“ٹھک ٹھک ٹھک” دروازے پر دستک کی آواز سنائی دی تھی۔
“کم ان” مرتضٰی جو سیاہ پینٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا اس نے گردن کا ذرا سا رخ موڑ کر دروازے کی جانب دیکھا اور اندر آنے کی اجازت دے کر واپس سابقہ حالت میں کھڑا ہو گیا۔ نمرہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔
“سر! یہ لیں فائل جو آپ نے منگوائی تھی۔” نمرہ نے بڑے ادب سے کہتے ہوئیے فائل ٹیبل پر رکھی۔ مرتضٰی نے فقط سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ سارہ ہنسی دبائے ہر منظر کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر رہی تھی۔
“سنو!” نمرہ اب جانے کے لیے مڑ ہی رہی تھی جب مرتضٰی کی آواز ابھری۔ لہجہ آنچ دیتا ہوا سا تھا۔ نمرہ نے مڑ کر سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔ مرتضٰی اب رخ اسی کی جانب کیے اسے بغور دیکھ رہا تھا۔
“جانتی ہو تمہارے اس آفس میں پہلے دن آنے اور تمہیں ہائیر کرنے سے پہلے بھی میں نے تمہیں دیکھ رکھا تھا۔ روڈ پر ایک غریب آدمی کی مدد کرتے ہوئیے۔ اور تب ہی تم اس دل کو جچ گئ تھی۔ پھر انٹرویو کے دن بہت سے اور لوگ بھی تھے جو تم سے زیادہ ایجوکیٹڈ اور تجربہ کار تھے لیکن میں نے سب کو نظرانداز کر کے تمہیں چنا۔ کیونکہ میں تمہیں اپنی نگاہوں کے سامنے دیکھنا چاہتا تھا۔” مرتضٰی مسحورکن لہجے میں کہتا آگے بڑھتے ہوئیے اس کے نزدیک آ رہا تھا۔ نظریں نمرہ کے خوبصورت چہرے پر ہی ٹکی تھیں تبھی سامنے پڑی میز دیکھ نہیں پایا اور اس کا گھٹنا زور سے میز سے ٹکرایا۔
“آؤچ” وہ ایکٹنگ کرتے کرتے اچانک لگنے والی اس چوٹ پر تکلیف سے دہرا ہوا۔ جھک کر گھٹنا پکڑا۔ جبکہ نمرہ کے چہرے کے تاثرات بگڑے تھے۔
“مرتضٰی کے بچے! آنکھیں کیا ادھار دے کر آئے ہو کسی کو؟؟ ستیاناس کر دیا سین کا۔ سارہ تم تو کیمرہ بند کرو اب۔” نمرہ جھنجھلائ تھی جبکہ سارہ ہنس ہنس کر بے حال ہو رہی تھی۔
“تم نے ہی تو لکھا ہے کہ ہیرو یہ ڈائیلاگ بولتے ہوئیے ہیروئین کے چہرے کی طرف بغیر پلک جھپکے دیکھے گا۔ تو نیچے دیکھنے کا وقت کب ملتا پھر مجھے؟؟ اب تمہارے اس کباڑ خانے میں جو الم غلم رکھا ہے وہ ہیرو کے آفس میں نہیں ہو گا نا۔ ایک تو مجھ بے چارے کی ٹانگ تڑوا دی۔ اوپر سے لتاڑ بھی مجھے ہی رہی ہو۔” مرتضٰی تو گویا پچھتا رہا تھا نمرہ سے بات ماننے کا وعدہ کر کے۔
“اچھا اب زیادہ ڈرامے مت کرو۔ اور شروع سے بولو سارے ڈائیلاگ۔” نمرہ نے ہاتھ جھلایا جیسے مرتضٰی کی تکلیف کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔
“ظالم لڑکی!” وہ بڑبڑایا تھا۔ پھر میز کو ایک طرف کرتے ہوئیے واپس کھڑکی کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔
