹُوٹ گیا۔ سال 1538 کے بعد بہمنی سلطنت پانچ حصوں (احمد نگر، بیجا پور، برہان پور، بیدار اور گول کنڈہ) میں منقسم ہو گئی۔ صرف دو ریاستوں (بیجاپور، گول کنڈہ)میں علم و ادب کی سرپرستی پر توجہ دی گئی۔ بیجاپور میں عادل شاہی جب کہ گول کنڈہ میں قطب شاہی سلطنت کے قیام سے اس علاقے میں علم و ادب کی تاریخ کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ دہلی میں مغل حکومت کے قیام کے بعد بہمنی سلطنت کے اقتدار کی شمع ٹمٹمانے لگی مغل شہنشاہ اورنگ زیب نے ان دو ریاستوں کا مغل سلطنت کے ساتھ ادغام کر دیا اور اس طرح بہمنی سلطنت کے عروج کے قصے ماضی کا حصہ بن کر رہ گئے اور علم و ادب کی سرپرستی کی روایات اور ان سے وابستہ اقدار بھی تاریخ کے طوماروں میں دب گئیں۔ بہمنی سلطنت کے منتشر ہونے کو علم و ادب، معیشت اور صنعت و حرفت کی ترقی کے لیے ایک نیک شگون سمجھا گیا۔ اس طرح جہاں معاشرتی ترقی کے نئے امکانات پیدا ہوئے وہاں دکنی ادبیات کو مزید ادبی مراکز دستیاب ہو گئے۔ ان ادبی مراکز میں حکمرانوں کی سر پرستی کے اعجاز سے ادب اور فنون لطیفہ کو افکار تازہ کو پروان چڑھا کر جہانِ تازہ کے نقیب نئے آفاق تک رسائی کے امکانات پیدا ہو گئے۔
دکن میں علم و ادب کے ارتقا کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ دکن کے حکمرانوں نے علوم و فنون کی ترقی میں گہری دلچسپی لی۔ دکن کے کئی بادشاہ اپنے ذوق سلیم کو بروئے کار لاتے ہوئے اُرو، برج بھاشا اور تیلگو میں اپنی تخلیقات پیش کرتے تھے۔ دکن میں تخلیق ادب کے حوالے سے اولین نام حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کا ہے۔ اس خاندان نے علم و ادب کے فروغ میں گہری دلچسپی لی۔ بہمنی سلطنت کے انتشار کے بعد بیجا پور میں یوسف عادل شاہ (1490-1510) نے عادل شاہی حکومت (1490-1686) قائم کر لی۔ عادل شاہی دور میں آٹھ بادشاہوں نے حکومت کی:
۱۔ یوسف عادل شاہ: 1490-1510
۲۔ اسماعیل عادل شاہ: 1510-1534
۳۔ ابراہیم عادل شاہ: 1534-1558
۴۔ علی عادل شاہ: 1558-1579
۵۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی: 1580-1627
۶۔ محمد عادل شاہ: 1627-1657
۷۔ علی عادل شاہ ثانی: 1657-1672
۸۔ سکندر عادل شاہ: 1672-1686
علی عادل شاہ ثانی شاہیؔ (1558-1579)
یہ بادشاہ اپنے عہد کا با کمال شاعر بھی تھا جس کی علم دوستی اور ادب پروری سے متاثر ہو کر نصرتیؔ اس کا شاگرد بن گیا۔
شاہی عاشق اتا بول مناجات کچ
تا کہ کرم تج پہ ہوے بہر حسین و حسن
کار جہاں کے سگل فکر تے بہاری اچھے
سائیں کرے لو بہ جب دُور ہو جاوے محن
ابراہیم عادل شاہ ثانی ابراہیمؔ بھی علم و ادب کا قدر دان تھا۔
ابراہیم سب سندری دیکھا یو لچھن ہے کہاں
جات چاند سلطان نا نوبی ملکے جہاں
شاہ میراں جی شمس العشاق(1407-1498)
