کاٹن کی آف وائٹ آدھی آستینوں کی شرٹ پر براؤن جینز میں ملبوس افہام حیدر نے سلمان منزل کے بیرونی گیٹ کے سامنے جا کر اپنی کار کا ہارن بجایا۔ماتھے تک ہاتھ لے جا کر اسے سلام کرتا چوکیدار گیٹ کھولنے لگا ۔اسنے کار اندر پورچ تک لے جا کر روکی۔شرٹ کے کندھے سے نادیدہ شکن دور کرتا ہوا وہ کار سے باہر آیا۔اسنے کار کے پچھلے دروازے کو کھول کر سیٹ پر رکھا سرخ گلابوں کا ایک بڑا گلدستہ اور ایک چھوٹے سائز کا مخملیں ڈبہ باہر نکالا تھا۔گلابوں کو اپنے چہرے کے قریب لا کر اسنے اسکی دلفریب مہک اپنے اندر اتاری۔اندر تک سب کچھ معطر ہو گیا تھا ۔نیلے مخمل کے ڈبہ کو اپنی جینز کی جیب میں رکھتے ہوئے وہ پتھریلی روش عبور کرنے لگا۔آج اسکے قدم ہموار تھے اور چال میں خود اعتمادی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔چہرے سے تھوڑا سا جوش اور تھوڑی گھبراہٹ بیک وقت ظاہر ہو رہی تھی ۔اسنے کل ہی سلمان ماموں کو فون کر کے کہا تھا کہ وہ ان سے ملنا چاہتا ہے ۔جواباََ انہوں نے اسے ڈنر پر مدعو کر لیا تھا ۔انہوں نے اشاروں کنایوں میں اسے قبولیت کا عندیہ بھی دے دیا تھا۔اس لحاظ سے آج بس ایک رسمی کارروائی تھی۔ایک رسم کہ انابہ سلمان، افہام حیدر کی زندگی بن سکتی ہے ۔ایک علامت کہ افہام حیدر کے برسوں پہلے دیکھے گئے خواب کی تکمیل ہونے والی تھی۔وہ جھجھکتا داخلی دروازے تک آیا اور اندر جانے کی بجائے کال بیل پر انگلی رکھ دی۔اسے انتظار نہیں کرنا پڑا اور یونیفارم میں ملبوس ملازمہ نے دروازہ کھول دیا تھا۔وہ اسکی رہنمائی میں عالیشان ڈرائینگ روم میں داخل ہوا جہاں ماموں اسکا انتظار کر رہے تھے ۔
“آؤ افہام! تمہارا اپنا ہی گھر ہے۔” انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔وہ دھیمے سے مسکراتا سینٹر صوفے تک آیا۔بیٹھنے سے پہلے اسنے سرخ گلابوں کا مہکتا گلدستہ میز پر رکھ دیا اور پھر بیٹھ گیا ۔
“ممانی کہاں ہیں؟” اسنے اپنے اطراف میں دیکھتے ہوئے پوچھا ۔اسکی متلاشی نگاہیں انابہ کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔
” وہ آج اپنی نگرانی میں تمہارے لئے شاندار سا ڈنر تیار کرا رہی ہیں ۔” انہوں نے بتایا تو وہ محض اپنا سر ہلا کر رہ گیا ۔اسے ماموں کا خود کو عزت دیا جانا اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔چند سال پہلے کی وہ شام اسے بھولی تو نہیں تھی۔آج کی طرح اُس دن بھی وہ انابہ کے لئے آیا تھا ۔انکی حقارت آمیز گفتگو اسے آج بھی یاد تھی۔آج بھی سب کچھ ویسا ہی تھا۔آج بھی وہ انابہ کا ساتھ مانگنے آیا تھا ۔آج بھی ماموں سے اسکا سامنا ہوا تھا ۔مگر کچھ بدلا تھا تو وہ افہام کا اسٹیٹس تھا۔آج انکا یتیم اور غریب بھانجا انکی بیٹی کے لئے سوالی بن کر نہیں آیا تھا جسے چار باتیں سنا کر وہ دھتکار چکے تھے ۔آج تو ڈی ڈی کمپنی کا سی ای او اور مستقبل کا ایک کامیاب انسان ان سے انکی بیٹی کا ساتھ مانگنے آیا تھا ۔تضحیک اور توہین تو افہام کے لئے تھی، سی ای او افہام حیدر کے لیے تو انکے پاس صرف اور صرف عزت و تکریم تھی۔
