حنان گاڑی چلاتے ہوۓ جارہا تھا، صبح پونے آٹھ بجے کے قریب کا وقت تھا، سڑک پر زیادہ تر اسکول وین یا اسکول یونیفارم میں ہی ملبوس بچے دکھاٸ دیتے تھے۔ ابھی وہ گاڑی چلا ہی رہ تھا جب ساٸیکل چلاتی ایک اسکول جانے والی بچی اسکی چلتی گاڑی کے سامنے آگٸ۔ حنان نے جلدی سے بریک لگاٸ لیکن گاڑی روکتے روکتے بھی بچی کار سے ٹکرا ہی گٸ۔ اسے چوٹ تو نہیں آٸ لیکن وہ ساٸیکل سمیت زمین پر گرگٸ۔ حنان جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر آیا۔ وہ بمشکل چار برس کی بچی تھی، اور شاید اپنے اسکول جارہی تھی۔ اب وہ زمین پر بیٹھ کر دھاڑے مار کر رونا شروع ہوگٸ
”سوری بیٹا! کیا ہوا کہاں چوٹ لگی ہے آپکو“ حنان اس بچی کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ وہ بچی جواب دینے کے بجاۓ روتی رہی۔ حنان بےچارہ گھبرا گیا، اسی اثنا میں ایک سات برس کے لگ بھگ بچہ اپنی ساٸیکل پر تیزی سے وہاں آیا۔ اور پھر ساٸیکل سے اتر کر بچی کے پاس پہنچا
”مانو! کیا ہوا تمہیں؟ تم رو کیوں رہی ہو؟“ اس بچے نے جلدی سے بچی کو اٹھا کر کھڑا کیا اور پوچھا
”مجھے چوٹ لگ گٸ ہے بھیا“ مانو نے روتے ہوۓ اپنے بھیا سے کہا
”کیسے؟“ چھوٹے سے بھیا پریشان ہوگۓ
”میری گاڑی سے ٹکر ہوگٸ تھی اسکی“ حنان نے بچے کو مخاطب کیا
”ایسے کیسے لگ گٸ؟ تم گاڑی دیکھ کہ نہیں چلا سکتے کیا؟“ بچے نے غصے سے پوچھا تو حنان نے اپنی مسکراہٹ دباٸ جبکہ مانو بی بی اب تک رو رہی تھیں
”مجھ سے غلطی ہوگٸ۔ ایم سوری“ حنان کو ان دونوں بچوں سے بات کرنے میں مزا آنے لگا
”کیا کروں میں تمہاری سوری کا؟ اب تو تم نے رلا دیا نہ میری بہن کو،“ بچے نے خفگی سے کہا تو حنان نے جھٹ سے اپنے کان پکڑ لۓ۔ آس پاس گزرتے لوگ رک رک کر یہ تماشہ دیکھ رہے تھے
”سوری۔۔۔۔میں آٸندہ گاڑی دیکھ کر چلاٶں گا“ حنان نے کان پکڑے پکڑے کہا تو بچے نے بس اسے گھورا پھر اپنی بہن کا سر تھپتھپایا
”رو مت مانو۔۔۔۔میں ہوں ناں! چلو ساٸیکل پر بیٹھو اور اب میرے ساتھ ساتھ رہنا“
”اوکے بھیا“ مانو نے آنسو صاف کرتے ہوۓ کہا، بھیا نے مانو کی ساٸیکل اٹھاٸ اور پھر اپنی ساٸیکل پر سوار ہوتے دونوں بہن بھاٸ اپنی منزل کی جانب چل پڑے، حنان وہیں بیٹھا رہا،
بھاٸ چاہے کسی بھی عمر میں ہو، بہن کا خیال رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ماں باپ کہے یا نہ کہے، ہر بھاٸ بچپن سے ہی یہ ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا ہے کہ اسے اپنی بہن کی حفاظت کرنی ہے، اسکا خیال رکھنا ہے۔ خود دھوپ میں کھڑے رہ کر اپنی بہن کو چھاٶں میں رکھنا ہے۔
لیکن پھر وہ کیسا بھاٸ تھا۔جو اپنی بہن کی حفاظت نہ کرسکا۔ اسکے ہوتے ہوۓ بھی اسکی بہن چند درندوں کے ہاتھوں شکار بن گٸ، حنان نے خود سے سوال کیا۔ آج پھر مرجان شدت سے یاد آٸ تھی۔ آنکھوں میں کرچیاں سی چبھنے لگیں۔ وہ اپنی سرخ ہوتی آنکھوں پر گاگلز لگاتے ہوۓ واپس گاڑی میں آکر بیٹھ گیا۔ اس بچے کو دیکھ کر اسے اپنا بچپن یاد آگیا۔ وہ بھی تو مرجان کے ذرا سے رونے پر جہاں کہیں بھی ہوتا تھا، دوڑا چلا آتا تھا۔ اور جب وہ اپنی آخری سانسیں لے رہی ہوگی تو کتنی بار پکارا ہوگا اس نے اپنے بھاٸ کو، جب اس پر ظلم ہوا ہوگا، تب وہ کتنا روٸ ہوگی، کتنی آوازیں دی ہونگی اس نے حنان کو۔ کتنا روٸ ہوگی وہ اپنی بربادی پر، لیکن افسوس! اسکی مدد کرنے کے لۓ، اسے چپ کرانے کے لۓ، اسے ان جانوروں سے بچانے کے لۓ اسکا بھاٸ نہیں آیا۔ افسوس!!!
