اپنے شوق کو دل میں دبائے، کورس کی خواہش کو مار کر اس نے انٹرن شپ شروع کی تھی۔ وہ ابھی اس حالت میں نہیں تھا کہ ابا جی کے خلاف جا سکتا وہ جانا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اسے ان کی دعاؤں کے سائے میں ہر کام کرنا تھا۔ اس نے خود کو تسلی دی کہ آج کا دور انٹرنیٹ کا دور تھا۔ یوٹیوب یا گوگل پہ ہر شخص کے مزاج کے مطابق سیکھنے اور سمجھنے کے لیے سب کچھ میسر تھا۔ وہ سیکھنے کے لیے بہت سے لوگوں کو سامنے رکھ سکتا تھا۔ اور اسے اب یہی کرنا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
“یہ کچھ جلنے کی بو نہیں آ رہی؟” شازیہ کمرے سے نکلیں تو کچن سے آتی جلنے کی بو ان کے ناک سے ٹکرائی تھی۔
“اوئی اماں۔۔!” آئی پیڈ پہ کسی وڈیو سے لطف اندوز ہوتی اقدس کو کچھ یاد آیا وہ اچھل ہی پڑی تھی۔ آئی پیڈ بھی گرتے گرتے بچا تھا۔
“ہائے اللہ جل گیا۔۔۔ پھر میرا کیک جل گیا۔” اوون کا دروازہ کھولا اندر سے ہلکا ہلکا دھواں نکلنے لگا۔ اس نے کیک کا سانچہ نکال کر شیلف پہ پٹخا اور وہیں منھ بنا کر کھڑی ہو گئی تھی، قریب تھا کہ رو ہی پڑتی۔
“آج کیا تم نے ڈارک چاکلیٹ کیک بنایا تھا؟” چھوٹی بہن اریبہ نے کیک پہ نظر ڈالی اور شرارت سے چہکی۔
“ہاں۔! خاص تمھارے لیے ہی بنایا تھا ڈارک چاکلیٹ کیک۔۔۔ ٹھونس لینا۔” ہاتھ میں پکڑی صافی اریبہ کے ہاتھ میں گراتے وہ بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی
“پتا نہیں میرا ہی کیک کیوں ہر بار خراب ہو جاتا ہے؟ اس سبکتگین کے بچے کو پھر موقع مل جائے گا مجھے باتیں سنانے کا۔ کہ یہ بیکنگ کرنا میرے بس کی بات ہی نہیں۔ ہونہہ۔۔! سمجھتا کیا ہے خود کو۔۔ میں اس سے اچھا کیک بیک کر سکتی ہوں۔” کسی خیال کے تحت وہ جہاں تھی وہیں رک گئی۔ اس کا ماتھا ٹھنکا، اریبہ کچن میں تھی جو سبکتگین کی چمچی تھی۔ وہ واپس کچن میں بھاگی جہاں اریبہ جلے ہوئے کیک کو پلیٹ میں نکال کر اس پہ تین نقلی اسٹرابیریاں سجائے مختلف زاویوں سے اس کا فوٹو سیشن کرنے میں مصروف تھی۔
“یہ کیا کر رہی ہو تم!؟” اقدس چیل کی طرح کیک پہ جھپٹی تھی لیکن اریبہ کی پھرتی اس سے کہیں زیادہ قابل دید تھی۔ وہ کیک اٹھا کر کچن کے دوسرے دروازے سے، جو گھر کے پچھلی جانب کھلتا تھا،باہر بھاگ گئی تھی۔
“اریبہ کی بچی۔! میں کہہ رہی ہوں تم سے واپس آ جاؤ۔۔ اور یہ کیک مجھے دے دو۔” مگر اریبہ اسے زبان چڑاتی رہی۔ اس کا رخ مرکزی دروازے کی طرف تھا۔ جہاں سے وہ سامنے سڑک پار کرکے خالہ کے گھر جانے کا سوچ رہی تھی۔ وہ اسے یونہی تنگ کیا کرتی تھی۔ اقدس پاؤں پٹختی، ماں کو آوازیں دیتی واپس مڑ گئی تھی۔
“اماں! دیکھیں اس اریبہ کی بچی کو۔ وہ جلا ہوا خراب کیک اٹھا کر فوزیہ خالہ کے گھر جا رہی ہے۔” فوزیہ اور شازیہ دونوں سگی بہنیں اور آپس میں دیورانی جیٹھانی بھی تھیں۔ گھر آمنے سامنے تھے۔
“تو کیا ہو گیا اقدس؟ بالفرض اگر وہ کیک تمھاری خالہ کے گھر لے کر چلی بھی گئی تو کیا ہو جائے گا؟” شازیہ نے اس کے اچھلنے کودنے اور چیخنے چلانے پہ زیادہ غور نہیں کیا تھا۔ وہ قمیص کاٹنے کے لیے کپڑے کا حساب کتاب کر رہی تھیں۔ ان کا سارا دھیان اسی طرف تھا۔
“اماں وہ۔۔” شازیہ نے ذرا کی ذرا نظر اٹھا کر بیٹی کو دیکھا، گویا اس کی بات سمجھ رہی ہوں۔
