“ڈیڈ آپ میری بات سنے بغیر مجھ پر الزام نہیں لگا سکتے۔۔”
اپنی سسکیوں کو دباتے ہوئے احتجاجاً کہا:
“چھ مہینے تم غائب تھیں اب اچانک تم ہنسی خوشی اتنے دنوں بات آئی ہو تو میں کیا بات سنوں ”
یاسر خان نے بے لچک انداز میں کہا :
آپ اسکی بات تو سن لیں؟؟۔
رابعہ بیگم(سحرش کی امی) نے یاسر کو گھور کر دیکھا :
“تم اپنے کمرے میں جاو یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے تم اپنی کلب اور پارٹیز کی فکر کرو ۔۔۔”
رابعہ یاسر سے شادی کرکے لاپرواہ ہوگئی تھی دولت کی تو ریل پیل پہلے ہی تھی اور شادی کے بعد انہیں گھر داری سے کوئی رقبت نہیں تھی اس لئے وہ سحرش کو دنیا میں لانے کے بعد اس سے بھی بے پرواہ ہوگئیں تھیں۔۔۔۔
یاسر پھنکار کر سحرش سے کہا:
رابعہ کو لگا جیسے کسی نے اس کہ منہ پر تیزاب پھینک دیا ہو۔۔۔۔
وہ یاسر کے پل میں بدلتے تیور پر ہونق سی رہ گئیں۔۔۔۔۔
“تمہیں میں نے دنیا کی نظروں سے بچا کر رکھا پھولوں کی طرح سینچ سینچ کر بڑا کیا اور تم نے کیا دیا بدلے میں ذلت اور رسوائی۔۔۔”
یاسر نے سحرش سے شکوہ کیا :
اسے اپنی ہی آواز کسی گہری کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔
تو کیا کہتے ہو یاسر خان زادہ پسند نہیں آئی تمھیں یہ ذلت و رسوائی؟؟؟
تبھی عقب سے جہانگیر کی آواز پر وہاں موجود سارے نفوس نے انٹیرنس کی جانب دیکھا:
کون ہو تم اور اندر کیسے آئے ؟؟؟
یاسر نے بگڑتے ہوئے کہا:
“اں اں اں نہیں یاسر خان زادہ اتنا مت ڈھاڑو کہ کہیں تم بولنے کہ بھی قابل نہ رہو ۔۔۔۔”
رابعہ بیگم ، اور سحرش سیچوئشن کو سمجھنے کی کوشش کررہیں تھیں ۔سامنے کھڑے شخص کی وجیہہ خوبصورتی ہر گز نظر انداز کرجانے والی نہ تھی۔۔۔۔ اور پھر اس کی منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کسی طوفان کا پتہ دے رہے تھے۔۔۔۔۔
“تم کیا سمجھتے ہو تم پاکستان چھوڑ کر بھاگ جاو گے اور اپنے پیچھے تمام ثبوت مٹا کر اپنے آپ کو بچالو گے؟؟ تو بہت غلط سوچ تھی تمہاری۔۔۔”
جہانگیر جیب میں ہاتھ ڈالے ہموار قدم چلتا یاسر کی جانب آیا۔۔۔۔
سرد سانس خارج کر کہ بات جاری رکھی۔۔۔۔۔
انسانوں کو تو دھوکا دے سکتے ہو پر اللہ کو کیسے دوگے بولو کسی کی عزت کو اپنی حوس کا نشانہ بنا کر تم خود عیش کی زندگی بسر کروگے اور کوئی تم سے حساب لینے والا نہ ہوگا؟؟؟
یاسر کے تو مانو کاٹو تو لہو نہیں چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑگیا تھا ۔۔۔
ییییہ کککیا بببکککواس کککررہے ہو کککون ہو تم؟؟؟
“جہانگیر ” ” جہانگیر رب نواز ” “ملک نواز کا پوتا” “نگین کا بھتیجا”۔۔۔
کیا نننگین کا ببھتییجججاااااااا۔؟؟؟
ہاں کیوں یاد آیا کچھ ؟؟؟
تم کیا سمجھے تھے تم گناہ کرو گے اور چھپالو گے ؟؟؟
“تم شاید اس ذات کو بھول گئے تھے جو “علیم و خبیر” ہے اس کے انصاف سے کیسے بچ پاو گے ”
میں نے ہی تمہاری بیٹی کو اغوا کر وایا تھا اور چاہتا تو اسکی بھی عزت پامال کردیتا لیکن تم جیسا بھیڑیہ نہیں ہوں تمہاری بیٹی آج بھی ویسی ہی ہے بے داغ اور پاکیزہ ہے جیسے کہ اغوا ہونے سے پہلے تھی۔۔۔۔
“ہاں البتہ اب وہ میرے نکاح مییں ہے” اور یہ مت سمجھنا کہ میں اسے آزاد کردوں گا زندگی بھر وہ میرے نام سے جڑی رہے گی اور تمھاری دہلیز پر پڑی رہے گی اور تم اسے دیکھ دیکھ کر روز جیو گے روز مرو گے۔۔۔۔۔۔”
