وہ اس وقت لان میں گھوم رہی تھی جو حویلی کی پچھلی طرف تھا کیونکہ سامنے کی طرف لان میں خواتین کو جانے سے منع کیا گیا تھا۔
وہ بعض اوقات سوچتی تھی کہ اسکی زندگی باقی لڑکیوں کی طرح کیوں نہیں ہے؟ کیا ساری زندگی وہ یوں ہی بھٹکتی رہے گی؟ کیا اپنا کام کرنے کے بعد اسے کوئی قبول کر لے گا؟
لیکن پھر وہ خود ہی سوچوں کو جھٹک دیتی تھی۔
ابھی بھی وہ چہل قدمی میں مصروف تھی کہ عمیر یوسفزئی نے لان میں قدم رکھے، لیکن اسے دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا۔
نور کے چہرے پہ ایک مسکراہٹ آئی تھی۔
“تم یہاں؟؟” عمیر نے سوال کیا۔
“جی میں اور یہاں۔ تم نے ڈاکٹر نور کو ہلکا لے لیا ہے۔” نور نے اسے جواب دیا۔
“ڈاکٹر نور یہ صرف آپ کی خوش فہمی ہے کہ آپ یہاں ٹک سکیں گی؟” عمیر نے اس پر طنز کیا۔
“اچھی بات ہے تم نے مجھے آپ کہا اور اب عادت ڈال لو آپ کہنے کی کیونکہ میری عزت تو اب تمہیں ناچاہتے ہوئے بھی کرنی پڑے گی۔” نور کے چہرے پر تپا دینے والی مسکراہٹ تھی۔
“میں سب کو تمہاری حقیقت بتاؤں گا۔” عمیر نے دانت پیسے تھے۔
” اور میں سب کو تمہارے کرتوت بتاؤں گی۔” نور اسکے مقابل کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
عمیر کے چہرے پر اسکی بات سن کر ناگواری واضح محسوس کی جا سکتی تھی۔ وہ وہاں سے جانے کیلئے مڑا تو نور پیچھے سے بولی:
“ڈاکٹر عمیر آپ نے پریکٹس کیوں نہیں کی؟”
” مجھے اپنا بزنس چوروں سے بچانا تھا اس لیے! “عمیر نے مڑ کر غراتے ہوئے کہا اور چل دیا جب پیچھے سے نور کی آواز آئی۔
تمہیں غلط لگتا ہے کہ تم سب بچا رہے ہو، سچ یہ ہے کہ تم سب گنوا رہے ہو۔”
بہت بڑے کھیل کا آغاز ہونے والا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کو مات ہوتی ہے اور کس کو کامیابی ملے گی۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
آج دو ہفتے بعد مہمل کا بخار کچھ کم ہوا تھا۔
پچھلے دو ہفتوں سے وہ بستر پر بےسدھ پڑی تھی۔ لیکن آج اسکا بخار کم تھا اس لیے وہ اٹھ کر قرآن کی تلاوت کر رہی تھی۔
اسے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بھرپور کوشش کے باوجود وہ خود کو سنبھال نہیں پا رہی تھی۔ کوئی اس کا نام پکارتا ہی تھا کہ اسکے آنسو چھلک پڑتے تھے۔ اتنی کمزور تو وہ کبھی بھی نہیں تھی لیکن اب وہ شکست خوردہ محسوس کر رہی تھی۔
ان دو ہفتوں میں اسفر نے کافی کچھ سنبھالا ہوا تھا جبکہ داؤد مشوانی اپنے داجی یعنی مظفر مشوانی کے ساتھ روز یہاں آتا تھا۔
“رقیہ بہت یت ہو گئی ضد اب آپ میرے ساتھ چلو۔” مظفر مشوانی یعنی مشوانی کے داجی اور قبیلے کے خان جی رقیہ بیگم سے مخاطب تھے۔
” خان جی میں نہیں جا سکتی۔” رقیہ بیگم نے صاف انکار کیا تھا۔