“کریم بھائی، بھابھی اور حمزہ کیسے ہیں؟ آبش کا امریکہ سے واپس آنے کا کیا پلان ہے؟” وہ اس سے معمول کے لہجے میں پوچھ رہے تھے جیسے وہ روز ان سے ٹیبل ٹاک کرنے انکے گھر آتا رہا ہو۔
“سارے لوگ ٹھیک ہیں ۔” اسنے اکتائے انداز میں جواب دیا ۔اسے ماموں کے رویے سے اب کوفت ہو رہی تھی ۔
” لو جوس پیو ۔”ملازمہ نے ٹھنڈا جوس اسکے آگے کب کا رکھ دیا تھا۔
” جی شکریہ ۔” اسنے کہا مگر گلاس کی طرف ہاتھ تک نہیں بڑھایا۔
“سالوں پہلے آپ نے میرے سامنے شرط رکھی تھی کہ جب تک میں انابہ کے قابل خود کو نا بنا لوں تب تک اس مقصد کے لئے اس گھر میں نا آؤں۔آپ کو یاد ہے نا؟ “اسنے سارے تکلفات اور رسمی باتوں کو سمیٹ کر انہیں یاد دلایا۔
” بھول گیا ہوتا تو تمہیں آج یہاں نہ بلاتا۔” انہوں نے کہا ۔
” وعدے کے مطابق میں آپ کے سامنے ہوں۔آپ دیکھ لیں کہ انابہ کے معیار کے مطابق ہوں یا نہیں؟ میرے پاس آج وہ سب کچھ ہے جسکے فقدان کی وجہ سے آپ نے مجھے انکار کیا تھا ۔آج میں انابہ کی خواہش اسکی زبان تک آنے سے پہلے پوری کر سکتا ہوں ۔”اسنے نیلے مخمل کا کیس نکال کر میز پر رکھا۔اسکا سفید چہرہ سرخ پڑ گیا تھا اور تنفس بہت تیز ہو گیا تھا ۔کہیں اندر وہ بہت خوفزدہ تھا کہ ماموں اسکے سامنے دوسری شرط نہ رکھ دیں. پہلی شرط پوری کرنے کے جنون میں اسنے اپنی بند مٹھی سے کون سی قیمتی چیز کھو دی تھی اسکا ادراک خود اسے بھی تھا۔سلمان نے ہاتھ بڑھا کر ڈبہ اٹھایا اور اسے کھولا۔سرخ یاقوت جڑی انگوٹھی دیکھنے والے کو خود کو اپنی قیمت بتا رہی تھی۔رِنگ دیکھتے ہوئے وہ زرا سا مسکرائے اور فخر سے اسکی جانب دیکھا جسکی آنکھیں سود و زیاں کا حساب کرنے میں مصروف تھیں ۔
“یہ میری بیٹی پر سوٹ کریگی۔” ڈبہ بند کرتے ہوئے انہوں نے کہا ۔
افہام کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔سالوں پہلے خریدے گئے اس بریسلٹ میں زیادہ محبت تھی، زیادہ کھرے جذبے تھے۔کروڑوں کی مالیت کی رِنگ نے ایک جھٹکے میں ان جذبوں کو بے مول کر دیا تھا۔
“آپ نے انابہ کو میرے آنے کے متعلق بتایا تھا؟” اسے اچانک خیال آیا۔
“ہاں میں نے بتا دیا تھا ۔”
“میرا مطلب ہے کہ آپ نے اس سے ہمارے رشتے کے تعلق سے کوئی بات کی تھی؟”
“اس کی تم فکر مت کرو۔اسکی اپنی کوئی پسند نہیں ہے اور کل ہی میرے پوچھنے پر اسنے انتخاب کا اختیار میرے ہاتھوں میں دے دیا ہے ۔”انہوں نے اسے تسلی دی مگر نہ جانے کیوں اسے اطمینان نہیں ہوا تھا ۔
” میں… میں انابہ سے مل لوں؟ “اسنے جھجھکتے ہوئے پوچھا ۔
” ہاں کیوں نہیں؟ بلکہ یہ رِنگ تم خود اسے دوگے تو اسے اچھا لگیگا۔پھر اس اتوار کو ہم شاندار سا ایک فنکشن کر لینگے۔”
انکے کہنے پر اسنے جھک کر نیلا مخملیں ڈبہ اٹھا کر جیب میں ڈالا اور ڈرائینگ ہال سے نکلتا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔پہلا کمرہ انابہ کا تھا۔دھڑکتے دل کے ساتھ اسنے دروازے پر دستک دی ۔کئی دستک دینے کے باوجود اسے جواب نہیں ملا تھا ۔وہ دروازے کا ہینڈل گھما کر اندر جانے ہی والا تھا کہ ایک ملازمہ اسکے قریب آئی.
