آج یہ معجزہ کیسے ہو گیا کہ عمیر آفتاب نے مجھے کال کی وہ بھی رات کے دس بجے وہ کال اٹینڈ کرتے ہی بولی ۔
ہاہاہاہاہا پہلے بھی کرتا رہتا ہوں یار اب ایسے بھی نہ بولو اس نے قہقہہ لگایا ۔
گرمیوں کے دن تھے وہ اس وقت چھت پر موجود چارپائی پر لیٹا ہوا تھا اس نے آسمان پر موجود ستاروں کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
ہاں وہ بھی کبھی کبھی اتفاق سے کال مل جاتی ہے جیسے آج مل گئی وہ پھر بھی شکوہ کرنا نہیں بھولی تھی ۔
ویسے آج میں نے بہت خاص بات بتانے کے لیے اس وقت کال کی ہے پتا ہے رمنا آج میں بہت خوش ہوں تم انداز نہیں لگا سکتی وہ خوشی سے بھرپور لہجے میں بولا ۔
ہاں تمہارے لہجے سے مجھے بھی پتہ چل رہا ہے ۔
بھئی اب مجھے بھی بتا دؤ ایسی کون سی بات ہے کہ آج تم بہت خوش ہو ۔
کیونکہ مجھے جاب مل گئی وہ بھی اظہر انڈسٹریز میں منیجر کے عہدے پر وہ اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بولا ۔
ارے واہ یہ تو بہت خوشی کی بات ہے عمیر اب مجھے یہ بتاؤ اس خوشی میں ٹریٹ کب دے رہے ہو وہ خوشی سے بھرپور لہجے میں بولی ۔
جب تم کہو اس دن میں ٹریٹ دینے کے لیے تیار ہوں وہ مسکراتے ہوئے بولا ۔
اوکے کل سنڈے بھی ہے تم بھی فری ہو گئے تو کل شام اسی ریسٹورنٹ میں ملتے ہیں جہاں پہلے ملتے ہیں ۔
اوکے جیسے تم کہو ۔
اور کیسی ہو ۔
میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ ۔
میں بھی ٹھیک ہوں ۔
کیا کر رہے ہو ۔
آسمان پر تمہیں دیکھ رہا ہوں اس نے شوخ لہجے میں کہا ۔
“مجھے آسمان پر وہ کیسے ؟”
آسمان پر جو چاند اس وقت موجود ہے مجھے اس میں تم نظر آتی ہو وہ محبت بھرے لہجے میں بولا ۔
تم باتیں خوب بنا لیتے ہو وہ مسکراتے ہوئے بولی ۔
“تم ہر بار یہی کہتی ہو وہ خفا سے لہجے میں بولا لیکن یہ سچ ہے میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں پتہ نہیں کبھی مجھے لگتا ہے کہ تمہیں میں کبھی کھو نہ دؤں تمہارے پاپا ہماری شادی پر راضی ہوں گے بھی یا نہیں ۔ ”
عمیر میں ویسے ہی تمہیں تنگ کرنے کے لیے بولتی ہوں ۔
“مجھے یقین ہے تمہاری محبت پر اور میں بھی تم سے بہت محبت کرتی ہوں اور کھونے کے بارے میں آج کے بعد سوچنا بھی مت میں جانتی ہوں پاپا کبھی اعتراض نہیں کریں گے انہوں نے آج تک میری ہر خواہش پوری کی ہے اور میری خوشی کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔”
اور تم یہ فضول سوچیں سوچنا بند کرؤ کہ پتہ نہیں ہماری شادی ہوتی ہے یا نہیں کھو نہ دؤں سمجھے نہیں تو میں ناراض ہو جاؤں گئی وہ وارننگ دینے لگی ۔
اوکے نہیں سوچتا ایسا میں اب تم بھی ناراضگی والی بات نہ کرنا اس کے لبوں پر اس وقت مسکراہٹ تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاؤنج کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا فرش پر سبز رنگ کے ایرانی قالین بچھائے ہوئے تھے اور دیواروں پر مختلف قسم کی خوبصورت پیٹنگ آویزاں تھیں اور جدید ڈئزائن کے صوفہ سیٹ ساتھ ان کے سامنے ہی شیشے کی ٹیبل موجود تھی اور سامنے دیوار پر ایل سی ڈی پر کوئی مووی چل رہی تھی ۔