حنان نے کرب سے آنکھیں میچ لیں
———–*————–*———–*
”امی! بس بھی کریں“ فاطمہ نے تقریباً روتے ہوۓ کہا
”نہیں اب میں نہیں رکوں گی، تم ہمیشہ اپنی ہی من مانی کرتی ہو۔ اور میں کچھ کہہ دوں تو کہتی ہو کہ میں تمہیں بوجھ سمجھ رہیں ہوں“
”نہیں امی! امیرا وہ مطلب ہر گز نہیں تھا۔۔۔۔۔“
”تمہارا جو بھی مطلب تھا، میں بس اتنا جانتی ہوں کہ آدھے گھنٹے بعد میری فلاٸیٹ ھے۔ باہر ٹیکسی کھڑی ہے، اور میں جارہی ہوں۔ میرے پیچھے مت آنا کیونکہ میں نہیں رکوں گی“ وہ سختی سے کہتی اپنا بیگ گھسیٹتیں باہر کی جانب بڑھنے لگیں۔ فاطمہ انکے پیچھے لپکی
”امی! پلیز میری بات سننے۔ آپ جانتی تو ہیں کہ میں ایسا کیوں کررہی ہوں۔ پھر بھی آپ مجھے سزا دے رہی ہیں“ وہ ٹیکسی کا دروازہ کھول ریہ تھیں اور ڈراٸیور انکا سامان ڈگی میں رکھ رہا تھا
”میں تمہہیں سزا نہیں دے رہی، میں تو اس لۓ یہاں سے جارہی ہوں کیونکہ تم اب بڑی ہوگٸ ہو اور تمہیں میری ضرورت نہیں رہی۔ تم اپنے فیصلے خود سے لے سکتی ہو تو میرے یہاں رہنے کی کیا ضرورت ہے“ وہ کہتے ساتھ ہی ٹیکسی میں بیٹھ گٸ۔
”ایسے مت کہے امی! مجھے آپ کی ضرورت ہمیشہ سے ہے“ وہ بول رہی تھی لیکن ٹیکسی اسٹارٹ ہوگٸ
”امی پلیز۔۔۔۔۔ایک بار میری بات سنے“ وہ انہیں روکنا چاہتی تھی پر وہ نہیں رکیں اور ٹیکسی چل پڑی۔ فاطمہ روتے ہوۓ ٹیکسی کو جاتے ہوۓ دیکھ رہی تھی۔ وہ واپس اندر آگٸ، اب پورا گھر خالی ہوچکا تھا۔ فاطمہ اکیلے رہ گٸ تھی۔ دوسری طرف زہرہ بیگم اپنے آنسو صاف کرتے ہوۓ سوچ رہیں تھیں کہ اگر وہ ایساںنہیں کرینگی تو فاطمہ کو کبھی بھی احساس نہیں ہوگا۔
ایک ہفتہ قبل
جب اسے علی نے پرپوز کیا تھا تو وہ پریشان ہوگٸ تھی۔ زہرہ بیگم نے اسکی پریشانی کا سبب پوچھا تو پہلے تو وہ ٹال گٸ۔ لیکن پھر انہیں سچ سچ سب بتا دیا لیکن اس تمام بات میں فاطمہ نے ایک جھوٹ یہ بول دیا کہ وہ علی کو انکار کر آٸ ہے حلانکہ اس نے علی کو کوٸ جواب نہیں دیا تھا۔ زہرہ بیگم کے تو چودہ طبق روشن ہوگۓ
”تم۔۔۔۔۔۔تم نے اتنے اچھے انسان کو انکار کردیا؟“ وہ حیرت سے پوچھ رہی تھیں۔ فاطمہ جانتی تھی کہ انکا وہی ری ایکشن ہوگا اس لۓ اس لۓ اس نے یہ جھوٹ بولا کہ اس نے علی کو انکار کردیا ہے۔ ایسا کرنے سے اسے لگتا تھا کہ وہ زہرہ بیگم سے بیکار کی بحث سے بچ جاۓ گی جو زہرہ بیگم اسے ہاں کہنے کے لۓ مجبور کرے گی۔ لیکن یہ اسکی غلط فہمی تھی
”ہاں میں نے انکار کردیا۔ سچ بتاتی تو وہ خود انکار کردیتے اور اس صورت میں، میں انکی نظروں میں بھی گر جاٶں گی“
”میرے سمجھ نہیں آتا جس سچ پر اللّٰہ نے پردہ ڈال رکھا ہے وہ تم کیوں اپنے سر پر سوار کر رہی ہو“ وہ بھڑک اٹھیں
”امی اگر میں جھوٹ بول دوں اور انہیں کہیں اور سے پتہ چل۔۔۔۔۔۔“
”کیا پتہ چل جاۓ، اتنا اچھا رشتہ ٹھکرانہ بھی کفران نعمت ہے“ انہوں نے فاطمہ کی بات کاٹتے ہوۓ کہا ”بیٹیاں ماں باپ کے گھر میں کب تک رہتی ہیں؟ ابھی تمہاری عمر نکل گٸ ناں کوٸ پوچھے گا بھی نہیں“
”امی آپ میری فکر نہ کریں اور سعد بھاٸ کے پاس واپس سعودیہ چلیں جاۓ“
”ٹھیک ہے چلی جاتی ہوں۔ اگر تمہیں یہی سب کرنا ہے تو میں جارہی ہوں اور تم رہو اس گھر میں اکیلی، تب تمہیں احساس ہوگا کہ لڑکی کے لۓ اکیلا رہنا کتنا مشکل ہے“ وہ اٹھ کر چلی گٸ۔ تب فاطمہ کہ لگا کہ وہ غصے میں ایسا کہہ رہی ہیں لیکن اس بار وہ جھوٹ نہیں بول رہی تھیں