“ہر روز آفس آتے ہی تمہیں دیکھنا میرا معمول بن گیا۔ میرے دن حسین ترین ہونے لگے۔ تمہیں دیکھ کر ہی میں جینے لگا۔ بہت بار سوچا کہ اظہار کر دوں لیکن ہر بار ہمت ہار جاتا۔” مرتضٰی پرانے سارے ڈائیلاگ بول کر اب آگے سے سین جاری رکھتے ہوئیے نمرہ کے قریب آیا۔ وہ جیسے جیسے نمرہ کی طرف بڑھ رہا تھا نمرہ پیچھے ہٹتی چلی گئ۔ لیکن پھر نمرہ کی پشت دروازے سے جا لگی تھی۔
“لل۔۔۔ لیکن سر۔۔۔ مم۔۔۔ میں تو انگیجڈ۔۔۔۔” نمرہ کے لب پھڑپھڑائے۔آنکھوں میں حیرت کے ساتھ ساتھ وحشت بھی تھی۔
“شششش۔۔۔” مرتضٰی نے اس کے بالکل قریب آتے ہوئیے ایک ہاتھ دروازے سے ٹکایا اور دوسرے ہاتھ کی انگلی اس کے ہونٹوں پر رکھی۔ “آج کہہ لینے دو مجھے رانیہ۔۔۔ اقرار کر لینے دو کہ یہ جہانزیب ہمدانی تمہارے عشق میں بری طرح سے گرفتار ہے۔ مرتا ہے تم پہ۔ تمہارے بنا جی نہیں سکتا۔ تمہیں دیکھ کر ہی اسے سانس آتی ہے۔ تم اس دل میں دھڑکن بن کر دھڑکتی ہو۔ یہ دیکھو۔۔۔ ہاتھ رکھو میرے دل پر۔۔۔ محسوس کرو اسے یہ صرف تمہارے نام کی مالا جپتا رہتا ہے۔۔۔ ” مرتضٰی نے نمرہ کا ہاتھ تھام کر اپنے دل کے مقام پر رکھا تھا۔
“جب سے تم ملی ہو نا مجھے، یہ دنیا رنگین لگنے لگی ہے۔ تمہارا آنا یوں ہے جیسے میری ذندگی میں بہار آ گئ ہو۔ تم سے۔۔۔” مرتضٰی اب ناول کے سین کے عین مطابق نمرہ کے رخسار کو چھوتی لٹ کو اپنی انگلی پر لپیٹتا کھویا کھویا سا بول رہا تھا جب نمرہ کی کراہ پر ہڑبڑایا۔
“اف اللّہ! ایڈیٹ میرے بال چھوڑو۔۔۔” نمرہ اپنے بالوں کی لٹ پکڑے چلائی تھی۔ شاید بالوں کی لٹ لپیٹتے ہوئیے زور سے کھنچ گئ تھی۔ مرتضٰی نے سٹپٹا کر اس کے بالوں کے بل اپنی انگلی سے آزاد کیے۔
“کس قدر ڈفر ہو تم! ایک بالوں کی لٹ نہیں لپیٹی جاتی تم سے انگلی پر۔ ہیرو کی ایکٹنگ کیا خاک کرو گے تم۔۔۔؟؟ ویسے تو بڑے پھنے خان بنے رہتے ہو، ہر وقت اپنی پڑھائ کا، اونچی ڈگریوں کا رعب جھاڑتے رہتے ہو دوسروں پر۔ آتا جاتا کچھ ہے نہیں تمہیں۔” نمرہ غصے سے سرخ پڑتے ہوئیے طنز کے تیر چلانے لگی تھی۔
“ارے! یہ لٹ لپیٹنے سے بات ڈگریوں تک کیسے پہنچ گئ ہاں؟؟ محترمہ ہمارے اساتذہ ہمیں اسکول و کالج میں یہ نہیں سکھاتے تھے کہ لڑکیوں کے بالوں کی لٹیں انگلیوں پر کیسے لپیٹتے ہیں۔ جو کچھ انہوں نے ہمیں پڑھایا، سکھایا الحمدللّہ سب آتا ہے مجھے۔ اور ہاں مجھے سے نہیں ہوتی یہ ایکٹنگ۔ بندہ پوچھے بات کرنی ہے تو سیدھے اور صاف طریقے سے کرو بھلا یہ بال انگلی پر لپیٹنے کی کیا تک بنتی ہے؟؟ نہیں مطلب ہیرو آخر یہ سب چونچلے کیوں کرتے ہیں؟؟ ہیروئین کو بالوں سے پکڑ کر گھمانے کا ارادہ ہوتا ہے کیا ہیرو کا۔ اور پھر دل پر ہاتھ رکھ کر محسوس کرو جو ہر وقت تمہارے نام کی مالا جپتا رہتا ہے۔ تف ہے ایسے واہیات سینز اور ڈائلاگز پر۔ دل نہ ہو گیا کوئی ٹیپ ریکارڈر ہو گیا۔” مرتضٰی جھلا کر رہ گیا تھا ان سب ڈرامے بازیوں پر۔۔۔
“انتہائ کھڑوس اور جلاد ہو تم مرتضٰی! تم جیسے نکمے شخص کو کیا پتا رومینس کہتے کسے ہیں۔ قسم سے جو لڑکی تمہارے متھے لگ گئی نا ساری عمر روئے گی کہ اس کے شوہر کو ایک رومینٹک ڈائیلاگ تک بولنا نہیں آتا۔” نمرہ نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔
“او بی بی! مجھے نا تم معاف ہی رکھو ایسے فضول ترین رومینس سے۔ اگر میری بیوی نے ایسی بال انگلی پر لپیٹنے کی فرمائش کی نا مجھ سے تو رکھ کے دو لگاؤں گا اسے اور انہی بالوں سے گھما گھما کر دیوار سے ماروں گا اسے جب تک اس کی عقل ٹھکانے نہ آ جائے۔ بلکہ میں تو اسے گنجی ہی کر دوں گا۔ پھر ساری عمر ایسی فرمائش نہیں کرے گی۔” مرتضٰی بھی ہتھے سے اکھڑ گیا تھا تبھی بنا سوچے سمجھے بول گیا۔
“ہاں! تم تو بس مارنے پیٹنے میں ہی ماہر ہو۔ ولن ہو پورے ولن۔ ہیرو کا رول تمہیں ملنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اس سے اچھا تھا میں سارہ کو اپنا ہیرو بنا لیتی۔”نمرہ نے منہ کے زاویے بگاڑے۔
“ہاں میں نے مارنے کی صرف ایک بات کیا کر دی میں ولن ہو گیا۔ اور تمہارے ناولز کے وہ ہیرو کیا کرتے ہیں؟؟ بیلٹ سے مار مار کر چمڑی ادھیڑ دیتے ہیں لڑکی کی، دیوار سے اس کا سر ٹکرا ٹکرا کر اس کا پورا وجود خون سے تر کر دیتے ہیں، کبھی سگریٹ سے جلا رہے ہوتے ہیں جناب تو کبھی اٹھا اٹھا کر نیچے پٹخ رہے ہوتے ہیں جیسے لڑکی نہ ہو گئ میلے کچیلے کپڑے ہو گئے جو دھوبی کے ہتھے چڑھ گئے ہیں۔ لیکن نہیں جی! یہ سب کر کے بھی وہ ہیرو ہی رہتے ہیں اور ان کی وہ ہیروئینیں۔۔۔ اللّہ معاف کرے ایسی ستی ساوتری کہ اف تک نہیں کرتیں۔ پانچ منٹ پہلے ہیرو اس کی چھتر پریڈ کر کے جاتا ہے اور وہ فوراً اٹھ کر کچن میں جاتی ہیں، ہیرو کے لیے بڑے پیار سے کھانا وانا بنا رہی ہوتی ہیں، پھر ہیرو کے آنے پر معافی بھی خود مانگ رہی ہوتی ہیں اور ہیرو کو پروٹوکول ایسے دیا جاتا ہے جیسے بڑا ہی کوئی نیکی کا کام کیا ہو اس نے۔ قسم سے میرے ہاتھ لگ جائیں ایسے ہیرو ہیروئین میں تو چوک میں الٹا لٹکا کر سو سو کوڑے رسید کروں دونوں کو۔ مطلب حد ہو گئ ہے۔ ہیرو اور ولن میں کوئی فرق ہی نہیں رہ گیا اب۔ ” مرتضٰی تو بھنا اٹھا تھا تبھی جو منہ میں آیا بولتا چلا گیا۔
“تم سے کتنی مرتبہ کہا ہے کہ میرے ناولز اور ان کے ہیروز کو کچھ مت کہا کرو۔ تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی میری بات؟؟” نمرہ دونوں ہاتھ کمر پر ٹکائے لڑاکا عورتوں کی طرح چلائ جیسے مرتضٰی کا سر ہی پھاڑ ڈالے گی۔
“بچو! کہاں ہو؟؟ سب جلدی سے نیچے آ جاؤ۔ کھانا لگ گیا ہے۔” مرتضٰی کی مما کی آواز سنائی دی تھی۔ چھٹی کا دن تھا آج اور ہر چھٹی کے دن گھر کے سب افراد ناشتہ، لنچ اور ڈنر ایک ساتھ کرتے تھے۔
“چلو یار! یہ لڑنا چھوڑو۔بہت بھوک لگ رہی ہے۔ کھانا کھا لیں چل کر پھر آ کر کنٹینیو کریں گے۔۔۔” سارہ نے موبائیل نمرہ کو تھمایا۔
“چلو۔ نمرہ کو تو جانا نہیں ہو گا۔ ہم دونوں کا دماغ جو کھا لیا ہے آج اس نے۔شکر ہے جان خلاصی ہوئی۔” مرتضٰی جاتے جاتے بھی طنز کرنے سے باز نہیں آیا تھا۔
