لسانیات میں دلچسپی رکھنے والے اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ دنیا کی مختلف زبانوں کے ذخیرۂ الفاظ میں تغیر و تبدل کا سلسلہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس طرح چُپکے سے اور چھُپ کے جاری رہتا ہے کہ کسی کو علم ہی نہیں ہوتا۔ اس کا مختصر احوال درج ذیل ہے:
۱۔ کچھ صوتیے ایسے تھے جن کو یا تو بڑھا دیا جاتا تھا یا ان میں تخفیف کر دی جاتی تھی جیسے:
دکنی اردو دکنی اردو
جاگاہ جگہ ہانسی ہنسی
انانند آنند سُرج سُورج
انت انتہا اچالنا اُچھالنا
آپیچ آپ ہی آنک آنکھ
آنگے آگے اُپرانا اُوپرآنا
انچل آنچل اِنام اِنعام
۲۔ سانس میں حلقی الفاظ کو بڑھانا یا گھٹا دینا جیسے:
دکنی اُردو دکنی اُردو
ہور اور سُندھر سُندر
مُج مُجھ باگ باغ
اگیٹی انگیٹھی انڈرا انڈا
امریت امرت اُچانا اُٹھانا
اہیں ہیں بُجے بُجھے
برسانت برسات پچانیا پہچانا
پِیٹ پِیٹھ پہڑ پہاڑ
۳۔ ناک کے ذریعے الفاظ کی ادائیگی کے دوران میں اضافہ یا تخفیف کر دینا جیسے:
دکنی اُردو دکنی اُردو
تُوں تُو کُوں کو
کچ کانچ ما باپ ماں باپ
دونو دونوں اجھوں ابھی تک
کاری کالی کوتا کُتّا
ا تھا تھا کِتا کرتا
منے مجھے اِس کوں اِس کو
تائیں تئیں، تک تھانبنا تھامنا
تھنڈی ٹھنڈی جناور جانور
صرّیاں صراحیاں کُو نچیاں کُوچے
کانٹیاں کانٹے کوں کہوں
کیں کہیں نویاں نئی
نھواں ناخنوں منگنا مانگنا
۴۔ دکن کے تخلیق کار الفاظ کو تشدید کے ذریعے دو گنا کر کے اپنی بات میں زور پیدا کرتے تھے۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
دکنی اردو دکنی اردو
ہوّا ہوا گلّا گلا
حلّق حلق ہتّھی ہاتھی
نمّک نمک ڈلّی ڈلی
جوّا جوا تلّا تلا
تھوّے طبق غرّش غرانا
مُکّی مُکّہ مُلمّا مُلمع
سُتّا سوتا جُلّاب پاخانہ
پچھانّا شناخت کرنا
۵۔ دکنی زبان کے الفاظ میں ل، ں، چ‘ اور ’ج‘ کا کثرت سے استعمال ہوتا تھا مثلاً
دکنی اردو منچ منھ میں
بہتیج بہت مجمر عود دان
گج ہاتھی نجھا غور کرنا
نچھل دیدہ زیب و جل تاخیر
وجوداں اجسام آرھیاں آ رہی ہیں
ابھالاں بادلوں آپچ آپس
اپرال اوپر کی طرف اِتنیاں اِتنی
اجنوں ابھی تک اُچل اُچھل
براں باری بُریاں بُرے لوگ
بزاں بعد ازاں بیگچ جلدی ہی
یتیاں اتنی ہیناں حقیر
گڑ گ یاں پاجامے کیاں لفظ ’کی‘ کو جمع میں لکھا گیا ہے
۶۔ دکنی زبان میں صوتیے کے الفاظ میں تبدیلی لائی جاتی تھی۔ اس کی مثالیں درج ذیل ہیں:
دکنی اُردو ڈھنڈنا ڈھونڈنا
ٹھنڈ کالا ٹھنڈک کا موسم مہراٹے، میراٹے مر ہٹے
میہوں میہنہ، بارش میغ میگھ، بادل
مہور مور نابات نبات
لاک لاکھ کچکول کشکول
کنتھا کنٹھا کھالہ خالہ
گُد گلی گد گدی کِتا کِتنا
کِدر کِدھر کُچ کُچھ
شاطیر شاطر
۷۔ دکنی و اردو میں لسانی اشتقاق اور نحوی تغیرات: قدیم دکنی اور جدید دور کی اردو زبان میں ذخیرۂ الفاظ کا جو اختلاف ہے اس کی تفہیم کے لیے ’’سب رس‘‘ اور دکنی شاعری کے مختلف نمونوں سے لی گئی سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