“اماں وہ سبکتگین مذاق اڑاتا ہے۔”
“وہ کب تمھیں کچھ کہتا ہے بھلا؟” قینچی ہاتھ سے رکھتے انھوں نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
“الٹا تم ہی اپنے تایا ابا کے ساتھ مل کر اسے تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔”
“اس گھر میں تو سارے ہی اس کے طرف دار اور حمایتی ہیں۔ میری تو کوئی سنتا ہی نہیں ہے۔” مظلومیت کا شاہکار بنی، وہ خفگی سے کہتی کرسی پہ بیٹھ گئی۔
“تمھاری حمایت کرنے کے لیے بھائی جی ہیں۔ ان کی حمایت ہم سب کی حمایت پہ بھاری ہے۔” وہ دوبارہ کپڑے کی طرف متوجہ ہوئیں۔ جبکہ اقدس ان کی بات پہ خوشی سے چہکی تھی۔
“آاھا۔! یہ تو آپ نے خوب یاد دلایا اماں۔! خالہ بتا رہی تھیں کہ سبکتگین نے تایا جان سے لاہور جانے کی اجازت مانگی تھی انھوں نے نہیں دی۔” ایک ہاتھ کے ناخن، دوسرے ہاتھ سے کریدتے، اس نے بات شروع کی۔
“ہاں۔! بتا تو رہی تھی فوزیہ کہ بھائی جی نے منع کر دیا۔ کیا جاتا بھائی جی کا؟ اگر وہ مان جاتے؟ بچے کا شوق تھا۔ اب ہر جگہ بھی تو آپ اپنی مرضی بچوں پہ ٹھونس نہیں سکتے۔”
“اچھا کیا تایا ابا نہیں مانے، یہ بھی بھلا کوئی تک ہے کہ شیف بننا ہے۔ ہونہہ۔۔۔” وہ پوری طرح شاہد کی حمایتی تھی۔ وہ بھی سبکتگین کے اس شوق سے چڑتی تھی۔ اور اپنے تایا ابا ہی کی ہمنوا تھی۔ شازیہ نے اس کی بات پہ کوئی تبصرہ نہیں کیا بس اپنی ہی بتائے گئیں۔
“اب انٹرن شپ کے لیے ایک دو کمپنیوں سے بلاوا آیا تو ہے۔ شاید اسی لیے اتنے دن سے اس نے چکر نہیں لگایا۔” انچی ٹیپ سے کپڑا ماپتے ان کا دھیان کپڑے ہی کی طرف تھا۔
“مصروفیت نہیں ہو گی اماں! شرمندگی ہو گی کہ تایا ابا سے اپنی بات منوا نہیں پایا۔” شرارت سے کہہ کر وہ اپنے گورے اور نازک ہاتھوں کو سامنے پھیلا کر ناخن دیکھنے لگی۔ جبکہ شازیہ نے کام چھوڑ کر بیٹی کو گھورا۔
“شرمندگی کی اس میں کیا بات ہے؟ ہنر ہے اس کے پاس، اور ذائقہ بھی ہے اس کے ہاتھ میں، کم از کم تم سے لاکھ درجے زیادہ۔ شرمندہ تو تمھیں ہونا چاہیے کہ لڑکی ذات ہو کر کھانا بنانا نہیں آتا۔” باتوں باتوں میں شازیہ نے اس کے بھی خوب لتے لیے تھے۔
“کیا اماں! اب آپ مجھے کیوں سنا رہی ہیں؟” وہ جزبز ہوئی
“سناؤں نہیں تو اور کیا کروں؟ خدا گواہ ہے کہ تم جیسی پھوہڑ لڑکی پورے خاندان میں نہیں ہو گی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ایک انڈا تک ابالنا نہیں آتا تمھیں۔” کپڑے پہ چلتی قینچی اور ان کی زبان، دونوں ہی کے جوہر قابل دید تھے۔
“اماں بی ایس اردو کرنا خالہ جی کا گھر نہیں ہے۔ اتنی مشکل پڑھائی ہے اور۔۔۔”
“ہاں ہاں پڑھتی تو جیسے تم ہی ہو۔ تمھاری عمر میں سارا گھر سنبھال رکھا تھا ہم دونوں بہنوں نے، ان وقتوں کا بی اے، تمھارے آج کے اس بی ایس کے آگے کچھ بھی نہیں۔” کٹا ہوا کپڑا سمیٹ کر رکھتے ہوئے شازیہ نے آج اس کی خوب خبر لی تھی۔
“سبکتگین نے ایم بی اے پاس کیا اچھے نمبرز کے ساتھ، اور پھر بیکنگ میں بھی دیکھو کتنا ماہر ہے۔ ایک ہماری اولاد ہے، بس باتیں کروا لو جتنی مرضی۔”
“امی اسے تو شوق ہے بیکنگ کرنے کا، اسی لیے ماہر ہو گیا ہے۔ اور میں بھی مہینے میں ایک آدھ بار کوشش تو کرتی ہی ہوں کیک بنانے کی۔” اس نے کچھ دیر پہلے کی کوشش یاد کی تھی۔