———*—————–*———-*
”وہاٹ؟ مس فاطمہ کا ریساٸنمینٹ لیٹر آیا ہے؟ پر کیوں؟“ شہریار نے کمال صاحب سے پوچھا
”پتہ نہیں سر، انا کوٸ پرسنل ایشو ہے انہوں نے بتایا نہیں“
”اچھا۔۔۔۔۔ٹھیک ہے آپ جاۓ“ شہریار نے انہیں کہا اور انکے جانے کے بعد سر تھام کر بیٹھ گیا
”کیا ہوگیا ہے شیری؟ ایک ایمپلاٸ ہی تو تھی، ایمپلاٸز تو آتے جاتے ہی رہتے ہیں،“ حنان نے کہا
”نہیں یار! وہ عام ایمپلاٸ کی طرح نہیں تھی۔ اس نے صرف چھ ماہ ہماری کمپنی میں کام کیا ہے مگر انکے جیسا کوٸ بھی ایمپلاٸ نہیں آیا ہے آج تک۔ وہ بہت اہم تھیں ہماری کمپنی کے لۓ“
”اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟ کمال صاحب نے کہا تو ہے کہ انکا پرسنل ایشو تھا۔“ اس نے کہا تو شہریار نے بس سر ہلادیا۔ ابھی انہیں فاطمہ سے پریزینٹیشن تیار کرانے کا سوچا تھا اب وہ کام کون کریگا۔تھوڑی دیر تک کمرے میں خاموشی چھاٸ رہی۔ پھر علی تیزی سے کمرے میں داخل ہوتا دکھاٸ دیا۔ اس نے اندر آتے ہی سب سے پہلے روم کا دروازو لاک کیا تاکہ آواز باہر نہ جاۓ
”کیا ہو گیا ہے علی؟“ وہ دونوں ہی اسےدیکھ کر پریشان ہوگۓ
”وہ۔۔۔۔۔مم۔۔۔۔میرے پاس۔۔۔۔۔ماہین کے گارڈ کی کال آٸ تھی۔۔۔۔۔وہ کہہ رہا تھا کہ ماہین ہسپتال میں ہے“ اس نے ہانپتے ہوۓ کہا
”کیا؟ مگر کیوں؟“ شہریار اور حنان دونوں ہی اٹھ کھڑے ہوۓ
”اسے گولی لگی ہے“ علی کے الفاظ کسی ہتھوڑے کی مانند لگے تھے حنان کے سر پہ
”یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟ کس نے ماری ہے اسے گولی؟ کیسی ہے وہ ٹھیک تو ہے نہ؟“ حنان نے پریشانی سے علی سے پوچھا
”نہیں وہ ٹھیک نہیں ہے۔ گولی سیدھا دل کے پار ہوگٸ ہے۔ اسکے بچنے کے چانسسز بہت کم ہیں“ حنان کو لگا کہ جیسے اسکی سانسیں رک گٸ ہوں۔
”ہمیں ابھی ہسپتال جانا ہوگا“ شہریار نے جلدی سے کہا اور گاڑی کی چابی اٹھانے لگا۔ جبکہ حنان کے حواس معطل ہوچکے تھے۔
———*—————*————*
اسپتال کے کوریڈور میں اس وقت وہ تینوں ہی موجود تھے۔ سامنے شیشے کے پار ماہین بیڈ پر دنیا و مافیا سے بے خبر پڑی تھی۔ وہ اس وقت آٸ سی یو میں تھی۔ حنان وہاں سے ہٹنے کو بھی تیار نہیں تھا۔
”گارڈ نےپولیس کو بیان دیا ہے کہ ماہین کے پھوپھوذاد اظہر نے اس پر گولی چلاٸ ہے“ علی نے شہریا کو بتایا
”پر کیوں؟ ایسی کون سی دشمنی ہے اسکی ماہین سے؟“
”وہ ماہین کو زبردستی اپنے ساتھ لے کر جارہا تھا اس سے شادی کرنے کے لۓ، مگر ماہین نے مزاحمت کی تو اس نے گولی چلادی“
”اوہ گاڈ۔۔۔۔۔۔پولیس نے ابھی تک پکڑا اسے کہ نہیں؟“
”نہیں وہ بھاگ گیا۔ ابھی اسکی تلاش جاری ہے“ ان دونوں کی گفتگو حنان نے پوری طرح سے نہیں سنی تھی وہ بس ماہین کو ہی دیکھے جارہا تھا۔کان میں ماہین کی آوازیں گنج رہی تھی
”حنان۔۔۔۔۔۔پلیز! مجھے معاف کردو۔ مجھ سے بہت بری غلطی ہوگٸ“
”مجھے بس ایک موقعہ دے دو“ اور جواب میں حنان کی سرد مہر آواز
”اگر تمہیں مجھ سے یہی بےکار باتیں کرنی ہیں تو آٸندہ مجھے کال مت کرنا“ حنان کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر بہہ نکلا۔ وہ اپنی ماں، اپنے باپ، دادی اور بہن کو کھو چکا تھا۔ اب اگر ماہی بھی اسے چھوڑ گٸ تو!!