زبیدہ بیگم اس وقت صوفے پر بیٹھی ہوئیں تھیں ان کے ہاتھ میں سرسوں کا تیل تھا ۔
دیکھو بالوں میں کتنی خشکی ہو رہی ہے زبیدہ بیگم اپنی بیٹی رمنا کے سر میں سرسوں کا تیل لگانے لگیں ۔
رمنا سادہ سے شلوار قمیض سوٹ میں ملبوس قالین پر بیٹھی ہوئی تھی اس کے ہاتھ میں اس وقت چپس کا پیکٹ تھا اور نظریں سامنے چلتے ایل سی ڈی پر تھیں ۔
اف ماما آپ تو جانتی ہیں یہ بالوں پر تیل لگانا مجھے بالکل نہیں پسند آج بھی آپ کی وجہ سے لگوا رہی ہوں وہ جھنجھلا کر بولی ۔
“بیٹا تیل کی وجہ سے ہی بال مضبوط اور لمبے ہوتے ہیں ماما آج کل شیمپو اتنے اچھے آ گئے ہیں جب ان سے بال مضبوط اور لمبے ہو جاتے ہیں پھر تیل لگانے کی کیا ضرورت ہے اس نے منہ بنایا ۔”
اچھا بیٹا میں تم سے ایک بات کرنا چاہ رہی تھی ۔
“جی ماما بولیں ۔”
تمہارے پاپا تمہاری شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔
“کیا ماما اتنی جلدی بھی کوئی شادی کرتا ہے ابھی تو میری سٹڈی کمپلیٹ ہوئی ہے وہ خفا سے لہجے میں بولی مجھے اب کوئی شادی نہیں کرنی ۔” اس نے صاف انکار کیا ۔
دو سال پہلے سٹڈی کمپلیٹ ہو چکی ہے
بس ماما آپ پاپا کو سمجھا دیں نا کہ ابھی ایک سال تک تو میرا کوئی موڈ نہیں ہے ۔
بیٹا آپ کے پاپا کو تو جلدی ہے ۔
ماما جلدی کسی بات کی ہے وہ ان کو یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ وہ کسی کو پسند کرتی ہے اور اس کی وجہ سے ابھی شادی نہیں کر سکتی ہے ۔
“بیٹا بیٹیاں جتنی جلدی اپنے گھر کی ہو جائیں اچھی بات ہوتی ہے وہ پیار سے اسے سمجھانے لگیں اور ویسے بھی یہی شادی کی عمر ہوتی ہے ۔ ”
پلیز ماما میں ابھی اس بار میں بات نہیں کرنا چاہتی ہوں ۔
وہ اپنی بیٹی کی یہ بات سن کر خاموش ہو گئیں تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمیر اس وقت پلنگ پر بیٹھا ہوا تھا اس کے سامنے لیپ ٹاپ موجود تھا جس پر تیزی سے انگلیاں چلاتے ہوئے دنیا سے بے نیاز آفس کا کام کرنے میں مگن تھا کہ کچھ دیر بعد سیل فون کی بیل نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا اس نے سیل فون پر ایک نظر ڈالی اور پھر سیل فون اٹھا کر کال پک کی ۔
“ہیلو کیسی ہو رمنا ؟” ایک بازو سر کے نیچے رکھ کر پلنگ پر لیٹ گیا ۔
“میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ؟”
میں بھی ٹھیک ہوں ۔
“کیا کر رہے تھے ؟”
بس آفس کاکام کر رہا تھا ۔
اوہو سوری پھر میں نے تمہیں ڈسٹرب کردیا وہ شرمندگی سے بولی ۔
کوئی بات نہیں ویسے بھی میرا کام ختم ہونے والا تھا ۔
عمیر میں تم سے ایک بات کرنا چاہ رہی تھی ۔
ہاں بولو میں سن رہا ہوں ۔
عمیر پاپا آج کل میری شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں ابھی ماما نے اس بارے میں مجھ سے بات کی ہے ماما کو تو ابھی میں نے ٹال دیا ہے کہ میں ایک سال تک شادی نہیں کرنے والی ہوں پتہ نہیں پاپا کیا کہتے ہیں وہ فکر مندی سے بولی ۔