قدیم دکنی جدید اردو الفاظ قدیم دکنی جدید اردو الفاظ
کان کہاں بڈھائے بڑھائے
دِستے نظر آتے بھریا بھرا ہوا
اجوں لک ابھی تک بجناگ جُدائی
رخن طرف بست چیز
یاں یہاں بولیچ ہیں بولتے ہیں
پات پتے بسلایا بٹھایا
بھر باہر بھِیتر درمیان
ہمنا ہم کو بیگچ جلدی سے
کوں کو پرتے مطابق
سجن معشوق تلملے تلملائے
اس پو اس پر ٹھار جگہ
گگن آسمان جیواں جی
بہوت بہت جہلانچہ خاطر جاہلوں کی خاطر
ا تھا تھا جاہلاں جہلا
تمن تم کو چکلیا زور سے دبانا
نین آنکھ چلنت چال
کدھن سمت، جانب چِمتی چیونٹی
جکوئی جو کوئی حوساراں ہو شیاروں
سمد در سمندر حوت روشنی
رسن زبان خوبیج خوبیاں
نیں نہیں دھات طرز /طرح
منج مُجھ دھنی مالک
وو وہ دِیوا شمع
یو یہ دِستا دِکھائی دیتا
کنے پاس دُسرا دوسرا
اس حد لگن لیا ہے اس حد تک لیا ہے دُسریاں دُوسروں
انپڑے پہچانا دھایا دھات بات طرز کی بات
اجھیگا رہے گا میرا کہنا میرا کہا
اودھرم بے دھرم دیکھنے دیوے دیکھنے دے
انجیتا ان جان /نہ جاننے والا ہِلنے جُلنے باج ہِلے جُلے بغیر
ایساح ہے ایسا ہے منے مُجھے
اڑنا مشکل میں ہونا کتا کوتاہ
اچھنا ہوتا کھڈا گڑھا
اُچا سکتی اُٹھا سکتی سمدی سمدھی
اَچھکلی ہو گی باندنا باندھنا
انگے آگے کیدر کِدھر
سادُ و سادھُو گڑا گڑھا
چڑاؤ چڑھاؤ بڑائی بڑھائی
سیڑی سیڑھی لٹھو لٹو
اُلٹھا اُلٹا پلٹھانا پلٹانا
تکڑا ٹکڑا تھٹھرنا ٹھٹھرنا
دیڑھ ڈیڑھ تاٹ ٹاٹ
تھنڈ ٹھنڈ چُننا چُونا
پھَکا پھیکا رات دیں رات دن
ریل جھیل ریل پیل سور سورج
سرنگ خوش رنگ سمجیا سمجھا
سنمکہ آمنے سامنے سب سوں ملیاں سب سے مِلا
سرجنہار پیداکر نے والا سنگاتی ساتھی
سراں تے سر ہانے سینچ سننے سے
کاکلوت حرص کاڑ نکال کر
کوڑ دغا/ جھوٹ کج فامی غلط فہمی
کسیچہ کسی میں کیتک کتنے
لوکاں لوگوں مایا سمایا
مانک موتی منگتا چاہتا
مورک بے وقوف میانے درمیان
مینچ میں ہی نوی نئی
نظر سٹے نظر پڑے نانوں نام
نھنواں کا کھیل بچوں کا کھیل وہیچ وہی
ہمنا ہم کو ہتی ہاتھی
سور اور سوں سے
سُون، سین، سیتی سے کوں کو
کوں کو کیکو کیوں
ہمن کوں ہم کو نہا لی بِستر
جگ منے دنیامیں کُندا کٹورا
بچن کلام مُکھ منھ
نِت ہمیشہ نین آنکھ
سنِگل زنجیر انجھواں آنسو
کدھیں کبھی قطع خطّہ
کا کیا سیس سر
سو نیری سنہری سور سورج
شرزہ شیرکابچہ روت رُت
رین رات رُکھ درخت
رتن موتی چوندھیر چاروں جانب
پون ہوا پولاد فولاد
نیکالیا نکالا نید نیند
نیلاب دریا وانر بندر
لوک لوگ کوندن کُندن
اِس دھات اِس طرح سہاتے بھلے لگتے
تل لحظہ آنکھیں مونچنا آنکھیں موندنا
باؤ ہوا چڑنت میں چڑھتے وقت
چوپھیر چاروں طرف دس آوے دکھائی دے
ادک شدید دھریچ دھرنا
سٹیں عکس عکس ڈالیں مسکٹیں مسکراہٹیں
گل سور سورج مکھی کاپھول کانسے کاسے
زندہ رہنے کی دعا کو دکنی میں ’جیواں‘ کہا جاتا ہے۔ پنجابی زبان میں بھی صبر و استقامت سے زندگی بسر کرنے کی تمنا کو ’جیواں‘ ہی کہا جاتا ہے۔ ایک پنجابی لوک ماہیے میں ان الفاظ کے بر محل استعمال سے شاعر نے خوب سماں باندھا ہے:
چولا نِت سیواں
دُنیا تے تُوں جیویں، تیری آس تے میں جیواں
ترجمہ:
تیری قمیص میں سیتی رہوں
دنیا میں تم جیتے رہو، تمھاری آس پہ میں جیتی رہوں
قدیم دکنی زبان میں استعمال ہونے والے کے بعض صوتیے (Phonemes) ایسے ہیں جو جدید دور کی اردو زبان اور معاصر پنجابی زبان میں مستعمل نہیں مثلاً ’’لھ‘‘، ’’نھ‘‘، ’’رھ‘‘، ’’وھ‘‘، ’’یھ‘‘، ’’مھ‘‘۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ان خاص متنفس آوازوں کو دکنی زبان کی پہچان سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’لہوے‘‘ جس کے اردو میں معنی ’لوے‘ ہیں۔
۱۔ لھ: ولے اس ہوس تھے وہ دِل لھو ہوئے
غریبی تھے یکجا پھٹ کے لھو ہوئی (احمدؔ : یوسف زلیخا)
ہویاں لھوکیاں چھٹکاں ہوا پر بخار
سٹیں تیغ جیباں تے شعلے ہزار (نصرتیؔ)
۲۔ نھ: لیا نھا ٹتیاں کا ہو ہر جھاڑ کال
مونڈا ساچ کوی کوی سوجھونٹے کے بال (نصرتیؔ)
سو نھالی چوبتیں مت انپڑے دُک
اٹھی سو دیک کر نھا ٹیا جو ڈر کر (احمدؔ : یوسف زلیخا)
نھنا ساچ ہیرا پنا کھن منے
بڑا بل دیا پیسنے گھن منے (نصرتیؔ)
نھنے ہور بڑے تھے سو سب بد نہاد
اُچائے وہ چارو طرف سے فساد (نصرتیؔ)
ہتھیاں کا عرابہ چلے میل میل
نھنا جس میں سردار اصحاب فیل (نصرتیؔ)
دسیں یوں زرہ پوش لہو میں جنجال
مچھی جیوں توڑا لیکھ نھاٹی ہے جال (نصرتیؔ)
مغل کی ہے تلوار دکھنیاں پہ یوں
تبر سامنے جیوں کہ اُنگلی کے نھنوں (نصرتیؔ)
دکنی زبان کے کچھ اور الفاظ میں یہ صوتیہ (نھ) قابل غور ہے مثلاً نھنوں۔ ناخن، نھنوادگی۔ بچپن، نھاسنا۔ بھگنا، نھاٹیاں۔ فرار ہونے والے، نہالاں۔ درخت، نہالی۔ چھوٹی توشک،
۳۔ رھ: کن اس کی پائتی جاگت رھیا سوئے
رھیا ہے من کمل تنگ ہو کلی سار (احمدؔ : یوسف زلیخا)
رھیا تھا کہ اس روپ اپس چک بہتر
نہ لگنے دیوے آرسی کی نظر (نصرتیؔ)
۴۔ مھ: لٹکی مھور جوں بہ رنگ اپروپ
جگت مھکار اس کی باس امریت (احمدؔ : یوسف زلیخا)
مھبلی۔۔ بہت دلیر
۵۔ وھ: نہ دُوجا کوئی وھاں پیچھے نہ آگے
ولیاں کوں سب وھی بخشے ولایت (احمدؔ : یوسف زلیخا)
وہیں ملک سب مار کر لے تلف
بٹھایا ہزاراں سوں دِل ہر طرف (نصرتیؔ)
کہ جس گھر تے جیکوی بڑیا ہو انگے
پچھیں توڑنے پھر وہی گھر منگے (نصرتیؔ)
موجودہ دور میں اردو زبان میں صرف دو (2) امالے (Dipthongs) مستعمل ہیں۔ یہ امالے (au) اور (ai) کی صورت میں موجود ہیں۔
۱۔ کون: کون ہوتا ہے حریفِ مے مرد افگنِ عِشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد (غالبؔ)
۲۔ کئی: قیس پیغام ہی کہتا ہوا اللہ رے شوق
ساتھ قاصد کے گیا تھا کئی منزل دوڑا (ناسخؔ)
اردو اور دکنی زبان میں کچھ اور امالے بھی پائے جاتے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ (ui)، ۲۔ oi))، ۳۔ oe))، ۴ae))، ۵۔ (ai)
۱۔ (ui): جو باویں پکھوے تھے نار اُپچ ہوئی