اس سے آگے وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔۔
اگلے چار گھنٹے تک ماہین زندگی اور موت کی کشمکش میں رہی پھر بلآخر اس نے آنکھیں کھول دی۔ ڈاکٹرز نے اسکا چیک اپ کیا اور پھر باہر آۓ
”شکر ہے گولی دل پر نہیں لگی تھی بلکہ دل کے برابر سے گزر گٸ تھی۔ اس لۓ بچ گٸ ہیں۔ دو تین دن کے اندر ہم انہیں ڈسچارج کردینگے۔“
”دیکھیے! ماہی کی جان کو خطرہ ہے ہم اسے یہاں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔ آپ اسے کل ڈسچارچ کردیں“ حنان نے ڈاکٹر سے کہا
”ایسا کرنا مشکل ہے لیکن۔۔۔۔۔۔آپ کہہ رہے ہیں کہ انکی جان کو خطرہ ہے تو پھر۔۔۔۔۔۔۔آپ اپنی ذمہ داری پر لے کر جاۓ گے“ ڈاکٹر کہہ کر چلے گۓ۔ ماہین کو روم میں شفٹ کردیا۔ تھوڑی دیر میں شہرذاد بھی آگٸ اور ماھین سے ملنے چلی گٸ۔ اب پھر سے وہ تینوں اکیلے کھڑے تھے۔
وہ چار گھنٹے حنان نے کوریڈور میں یہاں سے وہاں ٹہلتے ہوۓ گزارے تھے۔ سب نے دیکھا تھا کہ جب تک ماہین کے ٹھیک ہونے کی خبر نہ مل گٸ اسکی جان سولی پر لٹکی رہی۔ شہریار نے لوہا گرم دیکھا تو سوچا چوٹ کرہی دین چاہے اس لۓ حنان کے پاس آیا، وہ سر جھکاۓ بیٹھا تھا
”حنان!“ اس نے اسے پکارا تو حنان نے سر اٹھا کر دیکھا
”ایک بات بتاٶں تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔تم اگر ماہین کو مجرم ٹھراتے ہو ناں! تو یاد رکھنا تم میں اور اس میں کوٸ فرق نہیں ہے۔ اس نے تم پر الزام لگایا تھا، تو تم نے بھی اس پر اپنی دادی اور بہن کی موت کا الزام لگادیا۔ کیا فرق رہ گیا اس میں اور تم میں؟ اس کی غلطی بس اتنی تھی کہ اس نے تم پر یقین نہیں کیا، اور اپنی اس غلطی کی اس نے تم سے بار بار معافی مانگی اور تم نے کیا کیا؟ جواب میں اپنی دادی اور بہن کی موت کا ذمہ دار بھی اسے ہی ٹہرا دیا۔ ان دونوں کے مرنے میں ماہین کا کوٸ قصور نہیں ہے۔ اور اس نے جتنی بڑی غلطی کی تھی نا اسکا کفارہ وہ ادا کرچکی ہے، چودہ ماہ، بلاناغہ ہسپتال آتی رہی تم سے ملنے۔ تمہاری زندگی کی دعا کرتی رہی۔ تمہارے ڈاکٹروں سے ملتی رہی۔ یہ اسکی محبت تھی۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ تم آج بھی اسے چاہتے ہو، تم کبھی اس سے نفرت کر ہی نہیں سکتے ورنہ یہاں بیٹھے اسکے لۓ پریشان نہ ہورہے ہوتے“ شہریار کہہ کر ماہین کے روم میں چلا گیا۔ حنان خاموش بیٹھا رہا۔ علی اسکے پاس آیا
”پتہ ہے حنان میں نے زندگی سے ایک سبق سیکھا ہے۔اگر کوٸ اپنے کۓ پر سچے دل سے شرمندہ ہو تو اسے معاف کردینا چاہیے۔ ۔۔۔۔۔۔۔میں جانتا ہوں تمہارا غم بہت بڑا ہے۔ تم نے اپنوں کو کھویا ہے، لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس میں ماہین کا کوٸ قصور نہیں ہے۔ حنان! موت برحق ہے، ہر کسی کو ایک نہ ایک دن مرنا تو ہے ہی۔ تمہاری دادی کی موت ایسے ہی لکھی تھی، انکو اگر جل کر مرنا تھا تو انکی موت کو کوٸ نہیں روک سکتا تھا۔ مرجان کو بھی ایسے ہی مرنا تھا۔ ضروری نہیں ہے کہ اگر اس ماہین تم پر شک نہ کرتی تو تمہارا ایکسیڈنٹ نہ ہوتا، تمہارے ساتھ حادثہ ہونا تھا تو وہ ہوکر رہتا۔ اور اگر نہ بھی ہوتا تو کیا تم اپنی دادی اور بہن کی موت کو روک سکتے تھے؟“ وہ اسے نرمی سے سمجھا رہا تھا۔
”کبھی کبھی معاف نہ کرنے والے اور معافی نہ دینے والے بھی بہت پچھتاتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ تم بھی میری طرح پچھتاو“ علی نے اسے کہا۔ کیا کچھ نہیں تھا اسکی آنکھوں میں کرب، اذیت، پچھتاوا اور بہت کچھ۔۔۔۔۔ وہ بھی اسے اکیلا چھوڑ کر وہاں سے چلاگیا۔ حنان اکیلا بیٹھا انکی باتوں پر غور کرتا رہا، ماہین کو کھونے کی ہمت اب اس میں نہیں تھی۔ تمام حساب کتاب اور جمع تفریق کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ۔۔۔۔۔۔شہریار اور علی ٹھیک کہہ رہے تھے۔ نفرت کرنے اور انتقام لینے والوں کے حصے میں کچھ نہیں آتا سواۓ خسارے کے۔۔۔۔۔۔۔علی کی مثال اسکے سامنےتھی۔ اور وہ علی کی طرح پچھتانا نہیں چاہتا تھا