“میرے خیال میں رمنا میرے بارے میں تم اب اپنے پاپا سے بات کر لو تو اچھا ہے ایک یا دو سال تک میں ابھی شادی نہیں کر سکتا میں تمہیں پہلے بتا چکا ہوں تمہارے پاپا ایسے تمہیں فورس کرتے رہیں گے اپنے پاپا سے اپنے اور میرے بارے میں بات کر لو گئی تو تمہاری ٹیشن بھی ختم ہو جائے گی ۔” وہ اپنی رائے کا اظہار کرنے لگا ۔
ہاں عمیر میرے خیال میں تم ٹھیک ہی کہہ رہے ہو مجھے اب پاپا سے بات کر لینی چاہیے ۔
“ویسے تمہارے پاپا مان تو جائیں گے نا ؟”
“ہاں عمیر تم فکر نہ کرؤ پاپا نے آج تک میری ہر خواہش پوری کی ہے وہ میری کوئی بات ٹال ہی نہیں سکتے ہیں ویسے بھی یہ تو شادی کی بات ہے اور ہر کسی کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے ۔” وہ اسے مطمئن کرنے لگی ۔
چلو اب تم اپنا آفس کا کام کمپلیٹ کر لو پھر بات ہوتی ہے گڈ نائٹ ۔
“اوکے گڈ نائٹ ۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زنیب ناشتہ لے کر آ جاؤ اس نے زنیب کو آواز دی جو کچن میں ناشتہ تیار کرنے میں مصروف تھی ۔
شیو کی ہوئی ٹو پیس ٹائی سوٹ میں ملبوس عمیر آفس کے لیے تیار ہو کر چارپائی پر بیٹھ گیا ۔
جی بھائی بس ابھی لے کر آرہی ہوں وہ انڈہ فرائی کرتے ہوئے بولی ۔
یہ لیں بھائی اور ماں جی آپ کے لیے بھی لے آؤں اس نے عمیر کے سامنے ناشتہ رکھتے ہوئے ماں جی سے پوچھا ۔
میرے لیے بس چائے لے کر آ جاؤ ناشتہ بعد میں خود کر لوں گئی اور تم بھی ناشتہ کر کے جلدی سے تیار ہو جاؤ عمیر لیٹ ہی نا ہو جائے ۔
ماں جی ابھی بہت وقت ہے زنیب آرام سے ناشتہ کر کے تیار ہو جانا اس نے ریسٹ واچ کو دیکھا جو ساٹھے چھ بجا رہی تھی ۔
کیونکہ وہ شروع دن سے ہی صبح خود زنیب کو سکول چھوڑ آتا تھا اور وہ واپسی پر بچوں کے ساتھ آ جایا کرتی تھی ۔
ماں جی میں ایک اور بات سوچ رہا تھا اس نے چائے کا کپ لبوں پر لگایا ۔
“ہاں عمیر بیٹا بولو ۔”
ماں جی اب میری نوکری تو لگ گئی ہے میرے خیال میں زنیب کو اب سکول چھوڑ دینا چاہیے ۔
“بیٹا زنیب سے پوچھ لینا۔ ”
“بھائی میں یہ جاب کسی صورت نہیں چھوڑنے والی آپ جانتے تو ہیں مجھے بچوں کو پڑھانے کا بہت شوق ہے اس کی بات سنتے ہوئے ناراضگی سے بولی تھی ۔ ”
اب چلیں اس نے سیاہ چادر سے نقاب کرتے ہوئے کہا ۔
ٹھیک ہے بھئی جیسے تمہاری مرضی میں ویسے بات کر رہا تھا وہ ایک نظر خود کو برآمدے میں موجود شیشے میں دیکھتے ہوئے ٹائی کی ناٹ ٹھیک کرنے لگا ۔
چلو اب چلتے ہیں وہ بائیک کی چابی اٹھا کر اس کی طرف متوجہ ہوا ۔
“ٹھیک ہے ماں جی خداحافظ ۔ ”
خداحافظ بیٹا خیر سے جاؤ اور خیر سے آؤ
وہ ہر ماں کی طرح دعا دینا نہیں بھولیں تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مے آئی کم ان سر ۔ ”
“یس عمیر آ جائیں ۔” انہوں نے سر اٹھا کر عمیر کو دیکھا ۔
السلام علیکم سر ان کے سامنے مودبانہ انداز میں کھڑے ہوتے ہوئے کہا ۔
وعلیکم السلام عمیر بیٹھ جاؤ بھئی کھڑے کیوں ہو وہ دوستانہ انداز میں بولے ۔
