دبے دبے پاؤں اب چل اے زندگی__!
تھک گیا ہوں میں تیرے ٹھہرنے سے
رمشا کافی بنا کر لاؤنج میں آئی اور ٹی وی آن کر کے بیٹھ گئی۔ ایک چینل پر آ کر اس کی نظریں جم گئیں۔۔
“نیک عورتیں نیک مردوں کے لیۓ ہیں اور بری عورتیں برے مردوں کے لیۓ ہیں۔ اس چیز کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قران میں کیا ہے۔ نیکی کا اجر اس کے ہاں سے ضرور ملتا ہے اور برائی کی سزا بھی ملتی ہے۔ آپ کے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جن کے شریک حیات ان ہی کی طرح کے ہیں۔” اُدھر مفتی صاحب نے اپنی بات ختم کی, اِدھر رمشا نے ٹی وی بند کر دی۔
“میں یہ سب کیوں سوچ رہی ہوں۔۔ میں نے کونسا برا کام کیا ہے جو ایبک۔۔۔” یکدم رمشا کے ذہہن میں اس کا ماضی کسی فلم کی صورت چلنے لگا۔۔ اس نے کافی کا گھونٹ بھرا جو کڑوی کسیلی محسوس ہونے لگی۔۔ مگ فرش پر پٹخ کر وہ کمرے میں جا کر لیٹ گئی۔۔۔
*————————–*
دردانہ بیگم نے فرمان صاحب سے اپنے رویے کی معافی مانگی تو انھوں نے تہہ دل سے معاف کر دیا کیونکہ دردانہ بیگم کا راہ راست پر آنا ہی ایک معجزہ تھا۔ رانیہ اور مہرین کے ساتھ بھی ان کا رویہ بیٹیوں سے بڑھ کر ہو گیا تھا۔ رانیہ کو تو وہ کسی کام کے ساتھ ہاتھ بھی نہ لگانے دیتیں۔ وہ اپنے سے جڑے رشتوں کی اصلیت وقت پر جان چکی تھیں اسی لیۓ پرخلوص رویہ اپنا لیا تھا ورنہ شک کی آگ میں جل کر اپنی گرہستی برباد کر دیتیں۔
*————————–*
رمشا کے ممی پاپا پاکستان آئے تو انھوں نے نیا گھر لیا۔ رمشا کو کال کر کے اس کے گھر کا ایڈریس لیا۔ ان سے مل کر رمشا کو اپنے ٹرانس سے نکلنے کا موقع ملا۔۔
“پلیز آپ لوگ مجھے معاف کر دیں۔ میں نے آپ کو کتنا ہرٹ کیا۔۔ آئی ایم سوری فار آل دیٹ سٹوپیڈٹی۔۔” رمشا رو دینے کو تھی۔
“ہم نے آپ کو معاف کر دیا ہے بیٹا اسی لیۓ تو ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ گھر چلیں اور دوبارہ اپنی زندگی شروع کریں۔” علی احمد آفندی بیٹی کی حالت دیکھ کر بولے۔
“نہیں پاپا۔ میں یہاں بہت خوش ہوں اور کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں۔۔ بس آپ دونوں نے مجھے معاف کر دیا یہی کافی ہے۔” رمشا چہرے پر سنجیدہ مسکراہٹ لیۓ بولی۔
“مان لو مشی۔۔ وہ لڑکا آپ کے لائق بالکل بھی نہیں ہے۔” مشال آفندی بیٹی کو اپنے قریب کرتے ہوۓ بولیں۔
“وہ میری عادت بن چکا ہے ممی اور میں اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکوں گی۔۔” رمشا نے جھوٹ کا سہارا لیا کیونکہ وہ اپنے ممی پاپا کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔ کچھ دیر مزید ٹھہر کر وہ اپنے گھر چلے گئے تھے۔۔
*————————*
رمشا اپنی ممی کے ساتھ کسی جاننے والی کے ہاں ڈنر پر گئی ہوئی تھی۔ واپسی پر ایک پھاٹک پر ٹرین گزرنے کی وجہ سے گاڑی روکنی پڑی۔۔۔ انتظار طویل ہو گیا تھا۔۔ رمشا کی نظر تپتی دھوپ میں پڑے آٹھ نو سالہ بچے پر پڑی۔۔ وہ گاڑی سے اتری اور سیدھی اس طرف گئی۔ بچہ اتنا پرسکون سویا ہوا تھا جیسے پھولوں کے بستر پر ہو۔۔۔ رمشا نے اس کے گال کو چھو کر دیکھا۔۔۔ اس کا چہرہ تپ رہا تھا۔۔
