” اداس ہو نہیں ہوا کرو لوگ تماشہ دیکھتا ہے” یہ کہتے ساتھ ہی وہ کھلکھلائی افشاں نے بغور اسکا چہرہ دیکھا کتنی کرب زدہ کھلکھلاہٹ تھی اس نے رخ موڑ لیا
” تم دکھی ہو ………”
افشاں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر دباو ڈال کر پوچھا
” ارے نہیں میں دکھی نہیں ہوتی میں خوش ہوتی ہوں ، اداس تو تم ہو اور جس وجہ سے ہو مجھے وہ وجہ نہیں پسند ”
بیا مسکراتے لب اور اداس آنکھوں سے بولی اسکی باتوں سے افشاں الجھ گئی اور سوال کر ڈالا
” تم غم کی حالت میں خوش ہوتی ہو ”
آنکھوں میں حیرت ہی حیرت تھی
” نہیں ……..”
ایک لفظی جواب افشاں الجھ گئی
” تو وضاحت دو ”
افشاں خفا انداز میں بولی وہ ایک پہیلی تھی اور باتیں بھی پہیلیوں کی طرح کرتی تھی
” مجھے غم منانا اچھا نہیں لگتا کیونکہ یہ مجھے اور دکھی کر دیتے ہیں ”
بیا کھوئے کھوئے انداز میں بولی
” تمہیں محبت نہیں ہوتی کسی سے کیا بس خود میں ہی گم رہتی ہو ”
بیا اسکے سوال پر اٹھ کر کھڑکی کی طرف آئی اور پردہ ہٹا کر اس خاموشی کو سننے لگی وحشت زدہ خاموشی اس نے جھٹ سے پردے برابر کیے اور دوبارہ افشاں کے پاس آکر بیٹھ گئی
” محبت کرتی ہوں نا الله سے تم سے مما سے اور اور ……….”
بیا نے تھوڑی کے نیچے انگلی رکھی اور گہری سوچ میں گم ہو گئی افشاں اشتیاق سے اسے دیکھنے لگی وہ اس کا جواب سننے کے لیے بے تاب تھی
” ہاں خود سے ”
بیا نے چٹکی بجا کر اپنی طرف اشارہ کیا افشاں ایک دم بدمزہ ہوئی
” میں اس محبت کی بات نہیں کر رہی ”
وہ منہ کے زاویے بگاڑ کر بولی
” اور جس محبت کی بات تم کر رہی ہو اس سے مجھے نفرت ہے ”
افشاں ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگی کیا ٹھنڈا ٹھار لہجہ تھا اسکی روح میں کپکپاہٹ ہوئی
” تم عجیب ہو بیا بہت عجیب ”
افشاں اسکے چہرے پر نظریں گاڑے عجیب لہجے میں بولی
” نہیں میں عجیب نہیں ہوں حقیقت پسند ہوں ، تمہیں ہی دیکھ لو آج عادل کی محبت میں گھل رہی ہو ”
بیا نے اسے کڑے تیوروں سے دیکھا اس نے آخر وہ موضوع چھیڑ ہی دیا جو اسے سخت نا پسند تھا مگر اس نے افشاں کے لیے بات چھیڑ ہی دی
” بیا میں بہت مجبور ہوں اسکی محبت میں اگر وہ مجھے نا ملا تو میں مر جاوں گی اسکی بےاعتنائی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی ”
افشاں کی بات پر اس نے اسے ایسی سخت نظروں سے دیکھا کے افشاں نے گھبرا کر نظروں کا زاویہ ہی بدل دیا
” تو مرجاو افشاں ”
وہ اس قدر سفاک لہجے میں بولی کے افشاں کی آنکھیں بھر آئیں
” تم دوست ہو میری ایسی باتیں تو مت کرو تم عادل سے بات کرو اور اسے سمجھاو کے وہ مجھے نا چھوڑے ”
افشاں نے بے بسی سے اسکے ہاتھ پکڑے اور التجا کرنے لگی بیا نے جھٹک کر اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالا
” میں تمہاری دوست ہوں اسلیے یہ حرکت کبھی نہیں کروں گی مجھے ان آوارہ دوستوں کی طرح مت سمجھنا جو اس کام میں تمہارا ساتھ دے گی اب تک اس لیے خاموش تھی کیونکہ مجھے معلوم تھا کے وہ تمہیں چھوڑ دے گا ”