” رقیہ بچے بہت پہلے تم نے غلط فیصلہ کیا تھا۔ اب دوبارہ غلطی مت کرو۔ چلو ہمارے ساتھ۔” مظفر مشوانی انھیں ہر صورت ساتھ لے کر جانا چاہتے تھے۔
“وقت نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ ہم سب کے درمیان اجنبیت کی دیواریں کھڑی ہیں۔” رقیہ بیگم کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔
“وقت نے چاہے جتنا مرضی دور کر دیا ہو لیکن دلوں میں موجود محبت تو ختم نہیں ہوئی نا؟” مظفر مشوانی کا لہجہ نرم تھا۔
“میں تو چلی جاؤں مہمل نہیں جائے گی، اپنے باپ کی طرح ضدی ہے وہ۔ اور اس گھر سے جہاں اسکے باپ نے زندگی گزاری، یہاں سے دور وہ نہیں جائے گی۔ وہ اپنے باپ کی لاڈلی تھی یہ الگ بات ہے کہ قسمت نے جہانگیر کو لاڈ اٹھانے کا موقع نہیں دیا لیکن وہ باپ کی محبت ہمیشہ محسوس کرتی تھی اور اپنے باپ سے اسے دنیا میں سب سے زیادہ محبت تھی۔” رقیہ بیگم نے بےخودی میں نکل جانے والے آنسوؤں کو صاف کیا۔
” اسی کے لیے تو کہہ رہا ہوں اکیلی لڑکی کے ساتھ زمانہ کہاں جینے دیگا۔” وہ بہت مان سے کہہ رہے تھے۔
” وہ انتقام لینا چاہتی تھی کہ اپنے باپ کو اس حویلی میں شان سے لے کر جائے اور اب جب اس کا باپ نہیں رہا تو وہ بہت ٹوٹی ہوئی ہے اور مجھے ڈر ہے کہ وہ وہاں گئی تو جذبات میں آ کر غلط کر دیگی کیونکہ اسے ایک ہی جنون ہے کہ میں نے یوسفزئی خاندان کو برباد کرنا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ وہ مانے گی ہی نہیں۔” رقیہ بیگم مہمل کی وجہ سے پریشان تھیں۔
” رقیہ اسے ایک نہ ایک دن تو جانا ہے شادی کر کے اس گھر سے تو ابھی کیوں نہیں۔ میں اسے اپنی بیٹی بنانا چاہتا ہوں۔ اور تم اسکی خوشیوں کے لیے میری مدد کرو۔ تم جب وہاں چلی جاؤ گی تو وہ خود آ جائے گی تمہاری محبت میں۔” مظفر مشوانی نے جب اتنی بڑی بات کہی تو رقیہ بیگم بس انھیں دیکھ کر رہ گئیں تھیں۔
تھوڑی دیر پس وپیش کرنے کے بعد وہ انکے ساتھ پشاور جانے کے لیے تیار تھیں۔انھوں نے سامان باندھ کر جب مہمل کو سب بتایا تو اس نے صاف انکار کر دیا۔
اب وہ مہمل کو یہیں چھوڑ کر جانے والی تھیں کیونکہ مہمل کی خوشیوں کے لیے کچھ عرصہ تکلیف برداشت کرنی تھی۔
مہمل چپ چاپ سب دیکھ رہی تھی۔
مظفر مشوانی کے وہ پاس بھی نہیں جا رہی تھی۔
جب رقیہ بیگم وہاں سے نکلنے لگی تو مہمل انکے گلے لگ کر رو دی تھی لیکن پھر انھیں کہنے لگی کہ “وہ اسکی فکر نہ کریں وہ ان سے ملنے آیا کریگی۔”
رقیہ بیگم کے بعد جب مظفر مشوانی اسکے قریب آئے تو اسکا چہرہ سپاٹ تھا۔
انھوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولے “میں بھی تمہارے باپ کی طرح ہوں اور جب تمہیں ہمارے خلوص کا یقین ہو تو آ جانا۔”
“جی خان جی!” مہمل بس انھیں اتنا ہی کہہ سکی تھی۔