“بات سنیں۔۔۔ یہ بچہ۔۔۔” اس نے پاس ہی شیڈ کے نیچے بیٹھے آدمی سے استفسار کیا۔
“اس کا باپ نہیں ہے۔۔۔ گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے لیۓ ادھر کام کرتا ہے۔۔” آدمی نے لا پرواہی سے جواب دیا۔۔
رمشا نے اس بچے کو جگایا۔۔
“بیٹا آپ سکول کیوں نہیں جاتے۔۔۔؟” اس نے بہت پیار سے پوچھا۔۔
“غریب ہوں باجی سکول چلا گیا تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔۔” اتنے سے بچے کے منہ سے ایسی بات سن کر رمشا کا وجود لرز گیا۔۔۔ مشال بیگم کے منع کرنے کے باوجود وہ بچے کو قریبی مارکیٹ لے کر گئی۔۔۔ وہاں سے کپڑے اور گھر کا راشن وغیرہ لیا اور اس کے گھر دینے گئی۔ وہ ہر ماہ تعلیم اور گھر خرچ کے لیۓ ایک معقول رقم بھیجنے کا وعدہ کر کے چلی آئی۔ سکون کی لہر اس کے وجود میں سرائیت کر گئی۔
“بے شک اللہ بندوں کو لے کر آزماتا ہے اور دے کر بھی۔۔ ممی اگر اس بچے کی جگہ میرا اپنا بچہ ہوتا تو کیا آپ اسے دیکھے بغیر گزر جاتی۔۔۔” رمشا نے چہرے پر تلخ ہنسی لیۓ مشال آفندی سے اتنا ہی کہا۔۔۔
*————————-*
اسے کہنا ___ محبت کا کوئی رنگ نہیں ہوتا
محبت تو بس یار کے رنگ میں رنگ جاتی ہے
“تانیہ وہ میری بلیو ٹائی تھی یہاں کدھر گئی۔۔۔” شہریار آفریدی کپڑے بدل کر کمرے میں آیا تو اپنی ٹائی کے بارے میں دریافت کیا۔۔
“وہ تو میں نے واپس رکھ دی۔۔۔” تانیہ نے الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
“مگر کیوں۔۔۔” شہریار آفریدی بالوں میں جیل لگاتے ہوئے پوچھنے لگا۔۔
“کیونکہ اس شرٹ کے ساتھ یہ پرپل ٹائی سوٹ کرتی ہے شہریار جی۔۔۔” تانیہ پرپل ٹائی لئے شہریار آفریدی کے پاس آئی اور اس کے گلے میں ڈالنے لگی۔۔
“اب آپ لگ رہے ہیں تانیہ کے شوہر۔۔ اس بلیو والی ٹائی میں تو کچھ اور ہی لگتے۔۔” تانیہ کن اکھیوں سے دیکھتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں بولی۔۔
“ہاں اس بلیو والی میں تو مناہل کا کچھ لگتا ہوں۔۔” شہریار آفریدی بھی تانیہ کو چھیڑنے لگا کیونکہ اسے چھیڑنے کا الگ ہی مزہ تھا۔۔
“مناہل کی ایسی کی تیسی جی۔۔ تانیہ کے ہوتے ہوئے کیا مناہل اور کیا شماہل۔۔۔” تانیہ نے ایک چت اس کے کندھے پر رسید کی۔۔۔ شہریار آفریدی کی ہنسی ہی چھوٹ گئی۔۔
تانیہ نے شہریار آفریدی کے ساتھ کا خواب دیکھا تھا اور خلوص نیت سے دعائیں مانگی تھیں کیونکہ اسے اللہ پر پورا بھروسہ تھا۔۔ اس کے بھروسے کا بھرم اللہ نے رکھ لیا تھا اور اس کی زندگی سے محرومیوں کا خاتمہ کرنے شہریار آفریدی کو چن لیا تھا۔۔۔
*———————–*
رمشا سینٹورس میں شاپنگ کرنے آئی تو وہاں اس نے رانیہ کو دیکھا۔۔ وہ اسے کافی خوش باش دکھائی دے رہی تھی۔۔۔
“تھینک گارڈ رانیہ کہ تمہاری لائف تو بہتر ہوئی ۔۔۔” دل ہی دل میں رمشا کو خوشی محسوس ہوئی۔۔