پندرہویں صدی عیسوی میں اس عہد کے ہندی زبان کے ممتاز صوفی شاعر شاہ میراں جی شمس العشاق (1407-1498) کی مذہبی، علمی و ادبی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ سال 1450 میں بر صغیر پہنچنے والے اس شاعر کی تخلیقات عشق، مذہب، تصوف اور زندگی کے تمام نشیب و فراز پر محیط اس تخلیق کار کی شاعری ادبی اعتبار سے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرتی ہیں۔ شاہ میراں جی شمس العشاق نے ’شہادۃ الحقیقت‘، ’خوش نغز‘ ، ’خوش نامہ‘ اور تصوف سے وابستہ اہم موضوعات پرنثر کی کتاب ’شرح مرغوب القلوب‘ لکھ کرادب کی ثروت میں اضافہ کیا۔ شاہ میراں جی شمس العشاق نے دکنی زبان کو اظہار و ابلاغ کا وسیلہ بنایا۔ شاہ میراں جی شمس العشاق کا نمونۂ کلام درج ذیل ہے:
تُو قادر کر سب جگ سب کو روزی دیوے
تُو سبھوں کا دانا بِینا، سب جگ تُج کو سیوے
ایکس ماٹی مولی دیوے ایکس ماٹی باج
کیتوں بھِیکھ منگواوے کِیتوں دیوے راج
کِیتوں پاٹ پتمبر دیتاکِیتوں سر کی لایا
کِیتوں اوپردھوپ تلاوے کیتوں اوپر چھایا
کیتے گیان بھگت بیراگی کیتے مُورکھ گنوار
ایک جن ایک مانس کیتا اک پرس اک نار
شاہ برہان الدین جانمؔ (متوفی: 1599)
شاہ میراں جی شمس العشاق کے ذہین فرزند شاہ برہان الدین جانمؔ (متوفی: 1599) نے تصوف کے موضوع پر نظم اور نثر میں جو سرمایہ پیش کیا اس کے لیے دکنی زبان کا انتخاب کیا۔ شاہ برہان الدین جانمؔ کی شعری تصانیف ’سکھ لیلا‘، ’وصیت الہادی‘ ، اور ’ارشاد نامہ‘ ہیں ان کی نثری تصنیف ’کلمۃ الحقائق‘ تصوف کے موضوع پر اہم کتاب ہے جس کے موضوعات کی ’معراج العاشقین‘ سے گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ شاہ برہان الدین جانمؔ نے شاعری میں ہندی اوزان پر بھی توجہ دی۔ شاہ برہان الدین جانمؔ کا نمونۂ کلام درج ذیل ہے:
یہ رُوپ پر گٹ اَپ چھایا کوئی نہ پایا انت
مایا موہ میں سب جگ باندھیا کیونکہ سُوجھے پنت
بعض آ کہیں اپنی بوجھ
معلوم ہیں اوس کی سوجھ
ایک جمع سب پکڑیا بَار
جوں کے بیچ تھے نھکیا اڑ
کاٹا چھانٹاپھل اور پھُول
شاخ، برگ سب دیکھ اصول
نہ اس خالق مخلوق کوئے
جیسا تیسا سمجھا ہوئے
امین الدین اعلیٰ
شاہ برہان الدین جانم کے بیٹے اور جا نشین امین الدین اعلیٰ نے بھی دکنی زبان میں نظم اور نثر کی تخلیقات پیش کیں۔ ممتاز محققین کی رائے کے مطابق امین الدین اعلیٰ نے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زیادہ بہتر اور موثر انداز میں تصوف کے مسائل پر اظہار خیال کیا۔ ان کی تصانیف ’محب نامہ‘ ، ’رموز السالکین‘، ’گنج خوبی‘ اور ’وجودیہ‘ کی بہت پذیرائی ہوئی۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے:
قمرین میں تیرے ساحر ہوے ہموں کوں
مگر اہ کر بھلا دے قوس قزح بہوں کوں
پیچوں بھریاں زلف تج موجوں ڈبے بحرموں
ہر لہو پڑ کرشمۂ عشاق کے ریجن کوں