“سر! میڈم ٹیرس پر ہیں اور میم نے کہا ہے کہ آپ دونوں ڈائیننگ ہال میں آ جائیں ۔”
“ٹھیک ہے میں اسے لے کر آ رہا ہوں ۔” وہ کہہ کر چھت پر جانے والی سیڑھیاں چڑھنے لگا تھا۔ماربل کی سیڑھیاں پھلانگتا وہ چھت تک آ گیا۔نیلی اور ٹھنڈی چاندنی نے اپنا خوبصورت آنچل پھیلائے وسیع ٹیرس پر بسیرا کر رکھا تھا ۔گملے میں لگے مختلف پھولوں کی خوشبو ٹھنڈی ہوا کے دوش پر سوار ہر سوٗ پھیل چکی تھی ۔اسنے اپنی آنکھوں میں اشتیاق کا جہاں آباد کئے اپنی نظریں دوڑائیں ۔دائیں جانب لگے جھولے پر وہ اسے بیٹھی نظر آ گئی تھی ۔چھت پر پھیلی چاندنی میں گویا جان پڑ گئی اور اسکی آنکھیں بے اختیار چمکیں۔آج ان آنکھوں کی چمک ستاروں کو مات دینے پر تلی ہوئی تھی ۔وہ آواز پیدا کئے بغیر، لبوں پر بے خیالی میں ابھرتی مسکراہٹ کو دبائے اسکے پیچھے جا کھڑا ہوا۔اسکا خیال تھا کہ وہ اسے بچپن کے دنوں کی طرح اسے پیچھے سے ڈرائیگا۔جس طرح بچپن میں اسے ڈرانے کی کوشش کرتا تھا۔وہ ڈرتی تو نہیں تھی بس اسکے ہاتھوں میں جو چیز ہوتی اس سے وہ اسے دے مارتی ۔مگر وہ اسکے ہاتھ میں موجود ایک تھینک یو کارڈ دیکھ کر چونک گیا ۔وہ کارڈ پکڑے اتنی محو تھی کہ اسے اپنے پیچھے بت بنے کھڑے افہام کی موجودگی کا احساس تک نہیں ہوا۔آہستہ سے اپنا سر جھٹک کر افہام گھوم کر اسکے سامنے آیا اور اسکے ساتھ ہی جھولے پر بیٹھ گیا ۔انابہ اسے دیکھ کر چونکی ۔
“اس طرح اکیلی کیوں بیٹھی ہو؟” اسنے اسکا بایاں ہاتھ اپنی نرم گرفت میں لیتے ہوئے پوچھا ۔انابہ نے جواباً خالی اور ویران نظروں سے اسے دیکھا ۔
“یونہی ۔” اسکے جواب میں بھی اتنا ہی خالی پن تھا ۔”بس نیچے بہت گھٹن محسوس ہو رہی تھی اسلئے ٹھنڈی ہوا کے لئے اوپر چلی آئی۔”وہ وضاحت کر رہی تھی۔مگر افہام اسے سن کہاں رہا تھا ۔وہ تو اسکا ہاتھ تھامے یک ٹک اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔اسکی آنکھیں بلا کی خوبصورت تھیں اور بے حد گہری سیاہ بھی۔مگر اس وقت اسکی آنکھوں کی خوبصورتی نے اسے اپنی جانب متوجہ نہیں کیا تھا۔اسکی آنکھوں میں عجیب سا جذبہ پنہاں تھا۔جیسے کچھ تھا جو چھن گیا تھا یا چھین لیا گیا تھا ۔اسکی سیاہ آنکھیں کبھی اتنی اداس اور ویران تو نہیں ہوا کرتی تھیں ۔ان آنکھوں میں کسی کھنڈر کی وحشت تھی۔
“ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟” انابہ نے اسے ٹوکا تو وہ جیسے ہوش میں آیا اور اپنے مضبوط ہاتھوں میں انابہ کے بائیں ہاتھ کو محسوس کیا ۔نرمی سے اسکا ہاتھ چھوڑتے ہوئے وہ اسکے چہرے سے نظریں چرا گیا۔اسکے اندر مزید ان آنکھوں میں دیکھنے کی ہمت نہیں تھی۔