رانیہ نے رمشا کو دیکھ لیا تھا اسی لیۓ اس طرف آئی۔۔ حال احوال کے بعد رانیہ نے رمشا سے ایبک کے رویے کے بارے میں پوچھا۔۔
“تمہارے سامنے ہے سب۔۔ میرے چہرے کو دیکھ کر اندازہ لگا لو کہ جسم پر کہاں کہاں مار کے نشان ہوں گے۔۔” رمشا بہت بے بسی سے بولی۔۔
رانیہ نے رمشا کو مشورہ دیا کہ وہ ایبک کو چھوڑ دے لیکن رمشا نے کہا کہ فی الحال وہ اس بارے میں نہیں سوچ سکتی۔۔
“آئی ایم سوری رانیہ۔۔ میں نے تمہارے ساتھ کتنا غلط کیا۔۔ یہ سب شاید اسے لیۓ میرے ساتھ۔۔۔” رمشا نے رانیہ سے معافی مانگی۔۔
“یہ سب تو قسمت کا لکھا تھا رمشا۔۔ تمہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔۔ میں اور رامش اپنی لائف سے بہت خوش ہیں۔۔ رامش بہت لَوِنگ ہیں۔۔۔” رانیہ بہت پرسکون لہجے میں بولی۔۔۔ کافی دیر باتیں کرنے کے بعد دونوں اپنے راستے چل دیں۔۔۔
*————————-*
“سنیں۔۔ میں نے آج رمشا کو دیکھا تھا۔۔ بہت بجھی بجھی سی تھی وہ۔۔ اپنی زندگی پر پچھتا رہی ہے۔۔” رامش اسٹڈی میں کچھ کام کر رہا تھا جب رانیہ چائے لے کر آئی اور بات شروع کی۔
“اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی قسمت بدلنی چاہی تھی رانیہ۔۔ دیکھ لو کیسے منہ کے بل کھائی ہے۔۔۔” بات کرتے ہوئے رامش کا لہجہ تلخ ہو گیا۔۔
“کیا اب بھی آپ کو وہ۔۔۔؟؟” رانیہ اتنا کہہ کر چپ ہو گئی۔۔ کافی دیر تک جواب نہ آیا تو وہ اٹھ کر جانے لگی۔۔ رامش نے اس کی کلائی پکڑی۔۔ چھوڑیوں کے شور سے کمرہ گنگنانے لگا۔۔
“وہ میری زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی تھی رانیہ۔۔ پہلے پہل تو مجھے وہ اچھی لگتی تھی۔۔۔ لیکن بعد میں۔۔۔ اپنی حرکتوں کی وجہ سے وہ میرے دل سے اتر گئی۔۔” رامش اپنے لہجے میں سچائی لیۓ بولا۔۔
“تو کیا اب آپ کا دل۔۔۔۔؟؟” رانیہ نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ کہیں رامش برا نہ مان جائے۔۔
“رانیہ۔۔۔۔ کاش میں اپنا دل آپ کو دکھا سکتا۔۔۔ تو آپ کو پتا چلتا اس میں ہر طرف آپ کا عکس ہے۔۔۔ میں ہر روز شکرانے کے دو نفل ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے میری قسمت میں آپ کو لکھا۔ تھینک یُو فار کمپلیٹنگ مائی لائف ڈئیر وائف۔۔۔” رامش نے رانیہ کو اپنے قریب بٹھا لیا۔۔ سانسوں کی اتھل پتھل سے رانیہ کا گندمی چہرہ گلابی ہو گیا۔۔۔ جھکے چہرے کے ساتھ وہ اور بھی معصوم لگ رہی تھی۔۔۔ رامش کو اس پل وہ کوئی ننھی پری لگی جو راستہ بھول کر اس کے پاس آ گئی ہو۔۔۔
*————————*
پوچھا جو زندگی سے کہ کتنے ستم ہیں اور
بس مسکرا کر اس نے کہا ____ دیکھتے رہو
ایک دن باس نے میٹنگ کا جھانسہ دے کر رمشا کو اپنے گھر بلایا۔۔ وہاں پہنچ کر اس نے باس کو نشے میں دھت دیکھا۔۔ اسے دیکھ کر وہ ڈر گئی۔ باس نے اس کی کلائی پکڑی اور اپنے قریب کر لیا۔۔ رمشا کی تو جیسے سانسیں تھم گئیں۔۔ اس نے مزاحمت کی کوشش کی مگر بے کار۔۔
“چھوڑو مجھے کمینے۔۔ بیٹی کی جگہ ہوں میں تمہاری۔۔” رمشا چلانے لگی۔۔
