(چینج اوور میوزک)
(دفتر کا سین)
طفیل : کیا سوچ رہے ہو اکبر صاحب
اکبر : کچھ نہیں
طفیل : کوئی بات تو ضرور ہے
اکبر: نہیں طفیل بابو کوئی خاص بات نہیں
طفیل : بات کیوں نہیں بڑے بابو۔۔۔ بہت بڑی بات ہے۔
اکبر: کیا بات بہت بڑی ہے
طفیل : یہی کہ ا س سال آپ کو انکریمنٹ نہیں ملا
اکبر : اتنی سی بات، ہم سمجھتے تھے نہ جانے کیا کہنے والے ہو
طفیل : باس کہہ رہے تھے انھوں نے کئی بار آپ کو سمجھایا بھی۔۔۔ مگر آپ کام میں دلچسپی نہیں لیتے۔ جیسے وہ خود بڑی دلچسپی لیتے ہیں
اکبر: وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں
طفیل ؛ اجی ہاں ٹھیک کیسے۔۔۔ آپ اتنے پرانے آدمی ہیں ان کا کیا ہے آج اس دفتر میں کل کسی اور دفتر میں۔۔۔ ذرا دیر کو دفتر آئیں گے کسی کو ڈانٹ دیا کسی کو ویری گڈ کہہ دیا۔ آدھا وقت فون کرتے رہیں گے۔ معلوم نہیں کس کس کو۔۔۔ میں تو جانوں۔
اکبر: وہ کچھ بھی کرتے ہوں۔ مگر ہمارے بارے میں ان کا کہنا بالکل درست ہے۔ واقعی یہ دفتر کا کام ہمیں پسند نہیں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں اس سے۔
طفیل : دلچسپی کیوں نہیں بھلا۔ اتنے زمانے سے۔ میرا مطلب ہے دیکھئے نا اس میز کے ساتھ اسی کرسی پر بیٹھے بیٹھے آپ کے بال سفید ہوئے ہیں۔
اکبر: ہاں سفید بال۔۔۔ جب پہلے دن اس کرسی پر بیٹھے تھے ہم تو ہمارے سر کے سارے بال کالے تھے۔ کالے اور گھنے۔ چندیا صاف نہیں تھی۔ چہرے پر جو جھریاں تم دیکھتے ہو یہ بھی نہیں تھیں۔ ہماری آنکھوں کو چشمے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اور اور سیڑھیاں چڑھنے سے ہمارا سانس بھی نہیں چڑھ جاتا تھا۔ جیسا کہ اب ہوتا ہے۔
طفیل : مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ کام میں دلچسپی نہیں لیتے۔ مجھے دیکھئے آپ سے دس سال چھوٹا ہوں مگر دس سال بڑا معلوم ہوتا ہوں۔
اکبر: تم اگر شہر کے بجائے گاؤں میں رہتے۔ اپنی کھیتی باڑی کرتے تو اتنی جلد تمھاری صحت نہ گر جاتی۔
طفیل : بڑے بابو میں کیا جانوں کھیتی باڑی کو۔۔ میرے تو باپ دادا کبھی گاؤں میں نہیں رہے۔
اکبر: ہم کھیتی باڑی کو جانتے ہیں۔ ہمارے باپ دادا گاؤں میں رہے ہیں۔ ہماری زندگی کا ابتدائی زمانہ گاؤں میں گزرا اور اگر ہماری زمین بنجر نہ ہو گئی ہوتیں تو۔۔۔ تو کیا اچھی زندگی ہوتی ہماری۔
طفیل : یہ آج ہی معلوم ہوا کہ آپ کا لڑکپن گاؤں میں گزرا ہے
اکبر: اسی لئے یہ شہری زندگی ہمیں پسند نہیں۔ مگر کیا کریں مجبوری ہے۔
طفیل : ہاں مجبوری۔۔ بڑی بُری چیز ہے۔ جسے مجبوری کہتے ہیں، اگر بال بچوں کی مجبوری نہ ہوتی تو میں۔۔۔ اتنی جلدی بوڑھا نہ ہو جاتا۔
اکبر: روزانہ یہی میز، یہ کرسی۔۔۔۔ سر پر کسی پرانے گدھ کی طرح چکر کاٹتا ہوا یہ پنکھا۔۔۔ یہ دروازہ یہ کھڑکیاں۔۔۔ روزانہ یہی سب کچھ یکسانیت۔۔۔ بوریت۔۔