وہ پہلے اس پر غرائی اور پھر طنزیہ نظروں سے اسے دیکھا افشاں خاموشی سے اسکے پاس سے اٹھی اور اپنے پورشن میں آگئی وہ جانتی تھی وہ مخلص دوست ہے کبھی اسکا ساتھ نہیں دے گی
***********************
سلیم ویلا میں دو ہی فیملیز رہتی تھیں اوپر والا پورشن انوار سلیم کا تھا اور نیچے والا عمران سلیم کا دونوں بھائی ویسے تو گھل مل کر رہتے تھے مگر عمران غصے کے زرا تیز تھے والد کی وفات کے بعد عمران سلیم بیمار رہنے لگے تو سارا کاروبار انوار سلیم نے سنبھالا اور خوب ترقی کی مگر راہیلہ بیگم کو دیور کی یہ ترقی کچھ خاص پسند نا تھی اسی لیے انہوں نے ساس کو باتوں میں لے کر دیور کی شادی ایک غریب گھر کی بیٹی سے کروا دی
انوار سلیم کو ویسے بھی امیری غریبی سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا مگر امینہ کی اچھائیوں سے وہ ویسے ہی انکے گرویدہ ہو گیے مگر راہیلہ بیگم نے پھر بھی دیورانی کو نا چھوڑا ان سے برداشت نا ہوتا تھا کے انوار ایک غریب گھر کی عورت سے اتنا پیار کرتے ہیں جبکہ عمران صاحب غصے کے اتنے تیز تھے وہ اپنا غصہ امینہ کو اولاد کا طعنہ دے کر کم کرتی کے وہ بانجھ ہے شادی کے دس سال بعد بھی انکی کوئی اولاد نہیں مگر امینہ صبر کا گھونٹ پی کر خاموش ہو جاتی انکی طبعت میں ہی نا تھا کے وہ پلٹ کر جواب دیتی اور انکے اس صبر کا صلہ اللہ نے انہیں یہ دیا کے وہ شادی کے دس سال بعد صاحب اولاد ہو گئی انکے آنگن میں بیا کے نام کا پھول کھلا جو انتہائی خوبصورت بچی تھی بلکل ماں پر گئی تھی رنگ تو سورج کی دمکتی کرنوں جیسا تھا سنہری بال ۔۔۔۔۔۔۔۔راہیلہ بیگم کو ان سے حسد کا ایک اور بہانہ مل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افشاں جس کی پیدائش بیا سے آٹھ ماہ پہلے ہوئی وہ ایک دبتی رنگت کی اور عام سے نکوش کی حامل بچی جبکہ اس کی نسبت بیا کی رنگت کیھلتی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب افشاں سے بھی پیار کرتے تھے مگر بیا گھر بھر کی لاڈلی تھی یہاں تک کے تائی کا بڑا بیٹا حمزہ بھی بیا کا دیوانہ تھا
سب سہی چل رہا تھا مگر ایک طوفان آیا اور بیا کی ہنستی کھیلتی زندگی میں بھونچال آ گیا اسکے پیارے بابا کا ایکسیڈنٹ ہو گیا انہوں نے اپنی آخری خواہش کے طور پر بیا کا نکاح حمزہ سے کر دیا اکیلہ بیگم نے خوب واویلا کیا مگر اس وقت پر کسی نے انکی نا سنی اسطرح سترہ سالہ بیا بائیس سالہ حمزہ سے منسوب ہوگئی
وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گزرتا جاتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ سب کی شخصیت میں جو بدلاو آئے وہ بہت عجیب تھے تایا نے سارا بزنس حمزہ کے ہینڈاوور کردیا تائی بھی بیٹے اور شوہر کے خوب کان بھرتی جسکی وجہ سے حمزہ حددرجہ سنجیدہ ہوگیا وہ کہتا نا تھا مگر اسکے لہجے کی سختی صاف بتاتی تھی کے وہ بیا سے بدگمان ہے اور بیا جو گھر بھر کی لاڈلی تھی باپ کے جانے کے بعد جیسے تپتی دھوپ میں آگئی اور پھر ان تین سالوں میں بیا نے جو ایک چیز سیکھی تھی وہ تھی خاموش جنگ جو وہ لڑ رہی تھی ساری دنیا سے