———*—————*————*
وہ ابھی تک خاموشی سے سر جھکاۓ بیٹھا تھا۔ جب ہی علی اور شہریار اسکے پاس آۓ۔ وہ دونوں چہرے سے پریشان لگتے تھے
”کیا ہوا ہے؟ ماہی تو ٹھیک ہے؟“ وہ اٹھ کھڑا ہوا
”ماہین ٹھیک ہے حنان، لیکن ایک مسلہ ہوگیا ہے“ شہریار نے کہا
”کیا؟“ اسے بے چینی ہونے لگی
”تم جانتے ہو کہ اظہر ماہین سے شادی کرنا چاہتا تھا اور اسکے انکار کرنے پر اس نے گولی چلادی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔پولیس ابھی تک اسے ڈھونڈ نہیں پاٸ ہے۔ وہ کبھی بھی ماہین کو نقصان پہنچا سکتا ہے یا پھر سے اسکے ساتھ زبردستی کر سکتا ہے“
”اوہ۔۔۔۔تو اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟“ حنان واقع میں پریشان ہوگیا
”ایک ہی طریقہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔“علی ایک لمحے کو رکا حنان اسی کو دیکھ رہا تھا
”اگر تم اس سے نکاح کرلو۔۔۔۔۔۔ابھی“ علی نے کہا
”میں تیار ہوں“ ایک لمحے کی بھی تاخیر کۓ بغیر حنان نے جواب دیا تو باقی دونوں نے سکھ کا سانس لیا
”ٹھیک ہے پھر میں قاضی کا انتظام کرتا ہوں“ شہریار کہہ کر جانے لگا کہ حنان نے اسے روک دیا
”یہاں ہوگا نکاح؟“ اس نے پوچھا
”ہاں“
”اسکی ضرورت نہیں ہے، کل ماہین ڈسچارج ہورہی ہے ناں! تو اسے میرے گھر لے چلے گے اور نکاح بھی وہیں کرلیں گے۔ ہسپتال میں نکاح کرنا عجیب سا لگے گا“ اس نے کہا تو شہریار فوراً راضی ہوگیا
اگلے دن ماہین ڈسچارج ہوگٸ۔ شہریار نے اسے یہ بتایا کہ وہ اسے اپنے گھر لے جارہا ہے۔ شہرذاد اسکے ساتھ ساتھ ہی تھی۔ جب گاڑی حنان کے گھر کے باہر رکی تو اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا
”ہم یہاں کیوں آۓ ہیں؟“ اس نے شہریار سے پوچھا مگر وہ جواب دیۓ بنا نیچے اترا اور اسکی طرف کادروازہ کھولا، شہرذاد اور شہریار نے اسے سہارا دے کر گاڑی سے اتارا
” شہرذاد تم بتاٶ مجھے کہ ہم یہاں کیوں آۓ ہیں؟“ اس نے شہرذاد کو مخاطب کیا
”ابھی پتہ چل جاۓ گا پہلے اندر تو چلے“ اس نے شرارت سے کہا، اسی وقت وہاں علی کی گاڑی آکے رکی جس میں سے علی اور حنان دونوں اترے۔ ماہین بس ایک نظر ہی اسے دیکھ پاٸ کیونکہ شہریار اور شہرذاد اسے اندر لے گۓ۔ حنان نے جلدی سے جاکر اپنے کمرے کا دروازہ کھول دیا۔ وہ لوگ ماہین کو وہیں لے آۓ، اسے حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا لیکن اب کی بار اس نے کوٸ سوال نہ کیا
وہ لوگ ماہین کو کمرے میں چھوڑ کر چلے گۓ۔ اسکے ساتھ صرف شہرذاد رہ گٸ۔ شہرذاد نے اسے بیڈ پر ٹیک لگا کر بیٹھانے میں مدد کی اور اس پر کمبل ڈال دیا۔ ماہین کی نظریں حنان کو ڈھونڈ رہی تھیں، وہ ہسپتال میں ضرور تھا لیکن
ایک بار بھی اس سے ملنے نہیں آیا تھا۔ اب بھی اسے اپنے گھر لاکر خود غاٸب ہوگیا تھا۔
”پلیز مجھے بتاٶ کیا کہ کیوں لے کر آۓ ہو تم لوگ مجھے یہاں؟“ اس نے شہرذاد کا ہاتھ پکڑ کہ پوچھا
” آپ کا نکاح ہورہا ہے حنان بھاٸ کے ساتھ“ اس نے مسکراتے ہوۓ کہا
”کیا؟“ وہ شاکٹ رہ گٸ۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ حنان کیسے اس سے نکاح کرنے پر راضی ہوگیا؟ کیا وہ اس سے ہمدردی کر رہا ہے؟ یا پھر صرف شہریار اور علی کے مجبور کرنے پر وہ اسکی جان بچانے پر راضی ہوگیا ہے؟ وہ پریشان تھی۔ اتنے میں وہ تینوں مع قاضی کے کمرے میں داخل ہوۓ۔ شہرذاد نے ناجانے کہاں سے ایک سرخ رنگ کا ڈوپٹہ لاکر اسکے سر پر ڈال دیا۔ شہریار اور حنان، قاضی کے ساتھ کھڑے نکاح نامہ پر کررہے تھے۔ علی اسکے پاس آکھڑا ہوا اور کافی آہستہ آواز میں کہا
”معاف کرنا ماہیں ہم نے تم سے پوچھے بغیر ہی یہ سب طے کر لیا، یہ مشورہ میرا تھا، میں تمہیں اپنی بہن سمجھتا ہوں۔اس لۓ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اور اگر تم بھی مجھے اپنا بھاٸ سمجھتی ہو تو پلیز! انکار مت کرنا“ علی نے التجاٸیہ لہجے میں کہا۔ وہ بس سر جھکا گٸ، علی نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔ قاضی صاحب پہلے اسکے پاس آۓ اور نکاح کی کارواٸ شروع ہوگٸ۔ اسکا بایاں بازو آرم سلنگ میں جکڑا ہوا تھا۔ پہلے اسکا نکاح ہوا۔ پھر حنان کا۔ دونوں نے ساٸن بھی کردیۓ۔