“ایسے کیسے چھوڑ دوں جاناں۔۔ قیمت لی ہے اس ایبک نے تمہاری تب ہی تو بلایا ہے تمہیں۔۔ ٹھیک کہا تھا اس نے کہ تم میں بہت اکڑ ہے۔۔۔۔ آج نکالتا ہوں تمہاری ساری اکڑ۔۔” باس نے رمشا کی شرٹ سامنے سے پھاڑ دی۔۔ رمشا کے آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔۔۔
“یا اللہ مجھے آج یہاں سے بچا لے پلیز۔۔۔ اس شخص کے ہاتھوں مجھے ذلیل مت کر۔۔۔” رمشا نے پہلی بار اللہ کو دل سے پکارا تھا تو کیسے وہ اس کی پکار کو نظر انداز کرتا۔۔ فوراً ہی رمشا کی نظر قریب پڑی بوتل پر پڑی۔۔ اس نے وہ بوتل اٹھائی اور باس کے سر پر دے ماری۔۔ وہ وہیں گر گیا۔۔ رمشا تیز تیز باہر کی طرف بھاگی۔۔۔ گھر سے تھوڑا دور ہی ایک گاڑی اس کے قریب آ کر رکی۔۔
“آپ یہاں۔۔ سب خیریت تو ہے۔۔۔؟؟” رمشا کو اس حالت میں دیکھ کر رامش کا ایک رنگ آیا اور ایک گیا۔
“پلیز رامش مجھے گھر لے چلو۔۔۔ وہ شخص مجھے مار دے گا۔۔” رمشا خود ہی فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ گئی۔۔۔
“لیکن یہ سب کیسے۔۔۔؟؟” رامش نے ایک مرتبہ پھر سوال کیا۔۔
“شاید میری سزا اتنے جلدی ختم نہیں ہو گی۔۔۔” یہ کہہ کر رمشا نے نظریں جھکا لیں۔۔ رامش اس کے بعد کچھ نہیں بولا۔۔ رمشا سے ایڈریس لے کر وہ اسے گھر اتار دیا۔۔۔
ایبک سے رمشا نے خلع مانگ لی تھی کیونکہ اس کے ساتھ رہنا اب رمشا کے لیۓ ناممکن تھا۔ وہ اپنے ممی پاپا کے پاس آ گئی تھی۔۔ دن بدن رمشا ماضی کے صفحوں کو پلٹتی تو ایک ہوک سی اس کے سینے میں اٹھتی۔۔۔
“تم ٹھیک کہتی تھی رانیہ ایک دن میں اللہ کا کلام سیکھنے ضرور جاؤں گی اور وہ دن آنے والا ہے۔۔۔” رمشا نے خود سے عہد کیا کہ وہ جلد ہی میڈم جویریہ کے پاس جاۓ گی۔۔
*———————*
“اے مومنو تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو, توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔” (النور ٣١)
“اس آیت مبارکہ میں مومنوں کو مخاطب کیا گیا یے کہ اپنے گناہوں اور لغزشوں کی اللہ کے حضور معافی مانگیں۔ جتنے بھی گناہ تم زندگی میں کر چکے ہو ان سب سے توبہ کرو اور آنے والے وقت کے لیۓ بھی اپنی اصلاح کرو۔ ہم سب کو چاہیۓ کہ اپنی زندگی کو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق گزاریں لیکن اگر ہم کسی غلطی کے مرتکب ہو جائیں تو اس کی معافی مانگیں۔ ممکن ہے اس طرح ہم فلاح پا لیں اور اللہ ہمیں معاف کر دے۔ اکڑنا آگ سے بنے شیطان کا شیوا تو ہو سکتا ہے مگر مٹی سے بنے انسان کا نہیں۔ کامیابی کی صورت یہی باقی ہے کہ توبہ کی جائے۔” میڈم جویریہ اپنے لہجے کی چاشنی سے قران پاک کی تفسیر کلاس میں بیٹھی لڑکیوں کو سمجھا رہی تھیں۔
آج فرنٹ رو میں رانیہ کے ساتھ والی کرسی پر نئے چہرے کا اضافہ ہوا تھا اور یہ اضافہ یقیناً خوش کن تھا۔ سیاہ عبایا کے ساتھ سر پر سیاہ حجاب اوڑھے رمشا بہت پر وقار لگ رہی تھی۔ اس نے میڈم جویریہ کے لیکچر کو اپنی نوٹ بک پر اتارا اور دل سے عہد کیا کہ وہ اللہ سے اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگے گی اور زندگی کو نئے سرے سے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کے مطابق بسر کرے گی۔۔ فلاح کے راستے پر اس نے قدم رکھ لیۓ تھے اور وہ پُر یقین تھی کی جلد یا بدیر وہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے کو منا لے گی۔