طفیل : جی ہاں یہ تو ہے
اکبر: ہم اِس ماحول کے لئے پیدا نہیں ہوئے۔ میری آنکھیں ڈھونڈتی ہیں لہلہاتی ہوئی فصلوں کو۔۔ ہرے بھرے باغوں کو۔۔۔ میرے کان ترستے ہیں ان گھنٹیوں کو جو مویشیوں کے گلے میں بندھی ہوئی ہیں اور یہاں یہ گھنٹی ہے۔
(گھنٹی بجاتا ہے جس کی آواز کرخت ہے)
سنا تم نے یہاں یہ گھنٹی ہے اتنی کرخت۔۔ نا خوشگوار آواز۔۔ اور یہ فائلوں کا ڈھیر دیکھ رہے ہو تم ہماری میز پر۔۔۔ مجھے صرف اناج کا ڈھیر اچھا لگتا ہے وہ اناج جسے ہم نے خود اپنے بازوؤں کی محنت سے اُگایا ہو۔ جس کے لئے تپتی دوپہریں ہم پر گزری ہوں۔۔ جس کے لئے ہم نے برفیلی ہوائیں جھیلی ہوں۔
طفیل : بڑی عجیب باتیں ہیں آپ کی۔۔ وہ دراصل
اکبر: یہ ٹائپ رائٹر کی کھٹ کھٹ جو برابر کے کمرے سے آتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دماغ پر ہتھوڑے چل رہے ہوں۔ کبھی کبھی تو جی چاہتا ہے یہ پیپر ویٹ اٹھا کے اپنے سر پر دے ماروں۔
طفیل: (گھبرا کر) کیا کر رہے ہو بڑے بابو۔۔۔ توبہ میں نے سمجھا تھا کہ۔۔۔
اکبر: سچ مچ تو سر نہیں پھاڑ رہے تھے ہم اپنا۔۔ آپ خواہ مخواہ ڈر گئے۔۔۔
طفیل: آپ نے پیپر ویٹ اٹھایا تو کچھ اسی انداز میں تھا کہ ہاتھ آپ کے سر کی خیر نہیں یا میرے سر کی
اکبر: اب سمجھے تم۔۔۔۔ باس جب یہ کہتے ہیں کہ ہم کام میں دلچسپی نہیں لیتے تو یہ ٹھیک ہے۔۔۔ بالکل ٹھیک ہے، قطعی ٹھیک ہے۔
طفیل: تو پھر آپ نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔
اکبر: کیا کہا۔۔۔ اور یہ کہتے ہوئے تمھاری آنکھوں میں چمک کیوں آئی۔
طفیل : جی وہ بڑے بابو آپ تو جانتے ہی ہیں کہ۔۔۔ میرا مطلب
اکبر: ہم کچھ سمجھے نہیں۔۔۔ صاف صاف کہو
طفیل : آپ کا دل یہاں کے کام میں نہیں لگتا۔ آپ کھیتوں کو، باغوں کو مویشیوں کو اناج کے ڈھیر کو کھلی فضا کو تازہ ہوا کو پسند کرتے ہیں۔
اکبر: تو پھر
طفیل : تو پھر یہ کہ آپ اگر نوکری چھوڑ دیں تو۔۔۔ تو مجھے
اکبر: تمھیں ترقی کا چانس مل جائے گا۔۔ یہی کہنا چاہتے ہو۔
طفیل : دراصل چھوٹے چھوٹے بچے ہیں بڑے بابو۔۔۔ ان کی گزر بسر کے لئے
اکبر: دیکھو مسٹر طفیل ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ تم ہمارے خلاف ہمیشہ باس کے کان بھرتے رہتے ہو۔ اور آج کی گفتگو بھی تم کسی نہ کسی بہانے سے انہیں سناؤ گے۔ مگر ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ میں نوکری چھوڑ دوں گا اور اپنی جگہ کیلئے تمھاری سفارش بھی کروں گا۔ مگر ابھی تمھیں تھوڑا وقت لگے گا۔ جب ہم اپنی زمینوں کو زندہ کر لیں گے جب سیم اور تھور کی تہہ ان پر سے اتر جائے گی تو یہ ممکن ہو سکے گا اور مجھے یقین ہے وہ دن جلدی آ جائے گا۔
طفیل : تھینک یو بڑے بابو۔ بڑی بڑی مہربانی