پرت بینیاں سوں گزرانی جو ہوی رین (احمدؔ : یوسف زلیخا)
ولے انجھواں تھے وہ مُکھ آرسی ہوئی
نہ ہوئی اس دھات بِن کافر کیری گور (احمدؔ : یوسف زلیخا)
کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظرنہیں آتی (مرزا اسداللہ خان غالبؔ
۲۔ (oi): جے کوئی من بھاؤ پیوسوں من جو باندھے
سو در گند باس اس تھے کیوں دیکھے کوئی (احمدؔ : یوسف زلیخا)
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دُکھ کی دوا کرے کوئی
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی
بَک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
نہ سُنو، گر بُرا کہے کوئی
نہ کہو، گر بُرا کرے کوئی
روک لو، گر غلط چلے کوئی
بخش دو، گر خطا کرے کوئی
جب توقع ہی اُٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گِلا کرے کوئی (مرزا اسداللہ خان غالبؔ)
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
چراغ سحر ہوں بُجھا چاہتا ہوں (علامہ اقبال)
کوئی کر کے بہانہ سانوں مِل ماہی وے راتاں آ گیاں چاننیاں (پنجابی لوک گیت)
۳۔ (oe): دکھوں جن دھول میں لڑتی پڑی ہوئے
سو کیوں وہ ریشمی نھلی اپر سوئے (احمدؔ : یوسف زلیخا)
میری داستانِ حسرت وہ سنا سنا کے روئے
میرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
کوئی ایسا اہل دِل ہو کہ فسانۂ محبت
میں اُسے سنا کے روؤں وہ مجھے سنا کے روئے
مِری آرزو کی دنیا دِلِ ناتواں کی حسرت
جسے کھو کے شادماں تھے اُسے آج پا کے روئے (سیف الدین سیفؔ)
۵۔ (ai): یہی تھا کئی برس لگ حال اُس کا (احمدؔ : یوسف زلیخا) (4)
تِری بے وفائیوں پر تِری کج ادائیوں پر
کئی رو کے مسکرائے کئی مسکرا کے روئے (سیف الدین سیفؔ)
لسانیات کے ماہرین کا خیال ہے کہ متعدد تراکیب اور الفاظ ایسے ہیں جن پر ہندوی یا قدیم اردو کے دکھنی نمونوں کا گمان گزرتا ہے۔ ذیل میں ملا وجہی کی تصنیف ’’سب رس‘‘ سے امدادی افعال کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جو دکنی زبان کے لسانی ارتقا کی تفہیم میں مدد دیں گی:
پیدا کیا، ہویدا کیا، خلاف کرنا، نُور بھرنا، مان دینا، بیان کرنا، ہات دھرنا، رہا گیا، کہا گیا، امداد دیوے،
فیض انپڑنا، آرام پانا، دعا کرنا، بات کرنا، باٹ پانا، امداد پانا، جیو دینا، بات بولنا، گرہ دینا، ہاٹ آنا،
چھلے (چھالے) آنا، گھائل ہونا، پر ہیز کرنا، کام گنوانا، کام کرنا، نظر پڑنا، تازا رکھنا، مدعا پانا، چلنت چلنا،
کامل ہونا، زندہ دِل ہونا، تمیز کرنا، کھڑا رہنا، شرف پانا، مول پانا، میٹھا لگنا، فرصت پانا۔ (5)
دکن کے طول و عرض میں مروّج و مقبول مقامی زبانوں کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں دکن کے سلطان ابراہیم عادل شاہ (1526-1627) کا کردار بہت اہم ہے۔ اس سلطان کے عہد میں مقامی زبانوں کی سرکاری سر پرستی کے بارے میں حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے ممتاز انگریز مورخ لیفٹنٹ کرنل سر ولزلے ہیگ (Lieutenant-Colonel Sir Thomas Wolseley Haig) نے کیمبرج ہسٹری آف انڈیا میں لکھا ہے:
“…………Ibrahim struck a further blow at foreign influence in the state by substituting the vernacular languages, Canarese and Marathi, for Persian as the official languages. (6)
دکن میں مروّج و مقبول ہونے والی نئی زبان کو بہت پذیرائی ملی اور اس نئی زبان کو دکھنی اور ہندی کا نام دیا گیا۔ اس عہد سے تعلق رکھنے والے ممتاز تخلیق کاروں کی تخلیقات کا جائزہ لینے سے بھی یہی نام سامنے آتے ہیں:
اول قصد کر دکھنی بولی اوپر
ضرور آ پڑیا تو ملونی بھی کر (ہاشمیؔ)
رسالہا تھا فارسی یو اول
کیا نظم دکنی سیتی بے بدل (غواصیؔ)
کیا ترجمہ اس کو دکھنی زباں
ہوا اوس وقت دکنی یو ترجما (عبداللطیف)
شعر شیریں کا تیرا لے ہے رواج دکھنی منے
طوطیاں اپنے پراں کے ہند میں دفتر کئے (محمودؔ)
دکھنی میں جوں دکھنی مٹی بات کا
ادا نیں کیا کوئی اس دہات کا (وجہیؔ: قطب مشتری)
اِسے ہر کس کتیں سمجھا کوں توں بول
دکھنی کے باتاں ساریاں کوں کھول (ابن نشاطی: پھول بن)
کیا ترجمہ دکھنی ہور دِل پذیر
بولیا معجزہ یوں کمال خان دبیر (کمال خان رستمیؔ: خاور نامہ)
صفائی کی صورت کی ہے آرسی
دکھنی کا کیا شعر ہوں فارسی (ملک الشعرا محمد نصرت نصرتیؔ: گلشن عشق)
ولے بعض یاروں کا ایماں ہوا
سو ہندی زباں یہ رسالہ ہوا (آگاہؔ)
جس زبان کو جنوبی ہند میں دکھنی کا نام دیا گیا وہی شمالی ہند میں ریختہ کے نام سے پہچانی گئی۔ شمس الدین ولیؔ (1618-1707) نے اپنے دہلی کے سفر کے بعد اس زبان کا نام دکنی بھی استعمال کیا۔ دہلی کے سفر کے بعد ولیؔ نے دہلی میں استعمال ہونے والے محاورات اور تراکیب کو اپنی شاعری میں جگہ دی۔ ولیؔ کی تقلید میں دہلی کے متعدد شعرا نے عربی اور فارسی کے الفاظ کو اپنے کلام میں جگہ دے کر اردو کو ہندی سے الگ شناخت عطا کی۔ اس طرح اُردو نے اس خطے میں ثقافتی اظہار کے ایک اہم اور موثر وسیلے کی صورت اختیار کر لی۔ دکن میں ولیؔ سے پہلے بھی اس نئی زبان کے لیے دکھنی اور ہندی کے نام استعمال کرنا معمول تھا مگر اورنگ آباد کے شاعر ولیؔ نے اس کے لیے سب سے پہلے ریختہ کا نام استعمال کیا:
یہ ریختہ ولیؔ کا جا کر اُسے سنا دے
رکھتا ہے فکر روشن جو انوری کے مانند (ولیؔ دکنی)
شمالی ہند میں باہمی ربط اور تبادلہ خیال کے لیے استعمال ہونے والی اس زبان کو ریختہ کے نام سے شہرت ملی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس خطے کے فعال اور مستعد تخلیق کاروں نے اپنے اشعار میں ریختہ کا ذکر کیا ہے:
خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا (میر تقی میرؔ)
قائمؔ میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
ایک بات لچر سی بہ زبان دکھنی تھی (قائمؔ)
ریختہ نے یہ تب شرف پایا
جب کہ حضرت نے اِس کو فرمایا (اثرؔ)
٭٭٭