نکاح کے بعد علی اور شہریار اسکے گلے لگے اور اسے مبارک باد دی۔ شہرذاد سب سے پہلے جاکر کچن میں کھڑی ہوگٸ۔ حنان نے لاکھ منع کیا کہ وہ کھانا باہر سے منگوا لے گا۔ لیکن وہ بھی پکا ارادہ کرچکی تھی کہ آج رات کا کھانا وہ اپنے ہاتھ کا بنا ہوا ہی کھلاۓ گی۔ علی ماہین کے پاس بیٹھا تھا۔ حنان کسی کو فون کال کرنے باہر گیا ہوا تھا، ویسے فون کال تو ایک بہانہ تھا، شہریار جانتا تھا کہ وہ تھوڑی دیر اکیلے رہنا چاہتا ہے کیونکہ اسے اس وقت اپنے گھر والے یاد آرہے ہوں گے۔ اسکی زندگی کا اتنا اہم دن تھا وہ انہیں کیسے نہ یاد کرتا۔ شہریار کچن میں چلا آیا
”کیا پکا رہی ہو؟“ اس نے شہرذاد سے پوچھا
”پلاٶ“
”اچھا! یہ بتاٶ تم نے ابھی تک شادی کے لۓ کوٸ ڈریس سلیکٹ کیا؟“
”نہیں، ابھی تک تو نہیں“
”چلو پھر کل چلتے ہیں شاپنگ پر“
”کل؟ لیکن ابھی تو ماہین آپی بیمار ہیں انہیں ہماری ضرورت ہوگی۔ کتنا برا لگے گا کہ ہم کل ہی شاپنگ پر چلے جاۓ گے تو؟“
”ماہین کی فکر مت کرو اب اسکا خیال رکھنے کے لۓ حنان ہے۔ اور میں نے کب کہا کہ ہم ماہی سے ملے بغیر ہی چلے جاۓ گے۔ پہلے یہاں آۓ گے پھر شاپنگ پر چلے گے“
”اچھا!“ اس نے مختصر سا جواب دیا اور کام میں لگ گٸ۔ شہریار دیکھ رہا تھا کہ وہ اپنی شادی کہ معاملے میں اتنی ایکساٸٹیٹ نہیں ہے جتنا کہ شہریار۔
”کیا تم خوش نہیں ہو شہی؟“ وہ پوچھ بیٹھا تو اس نے حیرت سے اسے دیکھا۔
”آپ کو ایسا کیوں لگا کہ ہم خوش نہیں ہیں؟“ وہ ہانڈی میں چلاتا چمچ چھوڑ کر اسکا مقابل آکے کھڑی ہوگٸ
”ایسے ہی مجھے تمہارے چہرے سے لگا“
”شیری! کیا آپ کو پتہ ہے کہ جس دن سے آپ نے ہمیں سمجھایا ہے۔ اس دن سے ہم اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس صدمے سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں جسے ہم کٸ سالوں سے سینے سے لگاۓ بیٹھے ہیں۔ لیکن ہم ایکدم سے تو ٹھیک نہیں ہوسکتے ناں! ہم خوش ہیں بہت۔ اب اگر ہمارے چہرے سے نہیں لگ رہا تو اس میں ہمارا تو کوٸ قصور نہیں ہے ناں۔ اب آپ ہی ہمیں نہیں سمجھیں گے تو کون سمجھے گا؟“
”میں سمجھ سکتا ہوں۔ وہ تو میں نے بس اس لۓ پوچھ لیا کہ کہیں تمہیں کوٸ ٹینشن تو نہیں ہے؟“ اس نے نفی میں سر ہلادیا۔ شہریار مطمٸن ہوگیا۔
”اچھا یہ بتاٶ کہ تم کس کلر کا ڈریس لوگی؟ “
”مہرون اور بلیک کے کومبینیشن کا، اور شیری۔۔۔۔۔آپ بھی ایسے ہی کلر کی شیروانی لی گا۔۔۔۔۔“وہ بتانے لگی اور شہریار سنتا رہا۔ وہ اس وقت نہیں جانتا تھا کہ شہرذاد کے ایکدم سے بدلنے کی وجہ کیا ہے۔ لیکن بہت جلد وہ جاننے والا تھا!!
———–*————*————-*
”شہرذاد!!!“ وہ ماہین سے مل کر باہر جارہی تھی جب حنان نے اسے آواز دے کر روکا۔
”جی حنان بھاٸ“ وہ رکی، علی اور شہریار گاڑی کے پاس کھڑے باتیں کر رہے تھے اور ان دونوں سے کافی دور تھے۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد اب وہ لوگ گھر کے لۓ نکل رہے تھے
”تم نے کل سے ماہی کا اتنا خیال رکھا پھر گھر میں بھی اتنا کام کیا، تمہارا بہت شکریہ“ حنان نے کہا تو چند لمحے وہ خاموش رہی
”بھاٸ، بہنوں کو شکریہ کہتے اچھے نہیں لگتے“ اس نے کہا تو حنان مسکرایا
”اچھا جی! شکریہ نہیں کہہ سکتے لیکن چاکلیٹ تو دے سکتے ہیں ناں!“ اس نےمسکراتے ہوۓ کہا اور جیب سے ایک چاکلیٹ نکال کر اسکے سامنے کی جو اس نے مسکراتے ہوۓ تھام تو لی لیکن شرارت سے بولی
”صرف ایک چاکلیٹ؟“ حنان کی مسکراہٹ غاٸب ہوٸ، کانوں میں مرجان کی آواز گونجی
”بس ایک ہی چاکلیٹ“
لیکن اگلے ہی لمحے حنان نے خود کو سنبھال لیا اور دوسرے جیب سے ایک اور چکلیٹ نکال کر اسکی طرف بڑھاٸ تو شہرذاد کی آنکھیں حیرت سے ابل پڑیں