************************
” بیا اپنے انداز میں لچک پیدا کرو یوں منہ اٹھا کر جو منہ میں آئے مت کہہ دیا کرو ”
اسکی مما اس وقت اس پر برس رہی تھیں کیونکہ اس نے اپنی طایا کے گھر جا کر کھانے سے انکار کر دیا تھا اور انکی ڈانٹ پر اب وہ مسکرا رہی تھی اور کھانے سے انصاف کر رہی تھی
” مما آپ جانتی ہیں نا مجھ سے بس غلط بات برداشت نہیں ہوتی اور وہ غلط بات کر رہے تھے وہ ہمیشہ آپ کو اس بات کا طعنہ دیتے ہیں کے وہ ہمیں پال رہے ہیں جبکہ میں اپنے بابا اور آپ اپنے مرحوم شوہر کا حصہ کھا رہے ہیں اور جہاں تک رہی انکی گھر کھانے کی بات کی تو میں نے انہیں صاف کہہ دیا کے وہ تو ہمیں ہمارے کا ہی احسان جتاتے ہیں اگر انکا کھا لیا تو تو آپ ہم سے احسان چکانے کا بھی کہہ دیں گے ”
وہ مسکراتے ہوئے ہی کہہ رہی تھی اور اسکی یہ مسکراہٹ انہیں زہر لگی
” تم سمجھو بیا زندگی ایسے نہیں کٹتی ”
وہ اسکو سمجھاتے سمجھاتے تھک گئی تھیں اس لیے تھک ہار کے کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی
” یہ ہی تو میں کہہ رہی ہوں مما کے زندگی کٹتی نہیں گزاری جاتی ہے یہ تلخ ضرور ہوتی ہے مگر تنگ نہیں اسکو تلخ ہمارہ معاشرہ بناتا ہے جبکہ اسکو وسیع ہماری ہمت کرتی ہے اور یہ ہم پر ہے کے ہم میں کتنی طاقت ہے کے ہم اسے اپنے لیے کتنا کشادہ کرتے ہیں کے ہمارا دم نا گھٹے ”
وہ بلکل نارمل انداز میں بول رہی تھی مگر اسکی مما اسے دیکھ کر رہ گئی انکی بیس سالہ بیٹی کیسے اتنی بڑی بڑی باتیں کر رہی ہے اور پھر ان کے زہین میں یہ ایک سوچ آئی حقیت پر مبنی سوچ وہ یتیم تھی مگر مظبوط اور دنیا اسے توڑنے میں لگی تھی مگر وہ لڑ رہی تھی
” بیٹا مت کیا کرو ایسی باتیں کل کو تم نے اسی گھر میں جانا ہے اور تمہاری طائی تو ویسے بھی حمزہ کو تمہارے خلاف کرتی رہتی ہیں اگر اسطرح کرو گی تو _______”
بیا نے انکی بات بیچ میں ہی کاٹ دی
” تو کوئی بات نہیں ماما وہ شعور رکھتے ہیں کیا انہیں نہیں معلوم کون سہی ہے کون غلط اللہ کے کرم سے آنکھیں رکھتے ہیں اور میرا انکی زندگی میں ہونا اللہ کا فیصلہ ہے اور اگر میں انکی زندگی میں نہیں ہوں تو بھی میں رب کی خوشی سے راضی ہوں ”
وہ پرسکون سی بول رہی تھی جبکہ اسکی مما نے دہل کر سینے پر ہاتھ رکھ لیا
” بیٹا کیوں غلط بات منہ سے نکالتی ہو منگنی نہیں ہے جو ٹوٹ جائے گی نکاح ہے بیٹا ”
” مما یہی تو بات ہے کے ہم غلط سوچنے سے ڈرتے ہیں جبکہ یہ سب اللہ کے بس میں ہوتا ہے کے کیا ہونا ہے اور کیا نہیں ہم اسکے حکم کے پابند ہیں اور ہمیں اس پابندی پر خوش ہونا چاہیے کیا فرق پڑتا ہے کے غلط ہو یا سہی کیونکہ وہ ہم سے بہت پیار کرتا ہے کبھی غلط نہیں ہونے دے گا ہمارے ساتھ وہ مالک ہے رحیم ہے یہ دنیا اس نے بنائی ہے مگر یہ بندے یہ بات بھول گیے ہیں ”