“مہمل بچے خیال رکھنا اپنا۔” رقیہ بیگم نے پلٹ کر پھر کہا تو مہمل نے آگے بڑھ کر انکا ہاتھ تھام لیا۔
“امی اگر میں آپ کے ساتھ چلی بھی جاتی تو مجھے پڑھائی کے لیے واپس آنا پڑتا اس لیے آپ یہی سمجھیں کہ میں پڑھائی کی وجہ سے یہاں رکی ہوں۔” مہمل نے نرمی سے انھیں کہا اور پھر وہ وہاں سے چلی گئیں۔
– – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – –
مہمل پارک میں ایک بینچ پر بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔
” کیا سوچا جا رہا ہے؟” مشوانی اسکے ساتھ آ کر بیٹھا تھا۔
” کچھ نہیں!” مہمل کا انداز اسے نظر انداز کرنے والا تھا۔
“مہمل میں جانتا ہوں یہ تمہارے لیے ایک بہت بڑا صدمہ ہے جہانگیر انکل۔۔۔۔۔۔” مشوانی سامنے دیکھتے ہوئے اس سے بات کر رہا تھا جب مہمل نے اسکی بات کاٹ دی۔
“کسی روایتی تعزیت کی ضرورت نہیں ہے مجھے۔ اس سے میرا باپ واپس نہیں آئے گا۔”
“ہممم تم پشاور نہیں گئی داجی کے ساتھ؟” مشوانی نے اس سے سوال کیا۔
” چلی بھی جاتی تو پڑھائی کے لیے واپس آنا تھا۔ اس لیے یہیں ٹھیک ہوں۔” مہمل کے چہرے پر الجھن تھی۔
“لگتا ہے کہ تمہیں میرا تمہارے ساتھ بات کرنا پسند نہیں آ رہا۔” مشوانی نے اسکی الجھن محسوس کی تھی۔
“کہہ تو ایسے رہے ہو جیسے آگے میری مرضی سے سب کرتے ہو۔” مہمل نے طنز کیا تھا جس پر مشوانی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آئی تھی۔
“اگر کہو تو تمہاری مرضی سے سب کر لیتا ہوں لیکن پہلے بھی تم اپنی مرضی چلاتی ہو۔” مشوانی نے جواباً لطیف سا طنز کیا تھا۔
“نہیں مجھے کیا ضرورت ہے تم پر مرضی چلانے کی؟” مہمل تپ گئی تھی۔
“خیر یہ لمبی بحث ہے۔ تم یہ بتاؤ کیا تمہیں داجی کی خواہش کے بارے میں علم ہے؟” مشوانی نے سوالیہ انداز میں اسے دیکھا جو کندھے اچکا کر رہ گئی تھی۔
مشوانی نے اسکے انداز دیکھتے ہوئے دوبارہ بات شروع کرتے ہوئے کہا:
“اگر نہیں پتہ تو میں بتاتا ہوں کہ وہ چاہتے ہیں کہ میری۔۔۔۔۔۔۔۔ ”
“کہ میری اور تمہاری شادی کر دی جائے۔” مہمل نے اٹھتے ہوئے اسکا جملہ پورا کر دیا۔
مہمل نے اپنا بیگ اٹھایا اور پارک کے داخلہ دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔
“مہمل بات تو سنو!” مشوانی اسکے پیچھے بھاگا تھا۔
“جو کہنا ہے کہہ دو!میں نے تمہاری زبان تو نہیں پکڑی ہوئی۔” مہمل نے چلتے ہوئے ہی اسے جواب دیا تھا۔
“تم کیوں ہماری شادی کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی؟” مشوانی نے اسکے ہمقدم ہوتے ہوئے کہا۔
“کیوں کہ میرے ارادوں میں ایسی کوئی بات ابھی تک شامل نہیں ہے۔” مہمل نے بغیر کسی لگی لپٹی کے اسے صاف جواب دیا تھا۔
” مہمل!!!!!!!” مشوانی نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچا تھا۔