”ہم نے تو مذاق میں کہا تھا۔ آپ نے تو سچ میں ایک اور۔۔۔۔۔۔“ وہ حیرت سے کنگ ہوگٸ۔ اسکی شکل دیکھ کر حنان کی ہنسی چھوٹ گٸ۔ اتنے عرصے میں وہ پہلی بار ہنسا تھا۔ شہرذاد نے اس سے چاکلیٹ لے لی
”اصل میں، میں مرجان کے لۓ ہمیشہ دو چاکلیٹز لیتا تھا۔ تو میری عادت ہے دو چاکلیٹ لینے کی، تمہارے لۓ لینے گیا تو غیرارادی طور پر دو خرید لیں۔ لیکن اچھا ہی ہوا ورنہ میں ابھی کیا جواب دیتا تمہیں؟“ اس نے بتایا
”آپ کو ایک مزے کی بات بتاۓ؟ ہمارے بھیا بھی ہمیں دو چاکلیٹ دیتے تھے“ اب کی بار دونوں ہنس پڑے۔
”اچھا ہم چلتے ہیں“ وہ کہتے ہوۓ آگے بڑھی حنان بھی اسکے پیچھے ہو لیا۔ وہ دونوں شہریار اور علی کے پاس پہنچے۔ شہریار چہرے سے کافی خوش لگ رہا تھا
”کیا بات ہے بھٸ! تیرے کس بات پر دانت نکل رہے ہیں؟“ حنان نے شہریار سے پوچھا
”ڈیڈ آرہے ہیں کل پاکستان، اور میں بہت خوش ہوں“ اس نے مسکراتے ہوۓ کہا تو علی نے اسے سنجیدگی سے دیکھا
”جھوٹ کیوں بول رہے ہو شیری؟“ علی کے سنجیدگی سے کہنے پر سب نے حیرت سے دیکھا
”سیدھے سیدھے بتا ناں کہ تیری شادی کی ڈیٹ فکس کرنے آرہے ہیں انکل، اس لۓ تو اتنا خوش ہے“ علی کے کہنے پر وہاں قہقہ پڑا۔ جب کہ شہرذاد جھینپ گٸ۔
”ہاں بلکل! یہ بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے“ اس نے ڈھٹاٸ سے کہا تو ایک بار پھر تینوں ہنس پڑے جب کہ شہرذاد شرافت سے گاڑی کے اندر بیٹھ گٸ۔
”چل بیٹا علی اب تو بھی اپنا کوٸ بندوبست کرلے“ حنان نے علی کو چھیڑا
”تو میری فکر مت کر، پہلے اپنے ولیمے کی تیاری کرلے“ علی نے ہنستے ہوۓ کہا لیکن آنکھوں کے سامنے فاطمہ کا چہرہ لہرایا
”ٹھیک ہے پھر میں بھی قسم کھاتا ہوں کہ جس دن تیرا ولیمہ ہوگا اس کے اگلے دن ہی میں اپنا ولیہ رکھ لوں گا“ اس نے مذاق میں کہا
”شیری اب ساری رات یہی کھڑے رہے گے آپ؟ یا گھر بھی جاۓ گے؟“ کافی دیر سے شہریار کا انتظار کرتی شہرذاد نے کوفت سے کہا
”بس ابھی آیا“ وہ شہرذاد کو جواب دیتا ان دونوں کو خدا حافظ کہنے مڑا
”جا بیٹا! جاکے حکم کی تعمیل کر“ علی نے اسے چھیڑا تو وہ اسکے سر پر ایک چپت لگاتا۔ گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔ ان دونوں کے جانے کے بعد علی حنان کی جانب مڑا
”اچھا چلتا ہوں۔ ماہین کا خیال رکھنا“ علی نے اس سے ہاتھ ملایا
”فکر مت کر، اپنی جان سے زیادہ خیال رکھوں گا تیری بہن کا“ اس نے ہنستے ہوۓ کہا۔ ہاں اب وہ خوش لگ رہا تھا۔ بہت خوش۔
انکے جانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آیا۔ ماہین بیڈ پر بیٹھی رو رہی تھی۔ وہ خاموشی سے دراز سے دواٸ نکالنے لگا۔ پھر گلاس میں پانی ڈال کر، گلاس اور دواٸ لے کر اس تک آیا۔ اسکی سسکیاں پورے کمرے میں گونج رہی تھیں۔
”ماہی۔۔۔۔۔دوا کھالو“ اس نے نرمی سے کہہ کر دوا اسکی جانب بڑھاٸ۔ کتنے عرصے بعد حنان نےاسے مخاطب کیا تھا۔ کتنے عرصے بعد ماہین نے اسکی زبان سے اپنا نام سنا تھا۔اس نےاپنا چہرہ صاف کرتے ہوۓ حنان کے ہاتھ سے دواٸ لے کر کھالی۔ وہ اسکے سامنے ہی بیٹھ گیا لیکن خاموش رہا جیسے سمجھ نہ آرہا ہو کہ کہاں سے بات شروع کرے۔ اس نے اپنے بےجا ضد کے ہاتھوں ماہین کو کتنی سزا دی تھی۔ ویسے بھی اس لڑکی کا بہت قرض تھا اس پر، جو وہ اتار نہیں سکتا تھا۔ وہ چودہ ماہ اسکے علاج کے لۓ ہر ممکن کوشش کرتی رہی،اس سے ملنے آتی رہی یہ قرض ہی تو تھا۔ حنان کو مسلسل خاموش دیکھ کر ماہین نے خود ہی بولنا شروع کردیا
”مجھے پتہ ہے کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگٸ ہے پر۔۔۔۔۔۔۔میں آج بھی تم سے معافی مانگنے کو تیار ہوں۔ مجھے معاف کردو۔ پلیز“ اس نے حنان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیۓ۔ حنان نے اسکے ہاتھ پکڑ کے نیچے کردیۓ۔
