(Last Updated On: )
کریسمس نائٹ پر شہر کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ ترکی میں جہاں ہر ایونٹ کو سیلیبریٹ کیا وہاں minorities کو بھی یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے فیسٹیولز آزادی سے منا سکیں۔انس کو اس سے کوئ ضروری بات کرنی تھی اسی لیے وہ کریسمس نائٹ اس کے ساتھ گزارنے باہر نکلی تھی۔ortakoy square سے گزرتے ہوئے وہ بوسفورس برج کے قریب اسکا انتظار کرنے لگی۔ تمام مارکیٹس اور ریسٹورینٹس کو illuminating lights سے سنوارا گیا تھا۔ سنوفالنگ آج عام دنوں سے بڑھ کر تھی۔برف کے ننھے گولے جب ان لائٹس پر پرتی تو ایک حسین سماہ باندھ دیتی۔
وہ اسے دور سے اپنی طرف آتا دکھائ دیا بلیک جیکٹ اور سیاہ پینٹ میں بال سلیقے سے بنائے وہ کافی ہینڈسم لگ رہا تھا۔دونوں اب ایک ریسٹورینٹ میں داخل ہو گئے۔ اندر orchestra کی دھن ماحول کو مزید خوشگوار بنا رہا تھا۔ ڈنر آرڈر کرنے کے بعد وہ اسکی طرف متوجہ ہوا۔”سو کرسمس سیلیبریٹ کرنے کے متعلق کیا پلینز ہیں” انس نے مسکراتے ہوئے پوچھا “well not decided yet but I’ll surely visit church” کریسٹی نے اسے بتایا۔ “I want to inform you about something important for the porpose we are here” اس نے کہا”yeah sure” ویٹر اب انہیں ڈنر سرو کر رہا تھا۔اب وہ کھانے میں مصروف ہوچکے تھے۔
آج اس کے چہرے پر اک عجیب سی مسکراہٹ تھی جسے وہ محسوس کر رہی تھی مگر اسے کوئ نام نہیں دے پارہی تھی۔جیسے کچھ فت ح کر چکا ہو۔””not now I’ll tell you after the dinner when I’ll take you to show a beautiful sight” اسنے کہا۔ڈنر کے بعد دونوں باہر نکل آئے بارہ بجنے میں صرف بیس سیکنڈ رہ چکے تھے”come with me hurry up” لوگ بوسفورس برج کے گرد اکٹھے ہوچکے تھے۔کاونڈ ڈاون سٹارٹ ہوچکی تھی ٹین۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نائن ۔۔۔۔۔ایٹ۔۔۔۔۔سیون سب مل کر بول رہے تھے تھری۔۔۔۔۔ٹو۔۔۔۔ون
اچانک اردگرد سیاہی چھاگئ اور تمام illuminating lights آف کر دی گئیں اور یک دم بوسفورس برج کو laser beam سے اجاگر کیاگیا اور وہ لیزر بیمز اک بلڈنگ سے ٹکرا رہی تھی جس پر جگمگاتا “Marry chrismis Istanbul” لکھا تھا۔”wow what an astonishing moment” بہت سو کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کرسٹی بھی اس مومنٹ کو انجوائے کرنے لگی پھر انس نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا “میں ایک ہفتے کے لیے اوٹ اف سٹی جا رہا ہوں اپنے ڈیڈ سے ملنے بٹ آئے پرومس تمہاری برتھڈے سے پہلے واپس آجاوں گا ” اس نے مسکراتے ہوئے کہا “oh so that was the thing I think you should surely go”اس نے کہا۔”thanks I’ll see you after a week”وہ جانے کے لیے پلٹ گیا اور وہ مسکراتے ہقئے اسے جاتا دیکھتی رہی۔۔۔۔۔۔۔
تقیربن دو بجے کے قریب وہ بلکل تیار شیشے کے سامنے اپنی سنہری زلفوں میں برش چلا رہی تھی۔جامنی میکسی کے سساتھ گلابی ہائے ہیلز پہنے وہ بےحد حسین لگ رہی تھی اتنے میں اس کا فون بج اٹھا سمن کی کال تھی”آئے تھنک تمہارا آنے کا کوئ موڈ نہیں ہے ہم سب خود ہی سیلیبریٹ کر لیتے ہیں”سمن نے سختی سے کہا”نہیں نہیں میں بس آ رہی ہوں”وہ واقعہ میں تھوڑی لیٹ ہو چکی تھی۔کار سڑک پر دوڑاتی ہوئ وہ ہوٹل پہنچی۔