“یہ کیا بدتمیزی ہے داؤد خان مشوانی۔ہاتھ چھوڑو میرا۔” مہمل نے غراتے ہوئے کہا تھا۔
“تم سب جانتی ہو کہ میں کیا چاہتا ہوں۔اتنے عرصے سے تم میرے صبر کا امتحان لے رہی ہو تمہیں مجھ پہ ترس نہیں آتا۔” مشوانی نے غصے سے کہا تھا۔
“میں نے کوئی عہد و پیمان کیا تھا؟ کوئی اشارہ دیا کبھی؟ نہیں نا! تو پھر تم کیوں انتظار کر رہے ہو آگے بڑھ جاؤ۔” مہمل نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔
“تم جانتی ہو میں کتنا ضدی ہوں میری ضد کو ہوا مت دو۔” مشوانی نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
” تمہارے باپ کی جاگیر نہیں ہوں اور چھوڑو میرا ہاتھ سب لوگ متوجہ ہو رہے ہیں تماشہ بن رہا ہے۔” مہمل آگے پیچھے کچھ لوگوں کو متوجہ دیکھ کر غرائی تھی۔
“تماشہ لگانے کا شوق تمہیں ہی ہے کبھی سیدھا نہیں سوچتی تم دوسروں کے دل و دماغ سے کھیلنا چاہتی ہو۔” مشوانی نے دانت پیسے تھے۔
“یہ فضول کا رعب کسی اور پر جھاڑنا۔ مہمل خان کبھی فضول باتوں میں نہیں آتی” مہمل نے اپنا ہاتھ چھڑایا تھا اور فوراً پارک سے باہر نکلی تھی۔
مشوانی اسکے پیچھے بھاگا تھا مگر وہ پارک سے نکل کر فوراً ٹیکسی میں بیٹھ کر گھر کی طرف جا چکی تھی جبکہ پیچھے مشوانی غصے سے دانت پیس کر رہ گیا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – –
آج اسوہ کی مہندی تھی۔
یوسفزئی حویلی کسی دلہن کی طرح سجی تھی۔
نور یوسفزئی اپنے کمرے کی کھڑکی میں تیار ہو کر کھڑی سب انتظام دیکھ رہی تھی۔
آہستہ آہستہ نور کا کام آسان ہو رہا تھا مگر نور کو ڈر تھا کہ کہیں عمیر اسکے راستے کی دیوار نہ بن جائے۔
“ڈاکٹرنی جی وہ گل بی بی کہہ رہیں ہیں کہ آپ نیچے آ جائیں۔” ملازمہ نے اسے آ کر پیغام دیا تو وہ کمرے سے باہر نکلی۔
حویلی کے لان میں آج بہار لگی تھی جب کے حویلی کی عمارت کے اندرونی حصے میں سناٹا تھا۔ سب لوگ لان میں موجود تھے سوائے اسوہ کے اور کچھ لڑکیوں کے جو اسکے کمرے میں اسے تیار کر رہیں تھیں۔
نور نیم اندھیرے میں سیڑھیوں سے اتر کر نیچے آئی تھی۔ وہ لان کی طرف جا رہی تھی کہ اسے یاد آیا کہ وہ اپنا فون کمرے میں بھول آئی ہے۔ وہ فوراً واپس پلٹی لیکن جب وہ اوپر آ کر کمرے کی دروازہ کھولنے لگی تو اسے کمرے سے کھٹ پٹ کی آواز آ رہی تھی۔
اسنے آرام سے آہستہ سے دروازہ کھولا تو کوئی الماری کے سامنے کھڑا اسکے سامان کی تلاشی لے رہا تھا۔
نور آرام سے دبے پاؤں اپنے کمرے میں پڑی میز کی طرف بڑھی۔ دل ہی دل میں وہ شکر کر رہی تھی کہ ہیلز نہیں پہنیں ورنہ مسئلہ ہونا تھا لیکن دل اسکا ابھی بھی دھک دھک کر رہا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
“ہیلو!” مہمل اپنے دوستوں کے گروپ میں بیٹھی تو عمیر اسکی طرف متوجہ ہوا تھا۔
“مہمل کیسی ہیں آپ؟” عمیر نے پوچھا تھا۔