“اور ایک آدھ کوشش بھی کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔” شازیہ نے جل کر کہا
“خدا بھلا کرے تمھارا اقدس۔۔ بیکنگ کو چھوڑو، اور کھانا بنانا سیکھو۔ کل کو سسرال جا کر میری ناک مت کٹوا دینا۔” کپڑے اور دیگر چیزیں سمیٹ کر اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔
“سسرال کا مت کہا کریں امی۔۔۔”وہ جھنجھلا کر بولی اسے ہمیشہ سے سسرال کا طعنہ برا لگتا تھا۔
“کھانا بنانا تو سب کو آ جاتا ہے۔ میں بیکنگ سیکھوں گی بس۔” ضدی لہجے میں کہتی کھڑی ہوئی تھی۔
“سبکتگین کی ضد میں سیکھنا چاہتی ہو تو کبھی نہیں سیکھو گی۔ ہاں اگر اس سے مدد لے لیا کرو تو شاید سیکھ جاؤ۔” شازیہ کو اپنا بھانجا بہت عزیز تھا۔
“مجھے نہیں سیکھنا اس سے ورنہ تایا ابا کہیں گے کہ میں ان کی حریف ہو گئی اور وہ بھی خود کو کوئی توپ شے سمجھے گا، اگر میں اس کی شاگرد بن گئی تو۔۔!” ان دونوں میں بچپن ہی سے یہ چھوٹی موٹی نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔
“بھائی جی تو خواہ مخواہ کی ضد لگا کر بیٹھے ہیں۔ خیر ابھی نہیں مانے تو کچھ عرصے بعد مان جائیں گے۔ اچھا اب تم چل کر کچن سے اپنا پھیلاوا سمیٹو، اور آٹا گوندھو۔” انھوں نے گفتگو سمیٹی اور اقدس کو کام بتائے وہ برے برے منھ بناتی کچن میں چلی گئی کہ بہرحال جو بھی تھا اپنے حصے کا کام تو اسے ہی کرنا تھا۔
“بیکنگ کرنا بےشک مزے کا کام تھا لیکن اس سے ہونے والا پھیلاوا، گندے برتنوں کا ڈھیر اور الا بلا۔۔۔” وہ سنک میں برتن جمع کرتے سوچنے لگی:
“پتا نہیں سبکتگین اس سب سے اکتاتا کیوں نہیں ہے؟ میں بھی شوق سے بیکنگ کروں اگر یہ پھیلاوا کوئی اور سمیٹ دیا کرے۔”برتن دھونے اور آٹا گوندھتے ہوئے وہ یہی سوچتی رہی تھی۔ کام سے تو ویسے ہی اس کی جان جاتی تھی۔ لیکن امی کا ہاتھ تو بہرحال بٹانا ہی پڑتا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
انٹرن شپ کے بعد جلد ہی اسے ایک اچھی کمپنی میں نوکری کی پیشکش ہوئی تھی۔ عہدہ اچھا تھا۔ لگن سے کام کرتا تو ترقی بھی جلدی ممکن تھی۔ لیکن وہ اپنے دل کا کیا کرتا جو اپنی بیکری بنانے کے لیے اتاؤلا ہوا جا رہا تھا۔ ابا جی کے راضی ہونے کے تا حال کوئی اثرات دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ایسے میں اس کے دوست نجیب نے اسے سمجھایا:
“دیکھو سبکتگین! چچا جان (اس کے ابا جی) کو راضی کرنے کی کوشش فی الحال ترک کر دو۔۔” ان دونوں کا گھر شہر سے قدرے ہٹ کر مضافاتی علاقے میں تھا۔ راستے میں ایک چھوٹی سی ندی بہتی تھی جس کے کنارے پڑے دو پتھروں پہ، نجیب اور وہ ہاتھ میں آم کے جوس کی بوتلیں لیے بیٹھے تھے۔ اکتوبر کے مہینے کا آغاز ہی تھا۔
“ابھی تم اس نوکری کو اوکے کرو اور دھیان اسی کام پہ لگاؤ۔۔”
“لیکن نجیب۔!” جوس کا ایک گھونٹ بھرتے اس نے بات کرنا چاہی لیکن نجیب نے روک دیا:
“پہلے تحمل سے میری بات سنو! دیکھو بیکری بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ چاہیے۔ جگہ ہونی چاہیے پھر اچھا خاصا سامان اور ملازم، سب سے ہٹ کر لوگوں کو اپنے کام سے مطمئن کرنا۔۔۔” اس کی بات تو دل کو لگتی تھی۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...