اس عہد کے جن تخلیق کاروں نے فروغ ادب میں حصہ لیا ان میں میراں جی خدا نما، شاہ محمد قادری، سیّد میراں حسینی، شاہ معظم اور داول کے نام قابل ذکر ہیں۔ ابراہیم عادل شاہ ادب اور فنون لطیفہ میں گہری دلچسپی لیتا تھا۔ اس نے دکنی زبان میں شاعری کی اور گیتوں اور موسیقی کے موضوع پر کتاب ’’نو رس‘‘ لکھی۔ ابراہیم کے بعد محمد عادل شاہ نے عنان اقتدار سنبھالی۔ محمد عادل شاہ اور اس کی بیگم کو شعر و ادب سے قلبی لگاؤ تھا۔ اس کے عہد حکومت میں جو شعرا دربار سے وابستہ رہے ان میں رستمیؔ، ملک خوشنود، دولت شاہ، عبدل اور مقیمیؔ شامل ہیں۔
کمال خان رستمیؔ
کمال خان رستمیؔ ایک زود نویس، پُر گو اور قادر الکلام شاعر تھا، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے محمدعادل شاہ کی بیگم (خدیجہ سلطان شہر بانو)کی فرمائش پر چوبیس ہزار اشعار پر مشتمل ایک طویل مثنوی ’’خاور نامہ‘‘ محض ڈیڑھ سال کے عرصے میں سال 1649 مکمل کی۔ مثنوی ’’خاور نامہ‘‘ اگرچہ ایک فارسی نظم کا ترجمہ ہے مگر رستمیؔ نے ترجمے کو اس مہارت سے دکنی کے قالب میں ڈھالا ہے کہ ترجمے میں بھی تخلیق کی چاشنی پیدا ہو گئی ہے۔ امیر خسرو کی فارسی تصنیف پرمبنی ملک خوشنود کی مثنوی ’’ہشت بہشت‘‘اگرچہ مشکل زبان میں لکھی گئی ہے مگر اس کی لسانی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اوّل جب کیا یو کتاب اِبتدا
بندیا ات میں نقش نامِ خدا
کیا ترجمہ دکھنی ہور دِل پذیر
بولیا معجزہ یو کمال خان دبیر
خلق کہتی ہے مجھ کمال خان دبیر
تخلص سو ہے رستمیؔ بے نظیر
عبدالغنی عبدلؔ
بادشاہِ وقت کی مدح میں لکھی گئی عبدلؔ کی مثنوی ’’ابراہیم نامہ‘‘ کو بھی دکنی زبان کے ارتقا میں اہم سمجھا جاتا ہے۔
کہیا شاہ استاد عبدلؔ سو یوں
توں ہر اِک زبان کر شعر بات کوں
نصرتیؔ (محمد نصرت)
علی عادل شاہ کے عہد حکومت میں رزمیہ اور عشقیہ شاعری کے مشہور شاعر نصرتیؔ (محمد نصرت) کے ہمہ گیر اور منفرد اسلوب کا ہر طرف شہرہ تھا۔ اس نے واسوخت (عاشقِ نا مراد کی شکایتوں اور عرض غم کی حکایتوں کا بیان) اور شہر آشوب (معاشرتی زندگی میں اقدار و روایات کی زبوں حالی کا المیہ) کے بیان میں اپنی فنی مہارت کا لوہا منوایا۔ تخلیق فن کے دوران میں وہ ’بادشاہ شاہی‘ کے قلمی نام سے لکھتا تھا۔ اس کا مجموعہ کلام ’’کلیات شاہی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اپنی شاعری میں نصرتیؔ نے بالعموم مثنوی کی ہئیت کو منتخب کیا اور مثنوی ہی اس کی شہرت کا وسیلہ بن گئی۔ مثنوی کے علاوہ نصرتیؔ نے غزلیں اور قصیدے بھی لکھے۔ اسے دکنی اردو میں قصیدے کا پہلا شاعر سمجھا جاتا ہے۔ اس کی مثنوی ’’گلشن عشق‘‘ منوہر اور مدھو مالتی کی داستان محبت پر مشتمل ہے۔ اپنی مثنوی ’’علی نامہ‘‘ (سال اشاعت 1670) میں نصرتیؔ نے علی عادل شاہ ثانی کی حیات اور مہمات کو موضوع بنایا ہے۔ اس طویل مثنوی کے ہر حصے کا آغاز ایک قصیدے سے ہوتا ہے۔ ادبی اسلوب کے اعتبار سے مثنوی ’علی نامہ‘ پر شکوہ انداز، شدت جذبات اور دل کش پیرایۂ اظہار کی بنا پر حسن شوقی کی تخلیق ’میزبانی نامہ‘ کے مانند بزم کے موضوع پر قلب وروح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے۔ اس کی تیسری مثنوی ’’تاریخ سکندری‘‘ جو نصرتیؔ کی اچانک وفات کے باعث نا مکمل رہ گئی۔ ملا نصرتیؔ (محمد نصرت) بیجا پوری (1600-1674) نے معانی اور موضوعات میں پائی جانے والی حد فاصل کی جانب متوجہ کر کے ادبی تھیوری کو نئے آہنگ سے متعارف کرانے کی سعی کی۔ اُس کی تصانیف ’گلشن عشق‘ ، ’علی نامہ‘ اور تاریخ سکندری میں فکر و خیال کی رفعت اور اظہار کی ندرت نے شاعری میں مضمون آفرینی اور معنی بندی کا ایک جہاں تازہ جلو گر ہے جو قاری کے احساس و ادراک کو مہمیز کر کے اپنے من کی غواصی پر مائل کرتا ہے۔ نصرتیؔ کے اسلوب کا نمونہ گلشن عشق کے ان اشعار میں دیکھیں:
اودھر ساتھ تھی ماں کے مدھو مالتی
اودھر ماں کے سنگات چمپاوتی
بہت دِن کوں جِس وقت بِچھڑے مِلے
اکر اک لگائے چنگل کر گَلے
انوکیاں سسکیاں چنکی سو سات تھیں
انوں کے کنبے بھی اوسی دھات تھیں
اِتے نرم و نازک رنگیلی پانوں (پانوں: پاؤں)
اُٹھے جِیب پر نقش لینے میں پانوں (جِیب: زبان)
چندر بدن کہیا تو کہی موں سنبھال بول
سورج مُکھی کہیا تو کہی یوں نہ گھال بول
سید میراں ہاشمیؔ بیجا پوری
نا بینا شاعر سید میراں ہاشمیؔ بیجا پوری (متوفی: 1697) نے بارہ ہزار اشعار پر مشتمل مثنوی ’یوسف زلیخا‘ تخلیق کی جو مولاناگرامی کی تصنیف کا آزاد ترجمہ ہے۔ ہاشمیؔ نے عرب روایات کے برعکس اظہار محبت اور تکلم کے سلسلے کا آغاز عورت کی جانب سے کیا۔ سید میراں ہاشمیؔ بیجا پوری کے ان خیالات کی بنا پر اس کا شمار ریختی کے بنیاد گزار شعرا میں ہوتا ہے اور اسے ارد وکے پہلے صاحبِ دیوان ریختی گو شاعر کی حیثیت سے شناخت مِلی۔ ہاشمی سے پہلے بھی ریختی کا وجود تھا اسی زمانے میں عارفیؔ نے ریختی میں اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھائیں۔ اس کا خطاب ’میاں خان‘ تھا۔ دکن میں ہاشمیؔ کی مرثیہ نگاری کی بھی بہت دھُوم تھی۔ سید میراں ہاشمی بیجا پوری کانمونہ کلام درج ذیل ہے:
ثنا حمد اِس کوں سزا وار ہے
گل عشق کا جس کو بستار ہے
سکت کِس میں ہے جو کرے سر بہ سر
اب تُو ہاشمی مناجات کر
مرے شعر کرے بادشاہاں پسند
پسند کر کردار اکیں جو سب ہوش مند
اپنی شاعری میں ہاشمی نے ریختی پر زیادہ توجہ دی اس لیے اُس کی شاعری میں حسن و رومان اور جنس و جنوں کے جذبات کا عجب انداز ہے۔ ہاشمی کا نمونۂ کلام درج ذیل ہے:
سجن آویں توپردے کے نکل کر بہار بیٹھوں گی
بہانا کر کے موتیاں کا پروتی ہار بیٹھوں گی
اونو یہاں آؤ کئیں گے تو کہوں گی کام کرتی ہوں
اٹھلتی ہور مٹھلتی چُپ گھڑی دو چار بیٹھوں گی
محمد امین ایاغیؔ