“میں بلکل ٹھیک آپ بتائیں آپ کیسے ہیں مسٹر عمیر خان یوسفزئی۔” مہمل نے اسے جواب دیا۔
“میں ٹھیک۔ بہت افسوس ہوا آپ کے والد کی وفات کا سن کر۔” عمیر نے تعزیت کی تو مہمل کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری تھی جسے اسنے فوراً چھپا لیا۔
“ارے کیوں سب سنجیدہ ہو گیے؟ مہمل اتنے دنوں بعد آئی ہے کالج اسکا کتنا کام باقی ہے۔ اس میں اسکی مدد کرو نا۔” سدا کی پڑھاکو رمشا نے کہا۔
” ارے پہلے اسکا مائنڈ ریلیکس تو ہونے دو پھر ہو جائے گی پڑھائی۔” عاکف نے رمشا کی بات سے تنگ ہوتے ہوئے جواب دیا۔
“ویسے مہمل تم پٹھانوں کے ساتھ ہی زیادہ دوستی رکھتی ہو، جیسے یہ عمیر بھی پٹھان ہے یہ عاکف بھی پٹھان ہےاور وہ جو کمپنی تمہاری پڑھائی سپانسر کر رہی ہے مشوانی گروپ آگ انڈسٹریز اسکا اونر بھی پٹھان! ایسا کیوں ہے؟” ملیحہ نے پوچھا۔
“کیونکہ میں خود پٹھان ہوں۔” مہمل نے مسکرا کر کہا جس پر سب ہنس دیے اور پھر کلاس لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
– – – – – – – – – – – – – – – – – –
نور نے میز پر پڑی چھڑی اٹھائی لیکن تب تک اگلے کو اسکی آمد کی خبر ہو چکی تھی۔
وہ فوراً وہاں سے باہر نکلا اور کمرے میں موجود اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دروازے سے باہر جانے لگا لیکن نور نے فوراً اسے کھینچ کر دیوار کے ساتھ لگایا تھا اور چھری اسکے گلے پر رکھی تھی۔
“ارے واہ بڑی پھرتیلی ہیں آپ ڈاکٹر نور!” عمیر نے طنز کیا تھا۔
“بکواس بند! کیا کر رہے تھے تم یہاں!” نور نے غصے سے پوچھا۔
“تمہاری اصلیت کھولنے کے لیے ثبوت ڈھونڈ رہا تھا۔ لیکن بڑا پکا کام کیا ہے تم نے۔” عمیر نے زہر خند لہجے میں اسے کہا۔
“میں بتا رہی ہوں اگر تم نے زبان کھولی تو جانتے ہو نا کہ تمہاری پیاری، تمہارے دل کی دھڑکن ہے جو اسکی جان بھی لے سکتی ہوں میں؟ جانتے ہو نا؟” نور کے چہرے پر اس وقت کی سفاکیت تھی۔
“میں بتا رہا ہوں کہ تم پچھتاؤ گی! لکھ کے رکھ لو میرے الفاظ!” عمیر زچ ہو رہا تھا۔
“تم سے کسی نے کچھ پوچھا ہے جو بک بک کیے جا رہے ہو ابھی دفعہ ہو جاؤ یہاں سے لیکن آئندہ کچھ الٹا کیا تو یاد رکھنا نور یوسفزئی حساب نہیں رکھتی پھر۔” نور نے اسے جانے کا راستہ دیتے ہوئے کہا تو وہ باہر نکلا لیکن پھر پلٹا۔
عمیر کے ماتھے پر پسینہ دیکھا جا سکتا تھا۔ وہ دانت پیس کر بولا:
“لالہ نہیں سمجھ رہے کہ تم ایک ناگن ہو لیکن ایک دن تمہارا انجام برا ہوگا۔”
عمیر کے جانے کے بعد نور کمرے میں گئی فون اٹھایا اور باہر آ گئی۔ مگر اسکا ذہن ابھی بھی آگے کے لائحہ عمل کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
– – – – – – – – – – – – – – – –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...