”معافی تو مجھے مانگنی چاہیے تم سے۔ میں نے ناحق تمہیں اتنی سزا دی۔تم معاف کردو مجھے۔ پتہ ماہی۔۔۔۔۔۔جو انسان حقیقت تسلیم نہیں کرتا وہ نقصان اٹھاتا ہے۔ میں نےبھی اپنی دادی اور مرجان کی موت کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ مجھے معاف کردو ماہی۔ میرے پاس اب تمہارے علاوہ کوٸ نہیں ہے۔ میں تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔“ ماہین اسکے گلے لگ کر رونےلگی اور وہ بجاۓ اسکو چپ کرانے کے خود بھی رودیا۔
بلاآخر ان دونوں کی آزماٸش ختم ہوگٸ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
———–*—————-*———*
وہ سڑک پر ننگے پاٶں چل رہی تھی۔ آس پاس سے گزرتے لوگ اسے عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن اسے کچھ نہ دکھ رہا تھا نہ سناٸ دے رہا تھا۔ اسکے کانوں میں مختلف آوازیں گونج رہیں تھیں
”فاطمہ میں تمہیں پسند کرتا ہوں۔“
”میں نے دو دن سےکچھ نہیں کھایا“
”خدا کے لۓ مجھے چھوڑ دو۔ مجھ پر رحم کھاٶ“
”اور بہت جلد آپ کی امی سے آپ کا ہاتھ مانگنے آٶں گا“
”دس ہزار درہم۔۔۔۔۔۔۔پندرہ ہزار درہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیس ہزار درہم“
”خدا کے لۓ مجھے جانے دو“
”لگتا ہے آپ میٹھے کی کافی شوقین ہیں“
”بیس ہزار درہم۔۔۔۔۔۔۔باٸیس ہزار درہم“
”اوہ۔۔۔۔تم ادھار چکارہی ہیں آپ“
”پچس ہزار درہم۔۔۔۔۔۔تیس ہزار درہم“ کان کے پردے ان آوازوں سے پھٹنے لگے، جب ہی ایک گاڑی بلکل اسے قریب آکے رکی
”فاطمہ کیا کر رہی ہو تم یہاں؟ اور یہ کیا حالت بنا رکھی ہے اپنی؟“ گاڑی سے نکلنے والے نے باہر نکلتے ہی اسکے سامنے آکر پریشانی سے پوچھا۔ وہ علی تھا۔
”میں۔۔۔۔۔۔۔۔میں کھو ہوگٸ ہوں“ اس نےعجیب کھوۓ کھوۓ سے انداز میں کہا
”تم ٹھیک تو ہو؟ اور۔۔۔۔۔تمہاری چپل کہاں ہے“ علی کی نظر اسکے پیروں پر پڑی
”پتہ نہیں“ علی کو اسکی دماغی حالت پر شک گزرا
”آٶ میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں“ علی نے اسکے لۓ گاڑی کا دروازہ کھولا
” گھر؟ کس کے گھر؟“
”تمہارے گھر فاطمہ اور کس کے گھر“
”لیکن میرا تو کوٸ گھر نہیں“
”مجھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ آٶ بیٹھو گاڑی میں“ علی نے اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھایا اور گاڑی اسٹارٹ کردی۔ پورے راستے وہ خاموش رہی اسکے گھر کے سامنے گاڑی روکنے کے بعد علی خود بھی اسی کے ساتھ اندر آگیا
”تم یہاں بیٹھو میں تمہارے لۓ پانے لاتا ہوں“ علی جانے لگا جب فاطمہ نے اسے روک دیا
”آپ کہیں مت جاۓ علی! مجھے آپ سے ایک
ضروری بات کرنی ہے“
”ہاں! کہو“ علی اسکے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا
”میں آپ سے شادی نہیں کر سکتی“ اس نے بنا تہمید کے کہا
”پر کیوں کیا میں تمہارے قابل نہیں ہوں“ علی نے بےچینی سے پوچھا
”نہیں علی! میں آپ کے قابل نہیں ہوں۔ میں آپ کے تو کیا کسی کے بھی قابل نہیں ہوں“ وہ رو رہی تھی۔ علی کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ وہ اسے سر علی کے بجاۓ صرف علی کہے اور اس دشمن جان نے اسکا نام لیا بھی تو کب۔۔۔۔
”ایسی کیا بات ہے فاطمہ تم مجھ سے شیٸر کر سکتی ہو“
”میرا ماضی۔۔۔۔۔اس قابل نہیں ہے کہ میں اسے کسی سے بھی شیٸر کرسکوں۔ آپ جیسے اچھے انسان کو انکار کرنے کے بعد میں آپ کا سامنا نہیں کر پاٶں گی۔ اس لۓ میں نے کمپنی سے ریزاٸن دے دیا ہے“
”کیا؟“ علی کو شاک لگا
”لیکن فاطمہ۔۔۔۔۔۔“وہ کچھ کہنا چاہتا تھا پر فاطمہ نے اسے روک دیا
”پلیز علی! آپ جاۓ یہاں سے۔۔۔۔۔۔پلیز“ اس نے علی کے سامنے ہاتھ جوڑ دیۓ تو وہ اٹھ کر وہاں سے چلا گیا
باہر آکے علی گاڑی کے پاس رکا اور دل ہی دل میں فاطمہ کو مخاطب کیا
”اگر تم یہ کہتی کہ تم مجھے ناپسند کرتی ہو تو میں شاید پیچھے ہٹ جاتا لیکن۔۔۔۔۔تمہاری باتیں سن کر مجھے محسوس ہوا کہ تم کچھ چھپا رہی ہو۔ کوٸ تو ایسی بات ہے جو تمہیں کھل کر جینے نہیں دے رہی، تمہیں خوش نہیں ہونے دے رہی۔۔۔۔۔۔اور میں وہ وجہ معلوم کرکے رہوں گا“ اس نے ایک عظم سے سوچا اور گاڑی میں بیٹھ گیا
—————*———*————*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...