“کیا سوچ رہی تھیں؟ میرے آنے کا انتظار کر رہی تھیں کیا؟” اسنے خوش فہم ہونے کوشش کی۔
“تمہارا انتظار….” وہ چونکی۔”اوہ میں بھول گئی تھی کہ ڈیڈ نے مجھے تمہارے آنے کے متعلق بتایا تھا۔”
افہام نے یکدم چاندنی پھیلی پڑتی محسوس کی۔انابہ کی آنکھوں کی وحشت نیلی چاندنی میں گھلنے لگی تھی ۔اسے تو فرق بھی نہیں پڑتا تھا کہ وہ آج صرف اسکے لئے یہاں آیا تھا ۔اسے تو احساس بھی نہیں تھا کہ وہ اسکے لئے اپنے دل میں کیا جذبہ رکھتا ہے ۔وہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اسنے اسکے لئے کیا چھوڑ دیا ہے ۔
” کیسی ہو؟ “اسنے گفتگو شروع کرنے کی کوشش کی ۔
” بس زندہ ہوں ۔”وہ تلخ ہوئی ۔
” فائنل سمسٹر کا ریزلٹ کب تک آئیگا؟” وہ اسے اس اداسی سے باہر نکالنے کی حتی المقدور کوشش کر رہا تھا ۔
“مجھے نہیں معلوم ۔” جواب بے حد سپاٹ تھا۔
“اب آگے کیا کروگی؟” اسنے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ پوچھا ۔
“مجھے نہیں معلوم ۔” اسنے پہلے کے سے انداز میں جواب دیا ۔
وہ اسکے جواب پر چپ ہو کر رہ گیا تھا ۔
انابہ کو شاید خود ہی اپنی سرد مہری کا احساس ہوا تھا۔”میں نے اپنے مستقبل کا اختیار ڈیڈ کے ہاتھوں میں دے دیا ہے ۔وہ جو فیصلہ کرینگے مجھے منظور ہوگا۔” وہ اسے بتانے لگی۔
افہام کے دل کی دھڑکن بے اختیار تیزی سے بڑھی اور اسنے اپنے ہاتھوں میں لرزش محسوس کی۔اپنا کپکپاتا ہاتھ اسنے اپنی جینز کی جیب میں رکھا تاکہ وہ رِنگ نکال سکے۔وہ ذہن میں الفاظ ترتیب دینے لگا کہ وہ اسے انگوٹھی پہناتے وقت کیا کہیگا۔انابہ مجھے تم سے محبت ہے یا میں اس دن کا برسوں سے انتظار کر رہا تھا یا پھر تم مجھے مکمل کر دو۔اسکے ذہن میں اسی قسم کے روایتی جملے گونجنے لگے۔
“افہام!” انابہ نے اسے مخاطب کیا تو اسنے اپنا چہرہ موڑ کر اسے دیکھا ۔
“جب لوگ جھوٹ بولتے ہیں تو کیا انہیں انکے چہرے سے پہچانا نہیں جا سکتا؟” اسنے عجیب یاسیت بھرے لہجے میں پوچھا تھا ۔
“کیا مطلب؟” اسکی سمجھ میں خاک نہیں آیا۔
جواباََ انابہ نے بغیر کچھ کہے اپنے ہاتھ میں پکڑا کارڈ کھول کر اسکے سامنے کیا جس میں وہ حسن مجتبٰی کی لکھاوٹ کو صاف صاف پڑھ سکتا تھا ۔
افہام کا اپنی جیب پر موجود ہاتھ آہستہ سے ہٹ گیا۔
“وکی سے تمہارا جھگڑا ہوا ہے؟” اسنے گہری سانس لیتے ہوئے یکدم پوچھا ۔ٹیرس پر چٹکی چاندنی میں اپنی مستقبل کی منگیتر سے اس موضوع پر تبادلہ خیال کرنے کا وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر جانے کیوں وہ خود کو روک نہیں پایا ۔
