جان عالم (مانسہرہ)
دف اُس کے اٹھے ہوئے بائیں شانے اور ٹھوڑی کو ہاتھ بنا کر اُس کے دائیں ہاتھ کی تھاپ پر ناچ رہا تھا۔ اُس کی آنکھیں شانو کی آنکھوں میں پیوست تھیں۔اور شانو اُس کی آنکھوں کے پار کسی باغ میں پھولوں کا بستر لگا ئے پتی پتی ہو رہی تھی۔
وہ اکثر کہا کرتی ’’بالے! اپنا دایاں ہاتھ مجھے دے دے․․․․․․․․تُو جا ۔تیرے جیسے بہت ہیں گاؤں میں ۔پر تیرے جیسا ہاتھ نہیں ہے کسی کا۔میں تیرے بچوں کی ماں بنی تو بھی تجھ سے دف سنا کروں گی اور جب دادی بن گئی تب بھی مجھے سنانا ۔ بالے تیرے جیسے بہت ہیں ۔پرتیرے جیسا ہاتھ نہیں ہے کسی کا۔وہ سلطان ․․․․مجھ پہ مرتا ہے ․․․․․․․اور تیرا دشمن بنا ہواہے ․․․․․․․مگر میں تجھ پہ مرتی ہوں۔اب تُو میری قدر نہ کر تو یہ تیری قسمت۔‘‘
بالے کی ساری خوبصورتی اُس کے دائیں ہاتھ میں تھی ۔اُس کا دف شانوکی روح کو رقص کرنے پر مجبور کر دیتا تھا۔شانو گاؤں کی ایک شوخ سی لڑکی تھی۔ بچپنااُس کی جوانی میں بھی اُس کے ساتھ ہی رہا۔ وہ اچانک بچپن سے بڑھاپے میں بھی چھلانگ لگا دیتی۔نجانے اُس کو اتنی سمجھداری کی باتیں کون سکھاگیاتھا۔بالے کوکبھی کبھی توبہت حیرت ہوتی جب شانو اچانک اُس سے اتنی بڑی بات کہہ دیتی کہ بالے کو چوپال کے بوڑھے بھی چھوٹے نظر آنے لگتے ۔
سلطان چودھری کے کاردار کا بیٹا تھا۔وہ شانو پہ مرتا تھا اور اسی لئے وہ بالے سے شانو کی محبت بھی گوارہ نہ کرتا تھا۔لیکن شانو کی محبت پر اُس کازور نہ چلتا ۔گاؤں میں یہ خبربھی پھیلی تھی کہ شانو بالے کو مروا دے گی ۔لیکن بالے کو نہ گاؤں والوں کی پرواہ تھی نہ سلطان کا خوف ۔وہ شانو کی محبت اور دف کی تھاپ سے باہر کبھی نکلا ہی نہیں۔
’’چل !تُیرے جیسی گاؤں کی سو لڑکیاں میری دف پر ناچتی ہیں ۔میرا احسان مان کہ میں نے صرف تجھے اپنا دایاں ہاتھ دیا ہے۔‘‘وہ اُس کی آنکھوں سے نکل آئی؛
’’چل چل !‘‘تُو ہے ہی ناقدرا ۔میں گئی۔‘‘
’’ٹھہر شانو!‘‘بالے نے اُس کا بازو پکڑ لیا۔دف اداس ہو گیا۔
’’بالے !‘‘وہ اچانک بوڑھی ہو گئی۔اُس کے چہرے پر سالوں کا تجربہ اور دانشمندی چھا گئی۔
’’فصل کی کٹائی کا دن آگیا ہے۔سارا گاؤں چودھری کے کھیت میں ہو گا ۔تجھے پتا ہے کہ فصل کاٹنے میں جو جیتے گا چودھری اُس کو انعام بھی دیتا ہے اور گاؤں میں اُس کی عزت بھی ہوتی ہے۔‘‘
’’ہاں شانو! میں فصل کٹائی میں سب سے جیتوں گا۔بس تُو میرے سامنے رہنا ۔‘‘
’’بالے! سلطان کا ہاتھ درانتی پر تمہارے دف سے زیادہ تیز چلتا ہے۔اور کٹائی میں دو ہاتھوں کی تیزی چاہیے تیرا دف تو دائیں ہاتھ پر مجھے کاٹتا ہے۔فصل کاٹنا زندگی کاٹنا ہے۔میری عزت رکھنا بالے!‘‘
وہ بڑھاپے سے اچانک اپنی عمر میں لوٹ آئی ؛
’’چل اٹھا اپنا دف اور بجا!‘‘وہ عرب کے کسی صحرا میں الاؤ کے گرد رقص کرتے قبیلے میں اتر گئے ۔بالے کی آنکھیں اُس کی آنکھوں میں پیوست ہو گئیں اور وہ آنکھوں کے پار پھولوں کا بستر سجا کر پتی پتی ہو نے لگی ۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
کٹائی کا دن کسی ریس کے مقابلے کا دن سمجھا جاتا تھا۔گاؤں کے سب مرد ایک قطار میں بیٹھتے ․․․․جب چودھری کا بندہ ہوائی فائر کرتا تو کٹائی شروع ہوجاتی ۔ہر ایک نے اپنے سامنے سے فصل کاٹ کر آگے راستہ بنانا ہوتا ۔جو کھیت کے دوسرے کنارے تک اپنا راستہ بنا کرپہلے پہنچتا وہ جیت جاتا۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