وہ بہت سکون سے بول رہی تھی مگر آنکھوں کی بڑھتی سرخی اس بات کی گواہ تھی تکلیف کیا ہوتی ہے
” میری بچی ! بہت سمجھدار ہے اللہ حمزہ کا دل ہمیشہ تمہارت لیے صاف رکھے گا دیکھنا تم سب دکھ میرے بیٹی کے ہی نصیب میں تو نہیں ہوں گے نا ”
وہ روتے ہوئے اسکے سر پر ہاتھ پھر کر اٹھ گئی وہ انہی کی بیٹی تھی مگر ان میں بھی اس جتنا حوصلہ نہیں تھا انکے جاتے ہی اسکی آنکھ سے ایک آنسو اسکے آنکھوں کے سخت پتھر کو چیر کر باہر آگیا تھا مگر اسکی لب مسکرا رہے تھے بہت عجیب مسکراہٹ تھی
***********************
” کدھر جا رہی ہو ”
حمزہ نے اسے دیکھ کر پوچھا جو بےنیاز بنی جارہی تھی وہ اسے خوبصورت مجسمہ کہتا تھا خدا کا تراشا ہو خوبصورت مجسمہ مگر وہ تھا تو پتھر ہی
” کہیں نہیں افشاں آئی تھی کہہ رہی تھی کے دادو نے بلایا ہے تو انہیں کے پاس جا رہی ہوں”
وہ نظریں جھکا کر بول رہی تھی پتہ نہیں کیوں وہ اس شخص کی آنکھوں میں دیکھنے سے ڈرتی تھی
” تم نے کل امی سے بدتمیزی کی ہے شرم نہیں آتی تمہیں کیا بڑوں کا احترام بھول بیٹھی ہو ”
وہ تھوڑے سخت لہجے میں بولا بیا نے تڑپ کر اسکی طرف دیکھا اس شخص کی بےاعتباری نے بیا کا دل چھلنی کر دیا وہ محبت سے بھاگتی تھی مگر خوشیاں شاید اسکو تکلیف کی صورت میں ہی ملتی تھیں وہ نظریں پھیر گئی نہیں تو کمزور پڑ جاتی اور وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی وہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چلنا چاہتی تھی اسی لیے اس سے نظریں چرا لیں
” جانتی بھی ہو دادو نے کیوں بلوایا ہے ”
وہ اسکے جھکے سر کو دیکھ کر بولا وہ جھکی نظروں سے بھی اسکے لہجے کی تلخی پہچان گئی تھی وہ خوبرو شخص اسکا تھا مگر کبھی اس نے احساس نہیں دلایا مگر اللہ نے جو رشتہ ان کے بیچ بنایا تھا اس کے یقین کے لیے وہ ہی کافی تھا
” ٹھیک ہے جاو ………”
وہ ناجانے کس احساس کے تحت نرم لہجے میں بولا شاید اسے پتہ چل گیا تھا کے وہ اس لڑکی کے ضبط کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے وہ مڑ کر جا رہی تھی جب حمزہ نے اسکی کلائی پکڑ لی بیا کا دل لرز گیا
” تمہارے نام کے ساتھ میرے نام کی مہر لگی ہے کبھی اسے بات کو مت بھولنا امی نے جو باتیں کی میں انہیں قطعی نہیں مانتا مگر تم ایک نادان عورت ہو اور اس صنف سے تو کبھی وفا کی امید کی ہی نہیں جا سکتی مگر کیونکہ میری مجبوری ہے تو میں تم پر بھروسہ کر رہا ہوں ”
کیسا زہریلہ لہجا تھا بیا کا ہاتھ ابھی بھی اسی کے ہاتھ میں تھا اسکا رخ اسکی مخالف سمت میں تھا سخت ضبط کے باوجود اسکی آنکھیں جھلک گئی تھیں وہ اسکی کلائی پر دباو ڈال آگے بڑھ گیا جبکہ بیا کے لیے تکلیف کا ایک اور در کھل گیا وہ چلا گیا تھا
” حمزہ ………”