اسکے سوال پر انابہ کی مٹھیاں بھنچیں اور ویران آنکھوں میں جنونی پن در آیا۔
” مجھے اس انسان کے متعلق کوئی بات نہیں کرنی ہے۔” اسنے تنفر سے کہتے ہوئے اپنا سر جھٹکا۔افہام کو اسکے جملے سے تکلیف ہوئی تھی نہ جانے کیوں؟
“افہام! مجھے واقعی حسن مجتبٰی کے نام پر بیوقوف بنانا آسان ہے؟ کیا میں واقعی اتنی پاگل ہوں کہ میرے اندر سچ اور دھوکے میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں ہے؟ کیا تمہیں بھی مجھ پر یوز می کا ٹیگ لگا دکھائی دیتا ہے؟” اسکا تلخ لہجہ آنسوؤں سے گیلا ہوا۔افہام نے ہاتھ بڑھا کر اسکا شانہ تھپکا۔
” تم بالکل ایسی نہیں ہو نا ہی تمہیں کوئی یوز کر سکتا ہے ۔تم ہمارے خاندان کی سب سے ذہین لڑکی ہو۔”اسکا شانہ تھپکتے ہوئے اسنے تسلی دینے والے انداز میں کہا ۔
” تو پھر تمہارے دوست نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ مجھے استعمال کیوں کیا؟ وہ ایک دفعہ مجھے حقیقت بتاتا تو میں اسکے لئے آنکھیں بند کر کے کسی بھی خطرے میں چھلانگ لگا دیتی۔مگر اسنے مجھے اندھیرے میں رکھا اور اپنے مقصد میں استعمال کیا ۔مقصد پورا کرنے کے بعد وہ کیا کرتا افہام؟ میرے ساتھ بھی آبش جیسا سلوک کرتا نا۔”وہ اب پوری شدت سے رونے لگی تھی ۔ہچکیوں کے ساتھ اور سسکیاں لیتے ہوئے ۔اسکے ساتھ ساتھ چاندنی میں بھی اداسی شامل ہو گئی۔اسکا شانہ تھپکتے ہوئے افہام کو کبھی اندازہ نہیں تھا کہ انابہ کے آنسو اسکا دل بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔پانی کے قطرے اسے بری طرح توڑنے لگے۔اسکے رخسار پر بہتے قطرے اسے بے بس کرنے لگے۔اسکا دل چاہا کہ وہ ان آنسوؤں کو سمیٹ لے اور پھر کبھی ان آنکھوں میں آنسو نہ آنے دے ۔
“انابہ! تم پلیز رونا بند کرو۔” اسنے اسے خاموش کرانے کی کوشش کی ۔مگر اسکے رونے میں مزید شدت آئی ۔افہام اب خود سے ہارنے لگا تھا۔انابہ کے آنسو اسے اسکے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے لگے ۔اسکے دل پر جمی خود غرضی کی گرد کو جیسے وہ چمکتے قطرے صاف کرنے لگے۔وہ آج جو اسے پورے مان سے، پورے حق سے اپنی زندگی میں شامل کرنے آیا تھا اب اس میں حوصلہ ہی نہیں تھا کہ وہ اسی حق کے ساتھ اسے تسلی دیتا جس حق سے وہ اسے دینا چاہتا تھا ۔
“وکی ایسا نہیں ہے انابہ ۔” وہ جیسے یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ۔
“تم تو اپنے بیسٹ فرینڈ کے خلاف کچھ سن ہی نہیں سکتے ۔” اسنے روتے ہوئے خفگی بھرے انداز میں کہا.