“جی سر شکریہ ۔” ان کے سامنے ہی چیئر پر بیٹھ گیا ۔
کیسا لگا آپ کو ہمارا آفس کوئی پروبلم تو نہیں ہے کوئی مسئلہ ہو تو نوید سے پوچھ لینا وہ ہر آفس ورکر ہی ایسے ہی نرم لہجے میں بات کرتے تھے ۔
نو سر کوئی پروبلم نہیں ہے یہ اس فائل پر آپ کے سائن چاہیے تھے ان کے سامنے فائل رکھی ۔
ہوں گڈ آپ کو یہاں آئے ہوئے کچھ دن ہوئے ہیں آپ بہت اچھا کام کر رہے ہو وہ فائل پر نظریں جمائے بولے ۔
شکریہ سر اس نے خوش دلی سے کہا ۔
یاد ہے نا آج آپ نے بھی میرے ساتھ میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے ۔
جی سر مجھے یاد ہے ہماری آج گیارہ بجے میٹنگ ہے ۔
“گڈ ۔” انہوں نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔
اوکے سر اب میں جاؤں اس نے اجازت طلب نظروں سے اپنے باس کی طرف دیکھا ۔
“جی عمیر بیٹا آپ جائیں ۔” وہ اسے شروع دن سے ہی بیٹا کہہ کر مخاطب کرنے لگے تھے ان کو وہ بہت شریف اور اچھا لڑکا لگا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہروز کی بے تاب نظریں جسے ڈھونڈ رہی تھیں ۔ آخر کار وہ کچن میں مل ہی گئی ۔تم یہاں ہو رمنا میں سارے گھر میں ڈھونڈ رہا تھا ۔
شہروز تم کب آئے ہو وہ شامی کباب فرائی کرتے ہوئے مصروف سے انداز میں بولی ۔ بس ابھی آیا ہوں وہ اس کے ساتھ ہی اسٹول گھسیٹ کر بیٹھ گیا ۔
“انکل بھی ساتھ آئے ہیں ۔” اسے ایک نظر دیکھ کر پوچھا جو اس وقت خاکی رنگ کی پینٹ اور گرئے شرٹ میں ملبوس ،کلین شیو ، بالوں میں سلیقے سے کنگھی کی ہوئی اور پاؤں میں براؤن رنگ کے سینڈل کے ساتھ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا ۔
ہاں انہیں کے ساتھ ہی آیا ہوں اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔
اتنے دنوں سے کہاں تھے نا کوئی کال کی وہ اب چائے بنانے لگی ۔
ہاں کچھ بزی تھا بزنس کے سلسلے میں کراچی گیا ہوا تھا وہ غور سے اسے دیکھتے ہوئے بولا جو سادہ سے کاٹن کے سوٹ میں ملبوس بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ ویسے آج تم پر کوکنگ کا بھوت کہاں سے سوار ہو گیا ۔
میں پہلے بھی کرتی ہوں وہ اسے گھور کر بولی ۔
اچھا خیر میں تو آج دیکھ رہا ہوں اس لیے پوچھ رہا تھا اس کے لبوں پر شریر مسکراہٹ تھی ۔
جو اکثر شام کو آ کر میرے ہاتھ کی بنی ہوئی کافی پیتے ہو وہ بھی کوکنگ میں شمار ہوتی ہے ۔
کنجوس لڑکی ہمیشہ خالی کافی لے کر آتی ہو جو اس کو تم کوکنگ کا نام دے رہی ہو وہ مصنوعی حیرت سے بولا ۔
اف شہروز ایک دو بار تمہیں خالی کافی کیا دے دی ۔ تم مجھے کنجوس بول رہے ہو اور جو بچپن سے لے کر آج تک تم میری چاکلیٹس اور آئسکریم کھاتے آئے ہو وہ تمہیں یاد نہیں ہیں وہ منہ پھلا کر بولی ۔
وہ تو انکل میرے لیے لے آتے تھے اس نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے کہا
اپنی ختم کر کے میرے حصے کی بھی آدھی کھا جاتے تھے وہ تمہیں یاد نہیں ہیں ۔
” کیا سچ میں خیر مجھے تو یاد نہیں ۔” اس نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکا کر جواب دیا ۔