“تم زیادہ خوش مت ہو جان چھوٹنے پر۔ کھانا کھا کر پھر یہیں آنا ہے۔ یہ سین تو تم ٹھیک سے کر نہیں پائے۔ اب دوسرا سین ٹرائے کریں گے۔” نمرہ نے اس کا لمحہ بھر کا سکون بھی چھین لیا تھا۔
“میں کوئی نہیں آؤں گا واپس۔ ویسے بھی سعد صبح سے میرا ویٹ کر رہا ہے۔” مرتضٰی نے اپنے دوست کا حوالہ دیا۔ چھٹی کا دن وہ اکثر ساتھ گزارتے تھے لیکن آج نمرہ اسے گھر سے ہلنے ہی نہیں دے رہی تھی۔
“اچھا! مجھے انکار کرنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ نیچے ڈائننگ ہال میں تایا ابا بھی بیٹھے ہوں گے لنچ کے لیے۔ اگر میں نے ان سے تمہاری شکایت لگا دی نا تو پھر اس بار کم از کم ہفتہ تو ضرور ہی سعد کے ساتھ اس کے گھر گزارنا پڑے گا تمہیں۔باقی تمہاری اپنی مرضی ہے۔ جو دل چاہے کرو۔” نمرہ نے کندھے اچکاتے ہوئیے کہہ کر کمرے کی دہلیز پار کی۔
“ایک تو اس گھر کا ہر فرد ہی بلیک میلر ہے۔ یااللّہ! کہاں پھنس گیا میں۔۔۔” مرتضٰی دہائ دیتے ہوئیے پیر پٹختا ان دونوں کے پیچھے چل دیا۔
“دیکھو! اب جو سین میں تمہیں بتا رہی ہوں نا وہ بہت آسان ہے۔ اب کوئی گڑبڑ مت کرنا سمجھے۔ ” نمرہ نے نہ جانے کتنی بار یہ تاکید کر دی تھی مرتضٰی کو۔
“اچھا میری ماں! اب سین سمجھاؤ۔ اور ذرا جلدی کرو مجھے کسی کام سے جانا ہے۔” مرتضٰی اکتا گیا تھا اس کی ان بے وقوفانہ حرکتوں سے۔
“سین یہ ہے کہ شادی والا گھر ہے، ہماری کزن کی مہندی کی رات ہے۔ تمہارا نام سکندر ہے اور میرا نام آبگینے۔۔۔ تم نے مجھے تیار شیار ہوئیے دیکھ لیا ہے اور چونکہ تم مجھے پہلے سے پسند کرتے ہو اس لیے چپکے چپکے میری طرف دیکھتے ہوئیے مجھ سے بات کرنے کا بہانہ تلاش کرتے ہو لیکن میں تم سے بات کرنے سے انکار کر دیتی ہوں۔ پھر اگلے سین میں میں کسی کام سے راہداری میں جا رہی ہوتی ہوں تو تم ایک کمرے کے دروازے سے ہاتھ بڑھا کر میری کلائ تھام کر مجھے اندر کھینچو گے اور مجھ سے محبت کا اظہار کرو گے۔ یہ سارے ڈائیلاگ لکھے ہیں۔ اچھی طرح سے پڑھ لو۔” نمرہ نے ایک اور ناول کا سین اسے سمجھاتے ہوئیے رجسٹر اس کے سامنے کیا۔
“شادی والا گھر کہاں سے لائیں اب؟؟” مرتضٰی ایک نئ سوچ میں پڑ گیا۔
“اوہو۔۔۔ امیجن کر لو نا۔ ” نمرہ نے ناک چڑھائ جیسے مرتضٰی کی کم عقلی پہ ماتم کر رہی ہو۔
“نہیں میرے کرتا اور شلوار پہننے پہ تو تم نے امیجن نہیں کیا تھا اور زبردستی ڈریس چینج کروا کے پینٹ شرٹ پہنائ تھی۔ تو اب کیسے امیجن کر لو گی؟؟میں تو کہتا ہوں کسی شادی کا انتظار کر ہی لو۔ وہیں یہ سین بھی شوٹ کر لیں گے۔” مرتضٰی آج بڑے طنزیہ جملے کس رہا تھا۔ نمرہ نے خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھا۔
“تم نا اپنے ننھے سے ذہن پہ زیادہ زور مت دیا کرو اور نہ ہی اپنی زبان کو اتنی زحمت دیا کرو۔ جتنا کہا ہے اتنا کرو بس۔” نمرہ کا لہجہ حکمیہ تھا۔ مرتضٰی منہ ہی منہ میں نہ جانے کیا بڑبڑانے لگا۔