محمد امین ایاغیؔ دکن کا شاعر تھا اور نصرتی کا معاصر تھا۔ مذہبی شاعری پر مشتمل اس کی مثنوی ’’نجات نامہ‘‘ دو سو چالیس (240) اشعار پر مشتمل تھی۔ اس مثنوی میں شاعر نے ناصحانہ انداز اپنایا ہے اور احکام شریعت کی پابندی پر زور دیا ہے۔ اس کے ہم عصر شعرا میں سیواؔ، شغلیؔ، مومنؔ، قادرؔ، شاہ من عرف اور معظم شامل ہیں۔ محمد امین ایاغیؔ کا نمونۂ کلام درج ذیل ہے:
ایاغیؔ کِدہر تو چلیا باٹ چھوڑ
سر رشتے کو پندان کے تو یوں نہ توڑ
محمد امین و ایاغیؔ اوپر
الٰہی کرم کی نظر کر نظر
حسن شوقیؔ
حسن شوقیؔ (1511-1633) کا شمار گولکنڈہ کے اُن ممتاز شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے عہد میں دکنی زبان میں کھُل کر لکھا۔ اس کا تعلق دکن کے تین درباروں یعنی قطب شاہی، عادل شاہی اور نظام شاہی سے رہا مگر اس کا زیادہ وقت بیجاپور ہی میں گزرا۔ ابن نشاطی بھی اس شاعر کا معتقد تھا اور اس نے اپنی مثنوی پھول بن میں حسن شوقی کی شاعری کو سراہا ہے۔ حسن شوقی کی وفات پر ابن نشاطی نے اپنے جذبات حزیں کا اظہار کیا ہے۔ ولیؔ دکنی نے سال 1630 میں لکھی گئی حسن شوقی کی پر لطف بزمیہ تخلیق ’’میزبانی نامہ‘‘ کو بہ نظر تحسین دیکھا اور اس شاعر کے اسلوب سے اثرات قبول کیے۔ بیجا پور کے والی سلطان محمد عادل شاہ نے جب اپنے وزیر مصطفی خان کی دختر سے بیاہ کیا تو حسن شوقی نے اپنی مثنوی ’’میزبانی نامہ‘‘ میں نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔
میزبانی نامہ
سدا دار پر تجھ منگل گز گزیں
منگل گز گرین جیوں بدل گز گزیں
ہستی مست پر پیلیاں مست ہے
زبر دست پو کیا زبردست ہے
سدا دار پر تجہ طَبل باجتے
طبل باجتے ہور مندل کا جتے
بہت دیس تے شہ کی گھر کاج ہے
شہر گشت کی رات سو آج ہے
شہر گشت کا ساز و سامان ہوا
نفیریاں ترائے دماماں ہوا
حسن شوقیؔ نے غزل گوئی میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ سراپا نگاری میں اسے کمال حاصل تھا:
دلبر سلونی نین پر کھینچی ہے سوکا خوبتر
خطاط جیوں ماریا رقم چھندوں ثلث کے صاد پر
امینؔ
درویش منش صوفی شاعر امینؔ کا تعلق ابراہیم عادل شاہ کے زمانے سے تھا۔ اس کی مثنوی ’بہرام و حسن بانو‘ بہت مشہور ہوئی۔ امینؔ کا نمونہ کلام:
کیا حمد اور نعت کون مختصر
نہیں ہیں کیا طول یو سر بہ سر
یکایک میرے دِل میں آیا خیال
قصا یک کہوں میں مقیمی مثال
زبان پر بچن خوب آتا چلا
یو مضمون خوش تر بناتا چلا
زبان پرہے جس کے موتی آب دار
اسی کے بچن کا ہے اکثر وقار
مرزا محمد مقیم مقیمیؔ
سر زمین ایران سے تعلق رکھنے والے اس شاعر نے بیجا پور میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ مرزا محمد مقیم مقیمیؔ نے دکنی، فارسی اور اردو میں شاعری کی۔۔ اس کی مثنوی ’چندر بدن و مہیار‘ اس کی یادگار ہے۔ اس نے دو سو پچاس (250) صفحات پر مشتمل ایک اور مثنوی ’سو مہار‘ بھی لکھی۔ ہندی کی مقبول لوک کتھا ’’چندر بدن اور مہیار‘‘ (تصنیف: 1050 ہجری)کو مقیمیؔ نے دکنی میں نیا آہنگ عطا کیا مگر یہ مثنوی قارئین کی توجہ حاصل نہ کر سکی۔ دو سو پچاس اشعار پر مشتمل مقیمیؔ کی ایک اور مثنوی ’’سو مہار‘‘ بھی ہے۔ مقیمیؔ کا نمونۂ کلام درج ذیل ہے:
خدا کون سزا وار کبر و منی
او قادر ہے قدر کا صاحب دھنی
جویوں کیا آدم یک ارواج کوں
بسالیا ہے طوفاں نے تونوح کوں
کیا تار گلزار رب الجلیل
کہ نمرود کے ہات بانچیا خلیل
سنا ہوں کہ یک شہر سندرپٹن
ا تھا راج وہاں ایک ہندو برن
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
کہا جا اوسے اے دیوانے بشر
کہاں سوں تو آیا چلیا ہے کدھر
ابراہیم صنعتیؔ
ابراہیم صنعتیؔ نے عادل شاہی دور میں دربار تک رسائی حاصل کی اور درباری شعرا میں اسے بلند مقام حاصل تھا۔ اس کی دو مثنویاں مشہور ہیں جن میں ایک تو ’’قصہ تمیم انصاری‘‘ اور دوسری مثنوی ’گلدستہ‘ ہے۔ ابراہیم صنعتیؔ کے اسلوب میں سادگی، لطافت اور جذبات کی روانی کا کرشمہ قارئین کو مسرت کے منفرد احساس سے سرشار کرتا ہے۔
ثنا بول اول توں سبحان کا
جو خلاق ہے جن و انسان کا
بشر کوں اپس قدرت پاک سوں
بنایا اگن جل پوں خاک سوں
دسیں جل پو بارے تے اس دھات موج
کہ چنچل کی جون چک میں غمزیاں کی فوج
ہر یک پات پر بوندبرسانت کے
ہر یک شاخ پر مرغ کئی بہانت کے
جتے مرغ وان کے خوش آواز تھے
فرشتیاں سوں تسبیح میں ہم راز تھے
ملک خوشنود
دکنی زبان کا یہ شاعر قطب شاہی سلطنت کا غلام تھا۔ ملک خوشنود اگرچہ شاہانِ گولکنڈہ کا غلام تھا مگر اس کی شاعری اور دیانت داری کی وجہ سے کی وجہ سے اُسے دربار میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اپنی خدادا صلا حیتوں کی بنا پر ترقی کے مدارج طے کر کے دربار میں بلند منصب حاصل کیا۔ اس کی مثنویاں ’’ہشت بہشت‘‘ اور ’’بازار حسن‘‘اس کی یادگار ہیں۔ ملک خوشنود کی شاعری کا نمونہ درج ذیل ہے:
عجب بے مہر دنیا بے وفا ہے
محبت عین اس کاسب جفا ہے
جتے ہیں دوستاں فرزند ساقی
سگل ہے گور تک او سب سنگاتی
دکنی ادب کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دکنی اردو کو ابتدا میں گجری بھی کہتے تھے۔ دکن میں مقیم متعدد تخلیق کاروں نے اپنی زبان کو گجری کہنے میں کبھی تامل نہ کیا۔ دکنی زبان کے شعرا اور مصنفین نے بھی دکنی اردو کا نام گجری پسند کیا۔ (25) اس کی چند مثالیں پیش ہیں:
جے ہوویں گیاں بچاری
نہ ویکھیں بھاکا گوجری (شاہ برہان الدین جانم فرزند شاہ میران جی شمس العشاق)
محمد امین
مطلق العنان مغل بادشاہ محی الدین محمد اورنگ زیب کے عہد (1658-1707) میں دکنی شاعر محمد امین کی مثنوی ’یوسف زلیخا‘ جو دکنی زبان کی مقبول مثنوی تھی اسے خود اس مثنوی کے تخلیق کارمحمد امین نے گجری زبان کی تخلیق کہا ہے:
سنو مطلب اَہے اب یو امیںؔ کا
لکھی گجری منے یوسف زلیخا
ہر اِک جاگا ہے قصہ فارسی میں
امیں اس کو اتاری گوجری میں
کہ بوجھے ہر کدام اس کی حقیقت
بڑی ہے گوجری جگ بیچ نعمت
٭٭٭