وہ مڑی تھی کے اسے بتائے کے وہ اسی کی ہے اسی کے نصیب میں لکھی گئی ہے مگر وہ جا چکا تھا اللہ نے اسکا بھرم ٹوٹنے نہیں دیا تھا وہ جو ایک لمحے کو کمزور پڑ کر اسے اپنی صفائی دینے لگی تھی اب پھر سے اسی خول میں سمٹ گئی تھی لبوں پر کھلتی خوبصورت مسکان اور آنکھوں میں ہمیشہ زندہ رہنے والی اداسی وہ سر جھٹک کر دادو کے کمرے میں چلی آئی جہاں تائی امی چہرے پر بیزاری لیے بیٹھی تھیں لیکن اسکی مما کی چہرے پر سجی مسکان نے اسے حیران ضرور کیا تھا
” اسلامُ علیکم دادو ”
وہ سلام کرتی افشاں کے ساتھ بیٹھ گئی جس کے چہرے سے صاف شوخی جھلک رہی تھی
” میری بچی بوڑھی دادی سے اتنی دور کیوں بیٹھ گئی ہو ادھر آو دادی کی لاڈلی ”
انہوں نے اسے اشارے سے اپنے پاس بلایا اور وہ مظبوط قدموں سے چلتی انکے پاس آکر بیٹھ
” بیٹی افشاں نے بتایا ہے کے اس مہنے کے آخر میں تمہارے امتحانات ہیں ”
وہ اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھ رہی تھیں
” جی دادو اور انشاءاللہ ہم پانچ تاریخ کو فارغ بھی ہوجائیں ”
وہ چادر پر انگلی گھماتے ہوئے بولی
” چلو اچھی بات ہے پھر ہم سب نے فیصلہ کیا ہے کے تمہارے آخری پیر والے دن ہی تمہاری مہندی کی رسم کردیں گے اور سات تاریخ کو تمہیں رخصت کر لے یہاں لے آئیں گے ”
انکی بات مکمل ہوتے ہی اسکی نظریں بے ساختہ تائی کی طرف اٹھی تھی جن کے چہرے کے تیور مزید بیگڑ گیے تھے
” بیٹا تمہارا نکاح تمہارے باپ کی خواہش تھی اور اب یہ رخصتی اپنی دادی کی آخری خواہش سمجھ لو ”
وہ اسکے ساکت چہرے کو دیکھ کر رو پڑی اس نے جلدی سے دادی کو بازوں کے حلقے میں لے کر خاموش کروایا
” دادو آپ روئیں نہیں آپکی خواہش کا احترام مجھ پر فرض ہے آپ جیسا کہیں گی ویسا ہی ہو گا ”
وہ انکو تسلی دے رہے تھی اور ایسا کہتے ہوئے اس نے ایک پل بھی تائی کی طرف نہیں دیکھا تھا نہیں تو انکے تیور دیکھ اس کا سسکتا دل پھٹ جاتا ابھی وہ انکے بیٹے کی زبان کے تیروں سے سے لہولہان ہو کر آرہی تھی اب انکی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں تھی
” تم خوش تو ہو نا میری بچی ”
وہ اسکا چہرہ تھام کر بولی جس کے کرب زدہ چہرے پر ایک بھلی سی مسکان تھی اسے سمجھ نا آیا کے یہ سوال اس سے اب کیوں کیا جا رہا ہے جب سب ہی اپنی اپنی خواہشوں کی بیڑیاں اسکے پاوں میں ڈال چکے تھے
” یہ تو خوش ہو گی ہی اس بدبخت کو تو میرا ہونہار بیٹا مل گیا ارے کہاں یہ اور کہا میرے ہیرے جیسا بیٹا ”
وہ جو منہ میں آیا بولتی چلی گئی کیونکہ کوئی بھی ایسا نا تھا جو انہیں خاموش کروا سکتا اس کی ماں کا خوشی سے دمکتا چہرہ انکی بات پر کیسے مرجھایا تھا وہ دیکھ چکی تھی اسی لیے اپنے لب سی لیے ورنہ وہ انکے تیز لفظوں کا جواب ضرور دیتی
لب سی لیے میں نے
لفظوں کو قید کردیا
خواہشیں مار دی میں نے
نفس کو قابو کردیا
زات اپنی بھولا دی میں نے
وجود کو خاک کردیا
پاوں میں زنجیر ڈال لی میں نے
راہوں کو پابند کردیا
سوچ پر پردے ڈال دیے میں نے
خوابوں کو جامد کردیا
خود کو مار کے میں نے
درد کو آزاد کردیا
****************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...