*————————-*
تمہارے پاس ہوں لیکن جو دوری ہے سمجھتا ہوں
تمہارے بن میری ہستی ادھوری ہے سمجھتا ہوں
“میری زندگی میں آ کر تانیہ نے بظاہر تو اسے مکمل کر دیا ہے۔۔۔ وہ میری بیوی۔۔۔ میرے ہونے والے بچے کی ماں ہے۔۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم دونوں ساتھ میں کتنے پرفیکٹ لگتے ہیں۔۔۔ مگر رانیہ۔۔۔ میری زندگی کو گمشدہ کر دینے والی ہستی۔۔۔ وہ میرے دل کی اس مسند پر بیٹھی ہیں جہاں کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا۔۔۔ رانیہ تو بہت سی لڑکیاں ہو سکتی ہیں مگر رانیہ نواز کوئی بھی نہیں۔۔۔” شہریار آفریدی نے آنکھیں بند کر دیں۔۔۔ شادی کے ایک سال بعد بھی وہ رانیہ کو فراموش نہیں کر سکا تھا۔۔ جانے یہ دل کے تعلق اتنا بے بس کیوں کر دیتے ہیں۔۔
*———————–*
تو میرا وہ لمحہ موجود ہے جس میں
ٹھہرا ہوا ہے ہر لمحہ میری زندگی کا
رانیہ اور رامش کچھ دنوں کے لیۓ مری کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیۓ نکل گئے تھے۔ راستے میں برف کے گولے پڑنے شروع ہو گئے جس سے رانیہ کے وجود میں ہر سُو تازگی بھر گئی تھی۔
رامش نے گاڑی روک کر رانیہ کے لیۓ دروازہ کھولا۔ رامش کا ہاتھ پکڑے رانیہ گاڑی سے باہر نکلی۔۔ بہت سے لوگ انھیں رشک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔ برف کے گولوں کو اپنے وجود کے ساتھ ٹکراتے کوۓ رانیہ بہت پر سکون محسوس کر رہی تھی۔۔
“آپ کو پتا ہے میں نے زندگی میں کبھی خواب نہیں دیکھے کیونکہ یہ ٹوٹنے میں آواز نہیں رکھتے مگر ان کی چبھن پورے وجود کو کرچی کرچی کر دیتی ہے۔۔” رامش کا ہاتھ پکڑے مال روڈ کی طرف جاتے ہوئے رانیہ بولی۔
“اب آپ خواب دیکھنے کا حق رکھتی ہیں رانیہ کیونکہ آپ کے ہر خواب کو پورا کرنا میرا وعدہ ہے۔۔۔” رامش کے جذبوں کی سچائی رانیہ نے محسوس کی تو اس کا انگ انگ مہک گیا۔۔
“مجھے یقین ہے کہ میرے خواب آپ کے لیۓ بہت انمول ہیں کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیں۔۔” رامش کا ہاتھ چھڑا کر رانیہ آگے بھاگ گئی۔۔۔
“اس طرح سے ستانے کے انداز کہیں نئے مہمان سے تو نہیں سیکھ لیۓ رانیہ۔۔۔” رامش کے چہرے پر ہنسی پھیل گئی۔۔۔۔
رانیہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور جب بات کی سمجھ آئی تو شرم سے نظریں جھکا لیں۔۔۔
“تو تُم اپنے پروردِگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔” (القران)
آسمان پر روشنی پھیل گئی جو بتا رہی تھی کہ ان کی زندگی کے کینوس میں رنگ برنگے رنگ بھر کر اللہ نے ان کا آشیانہ مکمل کر لیا تھا اور اس پر وہ اللہ کا جتنا بھی شکر بجا لاتے کم تھا۔۔۔
ختم
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...