ربنز اور غباروں سے سجا ہال بہت پرکشش لگ رہا تھا لیکن اس ساری بھاگ دوڑ میں وہ اپنا “سیکریٹ ویپن نہیں بھولی تھی۔سمن اسے اینٹرینس پر ہی مہمانوں کا استقبال کرتی نظر آچکی تھی لیکن نگاہ کسی اور کی متلاشی تھی۔ سیاہ ڈنر سوٹ میں ملبوش بال ماتھے پر بکھرے ہوئے ہاتھ میں ورسٹ واچ وہ کافی خوبرو لگ رہا تھا۔”میں تم سے بہت خفا ہوں ٹائم دیکھا ہے تم نے اتنی لیٹ ہو تم”سمن کی اس پر جونہی نظر پری وہ کسی توپ کی طرح برسنے لگی”اچھا سوری اب موڈ خراب مت کرو آو کیک کاٹتے ہیں پھر میں نے اور عائشہ نے تمہارے لیے ایک سرپرائز بھی تو پلین کیا ہے رائٹ عائشہ؟” “میں اتنا انٹرسٹنگ سرپرائز بھلا کیسے بھول سکتی ہوں ہووری۔۔” وہ دونوں مسکرانے لگیں مگر سمن کی سمجھ میں تو کچھ نہ آیا”مجھے تم دونوں کے ارادے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے”سمن نے مشکوک نگاہوں سے انہیں دیکھا””جلد پتا چل جائے گا پہلے کیک تو کاٹ لو”
وہ نوٹ تو کر رہی تھی کہ عرشمان اسے اگنور کر رہا تھا لیکن اس نے فلوقت کوئ reaction نہ کیا۔ سمن نے کینڈلز بجھاتے ہوئے کیک کٹ کیا تو سب نے اسے باری باری وش کیا۔اہستہ اہستہ کیک سب لوگوں میں ڈسٹریبیوٹ کر دیا گیا ۔لوگ اب کیکس اور کولڈ رنکس انجوائے کرنے کے بعد اپنے گفٹس سمن کو دے رہے تھے۔
“آئے تھنک ہور اب ہمیں اپنا سرپرائز ڈسکلوز کر دینا چاہیے” عائشہ نے جب ہال کو مہمانوں سے حالی ہوتا دیکھا تو اس نے حور سے کہا”yeah its time” “اب بتا بھی دو آخر وہ سرپرائز ہے کیا؟” سمن نے پوچھا۔”کولڈرنک باتھ سمن ڈئیر” دونوں نے مل کر کہا “پانی سے تو بہت بار کھیلا ہے آج کولڈرنکس میں ڈوب کر دیکھو”وہ دونوں اپنے پلین میں حسن کو بھی شامل کر چکی تھیں “نو وے میں تم تینوں کو شوٹ کر دوں گی”سمن نے انہیں وارن کیا۔ وہ تینوں اب بوٹلز کے کیپ کھول رہے تھے “لیٹس اٹیک ایوری ون ” حور نے حکم دیا اقر وہ تینوں سمن کی طرف بھاگنے لگے اور سمن پورے ہال میں خود کو بھیگنے سے بچانے کے لیے دوڑنے لگی۔
******************
کریسٹی اوف اس کی مومی آج توپ کاپی میوزیم آئے تھے۔ زمانہ قبل میں موجود نوادرات اور دیگر قیمتی اور پرانی اشیاہ کو میوزیم میں محفوظ کر رکھا تھا جبکہ دوسفے حصے میں جنگوں میں استعمال کردہ اسلحہ اور دیگر قدیم ہتھیار موجود تھے۔سرائے کے عقبی حصے میں ایک باغیچہ موجود تھا۔ وہیں ایک بنچ پر وہ دونوں بیٹھی اب کچھ دیر تازہ ہوا میں سانس لیتی خود کو پرسکون محسوس کر رہی تھیں۔رات بہت سنوفالنگ کے بعد اب راستوں سے برف ہٹا کر انہیں صاف کیا گیا تھا اسی لیے آج سنوفالنگ میں حد درجہ کمی آئ تھی۔
باغیچے کے قریب ہی ایک چبوترے میں ایک شخص موجود تھا جس سے وہاں موجود کچھ سٹالش لڑکیاں اپنی بازووں اور گردن کے پیچھے خوبصورت نقش ونگار کے ٹیٹووز بنوا رہی تھیں۔ کچھ دیر کریسٹی مہو سی انہیں دیکھتی رہی پھر ضد کرنے لگی کہ اسے بھی اپنے نام کا ٹیٹوو اپننی بازو پر بنوانا ہے۔ مومی کے لاکھ منا کرنے کے باوجود بھی وہ بزد تھی ناچار وہ اسے وہاں لے گئیں۔باریک نوکیلی نب اب اسکی بازو پر سیاہ روشنائ سے نقش و نگار بناتے ہوئے KJ لکھا جارہا تھا۔