“تم واقعی اس سے نفرت کرتی ہو؟”
“ہاں! میں اس سے نفرت کرتی ہوں ۔” اسنے ضدی لہجے میں کہا ۔
“محبت اتنی کمزور تو نہیں ہوتی انابہ کہ ایک معمولی سے جھٹکے سے زمین بوس ہو جائے؟ “افہام کی اپنی آنکھوں میں بھی محبت کی روشنی سی بھر گئی۔اس محبت سے جو وہ وکی سے کرتا تھا اور اس محبت سے جو اسے انابہ سے تھی۔
” تم میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ مجھے یقین ہے کہ تم بھی وہی کرتے جو میں نے کیا۔”وہ بضد تھی۔
” میں تمہاری جگہ ہوتا تو ایسا کبھی نہیں کرتا۔بلکہ اسے اپنی بات کہنے کا موقع دیتا۔یوں ایک لمحے میں قطع تعلق کا فیصلہ نہیں کر لیتا۔ایک دفعہ اعتبار کا رشتہ قائم کرنے کے بعد اسے ٹوٹنے نہیں دیتا۔اور رہی بات آبش کی تو یہ سچ ہے کہ وکی نے اسکا استعمال کیا مگر اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی اس نے اپنے قدم واپس لے لئے تھے۔اور انابہ! وہ تمہیں کبھی استعمال نہیں کر سکتا ۔کبھی بھی نہیں ۔”افہام حیدر کیا کہنے آیا تھا اور کیا کہہ رہا تھا؟ کیا حاصل کرنے آیا تھا اور کیا حاصل کر رہا تھا؟ کس چیز کی طلب اسے لے کر یہاں آئی تھی اور وہ کیا دے کر جا رہا تھا؟
انابہ کے آنسو تھمے اور اسنے بے یقینی سے افہام کو دیکھا ۔اسنے کچھ پلوں میں اسکے دل میں موجود ساری بدگمانی ختم کر ڈالی تھی۔
“اب میں کیا کروں افہام؟ میں نے اس دن اسے بہت بری باتیں کہی ہیں ۔اب میری ہمت نہیں ہوتی کہ اس سے دوبارہ بات کروں ۔اور اسنے بھی تو ایک دفعہ مڑ کر مجھے کال کرنے کی کوشش نہیں کی ۔اگر وہ سچا تھا تو اسے ایک دفعہ پلٹ کر میری طرف دیکھنا تو چاہئے تھا۔”
“ایک بار اپنی انا کو پیچھے چھوڑ کر تم اس سے بات کرو۔غلطی تم نے کی ہے تو معافی بھی تمہیں مانگنی چاہیے ۔”اسنے انابہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔وہ اسے خوش نظر آنے لگی تھی ۔آنکھوں میں چمکتا رنگ یہ بتانے کے لئے کافی تھا کہ اسے کون سی دولت واپس مل گئی ہے ۔چہرے پر پھیلتے جذبے یہ بتانے کے لئے کافی تھے کہ جو اس نے کھو دیا تھا وہ کتنا قیمتی تھا۔
افہام کی آنکھوں میں نمی چمکی اور اسنے دائیں ہاتھ سے جینز کی جیب تھپتھپا کر انگوٹھی محسوس کی ۔ایک دفعہ پھر انابہ کا چہرہ دیکھا جو کھل کر ہنس رہی تھی ۔اسے یہی تو چاہئے تھا ۔انابہ کے ہونٹوں کی گم ہو چکی پیاری ہنسی اسے واپس چاہیے تجی۔اسکی چمکتی آنکھوں کی روشنی دیکھ کر وہ بھی خوش ہو گیا تھا ۔
“نیچے چلیں ۔مام اور ڈیڈ کھانے پر ہمارا انتظار کر رہے ہونگے۔” اسنے افہام کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھاتے ہوئے کہا ۔وہ سر ہلاتا اٹھ گیا ۔
“پھر کھانے کے بعد ہم آئسکریم کھانے باہر جائینگے۔ اوکے؟” وہ دونوں اب سیڑھیاں اتر رہے تھے ۔افہام نے بائیں ہتھیلی کی پشت سے آنکھیں رگڑیں اور اسکی طرف متوجہ ہو گیا۔
– – – – – – – – – –