کھیت میں لہلہاتی فصل سمندر کی لہروں کی طرح تھی ۔بڑے برگد تلے گاؤں موجود تھا۔چارپائی پہ چودھری اپنے خاص آدمیوں کے ساتھ گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے حقے سے آگ کھینچ رہا تھا۔ڈھولک بجانے والے ایک طرف خاموش کھڑے تھے ۔اوردوسری طرف گاؤں کی عورتوں کی بھنبھناہٹ بیٹھی تھی۔کھیت کے آغاز میں چونے کی لکیر پر گاؤں کے ساٹھ ستر جوان اپنی درا نتیوں کو ہاتھ میں تھامے سپاہیوں کی طرح سالارِ سپاہ کے حکم کے انتظار میں تھے ۔بالے اور سلطان کی آنکھیں ایک دوسرے کو شانو کی نظر سے دیکھ رہی تھیں۔سلطان کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ میں بالے کو ہرانے کا عزم بھی تھا اور نفرت بھی۔وہ دونوں ساتھ ساتھ تھے۔
فائر․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․برگد سے چڑیاں فضا میں چھوڑے جانے والے غباروں کی طرح اُڑیں اور مقابلہ شروع ہو گیا۔ایک ساتھ کئی ڈھولک جنگ کے نقاروں کی طرح بجنے لگے۔
برگد سے آنے والی آوازیں اور عورتوں کی بھنبھناہٹ اُن کے ہاتھوں میں تیزی بھر رہی تھی۔بالے نے فصل پر سولہ ماترے کا تھاپ شروع کر دیا ۔وہ قطار سے دو ہاتھ آگے اپنا راستہ بنا چکا تھا۔سلطان نے جب شانو کی محبت میں بالے کو آگے نکلتے دیکھا تو وہ درانتی بن گیا ۔اب وہ بالے کے شانے کے ساتھ شانہ ٹکرائے آگے بڑھ رہا تھا۔دونوں کی آنکھیں ایک دوسرے کو کاٹ رہی تھیں اور ہاتھ فصل کو۔
’’بالے !آج مجھ سے فیصلہ کر لے․․․․!!‘‘سلطان نے بالے کو معنی خیز انداز میں کہا۔دو نوں کے ہاتھ درانتی پر تیز ہو گئے۔
’’فیصلہ تو ہوچکا۔تُو دونوں بازیاں ہار گیا۔‘‘
’’میں ہارنے والوں میں سے نہیں ۔‘‘
’’تو لگا بازی․․․․!!جو جیتا وہ جیتا۔‘‘
’’تُو اُس کے لئے کیاکر سکتا ہے ؟میں اُسے تجھ سے زیادہ خوش رکھوں گا۔تیرے پاس ہے کیا؟دف سے پیٹ نہیں بھرتا۔‘‘سلطان نے اُسے طعنہ دیا۔
’’میں اُس کے لئے جان دے سکتا ہوں۔‘‘بالے نے اپنی بازی لگا دی۔
’’اور اگر میں بھی جان دے دوں تو․․․․․․؟‘‘سلطان کسی جواری کی طرح اپنے اعصاب پُرسکون رکھتے ہوئے بولا۔
’’پھرمیں کسی کی جان لے بھی سکتا ہوں۔‘‘بالے نے پوری قوت سے فصل پر درانتی چلائی اور اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں کوبھی کاٹ دیا۔
سلطان مسکراتا ہوا اُس سے آگے بڑھ گیا ۔قطاربالے سے آگے بڑھ رہی تھی ۔کھیت کے سمندر میں بالے کی کشتی اپنے بھنورمیں پھنس گئی۔دُور کھیت کے ساحل پر شانونے ایکدم سے اپنے بچپن کو اُتارااوربڑھاپا اوڑھ لیا۔
سلطان مقابلہ جیت چکا تھا۔بالے کو چارپائی پر لٹایا گیا ۔اُس کے بائیں ہاتھ کی چاروں انگلیاں اُس کی اپنی درانتی نے کاٹ دی تھیں۔ اُس کے گرد بہت سے لوگ جمع تھے ۔شانو بھی کھڑی تھی ۔لیکن وہ بولی نہیں ۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
دف بالے کے اُٹھے ہوئے بائیں شانے اور ٹھوڑی کو ہاتھ بنا کر اُس کے دائیں ہاتھ کی تھاپ پر ناچ رہا تھا۔ اُس کی آنکھیں شانو کی آنکھوں میں پیوست تھیں۔آج شانو اُس کی آنکھوں کے پار نہیں دیکھ رہی تھی۔دف اداس ہو گیا۔
’’شانو !کیا ہوا رے!’’تیرا ہاتھ‘‘ توسلامت ہے ۔دیکھ میں دف بجارہاہوں ۔‘‘
’’بالے !!تُو دف تو اب بھی بجا سکتاہے لیکن اب درانتی نہیں چلا سکتا۔اور تجھے پتا ہے فصل کاٹنا زندگی کاٹنا ہے۔زندگی کیسے کٹے گی۔‘‘
وہ اٹھ کر چلی گئی۔شانو کا بچپنا آج اُس کے ساتھ آیا ہی نہیں تھا۔
بالے نے اپنے اُٹھے ہوئے شانے اور اپنی ٹھوڑی کو بایاں ہاتھ بنایا اوراُس کا دایاں ہاتھ کوچ کا نقارہ بجانے لگا۔۔۔۔۔۔عرب کے کسی صحرا میں قافلے کی کوچ کا نقارہ۔الاؤ بجھ چکاتھا۔اور بالے کے پاس دف کی تھاپ پر ہوا ر قص کر رہی تھی۔