ٹھیک ہے آج تمہیں کچھ نہیں ملنے والا وہ چولہا بند کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولی ۔
رمنا تمہارے انکل بھی آئے ہوئے ہیں ان کے لیے بھی چائے لیتی آنا زبیدہ بیگم کچن میں داخل ہوئیں ۔
بس ماما سب کچھ تیار ہے میں ابھی لے کر آرہی ہوں وہ انہیں دیکھ کر بولی ۔
آنٹی آپ کی بیٹی تو بہت کنجوس ہے آپ کو پتا ہے آج یہ مجھے سے کہہ رہی ہے کہ ہمارے گھر میں سے تمہیں کچھ نہیں ملنے والا وہ چہرے پر مصومیت سجائے شکایت کرنے لگا ۔
کیوں رمنا بیٹا آج میرے شہروز بیٹے نے کیا کر دیا وہ مسکراتی ہوئیں بولیں ۔
ماما اس کی تو عادت ہے آپ تو جانتی ہیں ہر بات پر مذاق کرنے کی آپ چلیں میں چائے لے کر آرہی ہوں وہ اسے گھور کر بولی ۔
” اوکے بیٹا ۔” وہ لبوں پر مسکراہٹ سجائے چلی گئیں ۔
ویسے تم بڑی چالاک ہو ۔
تم سے تو کم ہی ہوں وہ ٹرائی میں چائے رکھتے ہوئے مسکرا کر بولی ۔
سب چیزیں ٹرائی میں رکھنے کے بعد وہ ٹرائی لے کر لاؤنج کی طرف بڑھنے لگی ۔ شہروز بھی اس کے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے چلتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر پلیٹ میں سے شامی کباب اٹھا لیا ۔
آہ اف رمنا زبان جلا دی اس نے تھوڑا سا کھا کر فوراً پلیٹ میں رکھا ۔
اب تمہیں زیادہ شور مچانے کی ضرورت نہیں ہے کس نے کہا تھا درمیان میں ہاتھ ڈالو لاؤنج تک صبر نہیں ہو سکتا تھا وہ اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہروز اور رمنا اس وقت لان میں چہل قدمی کر رہے تھے پاپا اور انکل تو ابھی شطرنج کھیل رہے ہیں تم تو جانتی ہو ابھی ان کی یہ گیم اتنی جلدی ختم نہیں ہونے والی ہے ۔ تو کیوں نا ہم آئسکریم پالر چلتے ہیں ۔ موسم بھی اچھا ہو رہا ہے وہ آسمان پر موجود سفید بادلوں کو دیکھنے لگا ۔
ہاں چلو یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ویسے بھی مشکل سے تمہاری جیب میں سے پیسے نکالتے ہیں وہ مسکراتی ہوئی بولی ۔
خیر رمنا تم سے زیادہ ہی نکالتے ہیں وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے بولا ۔
تم ایک بزنس مین بھلا اب میرا تمہارا کیا مقابلہ مجھے غریب کو تو مشکل سے پاکٹ منی ملتی ہے وہ مصومیت سے بولی ۔
” ہاہاہاہاہا اس نے بے ساختہ قہقہہ لگایا غریب وہ بھی ایک کروڑ پتی بزنس مین کی اکلوتی بیٹی میں نے پھر ایسے تو تمہارا نام کنجوس نہیں رکھا ہے ۔ ”
کنجوس ہو گئے تم سمجھے اس کے کندھے پر ساتھ ہی مکا مارا ۔
اف بہت زور ہے کیا کھاتی ہو وہ اپنے کندھے کو سہلانے لگا ۔
تم سے تو کم کھاتی ہوں موٹو وہ اسے گھورتی ہوئی بولی ۔
ہائے لڑکی یہ کیا ظلم کر دیا اس پرسنیلٹی پر ہزاروں لڑکیاں مرتی ہیں اور تم مجھے موٹو کہہ رہی ہو اس نے مصنوعی غم ذدہ لہجے میں کہا ۔
ہاں ہوں گئی وہ کوئی بیوقوف لڑکیاں وہ اسے چڑاتی ہوئی بولی تھی ۔
لیکن تم سے تو اچھی ہیں کم از کم موٹو تو نہیں کہتیں ۔