تم ہوتے کون ہو مجھے سزا دینے والے ؟؟؟ ہاں بولو تم خدا ہو ؟؟؟ کیا ہو تم ؟؟؟ اپنے آپ کو ہر الزام سے بری الزمہ کر کر تم بچ نہیں سکتے ؟؟؟
میرے باپ نے کمینگی دیکھائی تو تم نے کون سا اچھا کام کیا ہے تم بھی میرے باپ کے ساتھ برابر کے ذمہ دار ہو ۔۔۔۔
“ہونہہہ آئے بڑے شریف النفس ”
سحرش جو کب سے اپنے باپ کی عیاشی کا قصہ سن رہی تھی جہانگیر کو اپنی خود ساختہ ہمایت کرنے پر تلملا گئ اور جہانگیر کے کرتے کا کالر پکڑ کی کھینچنے لگی ۔۔۔۔
“بند کرو اپنی بکواس ”
جہانگیر سحرش کے الفاظ پر آگ بگولہ ہوگیا اور سحرش کے دونوں ہاتھوں کو جھٹکا۔۔۔
کیوں برا لگا؟؟؟
سحرش نے تمسخر سے دیکھتے ہوئے کہا :
تم مرد ہمیشہ اپنے انتقام کی آگ عورت کے ذریعہ نکال کر اپنی مردانگی سمجھتے ہو ؟؟؟” تھو ہے تم جیسے مردوں پر ”
“اور تم کتنا مجھے ٹرپاو گے دل کو ٹھنڈک ہوتی ہوگی نہ عورت کی کم ہمتی پر اپنی مردانگی جتا کر ۔۔۔۔۔نفرت ہے مجھے اپنے باپ سمیت تم جسے مردوں سے نفرت ہے نفرت ہے ”
سحرش کے گلے میں چلاتے چلاتے خراشیں پڑ چکیں تھیں اور آنسو لڑھک کر گالوں پہ بہنے لگے تھے ۔۔
سحرش نے ایک نظر سامنے کھڑی ماں پہ ڈالی ، پھر ایڑیوں کہ بل گھوم کر دروازہ کی جانب بھاگی اور خان زادہ ہاوس سے نکلتی چلی گئی اپنے پیچھے آوازوں کی پرواہ کئے بغیر پیدل چلتی ہوئی سڑک تک آگئ اسے تو ہوش ہی نہیں تھا کتنی دیر ہوئی ہاوس سے نکلے ہوئے اور کہاں جانا تھا کچھ نہیں پتا لیکن اس دوزخ سے کوسوں دور نکل جانا چاہتی تھی۔۔۔۔۔
ہارن کی آواز پر وہ خیالوں سے واپس آئی مڑ کر دیکھا تو جہانگیر گاڑی میں اس کا انتظار کر رہا تھا اس نے جلدی جلدی قدم آگے بڑھادیئے۔۔۔۔
کیا مسئلہ ہے؟؟” چلو گاڑی میں چل کر بیٹھو۔۔”
جہانگیر گاڑ ی میں سے نکل کر اس کے سامنے کھڑا ہوکر جنجھلا کر اسے بیٹھنے کو کہا:
” کیوں پھر میرا تماشہ بنانا باقی ہے ؟؟؟”
سحرش نے زہر خند لہجے میں پوچھا :
جہانگیر نے اسکا بازو پکڑا اور کھینچتے ہوئے گاڑی کی طرف لایا اور سیٹھ پر دھکیل کر گاڑی کا دروازہ بند کرکے خود گاڑی میں آبیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کردی۔۔۔۔۔۔۔
تم کیوں لائے ہو مجھے گاڑی میں؟؟؟؟؟؟؟؟ “نہیں جاوں گی میں گھر کہیں نہیں جاوں گی تم مجھ پر اور حکمرانی نہیں کرسکتے” چھوڑو میرا ہاتھ؟؟
جہانگیر اسے کھینچتا ہوا گاڑی میں بٹھا کر گاڑی کے دروازوں کو لوک کیا۔۔۔۔۔۔ جب کوششوں سے بھی گاڑی کا دروازہ نہیں کھلا تو سحرش نے اسے خونخوار نظروں سے گھورا ۔۔۔۔
“سحرش بی بی شاید آپ بھول رہی ہیں آپ میرے نکاح میں ہیں ”
“بہت جلد اس کاغذی بندھن کو بھی میں توڑ دوں گی ۔۔۔۔ ” تم کیا سمجھتے ہو تمہارے ساتھ ہنسی خوشی آزدواجی زندگی گزاروں گی ؟؟؟ ” تو بھول ہے تمہاری ”
اسکی بات پر جہانگیر کی دماغ کی رگیں تن گئیں غصہ سے اس نے اسکا بازو پکڑ کر اپنی جانب کھینچا:
“بھول جاو تم کہ میں کبھی اس بندھن سے آزاد کروں گا اور آئیندہ یہ بکواس نہ سنوں ۔۔۔”
وہ اسے تنبیہ کرکے اپنی توجہ ڈرائیونگ پر لگا چکا تھا ۔۔۔
“جنگلی نہیں تو ” سحرش نے گھور کر بڑبڑاتے ہوئے کہا اور کھڑکی کی جانب منہ کر کے انسو پینے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...