یہ کام آسان نہیں تھا لیکن اسے تکلیف بھے بہت ہو رہی تھی مگر وہ سہہ گئ۔بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنا من پسندیدہ کام کروانے کے لیے بڑی سے بڑی قیمت بھی ادا کر دیتا ہے لیکن پچھتاوا تب آگھیرتا ہے جب اسے معلوم ہو کہ وہی کام اسے خصارے کی طرف گھسیٹ رہا ہو۔وہ ٹیٹو بنوا کر مومی کے ساتھ خوشی خوشی کوٹیج واپس ا گئ اور وہ تمام رستہ یہ سوچتی رہیں کہ کچھ چیزوں کی کتنی بڑی قیمت ادا کرنی پر جاتی ہے۔اسکے ہاتھ پر بنا وہ tatoo انہیں شدت سے اس چیز کا احساس دلا رہا تھا۔
*******************
“آج سمن کسی صورت نہیں بچے گی ” عائشہ اور حسن پیچھے سے سمن کی طرف بھاگ رہے تھے جبکہ حور بیک سائیڈ ایریا سے سمن کی نگاہوں سے بچتی ہقئ اسکے سامنے آ کھڑی ہوئ۔سمن بھگتے ہوئے یک دم رک گئ”اب کہاں بچ کر جاو گی ناو کیو کولڈرنک باتھ اور یہ کہتے ہوئے حور نے پوری بوتل سمن پر انڈیل دی۔سمن غصے سے چلا رہی تھی اور ساتھ ہنس رہی تھی۔
اس کا سارا لباس حتہ کے جوتے تک بھیگ چکے تھے اور انگلیاں آپس میں چپک رہی تھیں۔ بجائے وہاں سے ہٹنے کہ وہ ابھی ہور کو ملامت کر ہی رہی تھی کہ مزید بوٹلز عائشہ اور حسن نے اس پر انڈیل دیں اور جو باقی کی کثر رہ گئ تھی وہ ہور نے اس پر سنو سپرے کرکے ختم کر دی۔
اب سمن غصے میں ان تینوں کی طرف بھاگ رہی تھی وہ حور تک پہنچ ہی چکی تھی کہ حور کا پاوں لڑکھڑایا اور وہ بری طرح گری زخمی پاوں میں موچ ا گئ تھی دور کھڑے عرشمان نے اسے گرتے دیکھا وہ اس کی مدد کو اگے بڑھنا چاہتا مگر نا چاہتے ہوئے بھی رک گیا۔اور تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔وہ خود ہی تو چاہتی تھی کہ وہ اس سے دور رہے اس نے خود ہی تو مرہم لگانے سے منع کیا تھا پھر وہ کیون پلٹے ۔ہور نے اسے جاتا دیکھا تو انسو امڈ امد کر باہر کا رخ اختیار کر گئے۔۔
“حور میں تمہیں ڈروپ کر دوں گی”عائشہ نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔”اٹس ok میں چلی جاوں گی میری کنڈیشن اب stable ہے۔سمن نے قریب پرا پانی کا گلاس اسے تھمایا جسے بامشکل آدھا ختم کرکے وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئ۔گاڑی سڑک پر دوڑاتے ہوئے وہ اپنے خیالات میں پوری طرح غائب تھی۔جسم کے اعصاب بے حس و حرکت اور ٹھنڈے پر گئے تھے۔گاڑی لوک کفکے وہ تیزی سے زینے چڑھتے ہوئے اوپر پہنچی۔اپنا سیل۔اور کیز صوفے پر پھینکنے کے وہ خود کو نارمل کرنے کے لیے بالکونی میں آگئ۔تنہائ خاموشی بےبسی سب اندر ہی اندر اسے کھاتے جا رہے تھے۔
بالکونی سے آسمان کا منظر بہت پرکشش نظر آرہا تھا۔ چمکتے ستارے چاند کہیں بادلوں کے پیچھے چھپا ہوا سا لگ رہا تھا۔وہ اس منظر کو دیکھ رہی تھی کہ اسے اپنا موبائل بجتا ہوا محسوس ہوا وہ پردے سرکاتی ہوئ روم میں داخل ہوئ۔عرشمان کا نمبر سکرین پر جگمگا رہا تھا اسے پھر سے بے ترا غصہ آنے لگا اس نے کال کاٹ دی۔کچھ دیر بعد اسے میسج ریسیو ہوا”حور پلیز فون اٹھاو۔اسنے میسج ڈیلیٹ کر دیا۔اسکا موبائل پھر سے بجنے لگا۔تیسری بیل۔پر آخر تنگ آکر اسنے کال ریسیو کر ہی لی “حور۔۔۔آئے ایم سوری ” دوسری طرف سے پرکشش آواز سماعت میں ابھری”مجھے کسی بھی بارے میں کوئ بھی بات نہیں کرنی”اسنے کہا۔