اب یہ ڈرامے بازی بند کرؤ تم گاڑی میں بیٹھو میں انکل کو بتا کر آتی ہوں کہ ہم کچھ دیر کے لیے باہر جا رہے ہیں وہ یہ کہتے ہوئے اندر کی طرف بڑھ گئی ۔
اوکے کنجوس لڑکی وہ اسے تنگ کرنے سے باز نہیں آیا تھا اور مسکراہٹ ہوئے گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔
اب کی بار وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے چلی گئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ باز نہیں آنے والا ہے ۔
خالد اور زبیر نیازی بچپن کے دوست ہیں اسی وجہ سے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا عام ہے وہ دوست کم اور بھائی زیادہ لگتے ہیں رمنا اور شہروز بھی بچپن سے ہی ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہروز ….پلیز گاڑی روکو وہ شور مچاتے ہوئے بولی ۔
کیوں ٹریفک جام کروانی ہے کیا یہاں نہیں روک سکتا اس نے نفی میں سر ہلایا ۔
شہروز پلیز روک دو ناں اس بار خوشامدی لہجے میں بولی ۔
“کیوں یہ تو بتاؤ؟” اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پھر سے سامنے روڈ کی طرف متوجہ ہو گیا ۔
وہ سامنے دیکھو گول گپے والی ریڑھی نظر آرہی ہے وہاں جا کر گاڑی پارک کر دینا وہ سامنے اشارہ کرنے لگی ۔
ہر گز نہیں وہ گندے گول گپے کھاؤ گئی سڑک کنارے کھڑا ہوا ہے سارا دن مٹی پڑتی ہیں ان پر نہ جانے کتنے چراثیم ہوتے ہیں جن سے انسان بیمار ہو سکتا ہے اس نے صاف انکار کرتے ہوئے نرم لہجے میں سمجھانا چاہا ۔
روکو دو پلیز …. وہ منت بھرے لہجے بولی ۔
بالکل بھی نہیں وہ سکون سے گاڑی چلاتے ہوئے بولا ۔
دفعہ ہو جاؤ اب میں نے تم سے کوئی بات نہیں کرنی وہ منہ پھلا کر بولی ۔
یہ جانتے ہوئے صحت کے لیے وہ اچھے نہیں تھے کیسے تمہیں کھانے دیتا اس نے ایک نظر رمنا کے ناراض چہرے کو دیکھا ۔
ہونہہ تمہیں زیادہ ڈاکٹر بنے کی ضرورت نہیں ہے بس اب گاڑی کو واپس موڑ دؤ میں نے بھی کوئی آئسکریم نہیں کھانی وہ غصے سے بولی ۔
اب تو ہم پہنچ گئے ہیں وہ آسکریم پالر کے سامنے گاڑی پارک کرنے لگا ۔ چلو اب اترو آئسکریم کھاتے ہیں ۔
مجھے نہیں کھانی بس گھر واپس چلو وہ منہ پھلا کر بیٹھی رہی ۔
ضدی لڑکی اچھا یوں کرتے ہیں جو سنڈے آنے والا ہے اس دن میں تمہیں ایک ریسٹورنٹ میں لے کر جاؤں گا وہاں سے گول گپے کھائیں گئے چلو آج آئسکریم کھا لیتے ہیں وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا ۔ کیوں کہ وہ اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا ۔
کیا اس دن بھی یہی تو نہیں بولو گئے کہ صحت کے لیے اچھے نہیں ہوتے وہ اسے کی طرف دیکھتے ہوئے کنفرم کرنے لگی ۔
بالکل نہیں بولوں گا پرومس چلو شاباش گاڑی سے اترو اب آئسکریم کھاتے ہیں وہ اسے یقین دلانے لگا ۔
اپنا یہ پرومس اب یاد رکھنا وہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولی ۔
اوکے بابا یاد رہے گا اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے مسکرا کر جواب دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...