کچھ ہی دیر بعد نمرہ ایک جانب میز کے سامنے رکھی کرسی پر اکیلی بیٹھی تھی۔ جب کسی کے گلا کھنکارنے کی آواز سنائی دی۔
“ایکسکیوزمی۔۔۔” مرتضٰی نے گلا کھنکارنے کے بعد نمرہ کو پکارا
“سکندر! تم یہاں؟؟” وہ حیران ہوتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
“جی وہ۔۔۔ نگینے مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔ آپ تھوڑا سائیڈ پر آ سکتی ہیں؟؟” مرتضٰی آنکھوں میں بھرپور اعتماد لیے نمرہ کو دیکھ رہا تھا جبکہ اس کی بات پر نمرہ اسے کڑی نگاہوں سے گھورنے لگی۔ سارہ ساتھ ساتھ سب کچھ ریکارڈ کرتی جا رہی تھی۔
“اب کچھ بولو بھی۔ تمہاری باری ہے ڈائیلاگ بولنے کی۔” مرتضٰی چند پل تو اس کے بولنے کا انتظار کرتا رہا لیکن جب نمرہ کی خاموشی نہیں ٹوٹی تو وہ جھنجھلا اٹھا۔
“ایڈیٹ! ہیروئین کا نام آبگینے ہے، نگینے نہیں۔ پہلے ڈائیلاگ پر ہی بیڑا غرق کر دیا تم نے۔ آگے کیا خاک بولوں میں۔” نمرہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مرتضٰی کا گلا دبا دے۔ جبکہ مرتضٰی سٹپٹا سا گیا۔
“وہ۔۔۔ سوری نگینے۔۔۔ مم۔۔۔ میرا مطلب آبگینے۔۔۔ یار ایک تو تم لوگوں کے ناولز میں کرداروں کے نام ہی اتنے عجیب و غریب ہوتے ہیں جیسے وہ پتا نہیں کونسے سیارے کی مخلوق ہیں۔ کوئی آسان نام نہیں ملتا تمیاری رائیٹرز کو کیا؟ اتنے مشکل نام رکھو گے تو میرے جیسے معصوم کو کیسے یاد رہیں گے پھر نام۔۔۔” مرتضٰی نے اپنی صفائ پیش کرنی چاہی تھی۔
“دفع ہو جاؤ یہاں سے۔” نمرہ غرائ تھی۔ ساتھ ہی اسے کمرے سے جانے کا اشارہ کیا تھا۔
“اچھا سوری یار! دوبارہ ٹرائ کر لیتے ہیں۔ ” مرتضٰی کو معلوم تھا اب وہ پھر سے منہ بنا کر بیٹھ جائے گی اور سارا الزام اس پر آ جائے گا تبھی اسے منانے کی کوشش کی۔
“تم۔۔۔ میں تم سے کہہ رہی ہوں نکل جاؤ ہمارے کمرے سے۔ جاؤ تم اپنے اس نکمے دوست کے پاس جو تمہیں۔۔۔۔ آؤچ۔۔۔ ” نمرہ غصے سے اسے باہر نکالنے کو آگے بڑھی تبھی بے دھیانی میں اس کا پیر رپٹا تھا۔ وہ لڑکھڑائ اور دھڑام سے نیچے گر گئ۔ برا یہ ہوا کہ گرنے سے پہلے وہ سارہ سے ٹکرائ تھی۔ سارہ کے ہاتھ سے نمرہ کا فون چھوٹ کر دیوار سے جا لگا اور اس کی اسکرین چکنا چور ہو گئ۔ بے چاری سارہ اب نمرہ کے نیچے تھی اور نمرہ اس کے اوپر۔ اور دونوں کراہ رہی تھیں جبکہ یہ منظر دیکھ کر مرتضٰی سے اپنی ہنسی پر قابو پانا محال ہونے لگا تھا۔
“خس کم جہاں پاک۔۔۔ اب دیکھتا ہوں نمرہ بی بی تمہیں فون کون لے کر دیتا ہے۔ اور کیسے تم ناولز پڑھ پڑھ کر گھر والوں کا جینا حرام کرتی ہو۔ شکر ہے میری تو جان چھوٹی۔ بارہ نوافل شکرانے کے ادا کروں گا میں۔” مرتضٰی نے نمرہ کے ٹوٹے فون کو دیکھ کر دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا پھر فقط انہیں دکھانے کے لیے آگے بڑھ کر انہیں اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