“تم نے خود ہی کہا تھا کہ کوئ تمہاری فکر نہ کرے سب تم سے دور رہیں تو پھر اب کیا ہوا؟؟” عرشمان نے پوچھا”میں نے کہا تھا نہ کے مجھے سب چھوڑ جاتے ہیں تم بھی چلے جاو مجھے تنہا جینا آتا ہے” اسنے جواب دیا۔ “فورگوڈ سیک حور ہر انسان کو خود سے دور مت کرو زندگی ایسے نہیں گزرتی وہ جب اپنا دائرہ تنگ کرنے پر آتی ہے تو اسکا بہت برا خراج وسول کرتی ہے”عرشمان نے اسے سمجھانے کی کوشش کی “مجھ سے بہتر اس خراج کی قیمت بھلا کون جان سکتا ہے” وہ خود پر ہنسی تھی۔کچھ دیر دونوں کے درمیان خاموشی چھائ رہی۔”تمہارا پاوں اب کیسا ہے؟”اس نے فکرمندی سے پوچھا”تمہیں اس سے اگر کوئ غرض ہوتا تو یوں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاتے”اسنے خفا ہوتے ہوئے کہا “اکیلے کہاں سب تھے تو عائشہ سمن اور حسن” وہ جانتا تھا اب اس کی ناراضگی ختم ہو چکی تھی تو وہ اسے ٹیز کرنے لگا۔”اوکے فائن دین بائے اسنے خفا ہوتے ہوئے کہا”پھر ایسا کیا کیا جائے کہ محترمہ مجھے معاف کر دیں “ویل تمہیں مجھے عائشہ سمن اور حسن کو لیٹ نائٹ آئسکریم کھلانے لے جانا پرے گا اور سب کو پک بھی تم ہی کرو گے”
عائشہ نے اسے بتایا تھا کہ وہ جلدی سونے کا عادی تھا۔ اور بامشکل ہی گیارہ بجے تک جاگ پاتا پھر ایک بجے ائسکریم کھلانا کسی معارکہ سر کرنے کے برابر تھا”اتنی لیٹ تو میرے فرشتے بھی نہیں جاگتے آئسکریم کھلانا تو دور کی بات حور سنو تو۔۔۔۔”مگر وہ دوسری طرف سے فون بند کر چکی تھی وہ سٹپٹا کر رہ گیا۔اور حور نے مسکراتے ہوئے فون سائیڈ پر رکھ دیا۔
**********************
کریسٹی کی برتھڈے میں صرف چار دن باقی رہ گئے تھے اور وہ اپنی تیاری میں کوئ کمی نہیں چاہتی تھی۔ ہاوس ڈیکورشن سے وہ پہلے ہی بات کر چکی تھی۔ جو ہفتے کی رات کو آکر پورا گھر سجانے والے تھے۔ استنبول میں انکے کوئ کلوز ریلیٹوز نہ تھے سو انہیوں نے خود ہی سب کچھ پلین کیا تھا۔ کیک وہ ہی آرڈر کر چکی تھی جسے کریسٹی نے اس دن پک کرنا تھا۔ باقی اسکا ڈریس وہ خرید چکی تھی اور اب اسے پریس کر رہی تھی جب کارڈلیس کے بجنے کی آواز سنائ دی۔
روم سے کارڈلیس پک کرنے کے بعد انہوں نے کال ریسیو کی”ہیلو مسز جوسیف کیسی ہیں آپ” دوسری طرف سے یہ آواز سن کف وہ سکتے میں آگئیں “ک۔۔ک۔۔کون بات کر رہا ہے؟” ان کی آواز لرزنے لگی۔دوسری جانب سے کہکا بلند ہوا”خیر یہ بات اہم نہیں ٹو دی پوائنٹ بات کرتے ہیں” اسنے سنجیدگی سے کہا”بولو”انہوں نے ناگواری سے کہا”تمہیں کیا لگا میں تم تک پہنچ نہیں پاوں گا میں لاسٹ ٹائم تمہیں وارن کر رہا ہوں ابھی وقت ہے سوچ لو اور وہ ایریا ہمارے ہوالے کردو ورنہ جانتی تو ہو تم مجھے”دوسری جانب وہ شخس کھلکھلا کر مسکرایا”وہ سب میری بیٹی کا ہے میں تمہیں اس سب پر قابض نہیں ہونے دوں گی اور نہ ہی مرتے دم تک تمہارے گھنونے عزائم پورے ہونے دوں گی”وہ چلائ تھی جبکہ دوسری جانب سے”سو decision از یورز “مسکراتے ہوئے فون آف کر دیا۔ایک سرد لہر انہیں چھو کر گزری
*****************